فاتح
لائبریرین
میں تجھے یار باندازِ دگر چاہتا ہوں
(الزبتھ بیرٹ براؤننگ سے ماخوذ)
میں تجھے یار باندازِ دگر چاہتا ہوں
تیری دیوارِ حرم میں کوئی در چاہتا ہوں
نالۂ شعر میں آثارِ اثر چاہتا ہوں
گو ہوں درماندہ مگر دستِ ہنر چاہتا ہوں
بے کراں ایک سمندر ہے محبت میری
چار اطراف میں اعجازِ اثر چاہتا ہوں
جسم کی حد سے پرے روح کی منزل سے بعید
تیری ہی ذات میں تا حد نظر چاہتا ہوں
روز مرّہ کی ضرورت کی طرح صبح و مسا
میں تجھے مثلِ چراغ اور سحر چاہتا ہوں
عالمِ تیرگی میں تیرے بدن کی شمعیں
مثلِ تابانیِ خورشید و سحر چاہتا ہوں
زیست کی تیرگی میں اے کہ مری مشعلِ جاں
شبِ پر نور و جہاں تاب سحر چاہتا ہوں
کسی کھوئی ہوئی معصوم محبت کی طرح
ہر اک انجام سے بے خوف و خطر چاہتا ہوں
جبر کی قید میں پامردی و بیباکی سے
اپنی معصوم دعاؤں کا ثمر چاہتا ہوں
چاہتا ہوں کہ ہر اک ڈال پہ ہوں برگ و ثمر
اور پرندوں سے بھی آباد شجر چاہتا ہوں
گر خدا چاہے تو چاہوں میں تجھے بعد الموت
یوں نہیں ہے کہ فقط زندگی بھر چاہتا ہوں
(فاتح الدین فاتح)
(الزبتھ بیرٹ براؤننگ سے ماخوذ)
میں تجھے یار باندازِ دگر چاہتا ہوں
تیری دیوارِ حرم میں کوئی در چاہتا ہوں
نالۂ شعر میں آثارِ اثر چاہتا ہوں
گو ہوں درماندہ مگر دستِ ہنر چاہتا ہوں
بے کراں ایک سمندر ہے محبت میری
چار اطراف میں اعجازِ اثر چاہتا ہوں
جسم کی حد سے پرے روح کی منزل سے بعید
تیری ہی ذات میں تا حد نظر چاہتا ہوں
روز مرّہ کی ضرورت کی طرح صبح و مسا
میں تجھے مثلِ چراغ اور سحر چاہتا ہوں
عالمِ تیرگی میں تیرے بدن کی شمعیں
مثلِ تابانیِ خورشید و سحر چاہتا ہوں
زیست کی تیرگی میں اے کہ مری مشعلِ جاں
شبِ پر نور و جہاں تاب سحر چاہتا ہوں
کسی کھوئی ہوئی معصوم محبت کی طرح
ہر اک انجام سے بے خوف و خطر چاہتا ہوں
جبر کی قید میں پامردی و بیباکی سے
اپنی معصوم دعاؤں کا ثمر چاہتا ہوں
چاہتا ہوں کہ ہر اک ڈال پہ ہوں برگ و ثمر
اور پرندوں سے بھی آباد شجر چاہتا ہوں
گر خدا چاہے تو چاہوں میں تجھے بعد الموت
یوں نہیں ہے کہ فقط زندگی بھر چاہتا ہوں
(فاتح الدین فاتح)
آخری تدوین: