"میں تماشائی"۔۔۔ از شزہ مغل

شزہ مغل

محفلین
میٹرو بس۔ راولپنڈی سے اسلام آباد
"میں تماشائی" میٹرو بس اسٹیشن پر بس سے اتری اپنی بہن کے ساتھ۔
"میں تماشائی" جب سیڑھیوں سے اترنے لگی تو ایک پاؤں سے معزور ہاتھوں میں بیساکھیاں لئے ایک جوان کو انتہائی مشکل سے سیڑھیوں سے اترتے دیکھا۔
ابھی وہ 2 سیڑھیاں ہی اتر پایا تھا۔
"میں تماشائی" اپنی بہن کے ہمراہ اس کے قریبب گئے۔
اس سے کہا کہ "بھائی آپ ایلیویٹر کے ذریعے نیچے چلے جائیے۔"
اس نے کہا "مجھے استعمال نہیں کرنے آتی"
"میں تماشائی" نے ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر سے کہا کہ "بھائی انہیں ایلیویٹر تک پہنچا دیجیئے"
اس نے کہا "یہ میری ڈیوٹی نہیں"
"میں تماشائی" اور بہن اس شخص کو ایلیویٹر تک لے گئے۔
اس کی رہنمائی کی۔
اسٹیشن کا سینئر ایسپکٹر (سپروائزر) جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، اس کے پاس گئے۔
اسے سارا قصہ بیان کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ انسپکٹر اپنی جگہ سے دور نہیں جا سکتے کیونکہ کیمرے کے ذریعے انہیں دیکھا جا رہا ہے۔
"میں تماشائی" کا موقف یہ تھا کہ ایسپکٹر اگر اپنی جگہ سے نہیں حل سکتا تو کسی اور کو آواز بھی دے سکتا ہے اور خود زبانی طور پر اس شخص کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
"میں" کی جگہ "ہم" لگا دیں
ہم سب تماشائی ہیں
حسن ترمذی بھیا شکریہ تشریف آوری کا۔
"میں" کا مقصد یہ ہے کہ انفرادی طور پر واقعات دیکھ کر سمجھ کر مسائل کے حل میں کردار ادا کرنا چاہتی ہوں۔
ہر شخص جب "میں" کی اصلاح کرلے گا تو اس کے بعد "ہم" کی اصلاح آسان ہو جائے گی۔ (انشاء اللہ)
آپ کی رائے میرے لئے محترم ہے بھیا مگر میرے خیال میں ابھی "میں" کی اصلاح نہیں ہو پائی۔ (ذاتی خیال)
 

جاسمن

لائبریرین
ایک مختصر اور پُر اثر تحریر۔اچھائی کی طرف راہنمائی کرتی۔
شزہ! ماشاء اللہ! آپ میں سماجی بہبود کے لئے کام کرنے کی لگن ہے۔ اللہ آسانیاں دے۔ آمین!
 
جزاک اللہ بہن۔ بہت اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے آپ نے۔ یہ ہماری قومی بیماری بن چکی ہے۔
ہم "دوسرے لوگوں " پر تو ہر وقت تنقیدی چاقو چھریاں تیز کئے رکھتے ہیں، مگر اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
شکریہ۔ مگر آپی ہم کب تک "خاموش تماشائی" بنے رہیں گے؟؟؟
شزہ! مکمل ایسا نہیں ہے۔ بولنے والے بولتے بھی ہیں،چاہے اُن کی تعداد کم ہو۔ میں اپنی شاگردوں کو ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں کہ بولو۔
جہاں پہ بھی آپ ہو،کچھ بُرا دیکھو تو
جو آپ کر سکتے ہو ،کرو،
بول سکتے ہو بولو،
لکھ سکتے ہو،لکھو
میں خود پنگا سپیشلسٹ کہلاتی رہی ہوں۔
بہت سے واقعات ہیں۔ حالیہ واقعہ ہے کہ ہم گاڑی پہ جا رہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل پہ ایک آدمی کے پیچھے ایک چھوٹا لڑکا کھڑا ہوا تھا۔ میں نے اشارے سے موٹر سائیکل رُکوائی۔ گاڑی روکی اور اُس لڑکے کو جھاڑا۔
 

یاز

محفلین
میٹرو بس۔ راولپنڈی سے اسلام آباد
"میں تماشائی" میٹرو بس اسٹیشن پر بس سے اتری اپنی بہن کے ساتھ۔
"میں تماشائی" جب سیڑھیوں سے اترنے لگی تو ایک پاؤں سے معزور ہاتھوں میں بیساکھیاں لئے ایک جوان کو انتہائی مشکل سے سیڑھیوں سے اترتے دیکھا۔
ابھی وہ 2 سیڑھیاں ہی اتر پایا تھا۔
"میں تماشائی" اپنی بہن کے ہمراہ اس کے قریبب گئے۔
اس سے کہا کہ "بھائی آپ ایلیویٹر کے ذریعے نیچے چلے جائیے۔"
اس نے کہا "مجھے استعمال نہیں کرنے آتی"
"میں تماشائی" نے ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر سے کہا کہ "بھائی انہیں ایلیویٹر تک پہنچا دیجیئے"
اس نے کہا "یہ میری ڈیوٹی نہیں"
"میں تماشائی" اور بہن اس شخص کو ایلیویٹر تک لے گئے۔
اس کی رہنمائی کی۔
اسٹیشن کا سینئر ایسپکٹر (سپروائزر) جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، اس کے پاس گئے۔
اسے سارا قصہ بیان کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ انسپکٹر اپنی جگہ سے دور نہیں جا سکتے کیونکہ کیمرے کے ذریعے انہیں دیکھا جا رہا ہے۔
"میں تماشائی" کا موقف یہ تھا کہ ایسپکٹر اگر اپنی جگہ سے نہیں حل سکتا تو کسی اور کو آواز بھی دے سکتا ہے اور خود زبانی طور پر اس شخص کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے۔

عمدہ تحریر ہے جی، اور آخری جملے میں اچھا سبق بیان کیا ہے۔
یہ کوشش ضرور کی جانی چاہئے کہ جس حد تک کسی کی مدد کی سکت ہو، ضرور کریں۔ دامے درمے نہ سہی، سخنے ہی سہی۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
میٹرو بس۔ راولپنڈی سے اسلام آباد
"میں تماشائی" میٹرو بس اسٹیشن پر بس سے اتری اپنی بہن کے ساتھ۔
"میں تماشائی" جب سیڑھیوں سے اترنے لگی تو ایک پاؤں سے معزور ہاتھوں میں بیساکھیاں لئے ایک جوان کو انتہائی مشکل سے سیڑھیوں سے اترتے دیکھا۔
ابھی وہ 2 سیڑھیاں ہی اتر پایا تھا۔
"میں تماشائی" اپنی بہن کے ہمراہ اس کے قریبب گئے۔
اس سے کہا کہ "بھائی آپ ایلیویٹر کے ذریعے نیچے چلے جائیے۔"
اس نے کہا "مجھے استعمال نہیں کرنے آتی"
"میں تماشائی" نے ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر سے کہا کہ "بھائی انہیں ایلیویٹر تک پہنچا دیجیئے"
اس نے کہا "یہ میری ڈیوٹی نہیں"
"میں تماشائی" اور بہن اس شخص کو ایلیویٹر تک لے گئے۔
اس کی رہنمائی کی۔
اسٹیشن کا سینئر ایسپکٹر (سپروائزر) جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، اس کے پاس گئے۔
اسے سارا قصہ بیان کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ انسپکٹر اپنی جگہ سے دور نہیں جا سکتے کیونکہ کیمرے کے ذریعے انہیں دیکھا جا رہا ہے۔
"میں تماشائی" کا موقف یہ تھا کہ ایسپکٹر اگر اپنی جگہ سے نہیں حل سکتا تو کسی اور کو آواز بھی دے سکتا ہے اور خود زبانی طور پر اس شخص کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے۔

آپ کا موقف اپنی جگہ درست ہے مگر سچ یہ ہے کہ اعلی حکام کی پاؤں تلے روندی جانے والی گھاس کی وقعت کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے روندے جانے کا تماشا دیکھے یا کسی اور کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے اختیار میں کبھی ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کو آواز دے کیونکہ ایلویٹر استعمال کرنے والے اپنی رُو میں آتے جاتے اس کی شکایت کرسکتے ہیں ۔ ایسا انقلاب تب ممکن ہے جب گھاس کی زردی ، سرسبز ہو جائے ۔۔۔رنگ رنگ جدا نہ ہو تو حکام سوچیں گی کہ شعور عوام میں آگیا ہے ۔
 

حسن ترمذی

محفلین
حسن ترمذی بھیا شکریہ تشریف آوری کا۔
"میں" کا مقصد یہ ہے کہ انفرادی طور پر واقعات دیکھ کر سمجھ کر مسائل کے حل میں کردار ادا کرنا چاہتی ہوں۔
ہر شخص جب "میں" کی اصلاح کرلے گا تو اس کے بعد "ہم" کی اصلاح آسان ہو جائے گی۔ (انشاء اللہ)
آپ کی رائے میرے لئے محترم ہے بھیا مگر میرے خیال میں ابھی "میں" کی اصلاح نہیں ہو پائی۔ (ذاتی خیال)
سہی کہا آپ نے
بطور "میں" آپ نے اپنی ذمہ داری نبھائی ۔۔ لیکن بطور "ہم" جو لوگ تھے انہیں بھی اس سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں ۔۔
اور انفرادی "میں" کے ساتھ اجتماعی "ہم" کی اصلاح بھی اتنی ہی اہم ہے ۔۔
اللہ آپ کو خوش رکھے
 

حسن ترمذی

محفلین
میم جاسمن کی بات سے مجھے بھی ایک بات یاد آئی انہوں نے تو گاڑی رکواکر لڑکے کو چھاڑ پلائی
میں ایک بار مین بلیوارڈ گلبرگ پہ جارہا تھا رات کو آفس سے گھر کی طرف تو ایک لڑکا گاڑیوں کے بیچوں بیچ ایک پہیے پہ سائیکل چلا رہا تھا اور انتہائی خطرناک بات تھی یہ
تو میرے پیچھے بیٹھے کولیگ نے کہا کہ یار بائیک اس سے دور رکھو تو "میں" نے اس کے قریب بائیک لے جاکر اسے منع کیا وہ باز نہیں آیا تو ایک "ہاتھ" جمایا اس کی "گُدی" پہ اور وہ سائیکل سمیت گرین بیلٹ میں جا گرا ۔۔ اللہ کرے اسے عقل آگئی ہو
یہاں پر کسی "ہم" کا کوئی کردار نہیں ہے ۔۔ سب لوگ خود کو بچا رہے تھے کہ ان میں نا "وج" جائے ۔ بجائے اس کے کہ اسے روکتے
 

شزہ مغل

محفلین
شزہ! مکمل ایسا نہیں ہے۔ بولنے والے بولتے بھی ہیں،چاہے اُن کی تعداد کم ہو۔ میں اپنی شاگردوں کو ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں کہ بولو۔
جہاں پہ بھی آپ ہو،کچھ بُرا دیکھو تو
جو آپ کر سکتے ہو ،کرو،
بول سکتے ہو بولو،
لکھ سکتے ہو،لکھو
میں خود پنگا سپیشلسٹ کہلاتی رہی ہوں۔
بہت سے واقعات ہیں۔ حالیہ واقعہ ہے کہ ہم گاڑی پہ جا رہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل پہ ایک آدمی کے پیچھے ایک چھوٹا لڑکا کھڑا ہوا تھا۔ میں نے اشارے سے موٹر سائیکل رُکوائی۔ گاڑی روکی اور اُس لڑکے کو جھاڑا۔
میں نے چند حضرات کے سامنے جب یہ واقعہ بیان کیا تو ایک حضرت کی بات سے شدید حیرت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی حکومت اگر خواتین کے حوالے کر دی جائے تو ہر طرح کی کرپشن ختم ہو جائے۔ میں نے اختلاف کیا تو دوسرے حضرات نے بھی ان کی پیروی کی۔ وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ عورت کی سوچ درست سمت میں چلتی ہے اگر مرد راہ میں حائل نہ ہو تو
 

جاسمن

لائبریرین
شزہ! دونوں اچھا بھی کر سکتے ہیں اور بُرا بھی۔ یہ خواتین ہی ہیں جنہوں نے اپنے مردوں کو نت نئی فرمائشوں سے عاجز کر کے حرام پہ لگایا ہے۔ یا پھر اُنہیں روکتی ٹوکتی نہیں ہیں۔ اگر عورت چاہے تو اپنے باپ،بھائی کو نہ سہی،بیٹے کو تو بہت کچھ سکھا سکتی ہے۔
ہر شخص پہ اپنے اپنے حصہ کا کام فرض ہے۔ ہر ایک کا اپنا میدان ہے۔ عورت کے لئے بہترین میدان اُس کا گھر ہے ۔وہ اپنے گھر کی ملکہ کے طور پر بے حد کامیاب ہو سکتی ہے۔۔یہ ایک مکمل ادارہ ہے۔ اگر ا،س ادارہ کو وہ بہترین انداز سے چلاتی ہے تو سمجھ لیں کہ کچھ بہترین شہری/انسان تیار ہو رہے ہیں۔
 

تجمل حسین

محفلین
تجمل حسین بھیا آپ صرف ریٹنگ ہی دیں گے؟؟؟
بھیا "میں تماشائی" کو آپ کی قیمتی رائے بھی درکار ہے۔
:daydreaming::daydreaming::daydreaming:
آپ کا شکریہ شزہ مغل بہنا کہ آپ نے مجھے یاد رکھا اور اس قابل جانا۔

اپنی جگہ پر اس انسپکٹر کی بات بھی درست تھی کہ وہ بار بار ڈیوٹی چھوڑ کر نہیں جاسکتا اور انتظامیہ کا یہ اقدام بھی کہ کیمروں کے ذریعے ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ کیونکہ عموماً ہمیں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ ڈیوٹی پر موجود افراد ڈیوٹی چھوڑ کر اپنے اپنے کام کررہے ہوتے ہیں یا تفریح منارہے ہوتے ہیں تو اس پر قابو پانے کے لیے سختی ضروری ہے۔
اب اگر اسے دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو صرف وہی معزور بھائی ہی نہیں دوسرے بھی بہت سے افراد جو کہ پہلی بار لفٹ کا استعمال کرتے ہیں انہیں سمجھ نہیں آتی کہ کیسے استعمال کریں۔ میں نے جب خود پہلی بار لفٹ استعمال کی تھی تو قریب ہی موجود سیکیورٹی گارڈ سے مدد حاصل کی تھی۔ :) اس طرح کی صورتحال سے نپٹنے کے لیے کسی ایک فرد کی مستقل ڈیوٹی لفٹ پر بھی لگائی جاسکتی ہے جس سے سبھی افراد کو آسانی ہوگی اور کسی کو اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر بھی نہیں جانا پڑے گا۔

اگر یہ مشکل محسوس ہو تو دوسری آپشن دوسروں کی راہنمائی سے اپنی مدد آپ کرنا ہے۔ ایسی جگہوں پر عموماً لفٹ استعمال میں ہی رہتی ہے اس لیے وہاں قریب موجود کوئی بھی فرد آپ کی مدد کرسکتا ہے۔ :)

اگر انتظامیہ کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں اور بھی بہت ساری آپشنز مل سکتی ہیں۔
:)

امید ہے اب تبصرہ کا گلہ بھائی کی طرف سے دور ہوگیا ہوگا۔ :)
 

یاز

محفلین
آسان الفاظ میں بتا دیں بھیا میرا علم قلیل ہے

میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ اگر اور کسی بھی طریقے سے مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم زبانی کلامی والی مدد تو پھر بھی کر ہی سکتے ہیں۔ یہ تقریباً وہی بات ہے جو آپ نے اپنے آخری جملے میں کہی ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
آپ کا موقف اپنی جگہ درست ہے مگر سچ یہ ہے کہ اعلی حکام کی پاؤں تلے روندی جانے والی گھاس کی وقعت کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے روندے جانے کا تماشا دیکھے یا کسی اور کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے اختیار میں کبھی ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کو آواز دے کیونکہ ایلویٹر استعمال کرنے والے اپنی رُو میں آتے جاتے اس کی شکایت کرسکتے ہیں ۔ ایسا انقلاب تب ممکن ہے جب گھاس کی زردی ، سرسبز ہو جائے ۔۔۔رنگ رنگ جدا نہ ہو تو حکام سوچیں گی کہ شعور عوام میں آگیا ہے ۔
ارے آپی جان ایسا نہیں ہے۔ وہ آواز دے سکتا تھا اور پہلے بھی وہ لوگ ایک دوسرے کو آوازیں دیتے رہتے ہیں۔ آپ نے میٹرو کا ماحول نہیں دیکھا اس لیے آپ واقعہ کو سمجھ نہیں سکیں۔
باہمی اتفاق کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ارے آپی جان ایسا نہیں ہے۔ وہ آواز دے سکتا تھا اور پہلے بھی وہ لوگ ایک دوسرے کو آوازیں دیتے رہتے ہیں۔ آپ نے میٹرو کا ماحول نہیں دیکھا اس لیے آپ واقعہ کو سمجھ نہیں سکیں۔
باہمی اتفاق کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔
پھر تو بات آپ کی سے اتفاق ہے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لئے حل کیا ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔وہ آپ نے خود لکھ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ ملک کی باگ دوڑ خواتین کے ہاتھ میں ہونی چاہیے:p:chatterbox:
 
Top