"میں تماشائی"۔۔۔ از شزہ مغل

الشفاء

لائبریرین
"میں تماشائی" جب سیڑھیوں سے اترنے لگی تو ایک پاؤں سے معزور ہاتھوں میں بیساکھیاں لئے ایک جوان کو انتہائی مشکل سے سیڑھیوں سے اترتے دیکھا۔
معذور جوان ۔۔۔

"میں تماشائی" نے ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر سے کہا کہ "بھائی انہیں ایلیویٹر تک پہنچا دیجیئے"
اس نے کہا "یہ میری ڈیوٹی نہیں"
معذور انسپکٹر۔۔۔

اسٹیشن کا سینئر ایسپکٹر (سپروائزر) جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، اس کے پاس گئے۔
اسے سارا قصہ بیان کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ انسپکٹر اپنی جگہ سے دور نہیں جا سکتے کیونکہ کیمرے کے ذریعے انہیں دیکھا جا رہا ہے۔
معذور سپر وائزر ۔۔۔

ہم سب معذور ہیں شاید۔ الا ماشاءاللہ۔۔۔
 

شزہ مغل

محفلین
سہی کہا آپ نے
بطور "میں" آپ نے اپنی ذمہ داری نبھائی ۔۔ لیکن بطور "ہم" جو لوگ تھے انہیں بھی اس سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں ۔۔
اور انفرادی "میں" کے ساتھ اجتماعی "ہم" کی اصلاح بھی اتنی ہی اہم ہے ۔۔
اللہ آپ کو خوش رکھے
"میں تماشائی" تو اس سفر پر نکلی ہوں اب دیکھیں "ہم تماشائی" کب ممکن ہوتے ہیں۔
 

شزہ مغل

محفلین
آپ کا شکریہ شزہ مغل بہنا کہ آپ نے مجھے یاد رکھا اور اس قابل جانا۔

اپنی جگہ پر اس انسپکٹر کی بات بھی درست تھی کہ وہ بار بار ڈیوٹی چھوڑ کر نہیں جاسکتا اور انتظامیہ کا یہ اقدام بھی کہ کیمروں کے ذریعے ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ کیونکہ عموماً ہمیں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ ڈیوٹی پر موجود افراد ڈیوٹی چھوڑ کر اپنے اپنے کام کررہے ہوتے ہیں یا تفریح منارہے ہوتے ہیں تو اس پر قابو پانے کے لیے سختی ضروری ہے۔
اب اگر اسے دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو صرف وہی معزور بھائی ہی نہیں دوسرے بھی بہت سے افراد جو کہ پہلی بار لفٹ کا استعمال کرتے ہیں انہیں سمجھ نہیں آتی کہ کیسے استعمال کریں۔ میں نے جب خود پہلی بار لفٹ استعمال کی تھی تو قریب ہی موجود سیکیورٹی گارڈ سے مدد حاصل کی تھی۔ :) اس طرح کی صورتحال سے نپٹنے کے لیے کسی ایک فرد کی مستقل ڈیوٹی لفٹ پر بھی لگائی جاسکتی ہے جس سے سبھی افراد کو آسانی ہوگی اور کسی کو اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر بھی نہیں جانا پڑے گا۔

اگر یہ مشکل محسوس ہو تو دوسری آپشن دوسروں کی راہنمائی سے اپنی مدد آپ کرنا ہے۔ ایسی جگہوں پر عموماً لفٹ استعمال میں ہی رہتی ہے اس لیے وہاں قریب موجود کوئی بھی فرد آپ کی مدد کرسکتا ہے۔ :)

اگر انتظامیہ کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں اور بھی بہت ساری آپشنز مل سکتی ہیں۔
:)

امید ہے اب تبصرہ کا گلہ بھائی کی طرف سے دور ہوگیا ہوگا۔ :)
بھیا "میں تماشائی" نے بہت بار انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ ایک شخص کی ڈیوٹوٹی یہاں بھی لگائی جائے۔ مگر ابھی تک کوئی عمل نہیں کیا گیا۔
اب گلہ ختم ہوا مگر آتے رہا کریں "میں تماشائی" منتظر رہتی ہوں رہنمائی کی۔
 

شزہ مغل

محفلین
میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ اگر اور کسی بھی طریقے سے مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم زبانی کلامی والی مدد تو پھر بھی کر ہی سکتے ہیں۔ یہ تقریباً وہی بات ہے جو آپ نے اپنے آخری جملے میں کہی ہے۔
یہ بالکل وہی بات ہے بھیا
 

شزہ مغل

محفلین
پھر تو بات آپ کی سے اتفاق ہے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لئے حل کیا ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔وہ آپ نے خود لکھ دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ ملک کی باگ دوڑ خواتین کے ہاتھ میں ہونی چاہیے:p:chatterbox:
آپی جان "میں تماشائی" اتفاق نہیں کرتی اس بات سے۔ وہ چند حضرات کا موقف تھا۔ "میں تماشائی" اتفاق سے اور اپنے فرائض کو پہچان کر چلنے کا موقف رکھتی ہوں۔
 
آخری تدوین:

شزہ مغل

محفلین
میٹرو بس میں خواتین کے لیے ڈرائیور کے پیچھے بائیں جانب ۳ اور دائیں جانب ۳ سیٹیں۔
دروازے کے سامنے آگے پیچھے ۲ ۲ سیٹیں۔
دروازے کے دائیں جانب ۲ سیٹیں۔
کل ۱۲ سیٹیں۔
باقی تمام سیٹیں حضرات کے لیے۔
دروازوں کے ساتھ والی ۲ ۲ سیٹیں معذور افراد کے لیے۔
پہلا دروازہ خواتین کے لیے۔
باقی تین دروازے حضرات کے لیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
"میں تماشائی" پہلے دروازے سے داخل ہوئی۔
ڈرائیور کے پیچھے دائیں طرف تینوں سیٹوں پر خواتین براجمان۔
بائیں جانب ۲ سیٹوں پر خواتین۔
۱ خاتون نے اپنا بیگ ساتھ والی سیٹ پر رکھا ہوا۔
دروازے کے ساتھ والی ۲ سہٹوں پر ۱ خاتون اور ان کا بھائی بیٹھے ہوئے۔
"میں تماشائی" نے ان محترمہ سے کہا کہ یہ بہگ اٹھا لیجئیے۔
محترمہ نے فرمایا کسی کے لیے سیٹ رکھی ہوئی ہے۔
"میں تماشائی" نے عرض کی کہ ابھی آپ کسی اور کو بیٹھنے دیجئیے۔
انہوں نے سنی ان سنی کر دی۔
"میں تماشائی" نے سوچا کہ خود پنگا لینے سے اچھا ہے کہ میٹرو کے عملے سے مدد لی جائے۔
عملے کی ذمہ داری ہے کہ سواریوں کی رہنمائی کرے۔
"میں تماشائی" نے ڈرائیور سے کہا "انکل پیچھے دیکھیں پلیز۔"
انہوں نے ایک طائرانہ نظر ڈالی عقبی شیشے میں سے اور "میں تماشائی" کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ پھر مائیکروفون سے سواریوں سے مخاطب ہوئے۔
"برائے مہربانی اپنا سامان سیٹ پر نہ رکھیں۔ سیٹ بیٹھنے کے لیے ہے سامان رکھنے کے لیے نہیں۔ اس بس میں سب ہی برابر ٹکٹ لے کر آئے ہیں۔ کسی اور کے لیے سیٹ خالی رکھ کر موجودہ افراد کو کھڑا رکھنا اس بس کا اصول نہیں۔ برائے مہربانی دروازے کے ساتھ والی سیٹوں سے مرد حضرات اٹھ جائیں۔ یہ معذور افراد اور خواتین کے لیے مختص ہیں۔"
 

محمد امین

لائبریرین
میٹرو بس۔ راولپنڈی سے اسلام آباد
"میں تماشائی" میٹرو بس اسٹیشن پر بس سے اتری اپنی بہن کے ساتھ۔
"میں تماشائی" جب سیڑھیوں سے اترنے لگی تو ایک پاؤں سے معزور ہاتھوں میں بیساکھیاں لئے ایک جوان کو انتہائی مشکل سے سیڑھیوں سے اترتے دیکھا۔
ابھی وہ 2 سیڑھیاں ہی اتر پایا تھا۔
"میں تماشائی" اپنی بہن کے ہمراہ اس کے قریبب گئے۔
اس سے کہا کہ "بھائی آپ ایلیویٹر کے ذریعے نیچے چلے جائیے۔"
اس نے کہا "مجھے استعمال نہیں کرنے آتی"
"میں تماشائی" نے ڈیوٹی پر موجود انسپکٹر سے کہا کہ "بھائی انہیں ایلیویٹر تک پہنچا دیجیئے"
اس نے کہا "یہ میری ڈیوٹی نہیں"
"میں تماشائی" اور بہن اس شخص کو ایلیویٹر تک لے گئے۔
اس کی رہنمائی کی۔
اسٹیشن کا سینئر ایسپکٹر (سپروائزر) جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، اس کے پاس گئے۔
اسے سارا قصہ بیان کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ انسپکٹر اپنی جگہ سے دور نہیں جا سکتے کیونکہ کیمرے کے ذریعے انہیں دیکھا جا رہا ہے۔
"میں تماشائی" کا موقف یہ تھا کہ ایسپکٹر اگر اپنی جگہ سے نہیں حل سکتا تو کسی اور کو آواز بھی دے سکتا ہے اور خود زبانی طور پر اس شخص کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے۔

یہ انسپکٹر پولیس والا ہے یا کوئی اور؟ اور اس کے کیا فرائض ہوتے ہیں؟
 

لاریب مرزا

محفلین
"میں تماشائی" کی خوب اصطلاح متعارف کرائی ہے شزہ مغل بہنا :) بہت سے لوگ تماشائی ہی ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی بدولت معاشرے میں توازن قائم ہے۔ ہماری ایک عادت ہے کہ ہم پہلے تصویر کا مثبت پہلو دیکھتے ہیں اور ہمیشہ پُر امید رہتے ہیں۔ :) آپ نے ان بھائی صاحب کی مدد کر کے معاشرے کا وہ توازن برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دیں۔ :)
 

bilal260

محفلین
یہاں تمام ہی تماشائی ہے۔
جمہوریت کے ٹھیکیدار بھی۔
اگر کسی تماشائی کو حکومت دی جائے تو کیا حال ہوتا ہے ملک کا تماشہ ہی تماشہ اور یہی ہےاس وقت ملکی حالات۔
 

نایاب

لائبریرین
معاشرے میں موجود مجھ ایسے اکثریت پر مبنی " تماشائیوں " کے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کرتی اک روشن تحریر
میں تو اکثر ہی تماشا بن جاتا ہوں ۔ جب کسی کے حق کے لیے آواز اٹھاؤں تو " حقدار " خود ہی اپنا حق چھوڑ جاتا ہے ۔
"چھڈو جی کی فیدہ "
کاش کہ ہم اک دوسرے کا خیال رکھتے اک دوسرے کے لیے مدد کا سبب بنتے " تماشائی " کی بجائے " انسان بن جائیں ۔۔
جو کہ " انس اور آسانی " کا مرکب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

شزہ مغل

محفلین
"میں تماشائی" کی خوب اصطلاح متعارف کرائی ہے شزہ مغل بہنا :) بہت سے لوگ تماشائی ہی ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کی بدولت معاشرے میں توازن قائم ہے۔ ہماری ایک عادت ہے کہ ہم پہلے تصویر کا مثبت پہلو دیکھتے ہیں اور ہمیشہ پُر امید رہتے ہیں۔ :) آپ نے ان بھائی صاحب کی مدد کر کے معاشرے کا وہ توازن برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دیں۔ :)
آپی شکریہ سراہنے کا۔
 

شزہ مغل

محفلین
یہاں تمام ہی تماشائی ہے۔
جمہوریت کے ٹھیکیدار بھی۔
اگر کسی تماشائی کو حکومت دی جائے تو کیا حال ہوتا ہے ملک کا تماشہ ہی تماشہ اور یہی ہےاس وقت ملکی حالات۔
میں تماشائی اتفاق نہیں کرتی۔ کیونکہ ہم جیسے ہی ہم پر حاکم ہیں۔ میں تماشائی کچھ اور واقعات بھی بتاؤں گی جن سے ثابت ہو جائے گا کہ جب عوام خاموش تماشائی بن جاتی ہے تو حکومت بھی بازی گروں کی ہی ہوتی ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
معاشرے میں موجود مجھ ایسے اکثریت پر مبنی " تماشائیوں " کے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کرتی اک روشن تحریر
میں تو اکثر ہی تماشا بن جاتا ہوں ۔ جب کسی کے حق کے لیے آواز اٹھاؤں تو " حقدار " خود ہی اپنا حق چھوڑ جاتا ہے ۔
"چھڈو جی کی فیدہ "
کاش کہ ہم اک دوسرے کا خیال رکھتے اک دوسرے کے لیے مدد کا سبب بنتے " تماشائی " کی بجائے " انسان بن جائیں ۔۔
جو کہ " انس اور آسانی " کا مرکب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
شکریہ بھیا۔ آپ نے پہت اہم نقطہ اٹھایا ہے۔ میں تماشائی بھی اتفاق کرتی ہوں۔
 

عدنان عمر

محفلین
چھوٹا منہ بڑی بات، اگر ہم اپنے ارد گرد رہنے بسنے والوں، سرِ راہ ملنے والوں کو بڑی نہ سہی کسی چھوٹی مشکل میں دیکھ کر ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں تو شاید معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی آجائے۔ اور اگر ہم یہ سوچنے لگ گئے کہ ہمارے اس ایثار سے معاشرے میں کون سا انقلاب آجائے گا تو پھر ہم تماشائی ہی رہیں گے۔
 
Top