نوید ناظم
محفلین
میں زمیں زاد ہی سہی لیکن
آسماں سے گزر کر آیا ہوں
جانتا ہوں عدم کو اچھی طرح
میں وہاں سے گزر کر آیا ہوں
بیچ میں حرفِ کُن بھی آیا تھا
میں جہاں سے گزر کر آیا ہوں
وہ جبینیں ملائکہ کی تھیں
جس نشاں سے گزر کر آیا ہوں
اب نہیں واپسی کا رستہ بھی
اب تو جاں سے گزر کر آیا ہوں
آسماں سے گزر کر آیا ہوں
جانتا ہوں عدم کو اچھی طرح
میں وہاں سے گزر کر آیا ہوں
بیچ میں حرفِ کُن بھی آیا تھا
میں جہاں سے گزر کر آیا ہوں
وہ جبینیں ملائکہ کی تھیں
جس نشاں سے گزر کر آیا ہوں
اب نہیں واپسی کا رستہ بھی
اب تو جاں سے گزر کر آیا ہوں
مدیر کی آخری تدوین: