میں عشق کی شدت سے پریشان بہت ہوں

محمداحمد

لائبریرین
جیا صاحبہ

ماشاءاللہ بہت اچھی غزل ہے، کافی دنوں سے تقریباً غیر حاضر تھا سو یہاں آنے میں بھی تاخیر ہو گئی۔ بہرحال غزل بہت اچھی ہے۔ خاص کر یہ اشعار:

اں شورشِ ہجراں سے یہ دل شاد بہت تھا
ہاں وصل کی راحت سے پریشان بہت ہوں

انصاف کی دنیا ہے فقط خواب کی دنیا
یا رب میں حقیقت سے پریشان بہت ہوں


داد حاضرِ خدمت ہے ۔ قبول فرمائیے۔

مخلص
محمد احمد
 

جیا راؤ

محفلین
یہ میری قینچی استرا کیا محسن لے بھاگے؟؟
جیا خوب ہے غزل بس، وہ ذرا۔۔۔۔ دو تین اشعار میں بحر بدل گئی ہے۔
غزل زیادہ تر اس بحر میں ہے:
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
لیکن کچھ مصرعے اس بحر میں داخل ہو گئے ہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/فاعلات
ذرا تم خود دیکھو پہلے، اور راجا اور خرم بھی ذرا دیکھیں کہ کہاں کیا غلطی ہے۔
خیالات بلکہ احساسات تو حسبِ معمول بہت عمدہ ہیں۔ تم میں اچھے امکانات ہیں اس میں کوئی شک نہیں

السلام علیکم اعجاز انکل:)
دیر سے حاضری پر معذرت، کام چور شاگرد سمجھا جا سکتا ہے اس لئےزیادہ تر کھیل کود میں مصروف رہنے کے باعث یہاں دھیان نہیں دیا۔:(

دوبارہ پڑھنے پر نشان زدہ مصروں میں بحر مختلف لگی، باقی آپ رہنمائی فرمائیے ناں۔:(



میں عشق کی شدت سے پریشان بہت ہوں
اے جاں تری چاہت سے پریشان بہت ہوں

ہاں شورشِ ہجراں سے یہ دل شاد بہت تھا
ہاں وصل کی راحت سے پریشان بہت ہوں

چاہوں تو تجھے چھوڑ دوں میں غیر کی خاطر
بس نکتہ وحدت سے پریشان بہت ہوں

انصاف کی دنیا ہے فقط خواب کی دنیا
یا رب میں حقیقت سے پریشان بہت ہوں

جگنو، یہ چاند، تارے، بہاریں صدایئں دیں
اف، میں تری شہرت سے پریشان بہت ہوں

غنچہ یا کوئی پھول کہوں، پنکھڑی کہوں !
ہونٹوں کی نزاکت سے پریشان بہت ہوں

کیوں اے دل کم فہم تو مانے ہے انا کی؟
آمر کی حکومت سے پریشان بہت ہوں

ہر ایک عمل پہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'
ناصح تری عادت سے پریشان بہت ہوں

لڑکی ہوں، پگھل جاتی ہوں نظروں کی تپش سے
میں حسن کی نعمت سے پریشان بہت ہوں

وہ جان تکلم نہ بنا لے مجھے مداح
اس زور خطابت سے پریشان بہت ہوں

دنیا یہ فقط تجھ پہ جیا! کیوں ہے مہربان
لہجوں کی ملاحت سے پریشان بہت ہوں
 

الف عین

لائبریرین
تم نے جو اپنا محاسبہ کیا ہے، وہ ایک مصرع کی حد تک درست ہے جو بحر سے خارج ہی ہے۔ اصل مسئلہ ان مصرعوں میں ہے:۔ میںً نے چاہا تھا کہ دوسرے مبتدی بھی غور کریں۔ خیر۔۔
1۔ جگنو، یہ چاند، تارے، بہاریں صدایئں دیں
2۔ غنچہ یا کوئی پھول کہوں، پنکھڑی کہوں !
3۔ ہر ایک عمل پہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'
4۔ دنیا یہ فقط تجھ پہ جیا! کیوں ہے مہربان
1، 2۔۔ بحر الگ ہے۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کی جگہ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات ہو گئ ہے
3۔کوئ لفظ چھوٹ گیا ہے کیا؟
ہر ایک عمل پر وہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'
ممکن ہے
4۔ مہربان کا تلفظ غلط نظم ہوا ہے۔مہر کی ہ ساکت ہے۔
یوں کر دیں:
دنیا یہ فقط تجھ پہ جیا! مہرباں کیوں ہے
 

جیا راؤ

محفلین
تم نے جو اپنا محاسبہ کیا ہے، وہ ایک مصرع کی حد تک درست ہے جو بحر سے خارج ہی ہے۔ اصل مسئلہ ان مصرعوں میں ہے:۔ میںً نے چاہا تھا کہ دوسرے مبتدی بھی غور کریں۔ خیر۔۔
1۔ جگنو، یہ چاند، تارے، بہاریں صدایئں دیں
2۔ غنچہ یا کوئی پھول کہوں، پنکھڑی کہوں !
3۔ ہر ایک عمل پہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'
4۔ دنیا یہ فقط تجھ پہ جیا! کیوں ہے مہربان
1، 2۔۔ بحر الگ ہے۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کی جگہ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات ہو گئ ہے
3۔کوئ لفظ چھوٹ گیا ہے کیا؟
ہر ایک عمل پر وہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'
ممکن ہے
4۔ مہربان کا تلفظ غلط نظم ہوا ہے۔مہر کی ہ ساکت ہے۔
یوں کر دیں:
دنیا یہ فقط تجھ پہ جیا! مہرباں کیوں ہے

1۔ جگنو، یہ چاند، تارے، بہاریں صدایئں دیں

جگنو، ستارے، چاند، بہاریں صدائیں دیں

2۔ غنچہ یا کوئی پھول کہوں، پنکھڑی کہوں !

غنچہ کہوں یا پھول کہوں، پنکھڑی کہوں !

شکریہ اعجاز انکل:)

اب دیکھئیے۔


3۔ ہر ایک عمل پہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'

اسے ایسے کیا جا سکتا ہے؟

ہر اک عمل پہ کہہ دے ہے 'یوں تو نہیں، یہ یوں'
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہے اگر اسے اصلاح کہا جائے۔
جگنو، یہ چاند، تارے، بہاریں صدایئں دیں
یون کیسا ہے؟
جگنوہوں ستارے ہوں پکاریں سبھی تجھ کو
2۔ غنچہ یا کوئی پھول کہوں، پنکھڑی کہوں !
کو
میں پنکھڑی سمجھوں کہ کلی تجھ کو پکاروں
ہر ایک عمل پہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'
ہر ایک عمل پر جو کہے 'یوں نہیں، بس یوں۔۔۔'
 

فرخ منظور

لائبریرین
حاضر ہے اگر اسے اصلاح کہا جائے۔
جگنو، یہ چاند، تارے، بہاریں صدایئں دیں
یون کیسا ہے؟
جگنوہوں ستارے ہوں پکاریں سبھی تجھ کو
2۔ غنچہ یا کوئی پھول کہوں، پنکھڑی کہوں !
کو
میں پنکھڑی سمجھوں کہ کلی تجھ کو پکاروں
ہر ایک عمل پہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'
ہر ایک عمل پر جو کہے 'یوں نہیں، بس یوں۔۔۔'

اب مصرعے بحر میں تو ہیں ہی لیکن روانی بھی بہت آگئ ہے - بہت عمدہ اعجاز صاحب - :)
 

جیا راؤ

محفلین
حاضر ہے اگر اسے اصلاح کہا جائے۔
جگنو، یہ چاند، تارے، بہاریں صدایئں دیں
یون کیسا ہے؟
جگنوہوں ستارے ہوں پکاریں سبھی تجھ کو
2۔ غنچہ یا کوئی پھول کہوں، پنکھڑی کہوں !
کو
میں پنکھڑی سمجھوں کہ کلی تجھ کو پکاروں
ہر ایک عمل پہ کہے 'یوں تو نہیں، یوں۔۔۔'
ہر ایک عمل پر جو کہے 'یوں نہیں، بس یوں۔۔۔'


واہ زبردست اعجاز انکل۔
بہت سارا شکریہ آپ کے وقت کا۔:)



اصلاح شدہ غزل




میں عشق کی شدت سے پریشان بہت ہوں
اے جاں تری چاہت سے پریشان بہت ہوں

ہاں شورشِ ہجراں سے یہ دل شاد بہت تھا
ہاں وصل کی راحت سے پریشان بہت ہوں

چاہوں تو تجھے چھوڑ دوں میں غیر کی خاطر
بس نکتہ وحدت سے پریشان بہت ہوں

انصاف کی دنیا ہے فقط خواب کی دنیا
یا رب میں حقیقت سے پریشان بہت ہوں

جگنوہوں، ستارے ہوں پکاریں سبھی تجھ کو
اف، میں تیری شہرت سے پریشان بہت ہوں

میں پنکھڑی سمجھوں کہ کلی تجھ کو پکاروں
ہونٹوں کی نزاکت سے پریشان بہت ہوں

کیوں اے دل کم فہم تو مانے ہے انا کی؟
آمر کی حکومت سے پریشان بہت ہوں

ہر ایک عمل پر جو کہے 'یوں نہیں، بس یوں۔۔۔'
ناصح تیری عادت سے پریشان بہت ہوں

لڑکی ہوں، پگھل جاتی ہوں نظروں کی تپش سے
میں حسن کی نعمت سے پریشان بہت ہوں

وہ جان تکلم نہ بنا لے مجھے مداح
اس زور خطابت سے پریشان بہت ہوں

دنیا یہ فقط تجھ پہ جیا! مہرباں کیوں ہے
لہجوں کی ملاحت سے پریشان بہت ہوں
 
Top