میں علی ہوں اور دبئی میں رہتا ہوں

x boy

محفلین
"میں علی ہوں اور دبئی میں رہتا ہوں"

’’تراویح کی رکعتیں بیس ہی ہیں؟‘‘ ’’نہیں حضورؐ سے صرف آٹھ ہی ثابت ہیں۔‘‘ ’’حضرت عمرؓ کے دور میں صحابہؓ نے بیس رکعتیں جماعت کے ساتھ ادا کی تھیں‘ کیا انہوں نے غلط کیا؟‘‘ ’’بیس کی دلیل کمزور ہے‘ ہم نے تو اپنے بزرگوں کو آٹھ پڑھتے ہی دیکھا ہے۔‘‘ ’’آٹھ کی دلیل کمزور ہے ہم تو بیس ہی پڑھیں گے۔‘‘ قاہرہ سے دور ایک گائوں کی مسجد میں ماہ رمضان کی ایک شب نمازیوں کے درمیان تکرار ہورہی تھی۔ اس سے پہلے یہ کہ تکرار لڑائی تک پہنچتی‘ ایک اجنبی آدمی جو انہیں شکل و صورت سے علمی وجاہت کا حامل نظر آتا تھا اٹھا اور باآواز بلند کہنے لگا۔ ’’ایھا الاخوان! اجنبی کی آواز کی گھن گرج کچھ ایسی تھی کہ بحث کرنے والے اس کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ میں تراویح کے مسئلہ پرآپ کی بحث کافی دیر سے سن رہا ہوں‘ مسجد میں شورو غل کرنا آداب مسجد کے خلاف ہے جبکہ آپ کی بحث جھگڑے اور لڑائی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مسئلہ بجائے سلجھنے کے ا لجھتا جارہا ہے۔ اگر آپ میرے دو سوالوں کا جواب دے دیں تو شاید مسئلہ سلجھ جائے۔ کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں گے؟‘‘ ’’جی جی آپ فرمائیے مسئلہ سلجھنا چاہیے۔‘‘ کئی آوازیں مختلف اطراف سے بلند ہوئیں۔ ’’سوال یہ ہے۔‘‘ اجنبی نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’تراویح کا شرعی حکم کیا ہے؟ یعنی یہ فرض ہے سنت موکدہ ہے یا نفل ہے؟‘‘ ’’یہ نفل ہے‘ یہ نفل ہے۔‘‘ بیک وقت کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ ’’بہت خوب! اچھا! اب یہ بتایئے کہ اسلام میں مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور اخوت و محبت کے بارے میں کیا حکم ہے۔ یہ فرض ہے یا نفل؟‘‘ ’’فرض ہے۔ فرض ہے۔‘‘ لوگوں نے جواب دیا۔ ’’ایھا الاخوان! نفل وہ فعل ہے کہ اگر کسی وقت اسے نہ کیا جائے تو آدمی گناہ گار نہیں ہوتا جبکہ فرض وہ چیز ہے جس کے ضائع ہونے سے انسان گناہ گار ہوتا ہے۔‘‘ کیا میں نے صحیح کہا؟ ’’جی بالکل ٹھیک۔‘‘ مجمع نے پوری توجہ سے جواب دیا۔ ’’و اعتصموا بحبل اللہ جمعیاً و لا تفرقوا‘‘ کا ارشاد الٰہی ہمیں اس کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہے اور فرقہ فرقہ ہونے سے منع کرتا ہے کیونکہ جھگڑے اور تنازع سے مسلمانوں میں کم ہمتی پیدا ہوگی اور ان کی ہوا اکھڑ جائے گی۔’’ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم۔‘‘ تراویح نفل ہے۔اتحاد فرض ہے۔ اب آپ مجھے بتایئے کہ جو شخص ایک نفل کے قیام کے لیے مسلمانوں کے درمیان تفریق اور انتشار پیدا کرے ایسا شخص دین و ملت کا خیر خواہ ہوگا یا دشمن؟ ’’دشمن! دشمن‘‘ پور ا مجمع بیک زبیان ہو کر بولا۔ ’’تمہارا دشمن تمہارا اتحاد چاہتا ہے یا انتشار؟‘‘ ’’انتشار۔‘‘ ’’اب سوچئے کہ جو شخص حضور اکرمؐ کی امت میں انتشار پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ حضوراکرمؐ کا صحیح پیروکار ہوسکتا ہے؟‘‘ ’’حضور اکرمؐ کا پیروکار نہیں‘ وہ دشمن کا ایجنٹ ہی ہوسکتا ہے۔‘‘ ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر جذبات سے مغلوب آواز میں کہا۔ ’’اب جو لوگ ایسا کام کریں تمہارا کام انہیں روکنا اور سمجھانا ہے یا ان کا ساتھ دینا ہے؟‘‘ ’’ہم انہیں روکیں گے؟‘‘ ’’تمہیں آٹھ اور بیس تراویح کا مسئلہ زیادہ عزیز ہے یا مسلمانوں کا اتحاد؟‘‘ ’’اتحاد، اتحاد۔‘‘ ’’ایھا الاخوان! اگر تم اتحاد چاہتے ہو تو اس کے لیے تمہیں تھوڑی سی قربانی دینا ہوگی۔ کیا تم یہ قربانی دو گے؟‘‘ ’’ہم ہر طرح کی قربانی دیں گے۔‘‘ ’’قربانی صرف اتنی ہے کہ تمہیں جس امام یا اپنی تحقیق پر اعتماد و اطمینان ہے‘ اس پر عمل کرو۔ دوسروں کو دلیل سے سمجھائو لیکن دوسرے کا بھی اس کی رائے اور تحقیق پر چلنے کا حق تسلیم کرو کیونکہ ہر مسلمان اپنے موقف کی سچائی کے ثبوت کے لیے قرآن و سنت سے ہی دلیل پیش کرتا ہے۔ کوئی انجیل یا تورات سے استد لال نہیں کرتا۔ تعبیر و تشریح میں اختلاف ہونا فطری امر ہے۔ فروعی مسائل میں جو جس رائے کو مناسب سمجھے‘ اس پر عمل کرے جبکہ دین کے بنیادی اور متفقہ مسائل کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کیلئے تمام لوگ مل جل کر زور لگائیں۔ تمہارا دشمن انگریز ہو یا یہودی‘ وہ تم پر گولی چلاتے ہوئے یہ فرق نہیں کرے گا کہ فلاں شافعی ہے اور فلاں حنفی۔ فلاں آٹھ تراویح پڑھتا ہے اور فلاں بیس۔ اس کی نظر میں تمام کلمہ گو اس کے دشمن ہیں۔ اس کی کامیابی اس میں ہے کہ تمہیں آپس میں لڑائے رکھا۔ اس لیے آج ضرورت یہ ہے کہ ہم فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر کفر و ظلم کے خلاف متحد ہوجائیں اور خود کو صحیح مسلمان بنائیں۔‘‘ اجنبی کی تقریر ختم ہوئی تو لوگ کھڑے ہو کر انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ اسے ملنے لگے۔ گائوں کا ایک وجیہہ شخص جو اپنے لباس اور چہرے سے ایک متمول اور معزز آدمی دکھائی دیتا تھا‘ آگے بڑھا اور اس نے ا جنبی سے پوچھا: ’’میں آپ کی باتوں سے بہت متاثر ہوا‘ آپ اپنا تعارف کروائیں تو مہربانی ہوگی۔‘‘ ’’میرا نام علی ہے اور میں دبئی میں رہتا ہوں!
 
ایک اچھی تحریر، شراکت کا بہت شکریہ

ایک جماعتیے کے فیس بک پر اس تحریر کو کچھ یوں پڑھ چکا ہوں،

’’میرا نام حسن البنا ہے اور میں قاہرہ میں رہتا ہوں!!!

ہر کوئی اپنے ممدوح کا نام یا اپنا نام یہاں چپساں کر سکتا ہے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 

x boy

محفلین
ایک اچھی تحریر، شراکت کا بہت شکریہ

ایک جماعتیے کے فیس بک پر اس تحریر کو کچھ یوں پڑھ چکا ہوں،

’’میرا نام حسن البنا ہے اور میں قاہرہ میں رہتا ہوں!!!

ہر کوئی اپنے ممدوح کا نام یا اپنا نام یہاں چپساں کر سکتا ہے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
بلکل اسی طرح ہے مختلف پیجس میں
 

x boy

محفلین
ایک خاتون تھیں ۔

نماز میں سبحانک اللھم باوے حمدک پڑھتی تھیں ! سمجھایا کہ اللھم وبحمدک ،کہنے لگیں باوے حمدک ،، و بحمدک ،، باوے حمدک ،،

تنگ آ کر میں نے کہا کہ یہ نماز پڑھ کر تو آپ گنہگار ھوتی ھیں ،، پہلے نماز یاد کریں ،، دو ھفتے بعد پوچھا نماز یاد کی ھے ،،کہنے لگیں جب پڑھ کر گنہگار ھوتی ھوں تو میں نے چھوڑ ھی دی ھے ،، قیامت کے دن تمہیں آگے کر دوں گی !

اب میں نے منتیں شروع کر دیں کہ آپ باوے حمدک کے ساتھ ھی پڑھ لیں !

آج کچھ سال بعد پوچھا نماز سنائیں ،،،، آج کی تاریخ میں بھی وھی "سبحانک اللھم باوے حمدک " کے ساتھ فجر پڑھی ھے

مگر میں نے بالکل اعتراض نہیں کیا !

اللہ جانے اور بی بی جی جانیں !!
از: قاری جی
 

x boy

محفلین
نماز سکون اور اطمینان کی چیز ھے ! جس نماز کو پڑھ کر بندے کو مرچیں لگی رھیں اور وہ امام صاحب کی غیبت ھی کرتا رھے ،، ایسے امام کے پیچھے نماز ھی مت پڑھیں !

جہاں امام صاحب پہ دل مطمئن ھو وھاں جا کر پڑھ لیں ،، اپنی نماز اس طرح مت پھینکیں جس طرح پاکستانی کرکٹر وکٹیں پھینکتے ھیں !!

! Never Throw Your Prayers rather perform Them As Most precious event
 

x boy

محفلین
کل ایک بڑے پرانے دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا
باتوں باتوں میں کہنے لگا:
بھائی! آج میری آنکھ بس اذان پر کھلی جلدی جلدی تھوڑا سا کھایا پیا اور پانی پی لیا تو روزہ بچ گیا ورنہ بغیر سحری کے مشکل ہوجاتا روزہ۔
میں نے کہا ، بھائی اذان کے بعد تو کھانا پینا جائز ہی نہیں ہے تم نے کیسے کھا پی لیا؟
کہتا ہے ارے بھائی، تم لوگوں نے دین کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔
آؤ میں تمہیں قران دکھاؤں!!
میں نے سوچا ، معلوم نہیں ایسی کیا چیز قران میں دکھانے والا ہے، جو علمائے امت کی نظر سے نہیں گزری اور اسکی نظر میں آگئی۔
گھر لے گیا، ڈرائنگ روم میں بٹھایا، کافی دیر بعد قران لیکر آیا،
مجھے آیۃ دکھائی:

كُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۔۔۔۔۔
سورہ بقرہ آیۃ 187
"کھاؤ پیو! یہاں تک کہ تمہیں سفید صبح کی دھاری رات کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آئے۔"

مجھے یہ آیۃ دکھا کر مجھے فاتحانہ انداز میں مسکر کر دیکھنے لگا۔
اور میں نے وہیں سَر پیٹ لیا۔
میں نے اس کو کہا: میرے بھائی یہی حال ہوتا ہے جب نااہل قران سے مسائل نکالتا ہے۔
تو پوری امت سے الگ تھلگ جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
قران خود کہتا ہے:

"اللہ قران (میں موجود مثال کے ذریعے) بہت لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہ لوگوں کو ھدایت دیتا ہے۔ اور اس سے گمراہ صرف فاسق لوگ ہی ہوتے ہیں۔"
سورۃ بقرۃ آیۃ 26

میں نے کہا بھائی! اول تو تم اپنے موقف پر خود عمل پیرا نہیں ہو، اگر اسی آیۃ کے ظاہر ہر عمل کر بھی رہے ہو تو صبح تک کھاتے پیتے رہا کرو، جب تک دھوپ تمہارا دروازہ نہ کھٹکھٹا دے۔

پھر میں نے اس کو بخاری شریف کی حدیث بتائی:

"حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیۃ 'كُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر' نازل ہوئی تو ہم نے سیاہ اور سفید دونوں رنگوں کی رسیاں لے کر تکیہ کے نیچے رکھ لیں، میں رات لو دیکھتا رہا لیکن اس کا رنگ ظاہر نہ ہوسکا ، میں صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ حال بیان کیا تو آپ نے فرمایا: اس سے مراد رات کی تاریکی اور صبح (صادق) کی سفیدی ہے۔"
بخاری حدیث 1916

دوسری حدیث بھی سنائی:

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر آپ نماز کیلیئے کھڑے ہوگئے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: اذان اور سحری کے درمیان کس قدر فاصلہ تھا؟ انہوں نے فرمایا: پچاس آیتیں پڑھنے کے برابر۔"
بخاری 1921

اب میں نے اس کو سمجھایا کہ بھائی فجر کی اذان تو وقت داخل ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔
اور کھانا پینا وقت شروع ہونے سے پہلے چھوڑ دینا چاہیئے۔
تو فوراً پشیمان ہوا اور توبہ کرنے لگا:
پھر کہنے لگا: بھائی! ان شاء اللہ آئندہ میں اپنی طرف سے کوئی مسئلہ نہیں نکالوںگا بلکہ علماء سے پوچھا کرونگا۔
میں نے کہا بھائی! یہی طریقہ قران نے بتایا ہے:

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (43) سورۃ النحل
تو پوچھ لیا کرو اہل علم سے اگر تم نہ جانتے ہو۔

از
قاضی محمد حارث
 
ایک خاتون تھیں ۔

نماز میں سبحانک اللھم باوے حمدک پڑھتی تھیں ! سمجھایا کہ اللھم وبحمدک ،کہنے لگیں باوے حمدک ،، و بحمدک ،، باوے حمدک ،،

تنگ آ کر میں نے کہا کہ یہ نماز پڑھ کر تو آپ گنہگار ھوتی ھیں ،، پہلے نماز یاد کریں ،، دو ھفتے بعد پوچھا نماز یاد کی ھے ،،کہنے لگیں جب پڑھ کر گنہگار ھوتی ھوں تو میں نے چھوڑ ھی دی ھے ،، قیامت کے دن تمہیں آگے کر دوں گی !

اب میں نے منتیں شروع کر دیں کہ آپ باوے حمدک کے ساتھ ھی پڑھ لیں !

آج کچھ سال بعد پوچھا نماز سنائیں ،،،، آج کی تاریخ میں بھی وھی "سبحانک اللھم باوے حمدک " کے ساتھ فجر پڑھی ھے

مگر میں نے بالکل اعتراض نہیں کیا !

اللہ جانے اور بی بی جی جانیں !!
از: قاری جی
بعض افراد کو سزا کا خوف یا گناہ کا احساس اتنا متاثر نہیں کرتا، جتنا عمل کی جزا اور محبت کا اثر ہوتا ہے - سب افراد کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانک سکتے۔ نصیحت کرتے ہوئے افراد کی طبائع کو مدنظر رکھانا لازم ہے
نرمی اور محبت بہت بڑی خوبی ہے اور مومن کو حکمت کا خزانہ ہونا چاہے،
 

x boy

محفلین
کچھ سال پہلے میرے عزیز دوستوں نے اللہ کی رضا کی خاطر ایک تنظم تشکیل دی، جس کا مقصد غریب نادار خاندانوں کی مدد کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے پہلے پہل اپنی محدود کمائی سے ہر مہینے کچھ رقم مختص کی، اور جب کچھ رقم جمع ہو گئی تو انھوں نے اس رقم سے 3 خاندانوں کے لئے ایک سال کی غالبا 18 من گندم ان کے ٹوٹے پھوٹے دروازں تک پہنچائی۔ اللہ نے انکے جذبے میں ایسی برکت ڈالی کےاب یہ دوستوں کا گروپ ایک تنظیم کی شکل میں 50 سے 60 خاندانوں کو سال بھر کی گندم فراہم کرتا ہے۔18 من سے شروع سفر اس سال 425 من گندم کی تقسیم پر ختم ہوا اور انشا اللہ اگلے سال اس سے بھی زیادہ کا ٹارگٹ ہے۔ اللہ کے فضل سے دوستوں کی ترغیب میرے کام بھی آئی، اور مجھے بھی اس تنظیم کا ادنی رکن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔
اب اصل مدعا پیش خدمت ہے، تنظیم کےساتھ خدمتِ خلق کے اس سفر میں جہاں غربت اور بے بسی کی انتہا دیکھی، وہاں بے حسی کا عروج بھی دیکھنے کو ملا۔ جہاں غربت سے مجبور گناہگار شکلیں دیکھنے کو ملی وہاں ہی اسی غربت کے باوجود تقوی کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے مومنین سے ملاقتیں بھی ہوئیں۔ ایسی ہی ایک مثال پیش کرنے جا رہا ہوں۔ ہمارے علاقہ انتہائی گنجان آباد علاقہ ہے، ہماری کالونی کی چاردیواری امرا کی شاندار کوٹھیاں اور بنگلے ہیں۔ امرا کی اس چاردیواری کے دامن میں غربا کی جھونپڑیاں بھی ہیں، سفید پوش لوگوں کے مکان بھی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم شہرکے کسی بڑے عالم سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ جن خاندانوں کو گندم تقسیم کرنی ہے ان سب کو اکٹھا کر کے توحید اور بنیادی اخلاقی باتوں پر ایک درس کا اہتمام کیا جائے۔ اور درس کے فورا بعد گندم انکے حوالے کی جائے۔ لیکن جب ہم نے ان عالم سے رابطہ کیا تو انھوں نے ہمارے جذبے کی تعریف کی، لیکن ساتھ ہمیں مشورہ دیا کہ ان کی نظر میں یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ اسطرح جب اجتماع میں آپ سب کو اکٹھا کر کے گندم تقسیم کریں گے تو بہت سے سفید پوش اور با ضمیر لوگوں سے پردہ اٹھ جائے گا۔ تو مناسب ہے کہ آپ انفرادی طور پر سب کے گھر جا کر، یا انکو بلا کر گندم تقسیم کریں۔ اس طرح ان کا بھرم رہ جائے گا۔ ساتھ ہی انھوں نے دو افراد کےلئے تعاون کی اپیل کر دی۔ یہ اپیل ہمارے لئے افسوس اور تعجب کا باعث بنی۔ وجہ یہ تھی کہ جن افراد کے بارے میں انھوں نے عرض کی وہ ہمارے علاقے کی بڑی جامع مسجد کے امام، اور مسجد کے خادم کے بارے میں تھی۔ اس بڑی اور شان و شوکت والی مسجد میں زیادہ تر کاروباری اور امرا 5 وقت باقاعدہ نماز ادا کرتے ہیں۔ جن کے امام کی تنخواہ 6500 روپے ہے، جو اس تنخوا میں انکو معراج کا تحفہ "نماز" کئی سالوں سے پڑھا رہے ہیں، جو انکے بچوں کو دنیا کی اعلی ترین کتاب قران مجید کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جو مسلمانوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لئے روزانہ 5 وقت اذان دیتے ہیں۔ پھر جب ایسے متقی امام و خادم، معاشرے کی بے بسی اور انتظامیہ کی بے حسی کی وجہ سے معاشرتی حلوہ خور مولوی بنتے ہیں تو معاشرہ اپنے اندر کی بے حسی کو دیکھنے کی بجائے دین کو بدنام کرتا ہے۔ وہ امام صاحب کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ انکا بیٹا مولوی بنے، بلکہ انکا بیٹا BCS کر رہا ہے، تاکہ وہ معاشرے کا روزگار شہری بن سکے۔ کوئی اسکے باپ کی طرح ذکوۃ ان پابندیوں کے ساتھ وصول نہ کرے، کہ یہ ذکوۃ کے پیسے ہیں، اب ان سے چونسا آم لے کر نہ گھر چلے جانا، ذکوۃ دینے والے کو شرم تک نہیں آئی کے وہ امام جس نے کھبی ہاتھ نہیں پھیلایا اسکو تم ذکوۃ بھی اپنے من پسند پابندیوں کے ساتھ دو گے۔ آخر ہی تھوڑی شرم چاہیے، آخر ہی تھوڑی حیا چاہے، مسجد میں جانے والے مسجدیں آباد کرنے والے ہی مسجد میں رہنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھیں گے تو مسجد کے دشمنوں سے کیا امید؟؟؟؟
خیردوستوں نےاللہ کے فضل و کرم سے بخوشی ان امام صاحب اور خادم کو سال بھر کی وافر گندم مہیا کی۔ اللہ انکو اسکا اجر دے۔ اور آپ سے گذارش ہے کہ ہمارے ساتھ اس کارِخیر میں بھرپور حصہ لیں۔ یا کم از کم اپنے اردگرد سفید پوش متقی لوگوں کا خوب خیال رکھا کریں۔
اللہ اس کارِ خیر کو قبول کریں، اللہ گندم کے ہر ہر ذرے کے وزن کو اربوں کھربوں گنا بڑھا کر، قیامت والے دن ترازو کے دائیں پلڑے میں ڈآل دے۔ اور اس کارِ خیر میں حصہ لینے والوں کے لئے کامیابی اور جنت کا ذریعہ بنا دے۔
آمین
از: ایک اللہ کا بندہ
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
میٹنگ کے آداب !

آپ لوگ اچھی طرح واقف ھونگے کہ میٹنگ کے آداب میں پہلا ادب یہ ھے کہ آپ کا موبائیل یا تو بند ھو یا سائیلنٹ پہ ھونا چاھئے !

چاھے یہ اسٹاف میٹنگ ھو ! چاھے ریکروٹنگ کے سلسلے میں ھو ،، چاھے آپ نوکری کے لئے کسی کے رحم و کرم پہ ھوں ، یا ترقی کے لئے کسی افسر کے سامنے مسکین بن کر بیٹھے ھوں ،، اس حالت میں آپ کے موبائیل کی بجنے والی گھنٹی آپ کے مستقبل کا بینڈ باجا بھی بجا سکتی ھے !

میں پہلے عرض کر چکا ھوں کہ والد صاحب کی وفات کے سلسلے میں پاکستان جا رھا تھا تو ابوظہبی ائیرپورٹ کے ایمیگریشن پہ میری باری جب آئی تو اچانک شارجہ سے میرے کزن کا فون آیا ،،، میں نے بس اتنی دیر فون اٹینڈ کیا کہ اسے بتایا کہ میں ایمیگریشن پہ ھوں فارغ ھو کر فون کرتا ھوں اور فون بند کر دیا ،، مگر افسر کا موڈ آف ھو چکا تھا ،، اس نے میرا پاسپورٹ نیچے دراز میں رکھ دیا اور اٹھ کر چلا گیا ،،نیز جاتے جاتے مجھے دور کھڑا کر گیا !! میں نے ٹکٹ کی رسید نکالی اور اس کی پشت پہ لکھا ،،میرے اللہ ،، جب ھم نماز میں تیرے سامنے کھڑے ھو کر ساری دنیا کے چکر کاٹ رھے ھوتے ھیں ،، تو میرے اللہ تُو کتنی انسلٹ محسوس کرتا ھو گا ،، کھڑا تیرے سامنے ،،متوجہ کسی اور طرف !! پتہ نہیں یہ نمازیں عبادت ھیں یا تیری توھین اور ھمارا جرم ،، ایسی نمازوں پہ تو اجر کی بجائے ھم سزا کے مستحق ھیں ،، تو اجر نہ دے سزا بھی معاف کر دے تو تیری مہربانی ھے ، اس افسر کو دیکھ میرے مولا ،، یہ صبح شام اپنی گندگی میں ھاتھ مارتا ھے مگر کتنا متکبر ھے ! اور تیرا تو نام ھی المتکبر ھے ،، جو تجھے جانتے ھیں ،، ان کے رنگ تیرے سامنے کھڑے ھو کر فق ھو جاتے ھیں کہ پانے کی بجائے جو پاس ھے اس سے بھی محروم نہ ھو جائیں ! میں لکھ کر فارغ ھوا تو دوسرا افسر جو یہ ماجرا دیکھ رھا تھا وہ اٹھ کر آیا مجھ سے پوچھا کیا ھوا ھے ؟ میں نے اسے اپنا جرم بتایا جس پہ اس نے میرا پاسپورٹ اٹھا کر اسٹیمپ کیا اور مجھے پکڑا دیا !

اب واپس آیئے میٹنگ کی طرف ! نماز اللہ پاک کے ساتھ ھماری میٹنگ ھے ،، اور ھم موبائیل آن کیئے اس پہ گانے کی ٹون لگانے کھڑے ھوتے ھیں ،،شرم حیاء سر پیٹ کر رہ جاتی ھے ،، اصل واقعہ یہ ھے کہ ھم خدا کے ساتھ ھوتے ھی نہیں ،، نہ ھمیں اس کے ری ایکشن کا ڈر ھوتا ھے اور نہ ھماری باڈی لینگویج سے ظاھر ھوتا ھے کہ ھم کسی ایسی اھم ھستی کے ساتھ ھیں جو ھمارے وجود کا بھی مٹا سکتی ھے،، ھمارے نفعے کو نقصان میں تبدیل کر سکتی ھے ،،بچوں سے بھرے گھر کو پل میں خالی کر سکتی ھے ، اس صحیح سلامت بدن کو معذور بنا سکتی ھے ،، جو چاھے تو ھماری مٹی کو سونا بنا سکتی ھے ،ھمارا ھر دکھ درد ختم کر سکتی ھے ،،،

نتیجہ یہ ھے کہ ھم بظاھر ملاقات کر کے نکلتے ھیں تو ھمارے اندر نہ تو اُس اعتماد کی جھلک ھوتی ھے جو کسی اھم شخصیت کی یقین دھانی پہ بندے میں پیدا ھوتا ھے اور نہ ھی اس ڈر اور خوف کا کوئی پرتاؤ ھماری ھستی میں نظر آتا ھے جو ھمارے کردار کو درست کر دے ،،ھم پانچ وقتہ نمازی اور سات وقتہ کرپٹ ھوتے ھیں،، ھر بندہ اپنی استطاعت کے مطابق کرپٹ ھے ،جو ڈاک کا ٹکٹ صاف کر کے دوبارہ استعمال کر سکتا ھے وہ اس سے نہیں چوکتا اور جو وزیر بن کر حاجیوں کو لوٹ سکتا ھے وہ اس سے نہیں چوکتا !

حضرت امام زین العابدین جب وضو شروع کرتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ھونا شروع ھو جاتا تھا ،، کسی نے استفسار کیا تو فرمایا ،بادشاھوں کے بادشاہ کے دربار میں حاضری ھے ،، نفع یا نقصان لے کر ھی پلٹنا ھوتا ھے ،بس نقصان سے ڈر لگتا ھے ، جس کی رضا مطلوب ھو اس کی ناراضی سے ڈر لگتا ھے ، یہی وہ ھستیاں تھیں جن کی نماز معراج ھوا کرتی تھی !

بندہ گھر سے سبزی لینے نکلا رستے میں مسجد پڑتی تھی ، عصر کی نماز کا وقت تھا ،، نماز پڑھ لی مگر ساری نماز میں بنڈیوں کی سوچ غالب رھی کہ کس دکان سے لینی ھیں،، کس بھاؤ پہ لینی ھیں،چن کر لینی ھیں یا رینڈم میں لینی ھیں،، الغرض نماز پڑھ کر عادت کے مطابق گھر کی راہ لی ،، گھر پہنچے تو بیوی نے پوچھا کہ " بنڈیاں "؟ چونک کر کہنے لگے پہلے تو جا کر پھر نماز پڑھتا ھوں ! اس لئے کہ اگر نماز کے دوران خریدی گئ بنڈیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں تو بنڈیوں کے خریداری کے دوران جو نماز پڑھی ھے اس کی حقیقت کیا ھو گی ،، ؟

قاری صاحب کی باتیں
 

x boy

محفلین
میں اور میرے روزے : حنیف سمانا

میں نے روزہ رکھا ....
مگر میرا روزہ کیا تھا...
سحری کے وقت میرے
Dinning table
پہ انواع و اقسام کی نعمتیں تھیں..

اور پھر دن بھر میں AC میں بیٹھا رہا...
اور پھر عصر کے بعد ہی میں بازار سے افطار کے لئے نعمتیں اکھٹی کرنے میں لگ گیا...
افطار کے وقت بھی میرے سامنے ہر چیز... جس کی خواہش کی جاسکے... حاضر تھی..

مجھے کیا پتہ کہ میرے گھر کے سامنے سڑک پر جو موچی بیٹھا ہے...
اس نے سحری کے وقت کیا کھایا...
چائے اور روٹی؟
مجھے کیا پتہ کہ وہ افطار کے لئے کیا انتظام کر کے بیٹھا ہے...
مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں اس کے بارے میں سوچوں...

مجھے تو اپنی فکر ہے...کہ افطار کے وقت میری ساری من پسند چیزیں میرے سامنے ہوں...
مجھے اپنے بچوں کی فکر ہے..کہ روزہ کھلنے کے بعد ان کی فیورٹ ڈش ہونی چاہئے...

پنکی نے چکن کے سموسے بنوائے ہیں...
گڈو نے طارق روڈ کی کریم والی فروٹ چاٹ کی فرمائش کی ہے...وہاں بھی جانا ہے...
حماد کہہ رہا تھا کہ وہ اسٹرابری ملک شیک سے روزہ کھولے گا...
اسٹرابری بھی لینی ہے..
بیگم کو فریسکو بنس روڈ کے دہی بڑے پسند ہیں..وہاں بھی جانا ہے...
اور ہاں...
میں نے بیگم سے کہا ہے کہ میں سموسے، چاٹ وغیرہ کچھ نہیں کھاؤں گا...
میرے لئے بس بریانی ہونی چاہئے....

کس قدر مصروف زندگی ہے....
فرصت ہی نہیں اپنے علاوہ کسی کے لئے سوچنے کی...

اے موچی!
تو ایک دن اور...
پیاز اور روٹی سے روزہ کھول لے گا....
تو کیا مر جائے گا؟
 

عزیزامین

محفلین
نشاندہی کردیں کہ کونسا جملہ ایسا ہے برائے اصلاح
آپ نے اس مولوی کے متعلق کچھ کہا میری رائے وہ بات درست ہے پر غیبت ۔ ہم ایسے بہت سے گروپ بنا سکتے ہیں جس میں گفتگو سے مدد ہو۔ اردو پیجز پر ایک واقعہ سرفراز شاہد کا پڑھ کربہت دکھ ہو۔
 

x boy

محفلین
قربانی اور ایثار کا دوسرا نام عورت ھے !

صائمہ.

ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭨﮭﮯ ،ﺳﺤﺮﯼ ﺑﻨﺎﮮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ
ﮐﮭﺎﮮ ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﮑﺎﮮ ﭘﮭﺮ ﭼﺎﺭ ﺑﺠﮯ
ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺖ
ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ،ﭘﮑﻮﮌﮮ ،ﺩﮨﯽ ﺑﮭﻠﮯ ، ﭼﮭﻮﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺩﮬﮍﮐﺎ ﮐﮧ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﻮﮨﺮ ، ﺑﺎﭖ ﯾﺎ ﺳﺴﺮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﮮ ﭘﮭﺮ ﺍﺫﺍﻥ
ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭨﻠﺘﯽ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﺳﯽ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭘﺴﻨﺪ
ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ
ﺧﺎﻃﺮ
ﻣﺪﺍﺭﺍﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺲ
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﮑﻮﮌﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ، ﺷﻮﮨﺮ ،ﺑﮭﺎﺋﯽ ، ﺍﺑﺎ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﭨﯽ
ﺳﺎﻟﻦ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﻥ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﺻﻞ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ، ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﮞ ﺳﻤﯿﻨﭧ
ﮐﺮ ﺍﮔﻠﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﮐﮯ
ﺁﺩﮬﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭ ﮨﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﺻﺒﺢ دو ﺑﺠﮯ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ
ﺍﻻﺭﻡ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﮔﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ
ﺑﻐﯿﺮ ﺳﺤﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ
ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ، ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﻮﯼ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ
ﺑﮭﯽ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﮨﯿﮟ
 

عزیزامین

محفلین
آپ نے اس مولوی کے متعلق کچھ کہا میری رائے وہ بات درست ہے پر غیبت ۔ ہم ایسے بہت سے گروپ بنا سکتے ہیں جس میں گفتگو سے مدد ہو۔ اردو پیجز پر ایک واقعہ سرفراز شاہد کا پڑھ کربہت دکھ ہو۔
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

شمشاد

لائبریرین
قربانی اور ایثار کا دوسرا نام عورت ھے !

صائمہ.

ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭨﮭﮯ ،ﺳﺤﺮﯼ ﺑﻨﺎﮮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ
ﮐﮭﺎﮮ ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﮑﺎﮮ ﭘﮭﺮ ﭼﺎﺭ ﺑﺠﮯ
ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺖ
ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ،ﭘﮑﻮﮌﮮ ،ﺩﮨﯽ ﺑﮭﻠﮯ ، ﭼﮭﻮﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺩﮬﮍﮐﺎ ﮐﮧ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﻮﮨﺮ ، ﺑﺎﭖ ﯾﺎ ﺳﺴﺮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﮮ ﭘﮭﺮ ﺍﺫﺍﻥ
ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭨﻠﺘﯽ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﺳﯽ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭘﺴﻨﺪ
ﻧﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ
ﺧﺎﻃﺮ
ﻣﺪﺍﺭﺍﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺲ
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﮑﻮﮌﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ، ﺷﻮﮨﺮ ،ﺑﮭﺎﺋﯽ ، ﺍﺑﺎ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﭨﯽ
ﺳﺎﻟﻦ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﻥ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺍﺻﻞ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ، ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﮞ ﺳﻤﯿﻨﭧ
ﮐﺮ ﺍﮔﻠﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﮐﮯ
ﺁﺩﮬﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭ ﮨﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﺻﺒﺢ دو ﺑﺠﮯ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ
ﺍﻻﺭﻡ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﮔﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ
ﺑﻐﯿﺮ ﺳﺤﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ
ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ، ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﻮﯼ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ
ﺑﮭﯽ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﮨﯿﮟ
سب عورتوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔
وہ بھی تو عورتیں ہی ہیں جو عین وقت پر اٹھتی ہیں اور ایک عورت ہی ہاتھوں کا تیار کردہ کھانا کھاتی ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
متفرقات کے دھاگے میں پھر سے مذہب کے نام پر وہی کام شروع ہو گیا ہے۔ کیا آپ مذہب کو واقعی متفرقات سمجھتے ہیں تو پھر جاری رکھیئے :)
 

x boy

محفلین
کائنات کی سب سے پہلی مجرم اور سب گناھوں کی ماں " میں " ھے اور دنیا کا سب سے پہلا گناہ تکبر ھے ،، حسد میں کا پوتا اور تکبر کا بیٹا ھے ! اور اس کا سب سے پہلا شکار شیطان ھے !

کہتے ھیں چور نہ مارو چور کی ماں مارو ، تا کہ آئندہ کوئی چور پیدا نہ کرے !

چور کی اس ماں کو مارنے کے لئے ھی ساری کتابیں نازل ھوئی ھیں ، ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبر تشریف لائے ،، تین سو تیرہ رسول بھیجے گئے ،، ساری تگ و دو اس "میں " کو Manage کرنے کے لئے ھے !ساری عبادات اس کے علاج کے کشتے ھیں ! حلتیں اور حرمتیں اس کی زنجیریں ھیں - صوفیاء نے اسی کے علاج کو سینی ٹوریم بنائے ،، علماء نے مدارس کا جال بچھایا !

مگر یہ " میں " ھے کہ مرنے میں نہیں آتی ،، اس کی وجہ یہ ھے کہ اس کو بچانے والے بہت ھیں ،، ھم میں سے ھر شخص اس کو پناہ دے دیتا ھے ،،

بے شک ساری دنیا فنا ھو جائے !

لیکن اگر ھماری " میں " اور ھمارا رب آمنے سامنے کھڑے ھیں تو کچھ بھی حاصل نہیں ھوا ! بات گھوم پھر کر وھیں آ جاتی ھے کہ !

مکے گیاں گل مُکدی نئیں بھانویں سو سو حج کر آیئے !

گنگا گیاں گل مُکدی نئیں بھانویں سو سو غوطے کھایئے !

گیا گیاں گل مکدی نئیں بھانویں سو سو پنڈ پڑھ آیئے !

بلہے شاہ گل تایوں مُکدی ، جدوں میں نوں دلوں مُکایئے !
 

x boy

محفلین
مال تمہاری مگر وسائل معاشرے کی ملکیت ہوا کرتے ہیں
--------------------------------------------------

از:محمد سلیم
جرمنی ایک صنعتی ملک ہے جہاں دُنیا کی بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے برانڈز مثلاً مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور سیمنز پروڈکٹس بنتے ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے پمپ تو محض اس ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنتے ہیں۔ اس طرح کے ترقی یافتہ ملک کے بارے میں کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہاں لوگ کس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہونگے، کم از کم میرا خیال تو اُس وقت یہی تھا جب میں پہلی بار اپنی تعلیم کے سلسلے میں سعودیہ سے جرمنی جا رہا تھا۔

میں جس وقت ہمبرگ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود میرے دوست میرے استقبال کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت کا پروگرام بنا چکے تھے۔ جس وقت ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اس وقت وہاں گاہک نا ہونے کے برابر اور اکثر میزیں خالی نظر آ رہی تھیں۔ ہمیں جو میز دی گئی اس کے اطراف میں ایک میز پر نوجوان میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ، اُن کے سامنے صرف ایک ڈش میں کھانا رکھا ہوا تھا جس کو وہ اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھا رہے اور شاید دونوں کے سامنے ایک ایک گلاس جوس بھی رکھا ہوا نظر آ رہا تھا جس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ بیچاروں کا رومانوی ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھانے کوتو دل چاہ رہا ہوگا مگر جیب زیادہ اجازت نا دیتی ہو گی۔ ریسٹورنٹ میں ان کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ خواتین نظر آ رہی تھیں۔

ہم سب کی بھوک اپنے عروج پر تھی اور اسی بھوک کا حساب لگاتے ہوئے میرے دوستوں نے کھانے کا فراخدلی سے آرڈر لکھوایا۔ ریسٹورنٹ میں گاہکوں کے نا ہونے کی وجہ سے ہمارا کھانے لگنے میں زیادہ وقت نا لگا اور ہم نے بھی کھانے میں خیر سے کوئی خاص دیر نا لگائی۔

پیسے ادا کر کے جب ہم جانے کیلئے اُٹھے تو ہماری پلیٹوں میں کم از کم ایک تہائی کھانا ابھی بھی بچا ہوا تھا۔ باہر جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے ریسٹورنٹ میں موجود اُن بڑھیاؤں نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ ساری اپنی جگہ کھڑی ہو کر زور زور سے باتیں کر رہی تھیں اور ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ اُنکا موضوع ہمارا ضرورت سے زیادہ کھانا طلب کرنا اور اس طرح بچا کر ضائع کرتے ہوئے جانا تھا۔ میرے دوست نے جواباً اُنہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ آرڈر کیا تھا اُس کے پیسے ادا کر دیئے ہیں اور تمہاری اس پریشانی اور ایسے معاملے میں جس کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا میں دخل اندازی کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ایک عورت یہ بات سُنتے ہی ٹیلیفون کی طرف لپکی اور کسی کو فوراً وہاں آنے کو کہا۔ ایسی صورتحال میں ہمارا وہاں سے جانا یا کھسک جانا ہمارے لیئے مزید مسائل کھڑے کر سکتا تھا اس لئے ہم وہیں ٹھہرے رہے۔

کچھ ہی دیر میں وہاں ایک باوردی شخص آیا جس نے اپنا تعارف ہمیں سوشل سیکیوریٹی محکمہ کے ایک افسر کی حیثیت سے کرایا۔ صورتحال کو دیکھ اور سن کر اُس نے ہم پر پچاس مارک کا جرما نہ عائد کر۔ اس دوران ہم چپ چاپ کھڑے رہے۔ میرے دوست نے آفیسر سے معذرت کرتے ہوئے پچاس مارک جرمانہ ادا کیا اور اس نے ایک رسید بنا کر میرے دوست کو تھما دی۔

آفیسر نے جرمانہ وصول کرنے کے بعد شدید لہجے میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ : آئندہ جب بھی کھانا طلب کرو تو اُتنا ہی منگواؤ جتنا تم کھا سکتے ہو۔ تمہارے پیسے تمہاری ملکیت ضرور ہیں مگر وسائل معاشرے کی امانت ہیں۔ اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جو غذائی کمی کا شکار ہیں۔ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح ضائع کرتے پھرو۔

بے عزتی کے احساس اور شرمساری سے ہمارے چہرے سرخ ہورہے تھے۔ ہمارے پاس اُس آفیسر کی بات کو سننے اور اس سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ذہنی طور پر ہر اُس بات کے قائل ہو چکے تھے جو اُس نے ہمیں کہی تھیں۔ مگر کیا کریں ہم لوگ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو وسائل کے معاملے میں تو خود کفیل نہیں ہے مگر ہماری عادتیں کچھ اس طرح کی بن گئی ہیں کہ ہمارے پاس کوئی مہمان آ جائے تو اپنا منہ رکھنے کیلئے یا اپنی جھوٹی عزت یا خود ساختہ اور فرسودہ روایات کی پاسداری خاطر دستر خوان پر کھانے کا ڈھیر لگا دیں گے۔ نتیجتاً بہت سا ایسا کھانا کوڑے کے ڈھیر کی نظر ہوجاتا ہے جس کے حصول کیلیئے کئی دوسرے ترس رہے ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی ان بری عادتوں کو تبدیل کریں اور نعمتوں کا اس طرح ضیاع اور انکا اس طرح سے کفران نا کریں۔

ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر میرے دوست نے سامنے کی ایک دکان سے جرمانے کی رسید کی فوٹو کاپیاں بنوا کر ہم سب کو اس واقعہ کی یادگار کے طور پر دیں تاکہ ہم گھر جا کر اسے نمایاں طور پر کہیں آویزاں کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آئندہ کبھی بھی اس طرح کا اسراف نہیں کریں گے۔

جی ہاں! آپکا مال یقیناً آپکی مِلکیت ہے مگر وسائل سارے معاشرے کیلئے ہیں۔
 
Top