جیا راؤ
محفلین
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارہِ زخمِ غمِ دیدہِ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو کہ سیماب طبیعیت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں !
محسن نقوی
جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارہِ زخمِ غمِ دیدہِ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو کہ سیماب طبیعیت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں !
محسن نقوی