میں نے اور جبریل نے دیکھا ...!

چوہدری صاحب ، اس کلیے سے جہاں مستقبل کے بہت سے مسائل حل ہوتے نظر آرہے ہیں وہیں ماضی میں بہت سے مسائل حل کرنے والوں کے بارے میں مشکوک خیالات بھی جنم لے رہے ہیں ۔۔۔۔۔

ترجمہ ؟

ترجمہ؟
وہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ کم از کم نام لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔۔ اس پر عرض کی۔۔۔۔ آج کل کے دور میں نام لینے کے لیے بھی جیالا پن چاہیے۔۔
 
چونکہ تھوڑا بہت تعلق فلسفے سے رہا ہے اسلئے علامات کی کی تھوڑی بہت سمجھ ضرور ہے اب اگر اصل نظم میں موجود علامات ملاحظہ کیجئے تو جن معانی کا ظہور ہوتا ہے انکے پیچھے کیا کہانی ہے یہ ایک مخالف نظریہ رکھنے والا ہی جان سکتا ہے کہ چوٹ کہاں ماری جا رہی ہے ...

اگر علامات کا بیان بزبان ادب ہو تو ایک طرف معنویت میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری جانب تہ داری اور پیچیدگی کہیں زیادہ بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہے بظاھر سیدھے اور آسان سے الفاظ علامت بن جاتے ہیں گفتگو اصطلاحات میں چھپ کر ہوتی ہے اور مضمون سامنے ہونے کے باوجود کہیں پوشیدہ رہتا ہے ...

اصل نظم کا عنوان ہے

" میں اور شیطان دیکھ رہے تھے "

اور جوابی نظم ہے

" میں نے اور جبریل نے دیکھا "

یہاں دو علامات کا ٹکراؤ ہے اسے خالص فلسفہ دین اور فلسفہ لا دینیت کے تناظر میں ملاحظہ کیجئے یعنی یہ ایک فلسفیانہ بحث ہے کہ جو علامات کے پیچھے چھپ کر لڑی گئی ہے ...

عجیب بات ہے کہ اعتراض وہاں پر بھی ہوا کہ جہاں بنتا نہیں

نظم میں " میں " سے نہ تو مہدی علی خاں مراد ہیں
اور نہ ہی جواب آں نظم میں حسیب احمد حسیب اور یہ کافی سامنے کی بات ہے

" میں " فرق ہے دو نظریات کا ایک جانب لبرل کی آنکھ ہے اور دوسری جانب صوفی کی نگاہ

اب " جبریل " کہ جو علامت ہے ہدایت کی
اور شیطان کہ جو علامت ہے گمراہی کی .......

ہر دو مقابل ہیں ....

جبریل کا دیکھنا اور جبریل کی آنکھ سے صوفی کا دیکھنا معرفت کا معاملہ
شیطان کا دیکھنا اور اسکی آنکھ سے لبرل کا دیکھنا دھوکے کا منظر ہے ..

آگے چلیے

پہلا بند

جنت کی دیوار پہ چڑھ کر
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے
جو نہ کبھی ہم نے دیکھا تھا
ہو کر حیراں دیکھ رہے تھے

جوابی بند

دوزخ کی دیوار پہ چڑھ کر
میں نے اور جبریل نے دیکھا
جو نہ کبھی سوچا تھا میں نے
حیراں حیراں دیکھ رہا تھا

یہاں دوزخ یا جنت کے مناظر کا حیران کن ہونا کوئی اختلافی امر نہیں
" میں " کی وضاحت اوپر آ چکی
لازمی امر ہے کہ جب مہدی علی خان " جنت " کا مقدمہ اٹھاتے ہیں تو
جواب میں دوزخ کا منظر ہی دکھایا جاوے گا ......

دوسری طرف مبصر ہیں " جبریل "
اور
شیطان .......
 
اب ہم دوسرے بند پر آتے ہیں

وادیِ جنت کے باغوں میں
اف توبہ اک حشر بپا تھا
شیطاں کے ہونٹوں پہ ہنسی تھی
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا

جواب

وزخ کی گھاٹی میں ہر سو
وحشت تھی اک حشر بپا تھا
ایسا منظر کیا بتلاؤں
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا

عجیب بات ہے کہ وادی جنت کے باغوں میں حشر کا بپا ہونا تو قرآن سنت تو کیا فلسفیانہ استدلال کے بھی یکسر منافی ہے غور کیجئے " جنت " علامت ہے سکون و اطمنان کی جنت جا ہے نعمتوں کی خوشیوں کی راحت کی جنت سے مراد ہے انسانی ذہن اور روح کی کامل تسکین کی .....

اس عجیب و غریب بیان کو تو ادب شمار کیا جاوے اور جب خادم کہے دراصل دوزخ کی گھاٹی میں حشر بپا تھا وحشت تھی عجیب دل دھلا دینے والا منظر تھا تو ہلچل مچ جاوے .....

اب تیسرا بند ملاحظہ کیجئے

میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
جنت کا ہر منظر پیارا

جواب

میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
دوزخ کا ہر منظر گندا

یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں کہ لعنت کی مناسبت کس سے ہے دوزخ سے یا جنت سے ..

چوتھے بند پر نظر ڈالیں

موٹی موٹی توندوں والے
بدصورت بد ہیت ملا
خوف زدہ حوروں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے "ہا ہا"

جواب


ننگی ننگی ٹانگوں والے
بدصورت بد ہیت لبرل
خوف زدہ زنخوں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے " ھررا "

محترم اگر مولوی صحت مند ہو تو بد ہیت اور اگر لاغر ہو تو مفلوک الحال بے چارہ جائے تو جائے کہاں
اور بدصورتی کیا ہے کیا مولوی کی داڑھی اسکی ٹوپی اسکے سرپر سجی دستار یا اسکا مکمل لباس بدصورتی ہے ۔۔۔ ؟ سبحان الله .....

اور ہم جواب میں کہیں کہ لبرل کی برہنگی اور غیر فطری جنسی رویے بدصورتی ہیں تو ہمیں مورد الزام ٹھہرایا جاوے ....

صاحب نظم جب جنت کی اور حوروں کی توہین فرماتے ہیں تو گویا انکا مقصود دین کی اور خالق کی توہین ہے جواب میں خادم اسی فلسفے کا رد بطریق فلسفہ علامات کی شکل میں کرتا ہے ......

موصوف کا مقصود یہ ہے کہ دین و مذھب خواتین کے حقوق کا غاصب ہے انہیں بندھن میں باندھتا ہے ہاں اگر آزاد روی و بے حیائی کے کھلے مواقع ہوں اور جنسی تعلقات میں قیود نہ ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں

خادم کہتا ہے اجی آپ آزاد جنسی تعلقات پر کہاں رکنے والے بلکہ آپ تو غیر فطری جنسی تعلقات کے خواہاں ہیں " ہم جنس پرستی " آج لبرلز کا خصوصی شعار ہے ....
 
پانچواں بند

"بچ کے کہاں جاؤ گی؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے

جواب آں بند

"بچ کے کہاں جاؤ گے ؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے

یہاں صرف منظر کشی ہے بظاھر کوئی فرق نہیں ایک صاحب دوزخ دکھلا رہے ہیں تو دوسرے جنت یہ اور بات ہے کہ جنت و دوزخ حقیقی نہیں علامتی ہیں ........

چھٹا بند


ڈر کے چیخیں مار رہی تھیں
حوریں ریشمیں ساڑھیوں والی
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے شکلیں داڑھیوں والی

جوابی بند

ڈر کے چیخیں مار رہے تھے
زنخے ریشمی کپڑوں والے
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے لبرل ننگے پنگے

موصوف چونکہ ساکن ہندوستان تھے اور شاید ساڑھیوں والی لبرل خواتین (ماروی سرمد صاحبہ یاد آ گئیں)
سے کافی متاثر اور شاید انہی کو حوریں سمجھتے ہوں مسلمانو کے نظریہ جہاد سے منسلک مال غنیمت اور خواتین کے بطور ملک یمین ہاتھ آنے کو ہدف تنقید بناتے ہیں .......

تاریخ اسلامی کے مناظر ذہن میں تازہ کیجئے
معرکہ بدر و حنین
اسلامی جنگوں میں ہاتھ آنے والی لونڈیاں اور ان سے متعلق قرآن و سنّت کے میں موجود احکامات اور ہاں یہاں ولن ہیں داڑھیوں والے مجاہد .....

جواب میں خادم نے توجہ دلائی ہے کہ جناب من ہمارے ہاں تو لونڈیوں کے بھی متعین حقوق ہیں آپ کے ہاں تو کسی بھی عورت یا مرد سے فائدہ اٹھایا اور رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوا ...
 
ساتواں اور آخری بند

میں اور شیطاں لب بہ دعا تھے
اے الله بچانا ان کو
اپنی رحمت کے پردے میں
اے معبود چھپانا ان کو

جوابی بند

میں نے اور جبریل نے بولا
اپنے قہر کی آگ میں انکو
دوزخ کی اس تیز تپش میں
اے معبود جلانا
تو ، تو.!

لیجئے یہاں صاحب نظم مولوی یا مذہبی کو بطور ولن پیش کر کے حوروں کی حفاظت کی دعا الله سے مانگ رہے ہیں اور دعا میں شریک دعا حضرت شیطان ہیں .....

دراصل ہیں منطقی سوال یہ ہو ہو سکتا تھا کہ کیا خالق حقیقی مالک کائنات اس قدر بے بس بھی ہو سکتا ہے کہ اسکی بنائی ہو جنت میں وحشت زدہ مولوی بڑھی ہوئی داڑھیوں کے ساتھ گھس جائیں اور دند مچاتے پھریں ......
لیکن اگر گہرائی سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پور نظم ہیں " شیطان " علامت ہے بغاوت کی

فلسفہ یہ کہتا ہے کہ بھی شیطان بھی ایک لبرل ہوگا کہ سجدے سے انکاری ہوا سر اسکی حریت فکر نے اسکی انا اور اسکی خود داری نے اسے کسی خدا کے آگے جھکنے پر مجبور نہ ہونے دیا ..

ہاں جبریل علامت ہے تسلیم و رضا کی حکم کے سامنے سر جھکا دینے کی .....

اور جہاں تک بات ہے عذاب کس کی قسمت ہوگا اور راحت کس کی تو اس اسکی وضاحت آسمانی صحیفوں میں واضح موجود ہے ہاں مگر وہ کہ جو ایمان نے لائے .
 

شکیب

محفلین
اصل نظم فقیر پہلے بھی پڑھ چکا ہے، اور پسند مجھے بھی نہیں آئی تھی۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ایسے لغو مزاح پر جواب بھی دینے کی ضرورت ہے۔
 
بھئی دونوں موقف اپنی اپنی جگہ درست ہیں، یعنی حسیب بھائی کا موقف بھی اور ظہیر بھائی کا موقف بھی، چونکہ میں دونوں کا قائل ہوں اس لئے دونوں کی تائید کرتا ہوں۔
دونوں الگ الگ تناظر میں نظر آتے ہیں اور متعلقہ تناظر میں درست ہیں۔
 
بھائی ۔ اصل میں نے نہیں پڑھی اور نہ ہی میں اس قسم کے ’’ادب‘‘ پر وقت ضائع کرنے کا قائل ہوں ۔ وہ غالب ہوں ، اقبال ہوں یا کوئی بھی ہوں اصول اصول ہے ۔ اس قسم کی تخلیقات میں کئی مسائل ہیں:
۱۔ ایک تو یہ کہ جنت دوزخ کوئی کھیل مذاق نہیں ہیں ۔ اللہ کی نشانیاں ہیں ۔ ان سے ڈرنا چاہیئے اور ان کا کماحقہ ادب احترام ایمان والوں پر لازم ہے ۔ ان کے بارے میں لطیفے بنانا ، واقعات یا جھوٹی شاعری گھڑنا مناسب نہیں ۔ بخدا اگر کوئی جہنم کو دیکھ لے تو اسے عمر بھر نیند نہ آئے اور عمر بھر کوئی معصیت نہ کرے ۔
۲۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ ہمارا خاتمہ بالخیر ہوگا یا نہیں ۔ کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ جنت یا جہنم میں جائے گا ہمارا منصب نہیں ۔ مشرک بھی اگر توبہ کرلے تو اللہ کریم اسے معاف کردین گے ۔ بابِ توبہ ظہورِ قیامت تک کھلا ہے ۔
۳۔ جبریل یا کسی اور ذات پر جھوٹ باندھنا کہ اس نے یہ کہا اور وہ کہا مناسب نہیں ۔ یہ بہتان کے ضمن میں آتا ہے ۔
۴۔ جنت اور دوزخ کے متعلق ہمارا مبلغ علم صرف قرآن و حدیث سے کشید ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ہمیں ان کی کیفیات کا کوئی علم نہیں ۔ اب یہ کہنا کہ لوگ جہنم میں ہنس رہے ہیں ، ناچ رہے ہیں ، گا رہے ہین وغیرہ وغیرہ ۔ اور ریشمی کپڑوں والے فلانے ڈھمکانے اس میں دیگر لوگوں سے ڈر رہے ہیں یہ سب کہاں سے معلوم ہوا ؟ ایسا کہنا تو اہلِ عقیدہ کی شان کے خلاف ہے ۔
۵۔ نیز یہ کہ ہمیں بھٹکے ہوئے لوگوں پر طنز و تشنیع کے بجائے آخر تک ان کی اصلاح اور انقلابِ قلب کے لئے دعا اور کوشش کرنی چاہیئے کہ یہی رسول اللہ کا طریقہ اور تعلیم ہے ۔

جب اچھے مسلمانوں کو اس طرح کی سطحیت اور جذبہءانتقام کا شکار ہوتے دیکھتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور سب دوستوں کو شعور و فہم اور صبر و ضبط عطا فرمائے ۔ میری طرف سے اس لڑی میں یہ آخری مراسلہ ہے ۔ میں ان موضوعات پر پبلک فورم میں گفتگو کا قائل نہیں ہوں ۔ بس آج کچھ درد میرے دل مین سوا اٹھا تھا ۔
بے شک آپ کی بات درست اور تقویٰ میں بڑھی ہوئی ہے حقیقت یہی ہے کہ اعراض زیادہ بہتر ہے مگر احسن طریق پر مجادلے کی بھی اجازت ہے .
 

زیک

مسافر
اچھا ہوا شاعری کے ساتھ ساتھ اس کی تشریح بھی آ گئی۔ باقی شعراء ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے۔
 

علی خاور

محفلین
یہاں پر مجھے لگتا ہے جن لوگوں کا ذکر ہے اُن کے بارے میں قرآن میں ارشاد فرما دیا گیا ہے
هَلْ اَتَاكَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِ (1)
کیا آپ کے پاس سب پر چھا جانے والی (قیامت) کا حال پہنچا۔
وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (2)
کئی چہروں پر اس دن ذلت برس رہی ہوگی۔
عَامِلَ۔ةٌ نَّاصِبَةٌ (3)
محنت کرنے والے تھکنے والے۔
تَصْلٰى نَارًا حَامِيَةً (4)
دہکتی ہوئی آگ میں کریں گے۔
 
Top