مریم افتخار
محفلین
کیا کروں کہ اِس ایک فقرے کے علاوہ سب غلط سا محسوس ہو رہا ہے۔سب بڑوں سے التماس ہے کہ کوئی ہمیں نہ روکے نہ ٹوکے۔
آخری تدوین:
کیا کروں کہ اِس ایک فقرے کے علاوہ سب غلط سا محسوس ہو رہا ہے۔سب بڑوں سے التماس ہے کہ کوئی ہمیں نہ روکے نہ ٹوکے۔
کیا خاک لکھا۔۔۔لاجواب۔سب کے بارے میں بہت اچھا لکھا۔
میرے بارے میں جو لکھا واہ کیا لکھاکیا خاک لکھا۔۔۔
جو ہمارے بارے میں نہ لکھا!!!
اب تم پر لازم ہے کہ وہ ’’پوشیدہ گر‘‘ سب کو بتادو!!!میرے بارے میں جو لکھا واہ کیا لکھا
اور جو سیکھا وہ بتادوںاب تم پر لازم ہے کہ وہ ’’پوشیدہ گر‘‘ سب کو بتادو!!!
جلدی جلدی بتاؤ!!!اور جو سیکھا وہ بتادوں
پھر کبھیجلدی جلدی بتاؤ!!!
ظہیراحمدظہیر:
اس قدر پیاری نیچر کے مالک ہیں کہ قطعاََ حوصلہ شکنی نہیں کرتے۔ شاید یہ واحد شاعر ہیں (محفل کے) جن کے اشعار پڑھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ایسا کبھی نہیں لکھ سکتی۔حتیٰ کہ میں محسوسات کی اُن بلندی پر بھی نہیں پہنچ سکتی۔ حالانکہ عام طور پر میں اس نیچر کی نہیں اور میں یہ سمجھتی ہوں کہ میں سب کچھ کر سکتی ہوں، بس ذرا دیر کو ذرا سی ترجیح اسے دے ڈالوں ۔ ان کے معیار میں اور خود میں بہت فرق سمجھتی ہوں مگر اس کے باوجود جب بھی اصلاح کرتے ہیں تو ایسے کہ اپنی اغلاط پر بھی پیار آتا ہے اور کہیں شعر لکھا دیکھیں کسی جونئیر شاعر کا تو بے حد حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ناقدین چاہے لاکھ ہماری اصلاح کی کوشش کر رہے ہوں مگر کہیں نا کہیں ایک وہ عنصر ہوتا ہے جو دل کو توڑ دیتا ہے یا ہلکا سا قلق ہوتا ہے کہ اتنی دیر میں لکھی گئی تخلیق کا یہ حال؟ محسوسات سب جھوٹ ہیں۔۔۔ سچ ہے تو بس عروض؟
مگر یہ محفل کے واحد ناقد ہیں کہ ان کا تنقید کا انداز تہہ دل تک حوصلہ افزائی لیے ہوئے ہوتا ہے اور اس میں ذرہ برابر کوئی اور رمق مجھ ایسے طالبِ علم کو نظر نہیں آتی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آپ ڈینسٹ کے پاس جائیں اور وہ باتوں ہی باتوں میں آپ کا دانت کھینچ کر الگ کر دے اور آپ کو اوئی کرنے کہ مہلت بھی میسر نہ ہو اور مستزاد اس پر یہ کہ کوئی فیس بھی نہ لے۔
اگر مجھے ایک پلے ارینج کرنا ہو تو میں ساس بنوں گی اور ان کو بڑی بہو کا رول دوں گی۔ ساس بسترِ مرگ پر ہے۔ گھر (محفل) کو سراسر اپنا سمجھتی ہے۔ پھر اس کی ہارٹ بیٹ سیدھی لائن ہونے لگتی ہے۔
دُھوم تاناااا
دُھوم تانااااا
دُھوم تاناااااا
پھر وہ آنکھیں کھولتی ہے، بجھتے ہوئے چراغ کی لَو ایک بار پوری شدت سے پھڑپھڑاتی ہے۔وہ اپنی بہو کو کہتی ہے کہ اب مَیں چَین سےمر سکتی ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ میرا گھر محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ہم تمہاری ویسی قدر نہیں کر پائے جیسی چاہئیے تھی، میرے بعد سب کا خیال رکھنا اورررر۔۔۔
سانس رُکتی ہے۔۔۔۔۔
دھوم تاناااااااا۔۔۔۔دھوم تانااا۔۔۔
اور۔۔۔۔ غیر متفق کی ریٹنگ کو منفی ریٹنگز کی شماریات سے نکال دینا!
ساس آخری ہچکی لیتی ہے!
پردہ گرتا ہے!