مہ جبین
محفلین
السلام علیکم
آج سوچا کہ محفل کی سالگرہ کے حوالے سے کچھ مسکراہٹیں بانٹنے کا کام میں بھی کر لوں
تاکہ میں بھی انگلی کٹا کر۔۔۔۔۔
ایک طنزیہ و مزاحیہ غزل پیشِ خدمت ہے
امیرالاسلام ہاشمی کی " خدمات "
انکی زبانی ملاحظہ فرمائیں
میں کہ شاعر نہ سہی ، صاحبِ دیوان تو ہوں
پھول اوروں کے سہی ، مالکِ گلدان تو ہوں
گُل ہیں چوری کے ہزاروں میرے گلدانوں میں
کتنے بے نام چھپے ہیں مرے گلدانوں میں
خوشہ چیں ہوں سبھی خوشوں کو چنا ہے میں نے
لوگ سر دھنتے ہیں شعروں کو دُھنا ہے میں نے
نور کو اور علیٰ نور کیا کرتا ہوں
شعر کاری تو بدستور کیا کرتا ہوں
داغ و اقبال کا ، فانی کا ، جگر کا چشمہ
میں لگاتا ہوں ہر اک اہلِ نظر کا چشمہ
میر کے شعروں میں تم بوجھو پہیلی میری
سیم تن آکے کھجاتے ہیں ہتھیلی میری
بے دھڑک چڑھ گیا میں درد کے زینو ں پہ کبھی
شعلے برسا دیئے آتش کی زمینوں پہ کبھی
ہر گڑے مردے کو اک پل میں اکھاڑا میں نے
چِت کیا انشاء کو ناسخ کو پچھاڑا میں نے
پھر سے تازہ کئی دیوانوں کا ایمان کیا
میں نے مومن کو کئی بار مسلمان کیا
سارے استادوں کو انگلی پہ نچایا میں نے
بارہا داغ کو بے داغ بنایا میں نے
دیکھتے اب بھی ہیں حیرت سے مجھے جام و سبو
جوش کے شعروں کو میں نے ہی کرایا ہے وضو
شعر کے واسطے شیروں سے لڑائی کی ہے
میں نے دربار پہ اکبر کے چڑھائی کی ہے
ٹھونک کر سینہ کرے چوری وہ رستم ہوں میں
کھینچتے ہیں جسے استاد وہ ٹم ٹم ہوں میں
ہر غزل پر تو نہیں آتی طبیعت میری
ہو جو اچھی تو بدل جاتی ہے نیت میری
میر کو توڑا تو سودا کو مروڑا میں نے
ذوق کیا چیز ہے غالب کو نہ چھوڑا میں نے
چند الفاظ کی بس ردو بدل ہوتی ہے
پھر وہ جس کی ہو غزل، میری غزل ہوتی ہے
میری پھونکوں نے بجھائے کبھی حسرت کے چراغ
میں نے بے فیض کئے فیض کے مینا و ایاغ
لوگ کہتے ہیں میں کرتا ہوں ادب کے ٹکڑے
میں تو ہنس ہنس کے کیا کرتا ہوں سب کے ٹکڑے
( جاری ہے )