مغزل
محفلین
مغل کا اوتارًمغل بھائی کے اوتار سے لگتا ہے کہ وہ زندگی کی تمثیلوں کے اوتار چڑھاؤ سے بخوبی واقف ہیں ۔ مگر ایک شاعر آدمی کیا کر سکتا ہے ۔ سوچ سکتا ہے ، لکھ سکتا ہے ۔ مگر کسی کو مجبور نہیں کرسکتا ۔ اوتار میں انسان کی زندگی کے دو رخ جھلک رہے ہیں ۔ یعنی کبھی خوشی ، کبھی غم ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مغل بھائی نے اس حقیقت کو نہ صرف جان لیا ہے ، بلکہ قبول بھی کرلیا ہے ۔ قصہ مختصر ۔۔۔۔
زندگی ہنس کے گذرتی تو ، بہت اچھا تھا
خیر ہنس کے نہ سہی ، رو کے گذر جائے گی
( نوٹ : یہ تجزیہ مغل بھائی کے اوتار کے حوالے سے ہے ۔ پلیز اسے مغل بھائی کی شخصیت میں کسی اور پہلو سے پیوست نہ کجیئے گا ۔ شکریہ )
جبکہ دستخط میں دو روابط دئیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک اپنا ہی شروع کیا ہوا تھریڈ ہے۔ جس کا عنوان کچھ یوں ہے۔
وہی بات ہے کہ واقعی حساس ہیں ۔ اپنی بات کہتے ہیں ۔ دل سے کہتے ہیں ، سچائی سے کہتے ہیں ، ایمانداری سے کہتے ہیں ۔ کو ئی اس کو رد تو دور تو دور کی بات ، نظر انداز بھی کردے تو ان کے لیئے وہ بہت تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے ۔ پھر تھوڑے سے تلخ ہوجاتے ہیں ۔ جب اپنے محاسبے کے لیئے تیار رہتے ہیں تو کسی دوسرے کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں ۔
ظفری صاحب ۔۔ آپ ظفریاب سے مظفریاب ہوئے جاتے ہیں۔
آپ کی بات دل کو لگتی ہے ۔۔ مگر میں سوچتا ہوں ۔۔ کاش جیسا آپ نے کہا
ویسا میں ہو بھی جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ دعا کیجئے گا نا ؟؟
میرے دوست عزیز مرزا کا ایک شعر آپ کی نذر:
یہ شہرِ دل نہیں ہے شہرِ آثارِ قدیمہ ہے
سماعت ہو تو یاں ایک ایک پتھر بات کرتا ہے ۔
والسلام