نئے صوبوں کی ضرورت

ظفری

لائبریرین
صوبوں یا ضلع کی تقسیم ۔۔۔۔ یہ سب ریاستی انتظامی امور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک اور باشعور ، پڑھی لکھی قومیں ایسے انتظامات کرتیں رہتیں ہیں‌۔ امریکہ میں بھی اسٹیٹ سے لیکر کاؤینٹیز اور پھر چھوٹے چھوٹے ڈسٹرکٹ کے ریاستی انتظامی نظام موجود ہیں ۔ اس طرح کسی بھی اسٹیٹ کے ہر حصے میں ترقیاتی یا دیگر امور پر نہ صرف نظر رکھنا آسان ہوتا ہے ۔ بلکہ ان کے مسائل کو بھی سمجھنا آسان ہوتا ہے ۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں‌جو بھی صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے بات کرتا ہے ۔ وہ زبان اور علاقائی نکتہ نظر سے کرتا ہے ۔ یہاں قوم کو مذید رنگ و نسل اور زبان میں تقسیم کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ اس کا کوئی بھی تعلق ریاستی انتظامی امور سے قطعی نہیں بنتا ۔ ہم ہندوؤں کی ذات پات پر انگلیاں اٹھاتے نہیں چوکتے مگر خود نسلی اور لسانی بنیاد پر تقسیم ہونا چاہتے ہیں ۔ اگر صوبوں کی تقسیم سے مراد ملک میں ریاستی انتظام بہتر بنانا ہے تو پھر علاقائی اور نسلی و لسانی بنیاد پر صوبے کا مطالعہ کیا معنی رکھتا ہے ۔
 
نئے صوبوں کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے اوراب ٹی وی پر مذاکرے شروع ہو گئے ہیں اور سنا ہے کہ اس مطالبہ کو ایوان صدر کی حمایت حاصل ہے۔
 

arifkarim

معطل
نئے صوبوں کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے اوراب ٹی وی پر مذاکرے شروع ہو گئے ہیں اور سنا ہے کہ اس مطالبہ کو ایوان صدر کی حمایت حاصل ہے۔

یا یوں کہیں کہ ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہے :grin:
آج صوبوں کا مطالبہ کیا ہے۔ کل پورے ملک کا مطالبہ کریں گے :whistle:
 
یار ہمارا بہاولپور تو ایک آزاد ملک تھا لوگ اب کہتے ہیں نوابوں کے زمانے میں زندگی آج سے بہتر تھی تو اس میں جھوٹ کیا ہے۔میرے خیال میں جنوبی پنجاب کی حالت ابتر ہے اس سے پہلے کہ کوئی سیریس مسئلہ کھڑا ہو اس کو علیحدہ صوبہ بنا دینا چاہیے۔

اب بہاولپور میں غربت کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے
رياست بہاولپور کی سابقہ حیثیت کو بھال کیا جائے
490px-Punjab_Districts.png
 

مغزل

محفلین
میری رائے میں تو 126 شہروں کے 126 صوبے بنائے جائیں ، 126 وزیرِ اعلی، 283 مشیر اور ایک بڑی تعدا د لوٹوں کی پیدا ہوگی ، جس سے ملک میں جمہوریت کو فرغ ملے گا۔، لوگ لندن نا بھاگیں گے۔ بلکہ یہیں کھاؤ پیو ٹرخاؤ مکاؤ کی پالیسی پر عمل کرسکیں‌گے ، پھروزیروں کی اتنی بڑی فوج ِ مظفر موج جب ’’ امداد ‘‘ کے نام پر ’’ بھیک ‘‘ مہم پر نکلے گی تو خوب مال جمع ہوگا، جو جمہوریت کے فروغ میں کام آئے گا۔ والسلام
 
انتظامی لحاظ سے مزید صوبوں کی ضرورت واقعی بنتی ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ ایک سیاسی شوشہ زیادہ لگتا ہے
 

دوست

محفلین
شکر ہے ملتان کہا ہے فیصل آباد نہیں کہا ، ورنہ انھوں نے جغتیں مار مار کر مار دینا تھا ۔۔ ویسے حیرت ہے کہ محفل پر فیصل آباد سے کوئی نہیں ۔۔
خیر یہ بتائیں جناب کہ ۔۔ صوبہ کے بعد کیا کیا تجاویز ہیں ۔۔۔ ملتان ہو گیا ۔۔ آگے ۔۔۔۔
وسلام
آداب عرض ہے جی فیصل آباد سے ہی ہوں۔:grin:
 

مغزل

محفلین
صاحب یہ کھانے ڈکارنے کے لیے مل بیٹھنے کا بہانہ ہے ۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
موجودہ صوبوں کو ہی ان کے حقوق دے دیے جائیں تو مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔
 

راشد احمد

محفلین
درست فرمایا مزید ‌صوبوں کا ہونا ضروری ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ایک شوشہ ہے
پیپلزپارٹی سرائیکی‌صوبے کا شوشہ اس لئے چھوڑ رہی ہے کہ وہاں ان کی اکثریت ہے اور اگر وہ صوبہ بن گیا تو پیپلزپارٹی کی‌حکومت قائم ہوسکتی ہے
لیکن دوسری طرف پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب میں اقتدار سے محروم ہوجائے گی اور ن لیگ کی اکیلی حکومت ہوسکتی ہے

مجھے محمد علی درانی سے حیرت ہوتی ہے جوبہاولپور کا رہائشی ہی نہیں ہے اور وہ خود وہاں چھ ماہ بیٹھ کر لابنگ کررہا ہےاس کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں۔ محمد علی درانی کا پس منظر کچھ خاص نہیں ہے
کہ وہ پہلے جماعت اسلامی کی تحریک شباب ملی میں شامل تھا بعد میں وہ تحریک انصاف میں شامل رہا۔ وہاں سے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر اسے نکال دیا گیا پھر وہ شباب ملی میں شامل ہوا۔ اس کے بعدفاروق لغاری کی پارٹی ملت پارٹی میں شامل ہوا۔ ملت پارٹی کے بعد ق لیگ میں شامل ہوا۔ آج کل وہ سیاسی یتیم کی زندگی گزار رہا ہے۔

آج کل سترہویں ترمیم کا مسئلہ، سوات آپریشن چل رہا ہے شاید ان پر پردہ ڈالنے کے لئے صوبوں کی تقسیم، پانی کے مسئلہ کے ایشو چھیڑے جارہے ہیں لیکن اگر ن لیگ نے کالاباغ ڈیم کا ایشو چھیڑ دیا تو یہ ایشو بے معنی ہوجائیں گے۔
 

راشد احمد

محفلین
میری رائے میں تو 126 شہروں کے 126 صوبے بنائے جائیں ، 126 وزیرِ اعلی، 283 مشیر اور ایک بڑی تعدا د لوٹوں کی پیدا ہوگی ، جس سے ملک میں جمہوریت کو فرغ ملے گا۔، لوگ لندن نا بھاگیں گے۔ بلکہ یہیں کھاؤ پیو ٹرخاؤ مکاؤ کی پالیسی پر عمل کرسکیں‌گے ، پھروزیروں کی اتنی بڑی فوج ِ مظفر موج جب ’’ امداد ‘‘ کے نام پر ’’ بھیک ‘‘ مہم پر نکلے گی تو خوب مال جمع ہوگا، جو جمہوریت کے فروغ میں کام آئے گا۔ والسلام
مزید اضافہ فرمالیں
ہر صوبے میں 30 وزارتیں یعنی 126 صوبوں کی 3780 وزارتیں ہوں گی۔ 126 صوبائی اسمبلیاں، 126 ہائی کورٹس، 126 گورنرز اور اور اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

راشد احمد

محفلین
میری رائے میں تو 126 شہروں کے 126 صوبے بنائے جائیں ، 126 وزیرِ اعلی، 283 مشیر اور ایک بڑی تعدا د لوٹوں کی پیدا ہوگی ، جس سے ملک میں جمہوریت کو فرغ ملے گا۔، لوگ لندن نا بھاگیں گے۔ بلکہ یہیں کھاؤ پیو ٹرخاؤ مکاؤ کی پالیسی پر عمل کرسکیں‌گے ، پھروزیروں کی اتنی بڑی فوج ِ مظفر موج جب ’’ امداد ‘‘ کے نام پر ’’ بھیک ‘‘ مہم پر نکلے گی تو خوب مال جمع ہوگا، جو جمہوریت کے فروغ میں کام آئے گا۔ والسلام
مزید اضافہ فرمالیں
ہر صوبے میں 30 وزارتیں یعنی 126 صوبوں کی 3780 وزارتیں ہوں گی۔ 126 صوبائی اسمبلیاں، 126 ہائی کورٹس، 126 گورنرز اور اور اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
لیکن یہ عوام کا مطالبہ نہیں ، رائے شماری کرلیتے ہیں ،۔ آئیے اسی محفل میں ۔۔ یہاں ڈنڈی بھی نہیں‌ماری جاسکتی۔ ایک ممبر ایک ہی ووٹ دے سکے گا، ایم "کیو ں "ایم کی طرح ٹھپے تھوڑا ہی لگاتےہیں
 

ساجداقبال

محفلین
ہمارے جنوبی سرحد کے اضلاع یعنی کوہاٹ، کرک، ہنگو، بنوں، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی پسماندگی میں جنوبی پنجاب جیسی تصویر پیش کرتے ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ شمالی سرحد سے مختلف ہیں۔ میں بھی ایک صوبے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ جس کا نام بنوں کے مناسبت سے نسوارستان، یا کوہاٹ کے لحاظ سے امرودستان، ہنگو کے لحظ سے فرقہ وارستان، کرک کے لحاظ سے تعلیمستان یا لکی مروت کے لحاظ سے مروتستان یا پھر ڈیرہ کے لحاظ سے ڈیرستان رکھا جائے۔
 

طالوت

محفلین
معذرت دوست آپ کو تو میں بھول ہی گیا ۔۔ خیر یہ بتائیے کہ فیصل آباد کے عوام کی کیا رائے ہے نئے صوبوں کے بارے میں اور وہ سرائیکی صوبے میں خود کو شامل کرنے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
میرے خیال میں تو چاروں صوبوں کو توڑ کر ایک متحد پاکستان بنا دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ یہ روز روز کا ٹنٹا تو ختم ہو۔

ون یونٹ سے اگرچہ کچھ اچھی یادیں نہیں مگر ہمیں مطالبہ ون یونٹ کا کرنا چاہیے ۔۔ خصوصا ظفری نے جس طرح صوبوں کے مطالبے کے پس منظر و پیش منظر کو بیان کیا ہے اس حساب سے تو یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسی بات ہے ۔۔ حقوق تو ہمیں بھی نہیں ملتے ورنہ دیار غیر میں دھکے نا کھاتے پھرتے لیکن اس ایک وجہ سے کسی ایسے کام کی حمایت نہیں کی جا سکتی جس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ ہو۔

رہی ایم کیو ایم کی اس مطالبے کی حمایت تو اگر ایم کیو ایم منفاقانہ طرز عمل ترک کرتے ہوئے سندھ میں بھی تقسیم کی بات کرے تو تماشہ دیکھئے گا۔۔ ہزارہ میں تو یہ مطالبہ ویسے بھی کیا جاتا ہے اور بلوچستان والے اللہ لوگ ہیں وہ ان فضول باتوں سے دور ہی رہتے ہیں ۔۔

وسلام
 

طالوت

محفلین
بھئی یہ بلی تو عرصہ ہوا تھیلے سے باہر ہے بس ہم ذرا کان کے کچے ہین ۔۔
وسلام
 
Top