فاروقی
معطل
امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کہاں تک کامیاب رہا؟ پاکستان کے ہاتھ کیا آیا؟ اس جنگ کاکوئی دوسرا سرا بھی ہے؟ بندوقوں والے عسکریت پسند میزائلوں اور بغیر پائلٹ کے بمبار طیاروں کا کب تک سامنا کرپائیں گے؟ کیا اس جنگ کے پیچھے بڑی طاقتوں کی سیاسی یا اقتصادی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں؟ اس جنگ کے نئے ’میدان‘ پاکستان کے لیے کیا اب موقع ہے کہ وہ کسی کردار سے انحراف کر سکے؟ ان سوالوں کے جوابات وائس آف امریکہ کے پروگرام ’آج شام‘کے خصوصی شو میں امریکہ اور پاکستان کے ماہرین سے لیے گئے۔ یہ پروگرام امریکہ پر گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملو ں اورتین ہزار کے قریب ہلاک ہونے والوں کی ساتویں برسی کے موقع پرخصوصی طور پر ترتیب دیا گیا۔
صحافی، تجزیہ کار اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر، آج ٹی وی سید طلعت حسین جنہوں نے اپنے چینل کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر پروگرامز پر مشتمل سیریز تیار کی ہے، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکریت پسندی کی حالیہ لہر میں پشتون نظر نہیں آتے مگر مارے جانے والوں میں ضرور شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے مقامی افراد امریکہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتے البتہ جن غیرملکی عسکریت پسندوں کا ذکرکیا جاتا ہے ان کے بارے میں بھی دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہاں کی پیداوار نہیں ہیں آخر کسی ملک کی سرحد پار کر کے یہاں آتے ہیں۔اس صورت میں وہ ملک بھی برابر کے قصوروار ہیں۔ سارا ملبہ پاکستان پر نہیں ڈالنا چاہیے۔
طلعت حسین نے کہا کہ آج جس طرح پاکستان کو میدان جنگ بنایا جا رہا ہے، تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ امریکہ کے اہداف میں صرف دہشت گردی کا خاتمہ شامل نہیں بلکہ اس کے سیاسی اور اقتصادی مقاصد بھی کار فرما ہیں۔ اور جب اس تناظر میں دیکھا جائے کہ اسی خطے میں ایران اور چین بھی موجود ہیں تو یہ دلیل موثردکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے امریکی قیادت کے اس تجزیے کو درست ماننے سے انکار کیا کہ قبائلی علاقے امریکہ کے لیے کوئی خطرہ ہو سکتے ہیں۔
طالبان
امریکی تھنک رینڈ کارپوریشن کی سینئر پولیٹیکل سائنٹسٹ کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ بلاشبہ پاکستان کے قبائلی علاقے خطرات سے خالی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دلیل بہت پرانی ہو چکی ہے کہ جن لوگوں کی بنیادی ٹیکنالوجی تک دسترس نہیں وہ کیا قیامت برپا کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی دہشت گردی ہوتی ہے یا اس کا منصوبہ سامنے آتا ہے، تقریبا تمام واقعات میں کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کا نام ضرور آتا ہے۔
نائن الیون کے ایک دنیا پر اثرات کے حوالے سے کرسٹین فیئر نے کہا کہ اس واقعے کے بعد دنیا کے تقریبا تمام ملکوں کے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ خاص طور پر امریکہ کے جس کو عالمی سطح پر مہم شروع کرنا پڑی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم تعلیم اور صحت جیسے انسانی ترقی کے شعبوں پر خرچ ہو سکتی تھی۔
نائن الیون کے تناظر میں پاکستان امریکہ تعلقات کے حوالے سے کرسٹین فئیر نے کہا کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات نائن الیون سے پہلے بھی تھے اور اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قیادت امریکہ سے پیسے لینے میں خوش ہے لیکن اپنے وعدے پورے نہیں کرتی۔ دوسری طرف امریکہ میں ان وعدوں کی پاس داری نہ ہونے کے باوجود مزید رقوم ادا کرنے سے انکار کا سیاسی عزم مفقود ہے۔یہ ایک مسلسل چکر ہے۔ امریکی اس بات پر ناخوش ہیں کہ تیرہ ارب ڈالر کی امداد کے باوجودپاکستان پہلے سے زیادہ غیر مستحکم ہے اور پاکستانیوں کی تنقید اس لحاظ سے بجا ہے کہ امداد کا زیادہ تر حصہ فوج پر خرچ کیا جاتا ہے نہ کہ جمہوری اداروں اور عوام پر۔کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خفیہ ادارے درست معلومات کا تبادلہ نہیں کرتے۔
پاکستان کے سابق نگران وزیرداخلہ لیفٹنینٹ جنرل (ر) حامد نواز نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بلاشبہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا عنصر موجود ہے لیکن یہ اس قدرمضبوط نہیں کہ عالمی طاقتوں کے لیے کوئی بڑا خطرہ بن سکے۔ پاکستان کے علاقوں کے اندر براہ راست امریکی آپریشن کو انہوں نے ’ پالیسی شفٹ‘ قرار دیا۔اور اسی حوالے سے پاکستان اور امریکہ کی فوجی قیادت میں آج سامنے آنے والے واضح اختلاف پر انہوں نے کہا کہ تعاون اوررابطوں کے طریقہ کار پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی امریکہ میں شعبہ تعلقات عامہ کے پروفیسر اور تجزیہ کار عادل نجم کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے سات سال بعد امریکہ میں اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو جنگ شروع کی گئی وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ جو بڑے اہداف تھے آج بھی پہنچ سے باہر ہیں اور پہلے سے زیادہ مضبوط بتائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
مڈل ایسٹ سٹڈیز سے وابستہ پروفیسر ڈیوڈ میڈنیکوف نے کہا پاکستان کی طرف اٹھنے والی انگلیاں بے جا نہیں۔ فوجی، سفارتی اور خفیہ کے ادارے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہاں کچھ ہو رہا ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ایسی اطلاعات کو سوفیصد یقین کے ساتھ درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر اور تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس جنگ کا دوسرا سرامستقبل قریب میں نظر نہیں آتا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلی جنس کے بڑے نیٹ ورکس کے باوجود اگر امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے کوئی بڑاہدف حاصل نہیں کر سکے تو ایسی اطلاعات کو بے بنیاد ہی خیال کیا جا سکتا ہے۔
سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب خان نے کہا کہ اس جنگ کو پاکستان سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف النوع طریقے اختیار کیے جائیں۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ غیرملکی عسکریت پسندوں کے ساتھ طاقت سے نمٹنا چاہیئے، قبائلیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیں اور طاقتوراتحادیوں کو قائل کرنا چاہیئے کہ پاکستان کو اس طریقے سے مسئلہ حل کرنے دیا جائے جسے وہ مناسب خیال کرتا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ نائن الیون کے بعد جو مہم شروع ہوئی، اس وقت پاکستان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کا حصہ نہ بنتا لیکن آج حالات اس نہج پر ہیں کہ عالمی اتحادیوں کو سفارتی سطح پرقائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حالات اقتصادی ، سیاسی اورامن و امان کے لحاط سے سال دوہزار دو کی نسبت آج بدتر ہیں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نائن الیون کے بعد کی صورتحال کو قائد اعظم محمد علی جناح کی ساٹھویں برسی کے تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جو عسکریت پسندی کی لہر دیکھنے میں آتی ہے اور اس ریاست کا حصہ نہیں ہونا چاہیئے تھی جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم ایک لبرل ریاست کے حامی تھے اور حالات اس سے بالکل مختلف ہیں۔
نائن الیون کے واقعے میں ہلاک ہونے والی ایک خاتون جوڈی لی میک کی بیٹی کیری لی میک نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصدعسکریت پسندوں کو ہلاک کرنا نہیں بلکہ ان کی سوچ کی تبدیلی ہونا چاہیئے۔
سورس