نائن الیون: امریکی اورپاکستانی مبصرین کا تجزیہ

فاروقی

معطل

امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کہاں تک کامیاب رہا؟ پاکستان کے ہاتھ کیا آیا؟ اس جنگ کاکوئی دوسرا سرا بھی ہے؟ بندوقوں والے عسکریت پسند میزائلوں اور بغیر پائلٹ کے بمبار طیاروں کا کب تک سامنا کرپائیں گے؟ کیا اس جنگ کے پیچھے بڑی طاقتوں کی سیاسی یا اقتصادی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں؟ اس جنگ کے نئے ’میدان‘ پاکستان کے لیے کیا اب موقع ہے کہ وہ کسی کردار سے انحراف کر سکے؟ ان سوالوں کے جوابات وائس آف امریکہ کے پروگرام ’آج شام‘کے خصوصی شو میں امریکہ اور پاکستان کے ماہرین سے لیے گئے۔ یہ پروگرام امریکہ پر گیارہ ستمبر کے دہشت گرد حملو ں اورتین ہزار کے قریب ہلاک ہونے والوں کی ساتویں برسی کے موقع پرخصوصی طور پر ترتیب دیا گیا۔

صحافی، تجزیہ کار اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر، آج ٹی وی سید طلعت حسین جنہوں نے اپنے چینل کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر پروگرامز پر مشتمل سیریز تیار کی ہے، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عسکریت پسندی کی حالیہ لہر میں پشتون نظر نہیں آتے مگر مارے جانے والوں میں ضرور شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے مقامی افراد امریکہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتے البتہ جن غیرملکی عسکریت پسندوں کا ذکرکیا جاتا ہے ان کے بارے میں بھی دیکھنا یہ ہے کہ وہ یہاں کی پیداوار نہیں ہیں آخر کسی ملک کی سرحد پار کر کے یہاں آتے ہیں۔اس صورت میں وہ ملک بھی برابر کے قصوروار ہیں۔ سارا ملبہ پاکستان پر نہیں ڈالنا چاہیے۔

طلعت حسین نے کہا کہ آج جس طرح پاکستان کو میدان جنگ بنایا جا رہا ہے، تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ امریکہ کے اہداف میں صرف دہشت گردی کا خاتمہ شامل نہیں بلکہ اس کے سیاسی اور اقتصادی مقاصد بھی کار فرما ہیں۔ اور جب اس تناظر میں دیکھا جائے کہ اسی خطے میں ایران اور چین بھی موجود ہیں تو یہ دلیل موثردکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے امریکی قیادت کے اس تجزیے کو درست ماننے سے انکار کیا کہ قبائلی علاقے امریکہ کے لیے کوئی خطرہ ہو سکتے ہیں۔

طالبان

امریکی تھنک رینڈ کارپوریشن کی سینئر پولیٹیکل سائنٹسٹ کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ بلاشبہ پاکستان کے قبائلی علاقے خطرات سے خالی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دلیل بہت پرانی ہو چکی ہے کہ جن لوگوں کی بنیادی ٹیکنالوجی تک دسترس نہیں وہ کیا قیامت برپا کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی دہشت گردی ہوتی ہے یا اس کا منصوبہ سامنے آتا ہے، تقریبا تمام واقعات میں کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کا نام ضرور آتا ہے۔


نائن الیون کے ایک دنیا پر اثرات کے حوالے سے کرسٹین فیئر نے کہا کہ اس واقعے کے بعد دنیا کے تقریبا تمام ملکوں کے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ خاص طور پر امریکہ کے جس کو عالمی سطح پر مہم شروع کرنا پڑی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم تعلیم اور صحت جیسے انسانی ترقی کے شعبوں پر خرچ ہو سکتی تھی۔

نائن الیون کے تناظر میں پاکستان امریکہ تعلقات کے حوالے سے کرسٹین فئیر نے کہا کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات نائن الیون سے پہلے بھی تھے اور اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قیادت امریکہ سے پیسے لینے میں خوش ہے لیکن اپنے وعدے پورے نہیں کرتی۔ دوسری طرف امریکہ میں ان وعدوں کی پاس داری نہ ہونے کے باوجود مزید رقوم ادا کرنے سے انکار کا سیاسی عزم مفقود ہے۔یہ ایک مسلسل چکر ہے۔ امریکی اس بات پر ناخوش ہیں کہ تیرہ ارب ڈالر کی امداد کے باوجودپاکستان پہلے سے زیادہ غیر مستحکم ہے اور پاکستانیوں کی تنقید اس لحاظ سے بجا ہے کہ امداد کا زیادہ تر حصہ فوج پر خرچ کیا جاتا ہے نہ کہ جمہوری اداروں اور عوام پر۔کرسٹین فیئر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خفیہ ادارے درست معلومات کا تبادلہ نہیں کرتے۔

پاکستان کے سابق نگران وزیرداخلہ لیفٹنینٹ جنرل (ر) حامد نواز نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بلاشبہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا عنصر موجود ہے لیکن یہ اس قدرمضبوط نہیں کہ عالمی طاقتوں کے لیے کوئی بڑا خطرہ بن سکے۔ پاکستان کے علاقوں کے اندر براہ راست امریکی آپریشن کو انہوں نے ’ پالیسی شفٹ‘ قرار دیا۔اور اسی حوالے سے پاکستان اور امریکہ کی فوجی قیادت میں آج سامنے آنے والے واضح اختلاف پر انہوں نے کہا کہ تعاون اوررابطوں کے طریقہ کار پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی امریکہ میں شعبہ تعلقات عامہ کے پروفیسر اور تجزیہ کار عادل نجم کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے سات سال بعد امریکہ میں اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو جنگ شروع کی گئی وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ جو بڑے اہداف تھے آج بھی پہنچ سے باہر ہیں اور پہلے سے زیادہ مضبوط بتائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔

مڈل ایسٹ سٹڈیز سے وابستہ پروفیسر ڈیوڈ میڈنیکوف نے کہا پاکستان کی طرف اٹھنے والی انگلیاں بے جا نہیں۔ فوجی، سفارتی اور خفیہ کے ادارے اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہاں کچھ ہو رہا ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ایسی اطلاعات کو سوفیصد یقین کے ساتھ درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق سفیر اور تجزیہ کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس جنگ کا دوسرا سرامستقبل قریب میں نظر نہیں آتا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلی جنس کے بڑے نیٹ ورکس کے باوجود اگر امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے کوئی بڑاہدف حاصل نہیں کر سکے تو ایسی اطلاعات کو بے بنیاد ہی خیال کیا جا سکتا ہے۔

سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب خان نے کہا کہ اس جنگ کو پاکستان سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف النوع طریقے اختیار کیے جائیں۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ غیرملکی عسکریت پسندوں کے ساتھ طاقت سے نمٹنا چاہیئے، قبائلیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیں اور طاقتوراتحادیوں کو قائل کرنا چاہیئے کہ پاکستان کو اس طریقے سے مسئلہ حل کرنے دیا جائے جسے وہ مناسب خیال کرتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ نائن الیون کے بعد جو مہم شروع ہوئی، اس وقت پاکستان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ اس کا حصہ نہ بنتا لیکن آج حالات اس نہج پر ہیں کہ عالمی اتحادیوں کو سفارتی سطح پرقائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حالات اقتصادی ، سیاسی اورامن و امان کے لحاط سے سال دوہزار دو کی نسبت آج بدتر ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نائن الیون کے بعد کی صورتحال کو قائد اعظم محمد علی جناح کی ساٹھویں برسی کے تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جو عسکریت پسندی کی لہر دیکھنے میں آتی ہے اور اس ریاست کا حصہ نہیں ہونا چاہیئے تھی جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم ایک لبرل ریاست کے حامی تھے اور حالات اس سے بالکل مختلف ہیں۔

نائن الیون کے واقعے میں ہلاک ہونے والی ایک خاتون جوڈی لی میک کی بیٹی کیری لی میک نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصدعسکریت پسندوں کو ہلاک کرنا نہیں بلکہ ان کی سوچ کی تبدیلی ہونا چاہیئے۔




سورس
 

سلیم احمد

محفلین
میرے لئے نہ تو اسامہ بن لادن کوئی ہیرو ہے اور نہ ہی امریکہ کوئی انصاف پسند ملک ۔ امریکہ کے لئے تو انسانی زندگی کی کوئی قیمت ہی نہیں ۔ امریکیوں کی زندگی بھی صرف اس صورت میں‌بچ سکتی ہے اگر امریکہ کو اس سے کوئی مفاد حاصل ہو ۔ جب کوئی فائدہ نظر آرہا ہو تو یہ لوگ ایک انسان تو کیا پوری دنیا ختم کرنے میں‌بھی ایک لمحہ سانس نہیں‌لیں گے ۔
نائن الیون کے ڈرامہ کی اصل حقیقت تو اب لوگوں کے سامنے آچکی ہے ۔ پھر بھی اگر کوئی کہتا ہے نائن الیون کے واقعہ کا ذمہ دار امریکہ نہیں ہے تو اس خوش فہمی کا کوئی علاج نہیں ۔ امریکہ نے یہ ڈرامہ خود اسی سلسلہ کو چلانے کے لئے رچایا تھا کہ انہیں کھلی چھٹی مل جائے ۔ اور نائن الیون یا اسامہ بن لادن کے کے نام پر ہر ملک میں‌اپنی مرضی کی کارروائی کھلے عام کرسکیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

نائن الیون کے ڈرامہ کی اصل حقیقت تو اب لوگوں کے سامنے آچکی ہے ۔ پھر بھی اگر کوئی کہتا ہے نائن الیون کے واقعہ کا ذمہ دار امریکہ نہیں ہے تو اس خوش فہمی کا کوئی علاج نہیں ۔ امریکہ نے یہ ڈرامہ خود اسی سلسلہ کو چلانے کے لئے رچایا تھا کہ انہیں کھلی چھٹی مل جائے ۔ اور نائن الیون یا اسامہ بن لادن کے کے نام پر ہر ملک میں‌اپنی مرضی کی کارروائی کھلے عام کرسکیں۔



اگر يہ مفروضہ درست مان ليا جائے تو حقائق کچھ اس طرح سے بنتے ہيں۔

ستمبر 2001 کو امريکہ نے اپنے ہی شہر نيويارک پر حملے کيے اور اس کے نتيجے ميں اپنے 3 ہزار شہری ہلاک کروا ديے۔

يہی نہيں بلکہ واشنگٹن ميں اپنے دفاعی اور عسکری مرکز پينٹاگان پر امريکی شہريوں سے بھرے ہوئے جہاز سے حملہ کروا کے 300 سے زيادہ اہم دفاعی اور حکومتی اہلکار ہلاک کروا ديے۔ اس کے علاوہ ايک اور جہاز امريکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس پر حملے کے ليے روانہ کر ديا۔

اس کے بعد القائدہ کے نام سے ايک تنطيم کا قيام عمل ميں لايا گيا جس ميں عرب ممالک سے ہزاروں کی تعداد ميں دہشت گرد بھرتی کيے گئے اور انھيں افغانستان ميں آباد کيا گيا تاکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کا ذمہ دار انھيں قرار دے کر افغانستان پر حملہ کيا جا سکے۔

القائدہ کے وجود کا ثبوت دينے کے ليے امريکہ ان "تربيت يافتہ مسلم دہشت گردوں" سے مسلسل خودکش حملے کروا رہا ہے اور اس کے نتيجے ميں نہ صرف دنيا بھر ميں اپنی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ درجنوں کی تعداد ميں اپنے شہری بھی مروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا واقعی کوئ وجود ہے۔

امريکی سفارت خانے پر حملہ 1998، اکتوبر 2002 ميں بالی کے مقام پر 200 افراد کی ہلاکت، 2005 ميں برطانيہ ميں ہونے والی دہشت گردی اور اسی طرح دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دينے چاہيے کيونکہ امريکہ يہ تمام واقعات خود کروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا وجود ہے۔

اسامہ بن لادن کی جانب سے سينکڑوں کی تعداد ميں نشر کيے جانے والے پيغامات جس ميں اس نے نا صرف 11 ستمبر 2001 کے واقعے کی تمام ذمہ داری بارہا تسليم کی ہے بلکہ اپنے چاہنے والوں کو مستقبل ميں بھی ايسے ہی "کارنامے" جاری رکھنے کی تلقين کی ہے يقينآ امريکی سازش کا ہی حصہ ہے۔

انٹرنيٹ پرالقائدہ سے وابستہ ہزاروں کی تعداد ميں ويب سائٹس جن بر چوبيس گھنٹے امريکہ سے نفرت اور امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی ترغيب دی جاتی ہے، اس کا قصورواربھی امريکہ ہے۔

دہشت گردی کی تربيت کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد ميں فلميں جو القائدہ کے ٹھکانوں سے حاصل ہوئ ہيں، اس کا قصوروار بھی امريکہ ہے جو کہ ايک پوری نسل کو اپنے خلاف بھڑکا کر انہيں اپنے خلاف خودکشی کے ليے تيار کر رہا ہے تاکہ يہ "تاثر" برقرار رکھا جا سکے کہ القآئدہ کا وجود ايک حقيقت ہے۔

يہ يقينآ انسانی تاريخ کی انوکھی ترين سازش ہے جس ميں سازش کرنے والا مسلسل اپنا ہی جانی اور مالی نقصان کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور پھر اپنے ہی خلاف پروپيگنڈا کر کے ايسے خودکش حملہ واروں کی فوج تيار کر رہا ہے جو سينکڑوں معصوم لوگوں کی جان لينے ميں قخر محسوس کرتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

امکانات

محفلین
امریکہ اپنی آخری بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اسکی طاقت ختم ہونے کو ہے القائدہ کی کوئی تنصیبات ہیں اور نہ افرادی قوت اسکے مقابلے میں‌ امریکہ باون ریاستون پر پھیلا ہوا ہے ہر ملک میں اسے سفارت خانے ہیں امریکہ کا ہدف انجان دشمن ہے انجان دشمن کے خلاف کوئی جنگ کامیاب نہیں ہوتی امریکہ کا جنازہ اس کے انتہا پسند نکالنے کے درپے ہیں آدمی جتنا مشہور ہو اسکے چھپنے کی جگہ اتنی ہی کم ہوتی امریکہ کو آج کہیں چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی
 

وجی

لائبریرین
فواد صاحب آپ جو بات کرنا چاہتےہیں کرلیں لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ جب بکریا چرانے والے بچے نے شیر آیا شیر آیا جھوٹ میں پکارا اور پھر اصل میں آگیا تو اس کا نقصان ہوا دراصل امریکی حالت بھی وہی ہے کہ وہ اب جتنا بھی ڈھنڈوراپیٹے کہ شیر آگیا اسکی بات کوئی نہیں سنے گا کیونکہ وہ بہت جھوٹ بول چکا ہے چاہے وہ نو گیارہ کے بارے میں ہو یا پھر عراق میں محلق ہتھیار کے بارے میں ہو یا پھر صدام کی گرفتاری کا جھوٹ ہو
اور رہی بات القائدہ کی تو جس طرح لوگ پاکستان کو طالبان بنانے کا مجرم سمجھتےہیں اسی طرح القائدہ تنظیم بھی امریکا کی ایجاد ہے اور کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ روس کے خلاف جنگ کے موقعہ پر مکہ اور مدینہ میں القائدہ کے بارے میں پمفلیٹ بھی تقسیم ہوا کرتے تھے اس وقت تو امریکہ کو اس سے کوئی تکلیف نہیں تھی تو اب کیوں ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

اور رہی بات القائدہ کی تو جس طرح لوگ پاکستان کو طالبان بنانے کا مجرم سمجھتےہیں اسی طرح القائدہ تنظیم بھی امریکا کی ایجاد ہے اور کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ روس کے خلاف جنگ کے موقعہ پر مکہ اور مدینہ میں القائدہ کے بارے میں پمفلیٹ بھی تقسیم ہوا کرتے تھے اس وقت تو امریکہ کو اس سے کوئی تکلیف نہیں تھی تو اب کیوں ہے

امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقائق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔

برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟

افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القائدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے نمبر دو ليڈر ايمن الزواری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔

ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔

ان حقائق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القائدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القائدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
 

مہوش علی

لائبریرین
اگر يہ مفروضہ درست مان ليا جائے تو حقائق کچھ اس طرح سے بنتے ہيں۔

ستمبر 2001 کو امريکہ نے اپنے ہی شہر نيويارک پر حملے کيے اور اس کے نتيجے ميں اپنے 3 ہزار شہری ہلاک کروا ديے۔

يہی نہيں بلکہ واشنگٹن ميں اپنے دفاعی اور عسکری مرکز پينٹاگان پر امريکی شہريوں سے بھرے ہوئے جہاز سے حملہ کروا کے 300 سے زيادہ اہم دفاعی اور حکومتی اہلکار ہلاک کروا ديے۔ اس کے علاوہ ايک اور جہاز امريکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس پر حملے کے ليے روانہ کر ديا۔


اس کے بعد القائدہ کے نام سے ايک تنطيم کا قيام عمل ميں لايا گيا جس ميں عرب ممالک سے ہزاروں کی تعداد ميں دہشت گرد بھرتی کيے گئے اور انھيں افغانستان ميں آباد کيا گيا تاکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کا ذمہ دار انھيں قرار دے کر افغانستان پر حملہ کيا جا سکے۔

القائدہ کے وجود کا ثبوت دينے کے ليے امريکہ ان "تربيت يافتہ مسلم دہشت گردوں" سے مسلسل خودکش حملے کروا رہا ہے اور اس کے نتيجے ميں نہ صرف دنيا بھر ميں اپنی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ درجنوں کی تعداد ميں اپنے شہری بھی مروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا واقعی کوئ وجود ہے۔

امريکی سفارت خانے پر حملہ 1998، اکتوبر 2002 ميں بالی کے مقام پر 200 افراد کی ہلاکت، 2005 ميں برطانيہ ميں ہونے والی دہشت گردی اور اسی طرح دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دينے چاہيے کيونکہ امريکہ يہ تمام واقعات خود کروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا وجود ہے۔

اسامہ بن لادن کی جانب سے سينکڑوں کی تعداد ميں نشر کيے جانے والے پيغامات جس ميں اس نے نا صرف 11 ستمبر 2001 کے واقعے کی تمام ذمہ داری بارہا تسليم کی ہے بلکہ اپنے چاہنے والوں کو مستقبل ميں بھی ايسے ہی "کارنامے" جاری رکھنے کی تلقين کی ہے يقينآ امريکی سازش کا ہی حصہ ہے۔

انٹرنيٹ پرالقائدہ سے وابستہ ہزاروں کی تعداد ميں ويب سائٹس جن بر چوبيس گھنٹے امريکہ سے نفرت اور امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی ترغيب دی جاتی ہے، اس کا قصورواربھی امريکہ ہے۔


دہشت گردی کی تربيت کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد ميں فلميں جو القائدہ کے ٹھکانوں سے حاصل ہوئ ہيں، اس کا قصوروار بھی امريکہ ہے جو کہ ايک پوری نسل کو اپنے خلاف بھڑکا کر انہيں اپنے خلاف خودکشی کے ليے تيار کر رہا ہے تاکہ يہ "تاثر" برقرار رکھا جا سکے کہ القآئدہ کا وجود ايک حقيقت ہے۔

يہ يقينآ انسانی تاريخ کی انوکھی ترين سازش ہے جس ميں سازش کرنے والا مسلسل اپنا ہی جانی اور مالی نقصان کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور پھر اپنے ہی خلاف پروپيگنڈا کر کے ايسے خودکش حملہ واروں کی فوج تيار کر رہا ہے جو سينکڑوں معصوم لوگوں کی جان لينے ميں قخر محسوس کرتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov

اس مراسلے میں موجود ایک ایک دلیل سچی ہے کہ جن کا براہ راست جواب دینے سے میں نے فریق مخالف کو ہمیشہ گریزاں ہی دیکھا ہے۔ جواب میں بے تکی اور غیر متعلق باتیں کر دینا یا کوئی اور ٹاپک یا حوالے سے اصل بات کا جواب دیے بغیر Counter سوالات و الزامات شروع کر دینا بھی اس معاملے کے متعلق "حقیقت" کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
تو بہت سے ہیں جنہیں یہ حقائق ابھی تک نظر آئے، اور نہ خود پاکستان میں پھیلتا فتنہ و فساد کہ جس کے نتیجے میں ہزاروں معصوم لوگ خون میں لت پت ہو چکے ہیں۔

اور ایسی ایسی تھیوریاں سامنے لائی جاتی ہیں کہ جن کی رو سے یہ انتہا پسند جتنا مرضی خون خرابہ کر لیں، مگر کوئی الزام ان پر نہ آئے گا بلکہ سب کا سب امریکہ کے کھاتے میں ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیے جائیں گے اور یوں اپنے گریبان کی گندگی اپنے گریبان میں ہی رہنے دی جائے گی۔
 

arifkarim

معطل
اگر يہ مفروضہ درست مان ليا جائے تو حقائق کچھ اس طرح سے بنتے ہيں۔

ستمبر 2001 کو امريکہ نے اپنے ہی شہر نيويارک پر حملے کيے اور اس کے نتيجے ميں اپنے 3 ہزار شہری ہلاک کروا ديے۔

يہی نہيں بلکہ واشنگٹن ميں اپنے دفاعی اور عسکری مرکز پينٹاگان پر امريکی شہريوں سے بھرے ہوئے جہاز سے حملہ کروا کے 300 سے زيادہ اہم دفاعی اور حکومتی اہلکار ہلاک کروا ديے۔ اس کے علاوہ ايک اور جہاز امريکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس پر حملے کے ليے روانہ کر ديا۔

اس کے بعد القائدہ کے نام سے ايک تنطيم کا قيام عمل ميں لايا گيا جس ميں عرب ممالک سے ہزاروں کی تعداد ميں دہشت گرد بھرتی کيے گئے اور انھيں افغانستان ميں آباد کيا گيا تاکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کا ذمہ دار انھيں قرار دے کر افغانستان پر حملہ کيا جا سکے۔

القائدہ کے وجود کا ثبوت دينے کے ليے امريکہ ان "تربيت يافتہ مسلم دہشت گردوں" سے مسلسل خودکش حملے کروا رہا ہے اور اس کے نتيجے ميں نہ صرف دنيا بھر ميں اپنی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ درجنوں کی تعداد ميں اپنے شہری بھی مروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا واقعی کوئ وجود ہے۔

امريکی سفارت خانے پر حملہ 1998، اکتوبر 2002 ميں بالی کے مقام پر 200 افراد کی ہلاکت، 2005 ميں برطانيہ ميں ہونے والی دہشت گردی اور اسی طرح دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دينے چاہيے کيونکہ امريکہ يہ تمام واقعات خود کروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ القائدہ نامی تنظيم کا وجود ہے۔

اسامہ بن لادن کی جانب سے سينکڑوں کی تعداد ميں نشر کيے جانے والے پيغامات جس ميں اس نے نا صرف 11 ستمبر 2001 کے واقعے کی تمام ذمہ داری بارہا تسليم کی ہے بلکہ اپنے چاہنے والوں کو مستقبل ميں بھی ايسے ہی "کارنامے" جاری رکھنے کی تلقين کی ہے يقينآ امريکی سازش کا ہی حصہ ہے۔

انٹرنيٹ پرالقائدہ سے وابستہ ہزاروں کی تعداد ميں ويب سائٹس جن بر چوبيس گھنٹے امريکہ سے نفرت اور امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی ترغيب دی جاتی ہے، اس کا قصورواربھی امريکہ ہے۔

دہشت گردی کی تربيت کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد ميں فلميں جو القائدہ کے ٹھکانوں سے حاصل ہوئ ہيں، اس کا قصوروار بھی امريکہ ہے جو کہ ايک پوری نسل کو اپنے خلاف بھڑکا کر انہيں اپنے خلاف خودکشی کے ليے تيار کر رہا ہے تاکہ يہ "تاثر" برقرار رکھا جا سکے کہ القآئدہ کا وجود ايک حقيقت ہے۔

يہ يقينآ انسانی تاريخ کی انوکھی ترين سازش ہے جس ميں سازش کرنے والا مسلسل اپنا ہی جانی اور مالی نقصان کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور پھر اپنے ہی خلاف پروپيگنڈا کر کے ايسے خودکش حملہ واروں کی فوج تيار کر رہا ہے جو سينکڑوں معصوم لوگوں کی جان لينے ميں قخر محسوس کرتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
آج پہلی بار فواد بھائی نے ''طنزا'' سچ بولا ہے :grin:
آپ شاید جانتے نہیں‌ کہ امریکی پالیسیز دوغلی ہوتی ہیں۔ اوپر سے امداد اور نیچے سے منافع۔ یہ فتنہ دجال ہے جسکے ہمراہ امداد ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ امداد ایک آگ کانمونہ ہے۔ جس سے عام عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔
سوویت یونین فال کے 7 سال بعد 1998 میں پریزڈنٹ کارٹر جنہوں نے ''مجاہدین'' کو روسیوں کے خلاف امداد دی، انکے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ز Zbigniew Brzezinski کا انٹرویو:
The CIA's Intervention in Afghanistan

Interview with Zbigniew Brzezinski,
President Jimmy Carter's National Security Adviser

Le Nouvel Observateur, Paris, 15-21 January 1998
Posted at globalresearch.ca 15 October 2001

Question: The former director of the CIA, Robert Gates, stated in his memoirs ["From the Shadows"], that American intelligence services began to aid the Mujahadeen in Afghanistan 6 months before the Soviet intervention. In this period you were the national security adviser to President Carter. You therefore played a role in this affair. Is that correct?

Brzezinski: Yes. According to the official version of history, CIA aid to the Mujahadeen began during 1980, that is to say, after the Soviet army invaded Afghanistan, 24 Dec 1979. But the reality, secretly guarded until now, is completely otherwise Indeed, it was July 3, 1979 that President Carter signed the first directive for secret aid to the opponents of the pro-Soviet regime in Kabul. And that very day, I wrote a note to the president in which I explained to him that in my opinion this aid was going to induce a Soviet military intervention.

Q: Despite this risk, you were an advocate of this covert action. But perhaps you yourself desired this Soviet entry into war and looked to provoke it?

B: It isn't quite that. We didn't push the Russians to intervene, but we knowingly increased the probability that they would.

Q: When the Soviets justified their intervention by asserting that they intended to fight against a secret involvement of the United States in Afghanistan, people didn't believe them. However, there was a basis of truth. You don't regret anything today?

B: Regret what? That secret operation was an excellent idea. It had the effect of drawing the Russians into the Afghan trap and you want me to regret it? The day that the Soviets officially crossed the border, I wrote to President Carter. We now have the opportunity of giving to the USSR its Vietnam war. Indeed, for almost 10 years, Moscow had to carry on a war unsupportable by the government, a conflict that brought about the demoralization and finally the breakup of the Soviet empire.

Q: And neither do you regret having supported the Islamic fundamentalism, having given arms and advice to future terrorists?

B: What is most important to the history of the world? The Taliban or the collapse of the Soviet empire? Some stirred-up Moslems or the liberation of Central Europe and the end of the cold war?

Q: Some stirred-up Moslems? But it has been said and repeated Islamic fundamentalism represents a world menace today.

B: Nonsense! It is said that the West had a global policy in regard to Islam. That is stupid. There isn't a global Islam. Look at Islam in a rational manner and without demagoguery or emotion. It is the leading religion of the world with 1.5 billion followers. But what is there in common among Saudi Arabian fundamentalism, moderate Morocco, Pakistan militarism, Egyptian pro-Western or Central Asian secularism? Nothing more than what unites the Christian countries.

Translated from the French by Bill Blum

ریففرینس:
http://members.aol.com/bblum6/brz.htm
http://www.globalresearch.ca/articles/BRZ110A.html
http://www.ucc.ie/acad/appsoc/tmp_s...anistan/archive/brzezinski/1998/interview.htm
میں نے یہاں‌اس انٹرویو کے تین ریفرنسیز دیے ہیں‌ تاکہ امریکی حمایتی چیخیں نہ ماریں کہ یہ انٹرویو بھی جھوٹا ہے! :laugh:
 

امکانات

محفلین

اصل ریاستیں تو اکاون ہیں باونویں ریاست تو اسرائیل ہے آپ چاہیں تو امریکی کالونی ریاست پاکستان کو شامل کر سکتے ہیں ویسے کئی دوست یہان جو پاکستان سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں ا نکے لیے بطور خاص نئی ریاست دریاقت کر لائے ہیں یہ ریاست کولمبس کو بھی نہیں ملی
 
Top