arifkarim
معطل
پاکستانی پوری دنیا میں اپنے انوکھے ’’کارناموں‘‘ کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہاں ناروے میں قریباً ۳۰،۰۰۰ پاکستانی آباد ہیں جنکی نمائندگی کیلئے امسال قومی انتخابات میں پارلیمنٹ کی سیٹوں کے لئے زبرست مقابلہ ہو رہا ہے۔ ہادیہ تاجک ان میں سے ایک امید وار ہیں اور پیشہ کے لحاظ سے صحافی رپورٹر ہیں۔ آپ ایک عرصہ تک ناروے کے موجودہ وزیر اعظم جینس اسٹولٹن برگ کی نجی مشیر بھی رہ چکی ہیں۔ اس وجہ سے ملکی سیاسیات پر آپکا کافی اسر و رسوخ ہے۔
اوسلو میں پچھلے چند دنوں سے جامع مسجد اور اسکے گرد نواح میں اردو زبان میں تاجک کیخلاف پمفلٹ نما کاغذ تقسیم کئے گئے۔ جسمیں ووٹرز کو خبردار کیا گیا کہ ہرگز انکو ووٹ نہ ڈالا جائے کیونکہ یقیناً علما کرام کے نزدیک ہادیہ تاجک کے خیالات ’’غیر اسلامی ‘‘ ہیں! یاد رہے کہ تاجک ساری عمر ناروے میں رہی ہیں اور ماحول کا اثر ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ کاغذی اشتہار کی کاپی:
ناروے میں کسی بھی امید وار کی نامعلوم تنقید سازش کے زمرہ میں آتا ہے البتہ نام کیساتھ تنقید کرنے کی اجازت ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہادیہ خاتون ہیں اسلئے کچھ ’’اسلامی لوگ‘‘ انکے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ آج کے ملکی انتخابات میں تاجک لیبر پارٹی طرف سے چھٹے امید وار کی حیثیت سے مقابلہ کریں گی۔ انکے مدمقابل عابد راجا ہوں گے جنکا تعلق لیفٹ ونگ پارٹی سے ہے۔ مزید:
http://en.wikipedia.org/wiki/Hadia_Tajik
http://www.aftenposten.no/nyheter/iriks/politikk/article3266758.ece
اوسلو میں پچھلے چند دنوں سے جامع مسجد اور اسکے گرد نواح میں اردو زبان میں تاجک کیخلاف پمفلٹ نما کاغذ تقسیم کئے گئے۔ جسمیں ووٹرز کو خبردار کیا گیا کہ ہرگز انکو ووٹ نہ ڈالا جائے کیونکہ یقیناً علما کرام کے نزدیک ہادیہ تاجک کے خیالات ’’غیر اسلامی ‘‘ ہیں! یاد رہے کہ تاجک ساری عمر ناروے میں رہی ہیں اور ماحول کا اثر ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ کاغذی اشتہار کی کاپی:
ناروے میں کسی بھی امید وار کی نامعلوم تنقید سازش کے زمرہ میں آتا ہے البتہ نام کیساتھ تنقید کرنے کی اجازت ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہادیہ خاتون ہیں اسلئے کچھ ’’اسلامی لوگ‘‘ انکے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ آج کے ملکی انتخابات میں تاجک لیبر پارٹی طرف سے چھٹے امید وار کی حیثیت سے مقابلہ کریں گی۔ انکے مدمقابل عابد راجا ہوں گے جنکا تعلق لیفٹ ونگ پارٹی سے ہے۔ مزید:
http://en.wikipedia.org/wiki/Hadia_Tajik
http://www.aftenposten.no/nyheter/iriks/politikk/article3266758.ece