اس سلسلے میں کچھ مطالعہ کیا تو ایک کتاب نظر سے گذری جس میں کرٹ گوڈیل کی تھیورم میرے جیسےعام لوگوں (جو ماہرِ ریاضیات و منطق نہیں ہیں) کو سمجھانے کے لئے دو تین پہیلیوں کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔مجھے یہ خاصی دلچسپ لگی ۔مرکزی خیال کسی اور کا ہے، میں صرف اپنے الفاظ اور پیرائے میں بیان کر رہا ہوں لیکن آخر میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نےاس طرزِ فکر کو استعمال کرتے ہوئےایک اور بات عرض کی ہے یعنی حقیقت کا فلسفہ و منطق سے ماوراء ہونا۔ اگر کوئی دوست اس Reasoning کی غلطی کی نشاندہی کرے تو ہم مشکور ہونگے) :
پہلی پہیلی
احمد کے پاس ایک نوکیا اور ایک سام سنگ کا موبائل ہے۔ اس نے اعلان کیا کہ اگر کوئی شخص اسے سچی بات بتائے گا تو اس کو ان دونوں میں سے کوئی بھی موبائل دے دیا جائے گا۔ اب کوئی بھی شخص اس سے انعام حاصل کرسکتا ہے کوئی ایسی بات کہہ کر جو سچ ہو۔ چنانچہ اگر کوئی کہے کہ "دو جمع دو چار کے برابر ہوتے ہیں" تو اسے انعام مل سکتا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ مجھے انعام میں سام سنگ ملے۔ چنانچہ مجھے اسے کوئی ایسی بات بتانی چاہئیے جو سچ ہو اور جس کے نتیجے میں مجھے صرف سام سنگ کا موبائل ہی مل سکے۔ وہ بات کیا ہوگی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ میں اسے کہوں گا " تم مجھے نوکیا کا موبائل نہیں دو گے"۔
اب اگر یہ بات جھوٹ ہے، تو اسکو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مجھے نوکیا کا موبائل دے دے۔ لیکن اس نے کہا تھا کہ میں صرف سچی بات کرنے پر موبائل دوں گا۔ چنانچہ وہ مجھے موبائل نہیں دےسکتا۔ اب اگر وہ مجھے موبائل نہیں دیتا تو اس کا مطلب ہے میری بات سچ ثابت ہوگئی۔ چنانچہ اس صورت میں مجھے وہ سام سنگ کا موبائل ہی دے گا، نوکیا کا نہیں کیونکہ اگر نوکیا کا دے گا تو اس کا مطلب ہے میری بات سچ نہیں۔ چنانچہ ہر دو صورت میں مجھے سام سنگ کا موبائل ملے ہی ملے۔
دوسری پہلی
احمد ایک جزیرے پر پہنچا جہاں صرف دو قسم کے لوگ پائے جاتے تھے۔ صرف سچ بولنے والے، اور صرف جھوٹ بولنے والے۔ صرف سچ بولنے والوں کے لئے جزیرے میں دو پارک بنائے گئے تھے ایک کا نام تھا جناح پارک اور ایک کا نام تھا اقبال پارک۔ لیکن ہر سچے آدمی کو ان دونوں میں سے کسی ایک پارک میں آنے جانے کا اجازت نامہ دیا گیا تھا۔ چنانچہ اگر کوئی جناح پارک میں داخلے کا اجازت نامہ رکھتا ہے تو وہ اقبال پارک میں داخل نہیں ہوسکتا اور اسی طرح اس کے برعکس۔ لیکن یہ سہولت صرف سچ بولنے والوں کے لئے تھی۔ جو لوگ صرف جھوٹ بولتے تھے، وہ کسی بھی پارک میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔
احمد جزیرے میں پھرتا پھراتا ایک اجنبی سے ملا اور اس اجنبی نے ایک ایسی بات کہی جس سے احمد کو یقین ہوگیا کہ اس شخص کے پاس جناح پارک میں داخلے کا اجازت نامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ بات کیا ہوسکتی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس اجنبی نے یہ کہا کہ " میرے پاس اقبال پارک میں داخلے کا اجازت نامہ نہیں ہے"۔
اب اگر یہ بات سچ ہے کہ اس کے پاس اقبال پارک میں داخلے کا اجازت نامہ نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس یقیناّ جناح پارک میں داخلے کا اجازت نامہ ہوگا۔ کیونکہ یہ بات کرنے والا یا تو صرف سچ بولنے والوں میں سے ہوگا، یا صرف جھوٹ بولنے والوں میں سے ہوگا۔ اب اگر وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے تب یہ ثابت ہوگیا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے اور یقیناّ اسکے پاس جناح پارک میں داخلے کا اجازت نامہ ہوگا۔ اور اسکے علاوہ دوسری کوئی صورت نہیں ہے۔ کیونکہ صرف جھوٹ بولنے والا شخص یہ سچ نہیں بول سکتا کہ اسکے پاس اقبال پارک میں داخلے کا اجازت نامہ نہیں ہے۔
گوڈل کی پہیلی
اب یہاں تک سمجھنے کے بعد گوڈل کی انٹری ہوتی ہے۔ اور گوڈل یہ کہتا ہے کہ فر ض کرو ہم کسی سسٹم میں پائے جانے والے تمام سچے بیانات (True Statements) کی دو فہرستیں بناتے ہیں۔۔ اب گوڈل کے کہنے پر ان کی دو فہرستیں بنالی جاتی ہیں۔ ایک فہرست A وہ ہے جس میں صرف ایسے سچے بیانات ہیں جن کو اسی سسٹم میں رہتے ہوئے سچ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اور دوسری فہرست B وہ ہے جس میں صرف ایسے سچے بیانات ہیں جن کو اسی سسٹم میں رہتے ہوئے سچ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
اب گوڈل نے کیا یہ کہ اس نے ایک ایسی بات کہی جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ بات فہرست B میں پائی جاتی ہے۔ ۔ وہ بات کیا ہوسکتی ہے؟
جواب یہ ہے کہ گوڈل کی وہ بات یہ تھی " سسٹم کے اندر رہتے ہوئےمیرا سچ ثابت نہیں ہوسکتا"۔
اب اگر یہ بات جھوٹی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ وہ سسٹم کے اندر رہ کر سچی ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن ایسا اس لئے ممکن نہیں کیونکہ اگر وہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے سچ ثابت ہوسکتی ہے تو وہ جھوٹی تو نہ ہوئی۔ جبکہ یہاں ہم نے پہلی صورت میں یہ فرض کیا کہ وہ جھوٹی ہے۔ اب اگر اسے سچی مانا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اس کا سچ ثابت نہیں کیا جاسکتا چنانچہ ایسی تمام باتوں کو فہرست B میں رکھا گیا ہے، ثابت ہوا کہ گوڈل کی یہ بات بھی فہرست B میں پائی جاتی ہے۔
اب ان تینوں پہیلیوں کو سمجھنے کے بعد مطلب کی بات کی طرف آتے ہیں۔
وہ یہ کہ گوڈل کی طرح ہم نے بھی دو فہرستیں بنائیں۔ ایک فہرستA میں وہ تمام حقائق(سچی باتیں) ہیں جن کو منطق اور فلسفے سے سچ ثابت کیا جاسکتا ہے، اور دوسری فہرست B میں وہ تمام حقائق ہیں جن کو منطق اور فلسفے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔اس کے بعد میں ایک ایسی بات کہتا ہوں جو فہرست B میں لازماّ پائی جاتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ "منطق اور فلسفے کے ذریعے میرا سچ ثابت نہیں کیا جاسکتا"۔اب اگر یہ بات جھوٹی ہے تو اس کا مطلب ہے منطق اور فلسفے کے ذریعے میرا سچ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر منطق اور فلسفے سے میرا سچ ثابت کیا جاسکتا ہے تو پھر میری یہ بات جھوٹی تو نہ ہوئی۔(ورنہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ منطق اور فلسفے سے جھوٹی بات کو بھی سچ ثابت کیا جاسکتا ہے
)۔ اور اگر میری یہ بات سچ ہے تو اس ان حقائق کی فہرست B میں رکھنا پڑے گا جو منطق اور فلسفے کے ذریعے سچ ثابت نہیں ہوسکتے۔