مغالطہ یہ ہے کہ آپ غیر منطقی اور غیر صائب اصولوں کا سہارا لے کر کسی نتیجے پر پہنچیں، خواہ وہ درست ہو خواہ غلط۔ یہ بنیادی طور پر منطق کا غلط استعمال ہے۔
نایاب چیزیں بہت مہنگی ہوتی ہیں
ایک روپے میں ایک گھوڑا نایاب ہے
اسلیے ایک روپے میں ایک گھوڑا بہت مہنگا ہے۔
بتائیے کیا یہ استدلال درست ہے؟ اگر نہیں تو اس میں کونسا غیر منطقی اصول استعمال کیا گیا ہے؟
دوسری جانب، قولِ محال وہ بیان یا صورتِ حال ہے جو حقیقی ہو یا نہ ہو مگر خود اپنے اندر تضاد رکھتی ہو اور اس کا منطقی حل محال ہو۔
پیراڈاکس کی تعریف آپ نے درست کی ہے۔ متفق۔ لیکن اس کی مثال میں آپ نے واقعہ پیش کیا ہے وہ قطعاً غلط ہے۔ کیونکہ نہ تو اس قول میں کوئی تضاد ہے۔ نہ کوئی منطقی محال لازم آتا ہے۔ اگر وہ شخص پانی نہ پیے تو اس پر حملہ نہ کیا جائے گا۔ چاہے وہ کبھی بھی نہ پیے۔ اس میں کونسا منطقی "محال" لازم آیا میں سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے پوسٹ کے قصے کو پیراڈاکس یا قول محال کہا۔ حالانکہ لاجکل پیراڈاکس کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ یہ سیلف ریفرنگ یا سیلف ڈسٹرکٹو ہوتا ہے۔ جب کہ پوسٹ میں مذکور مسئلہ سیلف ڈسٹرکشن یا سیلف ریفرنس کا ہے ہی نہیں۔ مثال میں عرض کردیتا ہوں:
مثال 1۔ میں ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں
اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے تو میرا یہ جملہ بھی جھوٹ ہوجائے گا۔ اور جھوٹ مانا جائے تو سچ ہوجائے گا۔
مثال 2۔ کوئی سچ دائمی نہیں ہے۔
اگر اس بات کو سچ مان لیا جائے تو اس جملے کو دائمی سچ ماننا پڑے گا۔ اور اس صورت میں یہی جملہ جھوٹا ہوگا۔
میں یہ بات قطعاً سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پوسٹ والی صورتحال آخر کس طور پر پیراڈاکسکل ہے۔
شکریہ۔