نامعلوم قاری نے لائبریری سے حاصل شدہ کتاب 25 سال بعد واپس کردی

کیا آپ کے پاس بھی لائبریری کی کوئی کتاب موجود ہے؟ :)

  • ہاں

    Votes: 7 24.1%
  • نہیں

    Votes: 22 75.9%
  • یاد نہیں

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    29

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دادا کی نکلوائی کتاب ۔بعد میں والدہ کے پاس رہی !!!!!
۔والدین کی امانتوں کی ذمہ داری بھی بنتی ہے اولاد کے ذمہ ۔رائیورڈن نے ایک اچھے بیٹے ہونے کا فرض نبھایا۔۔۔قابلِ تحسین عمل !!!!!
سیما آپا ، یہ بھی ممکن ہے کہ والدہ کو معلوم ہی نہ ہو کہ یہ کتاب لائبریری کی ہے ۔ وہ اس کتاب کو دیگر کتابوں کی طرح اپنے ابا کی کتاب سمجھتی رہی ہو۔ کسے وقت ہے کہ ہر کتاب کو کھول کھول کر دیکھے ۔ ہر ایک کو تو پڑھنے کا شوق نہیں ہوتا ۔ :)
امریکا میں تو یہ عام بات ہے کہ جب بوڑھا والد یا والدہ مرجائے تو اس کے گھر کی تمام پرانی " بیکار" اشیاء کو نیلام کردیا جاتا ہے یا پھر ادھر ادھر کسی طرح ٹھکانے لگادیا جاتا ہے ۔ نوادرات اور پرانی اشیاء کا کاروبار کرنے والے اکثر پورے گھر کی چیزوں کا سودا کرلیتے ہیں ۔
والدین کے انتقال کے بعد اولاد کی ذمہ داریوں پر آپ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے ۔ ترکے اور وراثت سے متعلق آئے دن پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کے ایسے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ دل خون ہوجاتا ہے۔ وراثت کی تقسیم پر ورثا کی بےایمانیاں اور لڑائی جھگڑے تو اپنی جگہ لیکن سب سے پہلی چیز جوورثا بھول جاتے ہیں وہ یہ کہ آیا مرحوم کے ذمہ کوئی فرض یا قرض واجب الادا تو نہیں رہ گیا ۔ اکثر کسی مرنے والے کے ذمہ رمضان کے روزے یا حج باقی ہوتا ہے جو وہ علالت یا کسی اور وجہ سے ادا نہ کرسکے ۔ ان روزوں کا فدیہ دینا یا حجِ بدل کروانا ورثا کے ذمہ ہوتا ہے ۔ لیکن بہت کم لوگ اس بات کا خیال رکھتے ہیں ۔ اللّٰہ کریم ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ویسے کتاب جاری کروانے کے بعد کسی دن وہ بریک ایوِن پوائنٹ بھی آتا ہے جب کتاب کا کرایہ کتاب کی قیمت کے برابر پہنچ جاتا ہے۔ :) :) :)

اور قاری سوچتا ہے کہ اتنے میں تو میں اپنی کتاب لے لیتا۔ :) :)
احمد بھائی ، بہت پرانی بات ہے ۔ آرٹ کی ایک کتاب میں نے مسلسل اتنی مرتبہ کتب خانے سے جاری کروائی کہ بچے سمجھنے لگے تھے کہ یہ میری کتاب ہے ۔ دو تین دفعہ تک تو کتب خانے والے فون پر ہی تجدید کردیتے ہیں اس کے بعد کتاب لے جاکر دکھانی پڑتی ہے تب اجرا کرتے ہیں ۔
 

سیما علی

لائبریرین
والدین کے انتقال کے بعد اولاد کی ذمہ داریوں پر آپ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے ۔ ترکے اور وراثت سے متعلق آئے دن پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کے ایسے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ دل خون ہوجاتا ہے۔ وراثت کی تقسیم پر ورثا کی بےایمانیاں اور لڑائی جھگڑے تو اپنی جگہ لیکن سب سے پہلی چیز جوورثا بھول جاتے ہیں وہ یہ کہ آیا مرحوم کے ذمہ کوئی فرض یا قرض واجب الادا تو نہیں رہ گیا ۔
بھائی یہ ایک اہم ذمہ داری ہے !!!!اللہ پاک اولاد کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔والدین کے ساتھ حسنِ سلوک خدا کی بندگی کے بعد دین کا سب سے بڑ ا مطالبہ ہے۔اگر اولاد ان کی خدمت کا موقع نہ پا سکے یا انہیں راضی نہ کرسکے ، وہ اس کی تلافی اس صورت کرسکتا ہے ۔۔۔کہ اُنکے ذمہ کوئی فرض یا قرض واجب الادا ہے تو اُسے ادا کرکے اُنکی روح کو سکون پہنچائے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
Gerhard Miller: His Life, His Poetry, His Philosophy & His Painting
یہ میری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے ۔ یہ صاحب میرے گھر سے ایک گھنٹہ دور ایک ساحلی شہر اسٹرجن بے میں رہا کرتے تھے ۔ 2003 میں سو سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ بچپن میں پولیو کا شکار ہوئے اور بڑی جدوجہد اور ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک کامیاب زندگی گزاری۔ انتہائی خوبصورت ڈرائنگ اور پینٹنگ بنایا کرتے تھے ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے کتاب جاری کروانے کے بعد کسی دن وہ بریک ایوِن پوائنٹ بھی آتا ہے جب کتاب کا کرایہ کتاب کی قیمت کے برابر پہنچ جاتا ہے۔ :) :) :)

اور قاری سوچتا ہے کہ اتنے میں تو میں اپنی کتاب لے لیتا۔ :) :)
یہ واقعہ میرے ایک اسکول کے دوست کے ساتھ بارہا ہوا۔ میں اور وہ ایک کرائے پر کتابیں دینے والی کتاب سے عمران سیریز اور اشتیاق احمد کے ناول لے کر پڑھا کرتے تھے، عام طور پر وہ کم ہی پڑھتا تھا لیکن کرائے پر لیتا ضرور تھا اور پھر ہفتوں واپس نہیں کرتا تھا۔ کرایہ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا تھا سو ایک دو ہفتے کے بعد کرایہ کتاب کی اصل قیمت سے بڑھ جاتا تھا۔ دوکاندار بھی کوئی خاص بزنس مین تھا، سیکورٹی فیس کے نام پر وہ پہلے ہی ایک دو کتابوں کی قیمت کے برابر رقم اپنے پاس رکھتا تھا اور پھر جب اس سے کہا جاتا کہ بھائی کرایہ چھوڑو کتاب کی اصل قیمت ہی لے لو تو وہ کہتا کہ پہلے پورا کرایہ ادا کرو اور اس کے بعد کتاب کی قیمت کی بات کرنا ورنہ ساری سیکورٹی فیس ضبط ہو جائے گی اور آئندہ کوئی کتاب بھی نہیں ملے گی۔ میں نے کئی بار ان کا معاملہ طے کروایا، عام طور پر کرائے ہی میں سے کچھ رعایت کی جاتی تھی، کتاب کی اصل قیمت لینے کی طرف وہ کبھی نہیں آتا تھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اکثر کسی مرنے والے کے ذمہ رمضان کے روزے یا حج باقی ہوتا ہے جو وہ علالت یا کسی اور وجہ سے ادا نہ کرسکے ۔ ان روزوں کا فدیہ دینا یا حجِ بدل کروانا ورثا کے ذمہ ہوتا ہے ۔

ظہیر بھائی! یہ حجِ بدل کیا ہوتا ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
Gerhard Miller: His Life, His Poetry, His Philosophy & His Painting
یہ میری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے ۔ یہ صاحب میرے گھر سے ایک گھنٹہ دور ایک ساحلی شہر اسٹرجن بے میں رہا کرتے تھے ۔ 2003 میں سو سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ بچپن میں پولیو کا شکار ہوئے اور بڑی جدوجہد اور ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک کامیاب زندگی گزاری۔ انتہائی خوبصورت ڈرائنگ اور پینٹنگ بنایا کرتے تھے ۔

یقیناً بہت اچھی کتاب ہوگی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دوکاندار بھی کوئی خاص بزنس مین تھا، سیکورٹی فیس کے نام پر وہ پہلے ہی ایک دو کتابوں کی قیمت کے برابر رقم اپنے پاس رکھتا تھا اور پھر جب اس سے کہا جاتا کہ بھائی کرایہ چھوڑو کتاب کی اصل قیمت ہی لے لو تو وہ کہتا کہ پہلے پورا کرایہ ادا کرو اور اس کے بعد کتاب کی قیمت کی بات کرنا ورنہ ساری سیکورٹی فیس ضبط ہو جائے گی اور آئندہ کوئی کتاب بھی نہیں ملے گی۔ میں نے کئی بار ان کا معاملہ طے کروایا، عام طور پر کرائے ہی میں سے کچھ رعایت کی جاتی تھی، کتاب کی اصل قیمت لینے کی طرف وہ کبھی نہیں آتا تھا

ویسے عموماً لائبریری والے اور پرانی کتابوں والے دوکاندار کافی گھاگ ہوتے ہیں۔ فن و ادب کی قدر تو اُنہیں بالکل نہیں ہوتی۔ البتہ قاری کی آنکھوں میں کتاب کے لئے پسندیدگی بھانپ لینا اُن کے لئے مسئلہ نہیں ہوتا۔ :) :) :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی! یہ حجِ بدل کیا ہوتا ہے؟
احمد بھائی ،بہت اچھا سوال پوچھ لیا آپ نے ۔ جی چاہ رہا کہ ایک مفصل تحریر اس بارے میں لکھی جائے ۔ اللّٰہ کریم مجھے توفیق عطا فرمائیں ۔فی الحال مختصراً یہ کہ حج ، اسلام کا پانچواں ستون، اگر کسی شخص پر فرض ہوجائے تو اسے ادا کرنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرنا چاہیے۔ رسول کرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث ہے (روایت بالمعنیٰ) : جو شخص حج کی استطاعت رکھتا ہو اور حج نہ کرے تو پھر اللّٰہ کو اس کی پروا نہیں خواہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی۔
لیکن بعض اوقات ایسی صورتحال پیش آتی ہے ہے کہ مالی اور جسمانی استطاعت رکھنے کے باوجود کوئی شخص حج کیے بغیر فوت ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورت میں متوفی مقروض ہوتا ہے اور اس کے ورثا پر لازم ہے کہ ان میں سے کوئی شخص متوفی کی طرف سے حج ادا کرے یا کسی اور کو زادِ سفر دے کر حج کروائیں ۔ اس حجِ بدل کے اخراجات متوفی کے ترکے میں سے ادا کیے جاتے ہیں ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص بیماری ، ضعف یا کبر سنی کے باعث روزے رکھنے کے قابل نہ ہوتو اسے ہر فرض روزے (یعنی رمضان کے روزے)کے بدلے فدیہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ شخص فدیہ ادا کیے بغیر وفات پاجائے تو اس کے ورثا کووہ فدیہ ترکے میں سے ادا کرنا ہوگا ۔
اسی طرح اگر کسی متوفی پر کسی کا مالی قرض ہو تو وہ قرض بھی اس کے ترکے میں سے ادا کیا جائے گا ۔ مندرجہ بالا تمام واجبات کی ادائیگی کے بعد جو کچھ بھی ترکہ بچے گا وہ پھر ورثا میں تقسیم ہوگا ۔

احمد بھائی ، میرا عام مشاہدہ ہے کہ اکثر پاکستانی مسلمان حج کو اس طرح کا فریضہ نہیں سمجھتے جس طرح نماز روزے زکوٰۃ وغیرہ کو۔ یہاں امریکا میں اکثر پاکستانی مسلمان زرِ کثیر خرچ کرکے ہر سال دو سال میں چھٹیاں گزارنے ادھر ادھر چلے جاتے ہیں لیکن حج کا فرض ادا نہیں کرتے ۔ نمعلوم کیوں حج کو بڑھاپے یا "آخری عمر" تک ٹال رکھتے ہیں ۔ اللّٰہ کریم ہم سب کو ہدایت اور استقامت بخشے۔ آمین !
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یقیناً بہت اچھی کتاب ہوگی۔
احمد بھائی ، یہ کتاب مجھے تو بہت پسند ہے ۔ جیرارڈ کی یہ سوانح حیات اس کی بیوی نے لکھی ہے۔ ہر دوسرے تیسرے صفحے پر جیرارڈ کی کوئی نہ کوئی ڈرائنگ یا پینٹنگ ہے ۔ اس کی نظمیں بھی شامل ہیں ۔ موصوف کی سوانح میں مجھے کچھ کچھ اپنے سفر کی جھلک نظر آئی ۔ جیرارڈ کے والدین ایک مسافر کشتی میں جھیل مشی گن پار کرکے مشی گن سے وسکانسن آئے اور اسٹرجن بے کے ساحلی شہر میں سکونت اختیار کی ۔ یہیں جیرارڈ پیدا ہوا اور پلا بڑھا ۔ بچپن میں پولیو کی وجہ سے ٹانگیں معذور ہوگئیں ۔ سالوں ایک سینیٹوریم میں زیرِ علاج رہا ۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرا ۔ بڑی محنت اور جدوجہد کی اور ایک کامیاب زندگی گزاری ۔ بچپن ہی میں آرٹ کا شوق پیدا ہوا ۔ بڑے ہوکر شاعری بھی لکھی ۔ یعنی ان تمام عارضوں میں مبتلا ہوا کہ جو مجھے بھی لاحق ہیں ۔ :D
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی ،بہت اچھا سوال پوچھ لیا آپ نے ۔ جی چاہ رہا کہ ایک مفصل تحریر اس بارے میں لکھی جائے ۔ اللّٰہ کریم مجھے توفیق عطا فرمائیں ۔
ان شاء اللہ ! جب فرصت ملے ضرور لکھیے گا۔

فی الحال مختصراً یہ کہ حج ، اسلام کا پانچواں ستون، اگر کسی شخص پر فرض ہوجائے تو اسے ادا کرنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرنا چاہیے۔ رسول کرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث ہے (روایت بالمعنیٰ) : جو شخص حج کی استطاعت رکھتا ہو اور حج نہ کرے تو پھر اللّٰہ کو اس کی پروا نہیں خواہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی۔
لیکن بعض اوقات ایسی صورتحال پیش آتی ہے ہے کہ مالی اور جسمانی استطاعت رکھنے کے باوجود کوئی شخص حج کیے بغیر فوت ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورت میں متوفی مقروض ہوتا ہے اور اس کے ورثا پر لازم ہے کہ ان میں سے کوئی شخص متوفی کی طرف سے حج ادا کرے یا کسی اور کو زادِ سفر دے کر حج کروائیں ۔ اس حجِ بدل کے اخراجات متوفی کے ترکے میں سے ادا کیے جاتے ہیں ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص بیماری ، ضعف یا کبر سنی کے باعث روزے رکھنے کے قابل نہ ہوتو اسے ہر فرض روزے (یعنی رمضان کے روزے)کے بدلے فدیہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ شخص فدیہ ادا کیے بغیر وفات پاجائے تو اس کے ورثا کووہ فدیہ ترکے میں سے ادا کرنا ہوگا ۔
اسی طرح اگر کسی متوفی پر کسی کا مالی قرض ہو تو وہ قرض بھی اس کے ترکے میں سے ادا کیا جائے گا ۔ مندرجہ بالا تمام واجبات کی ادائیگی کے بعد جو کچھ بھی ترکہ بچے گا وہ پھر ورثا میں تقسیم ہوگا ۔
جزاک اللہ !

بہت تفصیل سے سمجھایا آپ نے۔

کیا اس معاملے میں مرنے والے کا ارادہ ضروری ہے یا ارادہ نہ بھی ہو تب بھی ورثاء کو یہ کام کرنا پڑے گا؟


احمد بھائی ، میرا عام مشاہدہ ہے کہ اکثر پاکستانی مسلمان حج کو اس طرح کا فریضہ نہیں سمجھتے جس طرح نماز روزے زکوٰۃ وغیرہ کو۔ یہاں امریکا میں اکثر پاکستانی مسلمان زرِ کثیر خرچ کرکے ہر سال دو سال میں چھٹیاں گزارنے ادھر ادھر چلے جاتے ہیں لیکن حج کا فرض ادا نہیں کرتے ۔ نمعلوم کیوں حج کو بڑھاپے یا "آخری عمر" تک ٹال رکھتے ہیں ۔
شاید اس میں توفیقِ الٰہی کا معاملہ ہو۔

اللّٰہ کریم ہم سب کو ہدایت اور استقامت بخشے۔ آمین !
آمین یا رب العالمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا اس معاملے میں مرنے والے کا ارادہ ضروری ہے یا ارادہ نہ بھی ہو تب بھی ورثاء کو یہ کام کرنا پڑے گا؟
احمد بھائی ، متوفی اگر کسی شخص کامقروض تھا تو اس قرض کا ادا کرنا ورثا کے لیے لازمی ہے خواہ اس کی نیت واپس کرنے کی ہو یا نہ ہو۔ اگر متوفی نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو تب بھی وارثوں پر وہ قرض ادا کرنا لازم ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مقروض میت کی نمازِ جنازہ اپنے بجائے کسی اور کو پڑھانے کا حکم دیا ۔ منشا یہ تھا کہ کوئی شخص فوراً میت کا قرض ادا کردے تاکہ رسول اکرم اس کی نماز جنازہ پڑھا سکیں ، اس کی مغفرت کی دعا کرسکیں ۔ (ظاہر ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہر دعا قبول ہوتی تھی) ۔ یہ تو رہی حقوق العباد کی بات ۔ حقوق اللّٰہ کے واجبات ( یعنی حج ، روزہ ، زکوٰۃ) ، اللّٰہ اور بندے کے درمیان ہیں ۔ اگر بندہ ان فرائض کو ادا کرنا نہ چاہے تب بھی یہ فرائض اس پر لاگو تو ہوتے ہیں ۔ ان فرائض سے غفلت پر گناہ لازم آتا ہے ۔ نیک اولاد کا کام ہے کہ اگر متوفی والد یا والدہ کے ذمے روزوں کا فدیہ ، زکوٰۃ یا حج باقی ہو تو ان کی آخرت کی خاطر ادا کردے خواہ متوفی کا ارادہ ان واجبات کو ادا کرنے کارہا ہو یا نہ رہا ہو۔ اگر متوفی ترکہ چھوڑ کر مرا ہے تو یہ واجبات اس کے ترکے میں سے ادا کیے جانا چاہئیں ۔ ان واجبات کو ادا کیے بغیر ترکہ تقسم کرلینا جائز نہیں ۔
واللّٰہ اعلم بالصواب۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی ، متوفی اگر کسی شخص کامقروض تھا تو اس قرض کا ادا کرنا ورثا کے لیے لازمی ہے خواہ اس کی نیت واپس کرنے کی ہو یا نہ ہو۔ اگر متوفی نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو تب بھی وارثوں پر وہ قرض ادا کرنا لازم ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مقروض میت کی نمازِ جنازہ اپنے بجائے کسی اور کو پڑھانے کا حکم دیا ۔ منشا یہ تھا کہ کوئی شخص فوراً میت کا قرض ادا کردے تاکہ رسول اکرم اس کی نماز جنازہ پڑھا سکیں ، اس کی مغفرت کی دعا کرسکیں ۔ (ظاہر ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہر دعا قبول ہوتی تھی) ۔ یہ تو رہی حقوق العباد کی بات ۔ حقوق اللّٰہ کے واجبات ( یعنی حج ، روزہ ، زکوٰۃ) ، اللّٰہ اور بندے کے درمیان ہیں ۔ اگر بندہ ان فرائض کو ادا کرنا نہ چاہے تب بھی یہ فرائض اس پر لاگو تو ہوتے ہیں ۔ ان فرائض سے غفلت پر گناہ لازم آتا ہے ۔ نیک اولاد کا کام ہے کہ اگر متوفی والد یا والدہ کے ذمے روزوں کا فدیہ ، زکوٰۃ یا حج باقی ہو تو ان کی آخرت کی خاطر ادا کردے خواہ متوفی کا ارادہ ان واجبات کو ادا کرنے کارہا ہو یا نہ رہا ہو۔ اگر متوفی ترکہ چھوڑ کر مرا ہے تو یہ واجبات اس کے ترکے میں سے ادا کیے جانا چاہئیں ۔ ان واجبات کو ادا کیے بغیر ترکہ تقسم کرلینا جائز نہیں ۔
واللّٰہ اعلم بالصواب۔

جزاک اللہ ظہیر بھائی!

اس تفصیلی جواب پر بے حد ممنون ہوں۔
 
ہم نے زندگی میں ایک بار کتاب لائبریری سے چرائی۔ بیسیوں مرتبہ تاخیر سے واپس کیں۔ کئی بار قانون شکنی کے مرتکب ٹھہرے۔ جو کتاب چرائی تھی، اس کا مداوا کرنے کے لیے بلامبالغہ بیسیوں کتب بمع اس کتب کا ایک نسخہ لائبریری کو عطیہ کیا؛ چوری شدہ کتاب بھی آہستہ سے جا کر لائبریری میں واپس رکھ دی تھی۔ خدا معاف کرے تو کرے! جو ہوا، سو ہوا۔ دراصل، ہم اس کتاب کو بوجوہ ایشو نہ کروا سکتے تھے اس لیے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ اب پچھتاوا ایسا ہے کہ کیا بتلائیں!
جرم پھر جرم ہے۔ عطیہ کرنے سے اس کی سنگینی کم نہ ہو گی ۔ تھانے حاضری لگوائی جائے ۔ دو دستے سفید کاغذ ، ایک ڈبی پنسل لے کر آئیے گا تاکہ معاملہ رفع دفع ہو سکے
 

محمداحمد

لائبریرین
لگتا ہے کہ لوگ ہماری اس تھریڈ کی پیروی کر رہے ہیں۔ :)

آئے روز کتابیں واپس کرنے کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ :) :)

یہ خبر دیکھیے:

======================

43 سال بعد کتاب لوٹا دی گئی​

(تصویر: انٹرنیٹ)


ورجینیا: امریکا میں ایک لائبریری سے نکلوائی گئی کتاب 43 تقریباً سال بعد واپس لوٹا دی گئی۔
امریکی ریاست ورجینیا کی نیو پورٹ نیوز پبلک لائبریری نے ایک انسٹاگرام پوسٹ میں بتایا کہ لائبریری کے گریسم لائبریری برانچ میں موجود ’ریٹرن ڈراپ باکس‘ میں یہ غیر معمولی دریافت حال ہی میں ہوئی۔

اے جے پی ٹیلر کی کتاب ’ہاؤ وارز بِگن‘ 23 مارچ 1980 کو واپس کی جانی تھی۔
لائبریری کے عملے کو کتاب کے ساتھ کوئی بھی ایسی چیز موصول نہیں ہوئی جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ کتاب کی واپسی میں تاخیر کیوں ہوئی۔
پوسٹ میں کہا گیا کہ لائبریری کے پاس چیک آؤٹ ریکارڈ موجود نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ کتاب کس نے نکلوائی تھی۔ تاہم، لائبریری کی جانب سے تاب لوٹانے والے کا شکریہ ادا کیا گیا

بشکریہ : ایکسپریس نیوز
 
Top