محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
السلام علیکم
ہماری پہلی نثر کاوش آپ عالی جناب محفلین کے پیش نظر ۔ آپ اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے!!!
اکثر اوقات درست بات کو بھی غلط سمجھ بیٹھتا ہے۔
اس بات میں شعور اور لاشعور کا عمل دخل زیادہ ہے۔
اکثر لاپروائی میں کہی گئی بات معنوی اعتبار سے درست ہوتی ہے مگر موقع محل کے لحاظ سے قطعا مناسب نہیں ہوتی اور ہم تو ویسے بھی اس فن سے بالکل نا آشنا ٹھہرے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک دوست ہیں،ان کے ہاں صاحبزادے کی ولادت ہوئی۔وہ بہت خوش تھے۔
صاحبزادے کی ولادت کی خوشی میں خوشیاں منائی گئیں اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
پورا گھرانا سر جوڑ کر بیٹھ گیا،سب اپنی اپنی پسند کے مطابق صاحبزادے کے لیے نام تجویز کرنے لگے۔
ہمارے دوست صاحبزادے کی ولادت کی خوشی میں ہمارے گھر مٹھائی لائے۔ہم نے گرم جوشی سے ان کو مبارکباد دی اور صاحبزادے کو دعاؤں سے نوازا۔انہوں نے نام رکھنے کے معاملے کا ذکر ہم سے کیا۔موصوف فرمانے لگے کہ آپ انٹرنیٹ پر مصروف رہتے ہیں۔مزید برآں شاعری اور اردو ادب کے شوقین ہونے کی وجہ سے کئی علمی شخصیات سے دعا سلام بھی رکھتے ہیں،اگر ہو سکے تو صاحبزادے کے نام کے سلسلے میں میری مدد فرمائیں۔
ہم نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنی طرف سے تجویز دے ڈالی۔
ہم نے تجویز یہ دی کہ نام کے انتخاب کے لیے وہ اپنے گھر کے قریبی قبرستان کا چکر لگائیں،کئی خوبصورت نام والے تہہ خاک آرام فرما ہیں اور دنیا کی بہترین ناموں کی لغت شاید ہی آپ کو اور کہیں ملے۔ایک سے ایک اعلی صفت سے مزین نام آپ کو وہاں قبروں پر آویز کتبوں پر لکھے ملیں گے۔ناموں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ آپ کو درس عبرت بھی مل جائے گا اور اہل قبور پر فاتحہ پڑھنے کا ثواب الگ ملے گا۔
ہماری تجویز سن کر نہ جانے کیوں وہ بلبلا اٹھے کہ جیسے ہم نے ان کی دم پر انجانے میں پاؤں رکھ دیا ہو۔وہ ہمیں غصہ اور دکھ کی ملی جلی کیفیت سے یوں تکنے لگے کہ ان کے بس میں ہو تو ہمارا سر قلم کر کے ہمیں درجہ شہادت سے فیضیاب کر دیں۔ ہم نے تو اپنی جانب سے بہت ہی اعلی علمی اور معرفت سے معمور تجویز ان کے گوش گزار کی تھی۔
یہ سننا تھا کہ وہ ایسے رخصت ہوئے کہ آج تک ہم اپنے رخ یار کے درشن سے محروم ہیں۔
ہماری پہلی نثر کاوش آپ عالی جناب محفلین کے پیش نظر ۔ آپ اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے!!!
اکثر اوقات درست بات کو بھی غلط سمجھ بیٹھتا ہے۔
اس بات میں شعور اور لاشعور کا عمل دخل زیادہ ہے۔
اکثر لاپروائی میں کہی گئی بات معنوی اعتبار سے درست ہوتی ہے مگر موقع محل کے لحاظ سے قطعا مناسب نہیں ہوتی اور ہم تو ویسے بھی اس فن سے بالکل نا آشنا ٹھہرے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک دوست ہیں،ان کے ہاں صاحبزادے کی ولادت ہوئی۔وہ بہت خوش تھے۔
صاحبزادے کی ولادت کی خوشی میں خوشیاں منائی گئیں اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
پورا گھرانا سر جوڑ کر بیٹھ گیا،سب اپنی اپنی پسند کے مطابق صاحبزادے کے لیے نام تجویز کرنے لگے۔
ہمارے دوست صاحبزادے کی ولادت کی خوشی میں ہمارے گھر مٹھائی لائے۔ہم نے گرم جوشی سے ان کو مبارکباد دی اور صاحبزادے کو دعاؤں سے نوازا۔انہوں نے نام رکھنے کے معاملے کا ذکر ہم سے کیا۔موصوف فرمانے لگے کہ آپ انٹرنیٹ پر مصروف رہتے ہیں۔مزید برآں شاعری اور اردو ادب کے شوقین ہونے کی وجہ سے کئی علمی شخصیات سے دعا سلام بھی رکھتے ہیں،اگر ہو سکے تو صاحبزادے کے نام کے سلسلے میں میری مدد فرمائیں۔
ہم نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنی طرف سے تجویز دے ڈالی۔
ہم نے تجویز یہ دی کہ نام کے انتخاب کے لیے وہ اپنے گھر کے قریبی قبرستان کا چکر لگائیں،کئی خوبصورت نام والے تہہ خاک آرام فرما ہیں اور دنیا کی بہترین ناموں کی لغت شاید ہی آپ کو اور کہیں ملے۔ایک سے ایک اعلی صفت سے مزین نام آپ کو وہاں قبروں پر آویز کتبوں پر لکھے ملیں گے۔ناموں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ آپ کو درس عبرت بھی مل جائے گا اور اہل قبور پر فاتحہ پڑھنے کا ثواب الگ ملے گا۔
ہماری تجویز سن کر نہ جانے کیوں وہ بلبلا اٹھے کہ جیسے ہم نے ان کی دم پر انجانے میں پاؤں رکھ دیا ہو۔وہ ہمیں غصہ اور دکھ کی ملی جلی کیفیت سے یوں تکنے لگے کہ ان کے بس میں ہو تو ہمارا سر قلم کر کے ہمیں درجہ شہادت سے فیضیاب کر دیں۔ ہم نے تو اپنی جانب سے بہت ہی اعلی علمی اور معرفت سے معمور تجویز ان کے گوش گزار کی تھی۔
یہ سننا تھا کہ وہ ایسے رخصت ہوئے کہ آج تک ہم اپنے رخ یار کے درشن سے محروم ہیں۔
آخری تدوین: