ہم نے اپنی اس تحریر پر اردو محفل فورم کی بہت ہی محترم اور شفیق ہستی جاسمن آپی سے رہنمائی اور اصلاح مانگی ۔آپ کی جانب سے دی گئی اصلاح کے بعد تحریر دوبارہ آپ محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے!!!
اکثر اوقات درست بات کو بھی غلط سمجھ بیٹھتا ہے اور یہ غلط فہمی شعور اور لاشعور کے عمل دخل کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اکثر لاپروائی میں کہی گئی بات معنوی اعتبار سے تو درست ہوتی ہے مگر موقع محل کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتی۔
اب آپ کہیں گے کہ میں الجھائے دے رہا ہوں اور اصل بات کی طرف نہیں آرہا۔ تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک دوست کو اللہ نے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ پہلی اولاد اور وہ بھی بیٹا۔ ہمارے معاشرے کے رکن ہونے کے ناطے آپ بخوبی ان کی خوشی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان کے خاندان میں خوب خوشیاں منائی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
بچے کے نام کے سلسلہ میں پورا گھرانہ سر جوڑ کے بیٹھ گیا ، سب اپنی اپنی پسند کے مطابق صاحبزادے کے لیے نام تجویز کرنے لگے لیکن کسی نام پہ اتفاق نہ ہو سکا۔ ہمارے دوست کا دل بھی کسی نام پہ نہ ٹھکا۔
جب ہمارے گھر مٹھائی لائے تو ہم نے بہت گرم جوشی سے ان کو مبارکباد دی اور صاحبزادے کو دعاؤں سے نوازا۔انہوں نے نام رکھنے کے معاملے کا ذکر ہم سے کیا۔موصوف فرمانے لگے کہ آپ انٹرنیٹ پر مصروف رہتے ہیں۔شاعری اور اردو ادب سے لگاؤ ہونے کی وجہ سے کئی علمی شخصیات سے سلام دعا بھی ہے، ہو سکے تو صاحبزادے کے نام کے سلسلے میں مدد فرمائیں۔
ہم نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی اور اچانک ہمارے زرخیز ذہن میں ایک تجویز آئی جو ہم نے فوراً سے پیشتر ان کے گوش گذار بھی کر دی۔
ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ نام کے انتخاب کے لیے وہ اپنے گھر کے قریبی قبرستان کا چکر لگالیں،مختلف ناموں کے کتبے قبروں پر جا بجا لگے ہوتے ہیں،دنیا کے بہترین ناموں کی لغت شاید ہی آپ کو کہیں اور مل سکے۔ایک سے ایک خوبصورت نام آپ کو وہاں لکھا نظر آئے گا۔ناموں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ آپ کو درس عبرت کا سبق بھی مل جائے گا اور اہل قبور پر فاتحہ پڑھنے کا ثواب الگ میسر آئے گا۔ گویا نام کے نام، گٹھلیوں کے دام۔
ہماری تجویز سن کر نہ جانے کیوں ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ جیسے ہم نے ان کی دم پر انجانے میں پاؤں رکھ دیا ہو۔وہ ہمیں غصہ اور دکھ کی ملی جلی کیفیت سے یوں تکنے لگے کہ اگر ان کے بس میں ہو تو ہمارا سر قلم کر کے ہمیں درجہ شہادت سے فیضیاب کر دیں۔ ہم نے تو اپنی جانب سے بہت ہی علمی اور معرفت سے معمور تجویز ان کے گوش گذار کی تھی۔
بہرحال وہ ہمارا سر تو قلم نہ کر سکے لیکن تجویز سنتے ہی ایسے رخصت ہوئے کہ آج تک ہم اپنے دوست کے رخ یار کے درشن سے محروم ہیں۔