La Alma
لائبریرین
نامہ
اے سخن کے دیوتاؤ ! صورت ِ احوال یوں ہے،
علم و فن کی بے کنار ان وسعتوں میں
شعر وحرفت کا کروں کیا؟
بات یہ طبعِ رواں کی بھی نہیں ہے
حرمت ِالفاظ جب سے کھو گئی ہے
جستجوئے شوق میں پھر راہِ منزل دور مجھ سے ہو گئی ہے
آگہی کا دامنِ صد چاک آخر، بن سلے ہی رہ گیا ہے
حرفِ سادہ ہو کوئی بھی،
شعبدہ گر, جعل ساز اس پر معانی کی تہیں ایسی چڑھاتے ہیں کہ اصلی اور نقلی آدرش کا فرق اب مٹنے لگا ہے
انتہائے کار میں نے
خانماں برباد لمحوں کو تخیل میں مقید کر دیا ہے
خامشی سے روزنِ ادراک سے یہ جھانکتے ہیں
مختصر روداد یہ ہے
میں اب اپنی فکر کی حجرہ نشینی سے بہت تنگ آ چکی ہوں
اپنی کاہش ہائے لا حاصل کا غم کھانے لگا ہے
جانتی ہوں چشمِ تر میں ایک بحرِ بیکراں پھر موجزن ہے
کیا یہ ممکن ہے کسی تازہ جزیرے پر میں اپنی سوچ کا لشکر اتاروں ؟
فیصلے کی منتظر ہوں
اک پجارن