زبردست فلم تھی۔اسی بنگالی مصنفSarat Chandra Chattopadhyayکا ایک اور ناول پری نیتا 1914 میں شایع ہوا۔ اس وقت یہ ایک کلاسک ناول کے طور پر مشہور ہوا اور ادبی حلقوں میں اسے بے حد پزیرائی ملی۔ اس ناول کی کہانی کے مطابق ناول کے مرکزی کردار للیتا اور شیکھر بچپن کے دوست ہیں اور ان کی زندگی میں ایک تیسرے آدمی کی آمد سے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اس موضوع کو لے کر 2006 میں اسی نام سے فلم بنائی گئی تھی، جس کی کاسٹ میں للیتا کے لیے ودیا بالن اور شیکھر کے لیے سیف علی خان کے ساتھ سنجے دت کو کاسٹ کیا گیا تھا۔
شیکسپیئر کے ناول اوتھیلو پر 2006میں ڈائریکٹر وشال بھردواج نے اوم کارا کے نام سے فلم بنائی جس کی تمامتر شوٹنگ اتر پردیش کے کئی مقامات پر کی گئی تھی فلم کی کاسٹ میں اجے دیوگن ، کرینہ کپور اور سیف علی خان تھے یہ فلم کینز فلمی میلے میں بھی نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی۔
فلم میکر وشال بھردواج نے 2014 میں فلم حیدر بنائی یہ فلم شیکسپیئر کے مشہور ناول Hamletسے متاثر ہوکر بنائی گئی تھی، جس میں اداکار شاہد کپور نے مرکزی رول کیا تھا۔ فلم نے شان دار کامیابی حاصل کی اور اسے پانچ نیشنل ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ شاہد کے کردار نے اس فلم کو یادگار بنادیا تھا
بہت ہی مزے کی فلم تھی۔1982میں بننے والی مشہور آفاق فلم انگور دراصل ولیم شکسپیئر کے کھیل ‘The Comedy of Errors’سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔ فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر گلزار تھے، جنہوں نے اداکار سنجیو کمار اور دیون ورما سے ڈبل رول کرائے۔ یہ ایک ایسی شان در کامیڈی فلم تھی جس نے انڈسٹری کا ٹرینڈ ہی بدل ڈالا تھا۔ فلم کے دونوں اہم ایکٹرز نے بے مثال کام کیا تھا۔
1965ء میں رضیہ بٹ کے ناول ’’نائلہ‘‘ پر فلم بنائی گئیں ، فلم کا نام بھی ’’نائلہ‘ ‘تھا۔ اس فلم کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ یہ پاکستان کی پہلی رنگین فلم تھیں۔اس فلم کے ہدایت کار شریف نیر تھے جبکہ موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی تھی۔یہ ایک نہایت خوبصورت رومانوی فلم تھی جس نے خاص طور پر خواتین کو بہت متاثر کیا۔ سنتوش کمار، درپن، شمیم آرا اور راگنی کی اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا۔ قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر کے نغمات زبان زدعام ہوئے ۔خاص طور پر یہ گیت بہت مقبول ہوئے۔’’ اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی، اور تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے۔
یہ دونوں ہی میری امی کے پسندیدہ ناول اور فلمیں تھیں۔غالباً چار یا پانچ برس بعد رضیہ بٹ کے ایک اور معروف ناول’’ صاعقہ ‘‘کو فلمی سکرین کی زینت بنایا گیا یہ فلم بھی باکس آفس پر بے حد کامیاب ہوئی۔ ’’نائلہ اور صاعقہ‘‘ دونوں فلموں میں شمیم آرا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور یادگار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔دونوں ناولوں میں ہیروئن ایک مظلوم لڑکی کے روپ میں قارئین کے سامنے آتی ہے جس طرح قارئین کی ہمدردیاں ناول کے مرکزی کردار کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ اسی طرح شمیم آرا نے فلم بینوں کی ہمدردیاں سمیٹیں۔’’صاعقہ‘‘ کی موسیقی بے مثل موسیقار نثار بزمی نے مرتب کی تھی اور اس فلم کے نغمات بھی بڑے مسحور کن تھے ۔یہ دو نغمات لاجواب تھے،’’ اک ستم اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے، اور اے بہارو گواہ رہنا۔‘‘ شمیم آرا کے علاوہ اس فلم میں محمد علی نے بھی متاثر کن اداکاری کا مظاہرہ کیا۔
شاید اس لئے کہ لڑی فلموں سے متعلق ہے۔ ورنہ ناولوں پہ ڈرامے تو کافی بنے ہیں، اور ابھی تک بن رہے ہیں۔کسی نے اب تک شوکت صدیقی کے ناول پر بننے والے ڈرامے "جانگلوس " کا ذکر نہیں کیا۔
اوہ اچھا اچھا۔۔۔ تب تو شہرہ آفاق بنگالی ناول "دیو داس" کا ذکر ضرور ہونا چاہیے جس پر اب تک انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں کئی فلمیں بن چکی ہیں اور اب بھی بن رہی ہیں۔شاید اس لئے کہ لڑی فلموں سے متعلق ہے۔ ورنہ ناولوں پہ ڈرامے تو کافی بنے ہیں، اور ابھی تک بن رہے ہیں۔