محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
فطرت اس دھرتی پر کہانیاں بُنتی ہے۔ دُکھ سُکھ بانٹتی ہے، نفرت اور محبت کرنا سِکھاتی ہے۔ درد اور تکلیف پہنچاتی ہے اور اس سے نجات دلاکر خوشیوں کا پالن کرتی ہے۔ کچھ باسیوں کو خوبصورتی اور کچھ کو بد صورتی عطاکرتی ہے۔ اِس خوب صورتی اور بد صورتی کے طفیل دلوں میں محبت اور نفرت کے بیج بوتی ہے۔ وصل کے سُہانے سپنے دِکھلا کر لبوں سے خوشی کے ترانے نکلواتی ہے اور جدائی کا کرب دے کر دِلوں سے غموں و اندوہ کے درد بھرے گیت پیدا کرتی ہے۔ فطرت بے رحم ہے۔ ان کہانیوں کے اچھے اور برے ، خوشیوں بھرے یا درد بھرے انجام سے بے پروا کہانیاں بُنتی رہتی ہے۔یہ کہانیاں ہمارے چاروں جانب بکھرتی رہتی ہیں۔
کہانی کار فطرت کا نمائندہ ہے۔ وہ اِن کہانیوں کو چُنتا ہے اور صفحہٗ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔ فطرت کی مانند کہانی کار بھی بے رحم ہوتا ہے۔ اسے اپنی کہانی کے درد بھرے یا خوشیوں بھرے انجام سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، وہ تو جیسے دیکھتا ہے، لکھ دیتا ہے۔
انسان یوں تو بھلکڑ واقع ہوا ہے۔ خوشیوں کےملنے پر چند لمحے جشن منا کر انہیں بھول بھی جاتا ہے، لیکن غم کو اپنے جنم دئیے ہوئے بچوں کی طرح پالتا ہے۔ غم بھلائے نہیں بھولنے دیتے۔ غم تازہ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان خوشیوں بھری کہانیوں کو سُن کر ، پڑھ کر کچھ دِنوں میں بھول جاتا ہے، لیکن کہانیوں کے دُکھ بھرے انجام کو نہیں بھولتا۔ دکھ اور غم سے انسان کا رشتہ زیادہ گہرا ہے۔ غم اُس کے دل کا گھیراؤ کیے رہتے ہیں۔ روتا ہوا اس دنیا میں آتا ہے اور رُلاتا ہوا جاتا ہے۔ دکھ بھری کہانیوں سے جلد اپنا رشتہ قائم کرلیتا ہے۔ ہنسی کی کہانیوں اور لطیفوں پر جی بھر کر ہنستا ہے اور بھول جاتا ہے۔ درد بھرے انجام کو مدتوں یاد رکھتا ہے۔
جب سے فلمی دنیا نے سر اُبھارا ہے فلمسازوں کو فلم بنانے کے لیے سب سے پہلے ایک عدد کہانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اکثر اوقات وہ کہانی کے لیے دنیا کے مشہور ناولوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ ادھر جب کہ کہانی کار اپنی کتاب کے چھپنے کی مجبوری کے باوصف کہانی کو کوئی ایسے موڑ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا جو بادی النظر میں پڑھنے والوں کی پسند ہوں ، دوسری جانب فلمساز کی مجبوری کہانی کا اچھا انجام ہوتی ہے۔ اس مجبوری کے تحت وہ اکثر اوقات کہانی کا انجام و دیگر جزئیات تبدیل کردیتا ہے۔
ذیل کے دھاگے میں محفلین اپنی دیکھی ہوئی ان فلموں کا تذکرہ کریں گے جو مشہور ناولوں یا ڈراموں پر بنائی گئی ہوں۔
کہانی کار فطرت کا نمائندہ ہے۔ وہ اِن کہانیوں کو چُنتا ہے اور صفحہٗ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔ فطرت کی مانند کہانی کار بھی بے رحم ہوتا ہے۔ اسے اپنی کہانی کے درد بھرے یا خوشیوں بھرے انجام سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، وہ تو جیسے دیکھتا ہے، لکھ دیتا ہے۔
انسان یوں تو بھلکڑ واقع ہوا ہے۔ خوشیوں کےملنے پر چند لمحے جشن منا کر انہیں بھول بھی جاتا ہے، لیکن غم کو اپنے جنم دئیے ہوئے بچوں کی طرح پالتا ہے۔ غم بھلائے نہیں بھولنے دیتے۔ غم تازہ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان خوشیوں بھری کہانیوں کو سُن کر ، پڑھ کر کچھ دِنوں میں بھول جاتا ہے، لیکن کہانیوں کے دُکھ بھرے انجام کو نہیں بھولتا۔ دکھ اور غم سے انسان کا رشتہ زیادہ گہرا ہے۔ غم اُس کے دل کا گھیراؤ کیے رہتے ہیں۔ روتا ہوا اس دنیا میں آتا ہے اور رُلاتا ہوا جاتا ہے۔ دکھ بھری کہانیوں سے جلد اپنا رشتہ قائم کرلیتا ہے۔ ہنسی کی کہانیوں اور لطیفوں پر جی بھر کر ہنستا ہے اور بھول جاتا ہے۔ درد بھرے انجام کو مدتوں یاد رکھتا ہے۔
جب سے فلمی دنیا نے سر اُبھارا ہے فلمسازوں کو فلم بنانے کے لیے سب سے پہلے ایک عدد کہانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اکثر اوقات وہ کہانی کے لیے دنیا کے مشہور ناولوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ ادھر جب کہ کہانی کار اپنی کتاب کے چھپنے کی مجبوری کے باوصف کہانی کو کوئی ایسے موڑ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا جو بادی النظر میں پڑھنے والوں کی پسند ہوں ، دوسری جانب فلمساز کی مجبوری کہانی کا اچھا انجام ہوتی ہے۔ اس مجبوری کے تحت وہ اکثر اوقات کہانی کا انجام و دیگر جزئیات تبدیل کردیتا ہے۔
ذیل کے دھاگے میں محفلین اپنی دیکھی ہوئی ان فلموں کا تذکرہ کریں گے جو مشہور ناولوں یا ڈراموں پر بنائی گئی ہوں۔