معدومیت کے خطرے سے دو چار جنگلی حیات /تحریر: کریم اللہ
فکرِ فردا
کریم اللہ
وائلڈ لائف یا جنگلی حیات کسی بھی علاقے کی خوبصورتی،قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے اور موسمی تغیرات کے خطرات سے ماحول کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔موجودہ مشینی دور نے جہاں ایک طرف بنی نوعِ انسان کو ہر موڑ میں سہولیات فراہم کی ہے وہیں مشینوں کے بے تحاشہ استعمال نے کرہء ارض کے ماحول کو بری طرح سے متاثر کر دیا ہے۔آئے روز موسمی تبدیلیاں ،مقدار سے زیادہ بارشیں جس کے نتیجے میں سیلاب،زمین کے اوسط درجہء حرارت میں تباہ کن اضافہ اور گلیشرز کا پگھلنا جس کی وجہ سے پہاڑی علاقے سیلابی ریلوں کی زد میں آ کر برباد ہو رہے ہیں، تو سطح سمندر کی کے بڑھنے سے ساحلی علاقوں کے غرق آب ہونے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔اس ساری صورتحال میں جہاں ضرر رساں گیسوں کے اخراج نے تشویش پیدا کی ہے وہیں انساں اپنی ضرورت اور بسا اوقات عیاشی کے لئے جنگلی حیات(درختوں اور جنگلی جانوروں)کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے ۔پہاڑی علاقوں میں جلانے اور عمارتی استعمال کے لئے درختوں کی بے دریغ کٹائی کے ساتھ ساتھ چند افراد نے اپنی انا کی تسکیں کے لئے شکار کے نام پر جنگلی حیات کا قتل عام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں سال پرانی درختیں ختم ہو رہی ہیں توماحول کی خوبصورتی اورتوازن کو برقرار رکھنے والے جنگلی جانور اور پرندے بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔غیر قانونی شکار اور درختوں کے ناجائز کٹاؤ نے پاکستان کے شمالی پہاڑی ضلع چترال کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔جہاں پر ہزاروں سال پرانے سرو اور چیل کے درختوں کو جڑ وں سے اکھاڑ ا جا رہا ہے ۔وہاں تیتر ،چکور، خرگوش، ہرن،مارخور اور نایاب برفانی چیتے جو کہ یہاں کے مقامی جانور ہیں اور بطخ و قمری جیسے Migrative پرندوں کی جس بے دریغ انداز سے نسل کشی کی گئی اس کی وجہ سے موسمی پرندوں کی آمدختم ہو گئی اور یہاں کے مقامی جانور و پرندے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔نیچر کا اپنا قانون ہے۔خداوندِ لم یزل اس دنیا کو ایک خاص نظام کے تحت چلا رہے ہیں ۔جس طرح رات اور دن ایک سکنڈ کے فرق کے بغیر ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں اور سال کے موسموں میں لمحہ برابر کا بھی فرق نہیں ہوتا اسی طرح زمین میں رہنے والے مخلوقات کا بھی ایک خوبصورت اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بندھن موجود ہے جسے سائنسدان فوڈ چین کا نام دیتے ہیں ۔سائنسدانوں کے ترتیب دئیے ہوئے اس فوڈ چیں کا فلسفیانہ مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قدرت نے دنیا کے کسی بھی چیز کوفضول پیدا نہیں کیا بلکہ انساں کو اشرف المخلوقات بنا کر ساری دنیا کو اس کے تابع اور انسانی ضرورت کے لئے بنایا ہے۔ اگر انسان قدرت کے ترتیب دئیے ہوئے اس زنجیر کو توڑے یا توڑنے کی کوشش کرے تو تباہی انسان کا مقدر بن جاتی ہے ۔مثلاََ درختوں کا یہ عجیب حرکت کہ وہ رات کو کاربن ڈائیاکسائیڈ خارج کرتے ہیں جبکہ دن کے وقت اس مضر رساں گیس کو جزب کر کے اکسیجن گیس جیسے ذی روح کی زندگی کے لئے بنیادی جز خارج کرتے ہیں ۔ اگر دنیا میں سے سبز درختوں کا خاتمہ ہو جائے تو ہر طرف کا ربن ڈائی آکسائیڈ جمع ہوگااور دیکھتے ہی دیکھتے انسانی زندگی سمیت سارے جانور ختم ہو سکتے ہیں۔اسی طرح ماحول میں جنگلی جانوروں کی اپنی افادیت ہے یہ جانورماحول کی خوبصورتی میں کردار ادا کرنے کے ساتھ بلواسطہ یا بلا واسطہ انسانی خوراک کا بھی حصہ ہوتے ہیں۔اگر جنگلی جانوروں کا اس طرح سے شکار جاری رہا تو جنگلی درندے (شیر ،چیتے اور بھیڑے وغیرہ)اپنی خوراک کے لئے انسانی آبادی کی جانب آئینگے اور گھریلو پالتو جانوروں کے ساتھ خود انسان بھی ان کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس صورتحال کا سبب صرف انسان کا اپنے ہاتھوں قدرت کے نظام کی بربادی کے سواء اور کچھ نہیں۔ آج کل چترال میں بھی خود کار ہتھیاروں سے لیس شکار کے نام پر جنگلی جانوروں کی بیخ کنی کرنے والوں کا مکمل راج ہے ۔دوسرے اور آسان لفظوں میں کہا جائے تو جنگل کا قانون ہے ۔ جس کے پاس جتنا جدید اسلحہ ہو وہ اتنا بڑا شکاری اور نقصانات کا آزالہ کسی کو بھی نہیں۔جنگلی جانوروں کی تحفظ کے نام پر بنائی گئی وائلڈ لائف کا ادارہ تو موجود ہے لیکن اس غیر قانونی اور وائلڈ لائف دشمن شکار میں اس ادارے کے اہلکار سب سے آگے یا پھر ان کی توجہ نہ ہونے کے برابر۔
اگر کوئی قوم زوال پذیر ہو جائے تو ایک نہیں زندگی کے سارے شعبوں میں تباہی انہیں گھیر لیتی ہے ۔یہی حال ہمارا ہے ۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے ۔لا اینڈ آرڈر نام سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس بے چینی کے عالم میں شہریوں کی جان و مال کی کوئی قیمت نہیں تو جنگلی حیات پر توجہ دینے کے لئے کس کے پاس وقت۔ ایسے ادارے جو اپنے شعبوں میں قانوں نافذ کرنے کے بجائے خود قوانین کی دھجیاں اڑاتے پھیریں جس معاشرے میں قانون کے رکھوالے خود بڑا چور ہو ایسے معاشرے میں ایک عام آدمی سے قانون کے احترام کی توقع ایک احمقانہ فعل کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
چترال میں غیر قانونی شکار میں سب سے زیادہ ملوث پولیس اہلکارنظر آتے ہیں ۔جونہی موسم سرما شرو ع ہوتا ہے پولیس کے اہلکار خود کا ر ہتھیاروں سے لیس ہو کر دریا کے کنارے بڑے بڑے تالاب باندھ کر وہاں پہرے لگاتے ہیں۔ تاکہ کوئی موسمی بطخ زندہ نہ بچیں۔یہی نہیں بلکہ وردی کی طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے یہی طبقے ہرنوں ،چکوروں اور تیتروں کی بیخ کنی میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سول سوسائٹی اس سلسلے میں آواز اٹھائے اور جس بے دردی سے وائلڈ لائف کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے اسے روکنے میں حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں پر دباؤ ڈالے تاکہ معدومیت کے خطرے سے دو چار مقامی جنگلی حیات کو بچا کر ماحول کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار اد ا کیا جاسکے ۔اور موجودہ حالت میں یہ سب سے
بڑا جہاد بھی ہے۔
بشکریہ