ابن آدم
محفلین
یہ بہت اہم بنیادی سوال ہے جس پر ہر انسان کو سوچ و بچار کرنی چاہیے. سوره بقرہ کی دوسری اور تیسری آیت ہی کہتی کہ اس کتاب (قرآن مجید) میں کوئی شک نہیں... ان لوگوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں.یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی؟
الله سبحانہ وتعالی نے کن لوگوں کے ذریعہ قرآن کو محفوظ کیا؟
آپ تک الله کا محفوظ کردہ قرآن کیسے پہنچا ؟
اگر آپ کو روایات پر شک ہے تو کس چیز نے آپ کو یقین دلایا کہ جو قرآن آج آپ پڑھ رہے ہیں وہ وہی ہے جو الله جل جلالہ نے نازل فرمایا؟
پھر دوسرے مقامات پر آپ کو ملتا ہے کہ اگر یہ غیر الله کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے تضادات ہوتے.
اب ان دو سوالات ہیں، پہلا یہ کہ غیب پر ایمان سے کیا مراد ہے، اور اس پر تفسیروں اور دوسری جگہوں پر بہت بحث موجود ہیں کہ یہ الله، آخرت ہے اور بھی چیزیں پر بحث ہے. الله اس لئے نہیں ہو سکتے کہ الله غیب نہیں بلکہ ہر جگہ موجود ہیں. قیامت یا آخرت اس لئے نہیں ہو سکتی کہ اس پر آگے ہی ایمان لانے کو کہا گیا ہے. تو ایک نکتہ جو مجھے بہتر لگا ہے وہ یہ کہ یہ قرآن کے غیب سے انے پر ایمان ہے.
بنی اسرائیل کو جب تختیاں ملی تھیں تو حضرت موسیٰ کے ساتھ ان کی قوم کے سردار بھی گئے تھے اور الله کی طرف سے تختیاں اتری تھیں. جب کہ نبی کریم (ص ) کے تو سینے پر قرآن نازل ہو رہا تھا جو کہ اس وقت کے صحابہ کرام (رض) بھی نہیں دیکھ سکتے تھے. تو یہ ہمارے ایمان کی بنیاد ہے. تو اس وقت کے صحابہ کرام (رض) بھی اس پر ایمان رکھتے تھے کہ یہ الله کی طرف سے نازل ہو رہا ہے جب کہ ان کے پاس اس پر ایمان رکھنے کے لئے نبی کریم (ص) کے قول کے سوا کوئی چیز نہیں تھی. ابو جہل اور دیگر مشرکین نے نبی کریم(ص) کے قول کو نہیں مانا اور وہ ہمیشہ معجزہ مانگتے رہے اور الله نے بار بار ان کو قرآن میں مشرکین کو کہا کہ ہم نبی کریم(ص) کو معجزہ نہیں دیں گے. تو ہم میں اور
اس کی ایک اہم وجہ ہے کہ نبی کریم (ص) رہتی دنیا تک کے لیے نبی اور رسول ہیں. اور معجزہ ایک خاص وقت اور لوگوں کے لئے تو ہو سکتا ہے لیکن بعد والوں کے لئے نہیں. حضرت موسیٰ (ع) کو معجزات ملے لیکن ان کی قوم میں نبیوں کی لڑی بھی چلتی رہی.
تو ہم میں اور صحابہ کرام (رض) میں ایک چیز مشترک ہے کہ ہم بھی اس قرآن کو غیب سے مان رہے ہیں اور وہ بھی اس کو غیب سے مانتے تھے لیکن ایک چیز ہمارے لئے مشکل ہے کہ ان کے درمیان نبی کریم (ص) تھے اور ہمیں نبی کریم پر بھی ایمان اس قرآن سے ہی لانا ہے. اگر آپ بخاری کی روایت کی وجہ سے قرآن کو مان رہی ہیں تو آپ کا ایمان بخاری پر ہے نہ کہ قرآن پر. اگر آپ ابن اسحاق کی سند پر قرآن کو مان رہی ہیں تو آپ کا ایمان ابن اسحاق پر نہ ہوا؟ میرے لئے قرآن کی بات اور پھر قرآن کا یہ دعوی کے یہ اگر غیر الله کی طرف سے ہوتی تو اس میں تضاد ہوتے، قرآن پر ایمان کے لیے کافی ہے. اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی تاریخ اور حدیث اور سب چیزوں کو جھٹلایا جائے لیکن قرآن کی بات کو فوقیت دی جائے. قرآن کو حدیث یا تاریخ کا تابع نہ کیا جائے.
جیسے صلات الوسطی پر جس وقت غور کیا تو تفسیر طبری میں اس پر ٢٥ سے زائد صفحات روایات سے بھرے ہوئے ہیں جس میں فجر، ظہر، عصر، مغرب، اور وتر تک ہر نماز کے لئے روایت ہے. تو کیا نبی کریم (ص) فرق فرق صلات الوسطی بتا سکتے تھے؟ تو اب اس میں کوئی ایک نماز تو ہو گی تو وہ کونسی ہے اور غلط روایات کونسی ہے اس کا تعین کرنے کے لئے قرآن کو دیکھا جائے گا.
امید ہے کہ میں اپنی بات کو آپ تک پہنچا سکا ہوں گا