نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری حسن و جمال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری حسن و جمال
262uvf4.jpg

مآخذ
 

نظام الدین

محفلین
اللَّهُمَّ صَلِّ علي مُحَمَّدٍ وَعَلي آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ صَلَّيتَ عَلي اِبْرَاھِيمَ وَعَلي آلِ اِبْرَاھِيمَ اِنَّکَ حَمِيدُ مَجِيد, اللَّهُمَّ بَارِک عَلي مُحَمَّدٍ وَّ عَلي آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکتَ عَلي اِبرَا ھِيمَ وَعَلي آلِ اِبرَاھِيمَ اِنّکَ حَمِيدُ مَّجِيد
 

الشفاء

لائبریرین
وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ
كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ


صل اللہ علیک وسلم یا سیدی یا حبیبی یا مولائی یا رسول اللہ۔۔۔۔

 

mohsin ali razvi

محفلین
ایک دفعہ پڑھ کر ضرور شیر کریں۔جزاک اللہ
درود ابراهيمي شريف
اَللَّهمّ صَلِّ علي محمّدٍ و علي آلِ محمّدِ كَما صَلِّيًتَ علي اِبًراهيِم و علي آلِ اِبًراهيِم اِنَّك حميِد‘ مجيِدِ اَللَّهمّ بارِك علي محمّدٍ و علي آلِ محمّدٍ كَما باركتَ علي اِبًراهيِم و علي آلِ اِبًراهيِم اِنَّك حميِد‘ مجيِدٍ
--------------------------
نور کامل ہے محمد سرور کون و مکان
ہو بصیرت دیکھلو تو ہیں حبیب کبریا
سب سے اعلا ذات بالا رحمت دو نوع جہاں
خلقت انساں سے بر کر نور ایماں بے گماں
علیشا رضوءی
 

اکمل زیدی

محفلین
خدا وند عالم نے ان کو اپنی رحمت کی بشارت دینے والا بنا کر بھیجا ہے ، جس طرح سے خداند عالم بندوں پر اپنی رحمت کا سایہ کئے ہوئے ہے ، یہ نیلا آسمان ، یہ وسیع زمین ، بلند پہاڑ ، یہ بہتے دریا ، درخت،درختوں پر چہچہاتی ہوئی چڑیاں ، یہ شکوفے اور ان پر منڈلاتی ہوئی تتلیاں ،غرض کہ اس دنیا کا چپا چپا اور اس کی ہر شئی اس کی رحمت وا سعہ کی نشانی ہے ،ا ور ان سب میں سب سے بڑا نمونہ حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی ذات گرامی ہے ،
 

متلاشی

محفلین
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے، جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں، اے ابد کے حسیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی، زلف ِتاباں حسیں رات معراج کی
"لیلۃُ القدر "تیری منور جبیں، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں
 

mohsin ali razvi

محفلین
ہمارے پیارے نبی ﷺ نور اور بے مثال بشر ھیں مخالفین کی گواہیاں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھم مسلمانوں کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور اﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے،

ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کو دلیل و تلبیہ سے ثابت کرے اور سائل مدمقابل مخالف مدعی کے پیش کردہ دلائل کا ردوابطال کرے۔ اہلسنت و جماعت حنفی بریلوی کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور اﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے، اہل سنت و جماعت جب اس دعویٰ پر بطور دلیل متعدد آیات قرآنیہ، احادیث صحیحہ، جلیل القدر مفسرین و محدثین کرام، ائمہ دین متین کی تصریحات اور گرانقدر ارشادات و فرمودات پیش کرتے ہیں تو منکرین نورانیت مصطفی علیہ التحیتہ والثناء وہابیہ بہر نوع بہرصورت ان دلائل و شواہد کے ردوابطال کی کوشش کرتے ہیں اور خداداد شان نورانیت کو مٹانے کی مذموم سعی کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اکابر وہابیہ دیابنہ کا اپنی متعدد کتب و رسائل میں ہمارے دلائل و شواہد ضبط تحریر میں لاکر سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم کے لئے نورانیت مقدسہ ثابت کرنا مذہب مہذب اہلسنت و جماعت کی حقانیت و صداقت اور عقیدہ و دعویٰ کے مضبوط و مستحکم ہونے اور وہابیہ دیابنہ کے ساکت و عاجز ہونے اور اصول و ضوابط سے عاری ہونے کی بیّن دلیل ہے۔ وہابیہ دیابنہ کی مستند و معتبر کتب سے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین ہیں۔ والفضل ماشہدت بہ الاعداء

* مولوی رشید احمد گنگوہی قدجاء کم من اﷲ نور و کتاب مبین کا ترجمہ لکھتے ہیں ’’تحقیق آئے ہیں تمہارے پاس اﷲ کی جانب سے نور اور کتاب مبین‘‘ نور سے مراد حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات پاک ہے۔۔۔ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو نور فرمایا اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے اور یہ واضح ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں ۔۔۔ (امداد السلوک ص 156)

* نیز لکھتے ہیں ’’حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور مومنوں کو میرے نور سے‘‘ (امداد السلوک ص 157)

* نیز لکھتے ہیں ’’آپ کی ذات اگرچہ اولاد آدم میں سے ہے لیکن آپ نے اپنی ذات کو اس طرح مطہر فرمایا کہ اب آپ سراپا نور ہوگئے‘‘ (امداد السلوک ص 85)

* مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں ’’(آیت مقدسہ میں) نور سے مراد حضور صلى الله عليه وسلم ہیں۔ اس تفسیر کی ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ مراد اوپر بھی قد جاء کم رسولنا فرمایا ہے تو یہ قرینہ ہے کہ اس پر کہ دونوں جگہ جاء کم کا فاعل ایک ہو‘‘ (رسالۃ النور ص 31)

* مولوی عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں ’’نور سے اشارہ ہے رسالت محمدی کی جانب اور کتاب مبین سے قرآن کی جانب‘‘ (تفسیر ماجدی جلد اول ص244)

*ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی لکھتے ہیں ’’بے شک اﷲ کی طرف سے تمہارے پاس نور آچکا (یعنی نبی آخرالزمان) اور کتاب روشن (یعنی قرآن پاک) تفسیر فیوض القرآن ،صفحہ 239)

*مولوی رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں ’’شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) رحمتہ اﷲ نے اول ما خلق اﷲ نوری کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ ص 373)

*مولوی حسین احمد ٹانڈوی نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے (الشہاب الثاقب ص 47)

* مولوی اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں ’’جیسے کہ روایت ’’اول ماخلق اﷲ نوری‘‘ اس پر دلالت کرتی ہے‘‘ (یک روزہ ص 11)

* مولوی اشرف علی تھانوی نے حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت بحوالہ امام عبدالرزاق رحمتہ اﷲ تعالیٰ نقل کی اور اس پر اعتماد کیا (نشر الطیب ص 6)

نہ صرف سرکار اقدسﷺ بلکہ اپنے علماء و مشائخ کے لئے بھی نورانیت ثابت کرنا دیوبندی کتب و رسائل سے ثابت ہے (العیاذ باﷲ تعالیٰ)

* مولوی رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں ’’حضرت ابوالحسن نوری رحمتہ اﷲ علیہ کو نوری اس لئے کہتے ہیں کہ آپ سے کئی بار نور دیکھا گیا ’’(امداد السلوک ص 157)

* مولوی محمود الحسن دیوبندی مولوی رشید احمد گنگوہی کو نور مجسم اور قبر کو تربت انور قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

چھپائے جامۂ فانوس کیونکر شمع روش کو

تھی اس نور مجسم کے کفن میں وہ ہی عریانی

تمہاری تربت انور کو دے کر طور سے تشبیہ

کہو ہوں بار بار ’’ارنی‘‘ میری دیکھی بھی نادانی

(مرثیہ گنگوہی ص 12)

* مولوی عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں ’’پس بے نظیر شیخ وقت اور بے عدیل قطب زماں کی سوانح کوئی لکھے تو کیا لکھے بھلا جس مجسم نور اور سرتاپا کمال کا عضو عضو اور رواں رواں ایسا حسین ہو کہ عمر بھر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے بھی سیری نہ ہوسکے۔ اس کے کوئی محاسن بیان کرے تو کیا کرے‘‘ (تذکرۃ الرشید پہلا حصہ ص 3)

* مولوی سرفراز گکھڑوی حضرت شیر ربانی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’دیوبند میں چار نوری وجود ہیں۔ ان میں سے ایک (انور) شاہ صاحب ہیں‘‘ (عبارات اکابر ص 37)

* معروف دیوبندی رسالہ میں لکھا ہے ’’مولانا احمد علی صاحب اﷲ تعالیٰ کے انوار میں سے ایک نور تھے‘‘ (رسالہ خدام الدین لاہور 24 مئی1992ء)

* نیز اسی میں لکھا ہے ’’علامہ (شمس الحق) افغانی نے دریافت فرمایا حضرت (مخاطب مولوی احمد علی ہیں) کیا وجہ ہے کہ سید (احمد) صاحب کی قبر پرانوار مولانا (اسماعیل) کی بہ نسبت کم معلوم ہوتے ہیں‘‘ (رسالہ خدام الدین 22 فروری 1963)

* مولوی حسین احمد ٹانڈوی کے بارے میں معروف دیوبندی اخبار میں لکھا ہے ’’اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (یعنی ٹانڈوی صاحب) عالم نور میں رہتے ہیں، ان کی آنکھوں میں بھی نور ہے۔ ان کے دائیں بھی نور ہے،ان کے بائیں بھی نور ہے، ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہے وہ خود نور ہوگئے ہیں‘‘ (روزنامہ الجمعیت دہلی شیخ الاسلام نمبر ص 12، 1958)

* مولوی رفیع الدین دیوبندی لکھتے ہیں ’’وہ شخص (یعنی قاسم نانوتوی) ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیاگیا ‘‘ (حکایات اولیاء یعنی ارواح ثلاثہ ص 259، سوانح قاسمی جلد اول ص 130)

معاذ اﷲ اس عبارت میں بھی نانوتوی کو نور کہا گیا ہے کیونکہ روایت ہے خلقت الملائکۃ من نور یعنی فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے (مسلم شریف جلد دوم ص 413)

* مولوی ثناء اﷲ امرتسری پیشوائے غیر مقلدین وہابیہ نے قد جاء کم ۔۔۔ الخ آیت مقدسہ کا ترجمہ یوں کیا ’’تمہارے پاس اﷲ کا نور محمد صلى الله عليه وسلم اور روشن کتاب قرآن شریف آئی‘‘ (تفسیر ثنائی جلد اول ص 362)

* نیز لکھتے ہیں ’’ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا، خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نورہیں‘‘ (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم ص 93)

* مولوی وحید الزمان غیر مقلد وہابی لکھتے ہیں ’’اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا، پھر پانی، پھر پانی کے اوپر عرش کو پیدا کیا، پھر ہوا، پھر قلم اور دوات اور لوح پھر عقل کو پیدا کیا، پس نور محمدی آسمانوں اور زمین اور ان میں پائی جانے والی مخلوق کے لئے مادہ اولیہ ہے‘‘ نیز حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ قلم اور عقل کی اولیت اضافی ہے۔ (ہدیۃ المہدی ص 56)

* مولوی صدیق حسن بھوپالی لکھتے ہیں ’’نور النبی تجلی رحمۃ‘‘ یعنی نور نبی تجلی رحمت ہے (نفح الطیب ص 60)

* مولوی حافظ محمد لکھوی لکھتے ہیں ’’نور نبی دا آپے دیندا لوکاں نوں روشنائی‘‘ (تفسیر محمدی 4 ص 201)

* مولوی پروفیسر ابوبکر غزنوی غیر مقلد تقریظ میں لکھتے ہیں ’’قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ بشر بھی تھے اور نور بھی تھے۔۔۔ اور صحیح مسلک یہی ہے کہ وہ بشر ہوتے ہوئے از فرق تا بقدم نور کا سراپا تھے‘‘ (تحریر 14 دسمبر 1971، تقریظ رسالہ بشریت و رسالت ص 17)
 

سید عمران

محفلین
جن بزرگوں کا نورانی ہونا لکھا ہے اس سے مراد ان کا ذاتی نور نہیں ہے بلکہ ذکر و عبادات کا نور جو ان کے جسد خاکی پر ظاہر ہوتا ہے اس کا ذکر ہے۔ جیسے صحابہ کی شان میں آیت ہے سیماھم فی وجہھم من اثر السجود ۔۔۔سیما کی تعریف مفسرین نے نور سے کی ہے یعنی ان صحابہ کرام کے چہروں پر عبات کا نور جھلکتا ہے۔ اور مولانا قاسم صاحب کو مقرب فرشتہ کہنا محض استعارہ ہے جو ادب پڑھنے والوں سے مخفی نہیں۔
کسی بھی تحریر کو محض بغض و عداوت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ ان بزرگوں کی پوری زندگی سامنے رکھنی چاہیے کہ کیسی متبع شریعت و سنت تھی۔
ہر مسلک کے بزرگان دین کا احترام کرنا چاہیے۔ کسی بھی بزرگ کی بے ادبی عام آدمیوں کے لیے تو کیا خواص کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔
 

سید عمران

محفلین
باقی رہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تو وہ ہر انسان کے فہم و خیال سے بلند و بالاتر ہے۔ آپ کی ذات اقدس کے بارے میں جہاں کہیں مناظرے یا بحث کا پہلو عیاں ہونے لگے وہاں زباں بندی میں ہی عافیت ہے۔
 
ماشااللہ کس قدر محبت سے لبریز اور دلکش تحریر ہے'' حسن مصطفی،،، لیکن اچانک سے یہ نور اور بشر کی لڑائی کہاں سے داخل ہو گئی mohsin ali razvi صاحب نے بہت اعلی مدلل تحریر لکھی ہے لیکن موصوف نے موقع محل مدنظر نہیں رکھا حضرت سے ادبا التماس ہے کہ جس موضوع پر مضمون لکھا گیا ہے اسی پر ہی مزید علمی تبصروں سے عوام الناس کو فائدہ پہنچائیں تاکہ مکمل موضوع پر سب کو وافر معلومات مل سکیں۔۔۔۔۔۔
 
Top