محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
پاکستان کے لیے فکرانگیز لمحات
by Najam Sethi
October 23, 2020
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے طبل جنگ بجا دیا ہے۔
لیکن اب کیا ہوگا؟
سولہ اکتوبر کا گوجرانوالہ کا جلسہ سکرپٹ کے مطابق ہوا۔ کم و بیش پچاس ہزار افراد اسٹیڈیم کے اندر تھے حالانکہ سڑکیں بلاک تھیں اور پولیس چھاپے مار رہی تھی ۔ لیکن پھر نواز شریف آئے اور ہر گیند پر چھکا مارا۔ ہر گیند پارک سے باہر جاگری۔ اُنہوں نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف غیر معمولی بیانیے میں دو اہم افسران کو ہدف تنقید بنایا۔ اب ملک کے چاروں کونوں میں اسی بیانیے کی گونج ہے۔ چند دن بعد کراچی میں میدان لگا۔ کچھ سوچ بچار کے بعد اسلام آباد سے تاریخی طور پر شاقی رہنے والی علاقائی قوم پرست جماعتوں کے راہ نما، جیسا کہ محسن داوڑ، اختر مینگل، عبدالمالک، محمود خان اچکزئی، امیر حیدر ہوتی بھی جلسے میں شریک ہوئے اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف خوب گرجے۔ ان کی گھن گرج کے سامنے بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی للکار بھی ماند پڑ گئی۔
کئی وجوہ کی بنا پر یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے۔ مسلم لیگ ن کی صفوں میں ”اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت“ کا بیانیہ اب پس منظر میں جا چکا۔ یہ بیانیہ رکھنے والے شہباز شریف اب خاموشی سے جیل بھگت رہے ہیں۔ دوسری طرف”ریاست سے بالا تر ریاست کے خلاف“ بیانیہ اب اگلے قدموں پر ہے۔ لندن میں جلاوطن نواز شریف اس بیانیے کی گولہ باری کررہے ہیں۔
پی ڈی ایم الائنس میں دائیں بازو کی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام، بائیں بازو کی سیکولر پیپلز پارٹی، اور مرکزی دھارے کی روایت پرست مسلم لیگ ن بڑے شراکت دار ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جماعتیں ملک میں اسٹبلشمنٹ کے غیر جمہوری کردار کے خلاف اپنی اپنی نظریاتی پوزیشن کو ایک طرف رکھ کے اکٹھی ہوئی ہیں ۔ درحقیقت جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ ن کبھی اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتیں تھیں ۔ اگرقومی اسمبلی کی 70 نشستوں پر ہونے والی دھاندلی کو نہ بھی شمار کیا جائے تو بھی پی ڈی ایم گزشتہ انتخابات میں پاکستان کے طول و عرض میں ڈالے گئے ووٹ کے کم و بیش 65 فیصد کی دعویدار ہے۔ان 70 نشستوں پر اکتیس فیصد ووٹ تحریک انصاف کے نام گنے گئے۔
گویا اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ پاکستان کے سرد علاقوں سے نکل کر اس کے گرم مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں آگیا ہے۔ اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے اسٹبلشمنٹ 70 بھرتی کرتی ہے۔ کراچی جلسے میں اسٹبلشمنٹ ایک اور حوالے سے بھی ڈرامائی صورت حال کی زد میں آگئی ۔ اس کے افسران نے جلسے کے بعد نصف شب کو مبینہ طور پر سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کو اُن کے گھروں سے اٹھایا،اُنہیں سکیٹر کمانڈر ہیڈکوارٹرز لے گئے اور کیپٹن صفدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کرائے جن پر مزار قائد پر نعرے بازی کا الزام تھا۔ اس سے سندھ پولیس میں ایک غیر معمولی بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے یہاں تک کہ چیف آف آرمی سٹاف کو اس افسوس ناک واقعے کی تحقیقات کا اعلان کرنا پڑا۔ پتہ چلا کہ جس شخص نے ایف آئی آر درج کرائی تھی، اس کے تحریک انصاف سے روابط ہیں، وہ ایک اشتہاری مجرم ہے اور واقعے کے وقت موقع پر موجود بھی نہیں تھا۔
اہم بات یہ ہوئی کہ پی ڈی ایم کی صفوں میں دراڑ نہ پڑ سکی۔ اس کی بجائے اس کا اسٹبلشمنٹ بیانیہ مزید توانا ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ایسے مزید واقعات بھی رونما ہوں گے، خاص طور پر بیوروکریسی اور عدلیہ میں جو اسی طرح کے شدید دباؤ تلے کام کررہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ انیتا ایوب کیس میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے باوجود گزشتہ دو برسوں کے دوران پنجاب میں پانچ چیف سیکرٹری اور پانچ انسپکٹر جنرل پولیس اپنے عہدوں سے اچانک تبدیل کردیے گئے۔ اس کی وجہ طریق کار کے بغیر، من مانی سے کیے گئے تبادلے اور تقرریاں تھیں۔
پنجاب میں تنک مزاج سی سی پی او کے ہاتھوں انسپکٹر جنرل پولیس کی حالیہ توہین سے لے کر اپنے فیصلوں کے ذریعے اسٹبلشمنٹ کو ناراض کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کی برخاست جیسے بہت سے کیسز ہمارے سامنے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزراہم نے اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ ایک ایس پی کے ’کارنامے‘ دیکھے تھے۔ وہ ایس پی سندھ حکومت کے افسران کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔
اب پی ڈی ایم کا اگلا پڑاؤ کوئٹہ میں ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن صوبائی حزب مخالف میں موجود قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ مل کر ملک کو ”ون یونٹ“ کی طرح چلانے والی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے خطے کے ساتھ روا رکھے گئے سیاسی اور معاشی امتیاز اور آئینی حقوق کی محرومی کے خلاف آواز بلند کریں گے۔
اسٹبلشمنٹ کو ہدف بنانے کا فائدہ ہوگا یا نقصان، اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف کی حکومت مل کر یا اکیلے اکیلے اس پرکیا ردعمل دیتے ہیں۔ اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ مایوس کن گورننس اور بے پناہ بدعنوانی میں دھنسی تحریک انصاف کی حکومت نے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے۔ بدقسمتی سے اسٹبلشمنٹ نے بھی کھلے عام ”ایک صفحے“ پر ہونے کی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے اچھا نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہوا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے خلا ف عوامی اشتعال بڑھ رہا ہے۔ اگر اس نے سیاسی شراکت داری کا کھیل موقوف نہ کیا تو جلد ہی اسے حز ب اختلاف کی زبان بندی کے لیے جبر کرنا پڑے گا۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی ساکھ مزید کھو بیٹھے گی۔ اور یہ ساکھ ہی ہے جو ریاست اور معاشرے کو باہم جوڑے رکھتی ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر اسے پی ڈی ایم کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑے گی جس کا اس کے سوااور کوئی مطلب نہیں کہ مسائل کی جڑ، عمران خان کو چلتا کردیا جائے۔ اسٹبلشمنٹ کے لیے بحران دراصل پاکستان کے لیے فکر انگیز لمحات ہیں۔
October 23, 2020
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے طبل جنگ بجا دیا ہے۔
لیکن اب کیا ہوگا؟
سولہ اکتوبر کا گوجرانوالہ کا جلسہ سکرپٹ کے مطابق ہوا۔ کم و بیش پچاس ہزار افراد اسٹیڈیم کے اندر تھے حالانکہ سڑکیں بلاک تھیں اور پولیس چھاپے مار رہی تھی ۔ لیکن پھر نواز شریف آئے اور ہر گیند پر چھکا مارا۔ ہر گیند پارک سے باہر جاگری۔ اُنہوں نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف غیر معمولی بیانیے میں دو اہم افسران کو ہدف تنقید بنایا۔ اب ملک کے چاروں کونوں میں اسی بیانیے کی گونج ہے۔ چند دن بعد کراچی میں میدان لگا۔ کچھ سوچ بچار کے بعد اسلام آباد سے تاریخی طور پر شاقی رہنے والی علاقائی قوم پرست جماعتوں کے راہ نما، جیسا کہ محسن داوڑ، اختر مینگل، عبدالمالک، محمود خان اچکزئی، امیر حیدر ہوتی بھی جلسے میں شریک ہوئے اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف خوب گرجے۔ ان کی گھن گرج کے سامنے بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی للکار بھی ماند پڑ گئی۔
کئی وجوہ کی بنا پر یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے۔ مسلم لیگ ن کی صفوں میں ”اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت“ کا بیانیہ اب پس منظر میں جا چکا۔ یہ بیانیہ رکھنے والے شہباز شریف اب خاموشی سے جیل بھگت رہے ہیں۔ دوسری طرف”ریاست سے بالا تر ریاست کے خلاف“ بیانیہ اب اگلے قدموں پر ہے۔ لندن میں جلاوطن نواز شریف اس بیانیے کی گولہ باری کررہے ہیں۔
پی ڈی ایم الائنس میں دائیں بازو کی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام، بائیں بازو کی سیکولر پیپلز پارٹی، اور مرکزی دھارے کی روایت پرست مسلم لیگ ن بڑے شراکت دار ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جماعتیں ملک میں اسٹبلشمنٹ کے غیر جمہوری کردار کے خلاف اپنی اپنی نظریاتی پوزیشن کو ایک طرف رکھ کے اکٹھی ہوئی ہیں ۔ درحقیقت جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ ن کبھی اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتیں تھیں ۔ اگرقومی اسمبلی کی 70 نشستوں پر ہونے والی دھاندلی کو نہ بھی شمار کیا جائے تو بھی پی ڈی ایم گزشتہ انتخابات میں پاکستان کے طول و عرض میں ڈالے گئے ووٹ کے کم و بیش 65 فیصد کی دعویدار ہے۔ان 70 نشستوں پر اکتیس فیصد ووٹ تحریک انصاف کے نام گنے گئے۔
گویا اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ پاکستان کے سرد علاقوں سے نکل کر اس کے گرم مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں آگیا ہے۔ اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے اسٹبلشمنٹ 70 بھرتی کرتی ہے۔ کراچی جلسے میں اسٹبلشمنٹ ایک اور حوالے سے بھی ڈرامائی صورت حال کی زد میں آگئی ۔ اس کے افسران نے جلسے کے بعد نصف شب کو مبینہ طور پر سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کو اُن کے گھروں سے اٹھایا،اُنہیں سکیٹر کمانڈر ہیڈکوارٹرز لے گئے اور کیپٹن صفدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کرائے جن پر مزار قائد پر نعرے بازی کا الزام تھا۔ اس سے سندھ پولیس میں ایک غیر معمولی بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے یہاں تک کہ چیف آف آرمی سٹاف کو اس افسوس ناک واقعے کی تحقیقات کا اعلان کرنا پڑا۔ پتہ چلا کہ جس شخص نے ایف آئی آر درج کرائی تھی، اس کے تحریک انصاف سے روابط ہیں، وہ ایک اشتہاری مجرم ہے اور واقعے کے وقت موقع پر موجود بھی نہیں تھا۔
اہم بات یہ ہوئی کہ پی ڈی ایم کی صفوں میں دراڑ نہ پڑ سکی۔ اس کی بجائے اس کا اسٹبلشمنٹ بیانیہ مزید توانا ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ایسے مزید واقعات بھی رونما ہوں گے، خاص طور پر بیوروکریسی اور عدلیہ میں جو اسی طرح کے شدید دباؤ تلے کام کررہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ انیتا ایوب کیس میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے باوجود گزشتہ دو برسوں کے دوران پنجاب میں پانچ چیف سیکرٹری اور پانچ انسپکٹر جنرل پولیس اپنے عہدوں سے اچانک تبدیل کردیے گئے۔ اس کی وجہ طریق کار کے بغیر، من مانی سے کیے گئے تبادلے اور تقرریاں تھیں۔
پنجاب میں تنک مزاج سی سی پی او کے ہاتھوں انسپکٹر جنرل پولیس کی حالیہ توہین سے لے کر اپنے فیصلوں کے ذریعے اسٹبلشمنٹ کو ناراض کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کی برخاست جیسے بہت سے کیسز ہمارے سامنے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزراہم نے اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ ایک ایس پی کے ’کارنامے‘ دیکھے تھے۔ وہ ایس پی سندھ حکومت کے افسران کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔
اب پی ڈی ایم کا اگلا پڑاؤ کوئٹہ میں ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن صوبائی حزب مخالف میں موجود قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ مل کر ملک کو ”ون یونٹ“ کی طرح چلانے والی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے خطے کے ساتھ روا رکھے گئے سیاسی اور معاشی امتیاز اور آئینی حقوق کی محرومی کے خلاف آواز بلند کریں گے۔
اسٹبلشمنٹ کو ہدف بنانے کا فائدہ ہوگا یا نقصان، اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف کی حکومت مل کر یا اکیلے اکیلے اس پرکیا ردعمل دیتے ہیں۔ اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ مایوس کن گورننس اور بے پناہ بدعنوانی میں دھنسی تحریک انصاف کی حکومت نے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے۔ بدقسمتی سے اسٹبلشمنٹ نے بھی کھلے عام ”ایک صفحے“ پر ہونے کی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے اچھا نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہوا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے خلا ف عوامی اشتعال بڑھ رہا ہے۔ اگر اس نے سیاسی شراکت داری کا کھیل موقوف نہ کیا تو جلد ہی اسے حز ب اختلاف کی زبان بندی کے لیے جبر کرنا پڑے گا۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی ساکھ مزید کھو بیٹھے گی۔ اور یہ ساکھ ہی ہے جو ریاست اور معاشرے کو باہم جوڑے رکھتی ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر اسے پی ڈی ایم کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑے گی جس کا اس کے سوااور کوئی مطلب نہیں کہ مسائل کی جڑ، عمران خان کو چلتا کردیا جائے۔ اسٹبلشمنٹ کے لیے بحران دراصل پاکستان کے لیے فکر انگیز لمحات ہیں۔