لیکن نجم لفافی کا لیڈر نواز شریف تو کہتا ہے فوج سے کوئی ڈائلوگ نہیں ہوگا۔تحریک انصاف کی غلطیوں پر اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے کی اپوزیشن کی پالیسی میں تسلسل کی وجہ سے مقتدر حلقے عمران خان کی حمایت سے دست بردار ہوکر اس بحران کو کسی اور طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وسیع تر قومی سیاسی منظر نامے میں امکانات کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔
نہیں وہ جو پوچھتی ہیں کہ بے نظیر کو پانچ سال سزا دی جائے یا سات سال ۔وہی جو فیصلہ سنانے کے لیے راولپنڈی سے واٹس ایپ پیغام کا انتظار کرتی ہیں؟
یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ نواز شریف "بھاوؤ" بن گئے ہیں اور اب اسٹیبلیشمنٹ کاکا کو ان سے ڈرنا چاہئے ۔ ورنہ ان کو بھی معلوم ہے کہ پی ڈی ایم کا غبا رہ اب پھٹا کہ تب پھٹا ۔ اس ادارے میں ایسی ایسی باتیں لکھی ہیں کہ خود پی ڈی ایم کے وہم و گمان میں نہیں ۔ نواز شیف کی لاہور جلسے میں کتنی عوامی پذیرائی ہوئی وہ دنیا نے دیکھی ۔ بھان متی کا کنبہ ٹائپ اتحاد جو کرپشن سے توجہ ہٹانے کے لیے بنایا گیا ہے اس کو یہ صحافی اداریے لکھ لکھ کرمصنوعی تنفس دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور مردہ گھوڑے میں جان ڈال رہے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ جانتے ہیں کہ اگر اسٹیٹس کو کو نہ بچایا تو کل ہاتھ ان کے گریبانوں تک بھی پہنچے گا ۔پیش قدمی
نواز شریف نے بالآخر خاموشی توڑ دی۔ اہم بات یہ کہ اُنھوں نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ بہت کھلے اور واضح الفاظ میں اسٹبلشمنٹ پر قومی اتفاق رائے کو بگاڑنے اور سیاسی عمل کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا الزام لگایا۔اس سے بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ نواز شریف کو ایسا لہجہ اختیار کرنے کی کس نے شہ دی؟ تحریک انصاف کی حکومت نے اُن کی تقریر نشر کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کیا اُن کی اسٹبلشمنٹ مخالف تقریر نے مسلم لیگ نون کو تقویت پہنچائی ہے یا زک؟ کیا ن لیگ اسٹبلشمنٹ مخالف اور اسٹبلشمنٹ نواز دھڑوں میں بٹ جائے گی، جس کی پیش گوئی سیاسی نجومی، شیخ رشید کرتے رہے ہیں؟
بہت دیر سے یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ نواز شریف کی خاموش جلاوطنی کے پیچھے شہباز شریف اوراسٹبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی کسی قسم کی ”مفاہمت“ کا عمل دخل ہے۔ اس کے مطابق اسٹبلشمنٹ کی اہم ضروریات کا خیال رکھنے کے عوض مسلم لیگ ن کی قیادت کو نسبتاً محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے۔ زیادہ شفاف سیاسی بندوبست کا اہتمام بھی ہوجائے گا۔ بلاشبہ یہی وجہ تھی کہ عمران خان مسلم لیگ ن کی قیادت پر بلا تکان حملے کررہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ن لیگ کی قیادت این آر او لینے کی کوشش میں ہے جسے سبوتاژ کرنا ضروری ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش رہی ہے کہ ایسے تعلقات کو شروع ہونے سے پہلے ہی بگاڑ دیا جائے۔اب تازہ نیب کیسز مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے تعاقب میں ہیں۔ اُن کے خلاف بھی جو شہباز شریف کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ کے حامی سمجھے جاتے تھے۔ ان واقعات نے ن لیگ کے اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ کے غبارے سے ہوا نکال کر نوا زشریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف موقف کو تقویت دی ہے۔
اس سفر کا آغاز گزشتہ نومبر کو ہواتھا جب ”سلیکٹرز“ کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کو شہباز شریف کے بیانیے نے نقصان پہنچایا تھا۔اب یہ سفر ایک مرتبہ پھر شروع ہونے جارہا ہے۔ اب اسے نواز شریف کے بیانیے کی حمایت حاصل ہے۔ اگلے مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے پہلے اس کاوش کا نتیجہ سامنے آجانا چاہیے۔ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے الائنس کا برقرار رہنا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوگا۔ تحریک انصاف کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہوجائے گی۔وہ آئین میں ترمیم کرکے ملک پر ہمیشہ کے لیے یک جماعتی نظام مسلط کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چنانچہ حالات ”اب،یا کبھی نہیں“ تک پہنچ چکے ہیں۔
عمران خان نے نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگانے کا سوچا تھا لیکن جب انٹیلی جنس رپورٹس ملیں کہ تقریر عمران مخالف کی بجائے اسٹبلشمنٹ مخالف ہوگی تو اُنھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ تحریکِ انصاف کی دلیل یہ تھی کہ اس صورت میں اسٹبلشمنٹ فوری ردعمل دکھائے گی اور مسلم لیگ ن کی سرکوبی کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ الائنس کو مزید تقویت دے گی۔ لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ تقریر کو اتنی پذیرائی ملے گی اور یہ تقریر ن لیگ کے حامیوں میں زندگی کی لہر دوڑادے گی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے ہاتھ ملانے سے کل جماعتی کانفرنس پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام کا باعث بن جائے گی۔
نواز شریف کی سیاسی فعالیت نے پاکستان مسلم لیگ ن کی توقعات کی مدہم پڑتی ہوئی آنچ کو تیز کردیا ہے۔ بلوچستان، فاٹا، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اسٹبلشمنٹ مخالف جذبات کی کمی نہیں۔ پی ڈی ایم کی شروعات سے اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کی براہِ راست زد میں آجائے گی۔ ملک کے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ہونے والی کشمکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کے محافظ کے طور پر اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کے مخالف چلنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
ان معروضات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کے پیہم اصرار کے باوجود اسٹبلشمنٹ ایک قدم پیچھے ہٹا کر اپنے دیگر آپشنز پر غور کرسکتی ہے۔ اس صورت میں نیب اور عدلیہ کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ساتھ نرمی برتنے کا اشارے دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مزید کریک ڈاؤن ملک کو آئینی بحران سے دوچار کرکے معیشت کو مفلوج کردے گا۔ اور یہ وہ وقت ہے جب معاشرہ بمشکل کوویڈ 19 سے سنبھل کر بحالی کی سانسیں لینے کے قابل ہوا تھا۔
مختصر یہ کہ گھیر ے میں آئی ہوئی نیم جان اپوزیشن کی بحال ہوتی ہوئی سانسیں اسٹبلشمنٹ کے جارحانہ رویے کے نتائج کے برعکس ہیں۔ چنانچہ توقع کی جانی چاہیے کہ کچھ دروازے رفتہ رفتہ کھلنے شروع ہوجائیں گے، ہر چند بہت محتاط طریقے سے۔ اسی نسبت سے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے جگہ سکڑتی جائے گی کیونکہ اسٹبلشمنٹ اسے حز ب اختلاف کو دیوار کے ساتھ لگانے کی ذمہ دار سمجھے گی جس کی وجہ سے حزب اختلاف نے اسٹبلشمنٹ کو براہ راست سیاسی محاذ آرائی کا ہدف بنایا ہے۔
شیخ رشید غصے سے بوکھلائے پھرتے ہیں۔ اُن کامسکراہٹ سے لبریز اعتماد ہوا ہوچکا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے نرم مزاج رہنماؤں کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ روابط کی خبریں فاش ہونے سے تصدیق ہوتی ہے کہ عین وقت پر طاقت کا استعمال کیوں موقوف کیا گیا۔ ایسا کرنا فریقین کے لیے کسی طور بہتر نہ تھا۔ کسی کو بھی ایسے روابط پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ در حقیقت نواز لیگ کے حامیوں کو یقین ہے کہ ایسی ملاقاتوں سے ناانصافی کا ازالہ ہونے میں ناکامی سے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔
اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی صلاحیت کا بہت بڑا امتحان ہے کہ یہ مل کر کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔ اس الائنس میں سب سے کمزور کڑی پیپلز پارٹی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے گرنے، سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب اوربعد میں عدم اعتماد کے ووٹ میں قدم پیچھے کھنچ لینے سے اس کی موقع پرستی کی ایک طویل فہرست ترتیب پاتی ہے۔ اس کے سامنے مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو تو صرف اپنے راہ نماؤں کی قید و بند کی پریشانی ہے، لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے سندھ حکومت نکل سکتی ہے اگرپی ڈی ایم کی محاذ آرائی کا نتیجہ اس کے حق میں نہ نکلا۔
نواز شریف اور فضل الرحمن اُس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں اُن کے پاس زنجیریں کھونے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ اُنھوں جارحانہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آگے قدم بڑھاتے ہوئے آصف زرداری اور شہباز شریف اگر نوشتہ ئ دیوار پڑھنے میں ناکام رہے تو وہ سب کے پاؤں پر کلہاڑی بھی مارسکتے ہیں
پیش قدمی
یہ حکومت آج تک کئی بڑی غلطیاں کر چکی ہے پر پی ڈی ایم کے تلوں میں تیل ہی نہیں ۔ ایک جھوٹی تحریک کا کوئی مقصد نہیں ۔ایسا تب ہی ممکن ہوگا اگر اپوزیشن جماعتوں کے پاس اسٹیبلشمنٹ کو دینے کیلئے کوئی متبادل سیاسی قیادت دستیاب ہو۔ یاد رہے کہ اپوزیشن کا ٹارگٹ حکومت نہیں اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے ان کی بلیک میلنگ میں آکر اپوزیشن کو این آر او دے دیا تو تحریک انصاف حکومت خود اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن جائے گی۔ اور یہ ملک سے باہر بھاگ کر فوج پر چڑھائی کرنے والی سیاسی قیادت ہرگز نہیں ہے۔ پھر جو دما دم مست قلندر ہوگا وہ دیکھنے والا ہوگا۔ جس کے بعد اپوزیشن، کیا اسٹیبلشمنٹ کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
مذہبی جماعتوں کے قائدین بھی اسی انگلی پر بغیر رکوع سجدے میں چلے جاتے ہیں ۔مُنظم قسم کی سٹریٹ پاور زِیادہ تر مذہبی جماعتوں کے پاس ہی ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں بس ایمپائر کی اُنگلی کی منتظر رہتی ہیں۔
مثلاً؟ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینا ایک طویل مدتی اچھا فیصلہ تھا۔ اب نواز شریف کبھی بھی ملک واپس آکر سیاست نہیں کر سکتا کیونکہ عدالتیں اسے اشتہاری قرار دے چکی ہیں۔ یوں وہ اپنے کرپشن کیسز میں اپیل کا حق بھی کھو چکا ہے۔یہ حکومت آج تک کئی بڑی غلطیاں کر چکی ہے
مہنگائی کا مسئلہ تھوڑا سا ٹیڑا ہے۔ اس بارہ میں کئی بار معاشی و مالیاتی گرافس دکھا کر ثابت کر چکا ہوں کہ ن لیگی دور میں مہنگائی کم کیوں تھی۔ اور تحریک انصاف حکومت کی وہ کونسی پالیسیاں تھیں جن کو اپنانا ملک دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ناگزیر تھا۔ مگر جس کا فطری نتیجہ مہنگائی کی شکل میں نکلنا ہی تھا۔چند بڑی غلطیوں میں شروع کے آٹھ ماہ ضائع کرنا، کئی محکموں میں صحیح لوگ تعینات نہ کرنا، بلاوجہ کے آٹا، چینی وغیرہ کے اسکینڈلز، بزدار کا انتخاب، جہانگیر ترین کی سبکی اور ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مہنگائی ۔
میڈیا کو مینج کرنا کچھ مشکل کام نہیں۔ آپ نواز شریف کی طرح پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو سرکاری خزانہ سے اربوں روپے کے اشتہارات دے دیں تو یہ حکومت کے حق میں پراپگنڈہ شروع کر دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان کو ہڈی ڈالنے کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام تک درست معلومات پہنچانا کا ٹاسک دیا ہے۔ اور اس حوالہ سے بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ان سب باتوں نے کتنی ساری کی گئی اچھائیوں کو نمایاں نہیں ہونے دیا ۔ ایک سخت انتظامیہ اور میڈیا کے منفی پروپگینڈے سے ہوشیاری سے نمٹنا ان کا حل تھا اور بس ۔
ہڈی تو عام طور پر اُنہیں ڈالی جاتی ہے جو عُرفِ عام میں شیرو اور ٹائیگر ہوتے ہیں۔ آپ کھُل کر اپنا ما فی الضمِیر بیان کریں۔پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو سرکاری خزانہ سے اربوں روپے کے اشتہارات دے دیں تو یہ حکومت کے حق میں پراپگنڈہ شروع کر دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان کو ہڈی ڈالنے کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام تک درست معلومات پہنچانا کا ٹاسک دیا ہے
ان ہاؤس تبدیلی سے کھیل کے خاتمے کا آغازہڈی تو عام طور پر اُنہیں ڈالی جاتی ہے جو عُرفِ عام میں شیرو اور ٹائیگر ہوتے ہیں۔ آپ کھُل کر اپنا ما فی الضمِیر بیان کریں۔
سینئر لفافی نجم سیٹھی تو عمران خان کو ہٹانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملانے کے مشورے دے رہا ہے۔ یہ کیسا فوج مخالف جمہوری انقلاب ہے؟نواز شریف کا فارمولہ کامیابی کے بہتر امکانات رکھتا ہے۔ اس کے لیے مارچ اور اپریل میں اجتماعی طور پر استعفے دیے جائیں۔ یہ اقدام اس ہائبرڈ بندوبست کے آئینی جواز کو زک پہنچا کر حکومت کی فعالیت کو مفلوج کردے گا۔ اس کے بعد اگلے سو دنوں کے اندر ضمنی انتخابات کی کوشش کو پی ڈی ایم روک سکتی ہے۔ یا یہ انتخابات جیت کر ایک بار پھر استعفوں کا ہتھیار استعمال کر سکتی ہے۔ یہ صورت حال اسٹبلشمنٹ کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ عمران خان جیسے غیر فعال لیڈر کی حمایت سے دست کش ہو جائے۔ اس وقت تک ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی نواز شریف اور مریم نواز کی مخالفت میں کمی آ جائے، اور دوسری طرف سے بھی قمر جاوید باجوہ کو قبول کر لیا جائے۔ اس سے ملک موجودہ دلدل سے نکل کر آگے بڑھ سکتا ہے۔
مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھ کر کپتان کو حکمرانی کا پورا آئینی حق فراہم کر دیا ہے۔ امید ہے اس بار ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی وگرنہ ایک اور سیاسی شہید جماعت ملک کو چمٹ جانی ہے۔ یوں اگلے ۵۰ سال کپتان زندہ ہے اور بلا اک واری فیر کے نام پر ووٹ بٹورے گیعمران خان کو جب اسٹیبلشمنٹ نے گھر بھیجنا ہو گا تو عدالت کے ذریعے بھِجوا دے گی۔ ویسے بھی نا اہل حُکمران کو برداشت کرنے میں مُضائقہ کیا ہے؟ ہٹانے کی کوشش کریں گے تو کپتان کو مزید مضبوطی بھی مل سکتی ہے، نہیں ہٹائیں گے تو کپتان کے لیے زیادہ خطرہ رہے گا کہ وُہ اب کُچھ کر کے دکھائے۔ پانچ سال کپتان کو نہ دینا اُس کے ساتھ زیادتی ہے۔
کچھ ایسا نہیں ہوتا نظر آتا ہے۔ کپتان نے فی الوقت اپنا امیج الگ برباد کر دِیا ہے۔ بھٹو بننا آسان نہیں۔مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھ کر کپتان کو حکمرانی کا پورا آئینی حق فراہم کر دیا ہے۔ امید ہے اس بار ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی وگرنہ ایک اور سیاسی شہید جماعت ملک کو چمٹ جانی ہے۔ یوں اگلے ۵۰ سال کپتان زندہ ہے اور بلا اک واری فیر کے نام پر ووٹ بٹورے گی
جس ملک میں نواز شریف جیسا چور اور زرداری جیسا ڈاکو بار بار حکمرانی کر سکتا ہے وہاں صادق و امین عمران خان کا امیج کیا خاک برباد ہو گاکچھ ایسا نہیں ہوتا نظر آتا ہے۔ کپتان نے فی الوقت اپنا امیج الگ برباد کر دِیا ہے۔ بھٹو بننا آسان نہیں۔