عظیم اللہ قریشی
محفلین
میرا ارادہ تو نہیں تھا کہ میں دوبارہ اردو محفل میں پوسٹنگ وغیرہ یا تھریڈ وغیرہ کروں صرف لوگوں کے تھریڈز وغیرہ پڑھنے کے لیئے ہی آونگا کیونکہ ادھر منتظم اعلیٰ درجہ کے لوگ بھی جانبداری سے کام لیتے ہیں مزید تفصیل کے لیئے میری تھریڈ نمبر 14 دیکھ لیجئے۔
جناب خالد صاحب آپ چونکہ میرے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتے تھے تو آپ نے انتہائی بھونڈے طریقہ سے میری تحریر کو کتربیونت کرکے صرف اپنے مطلب کا حصہ لیکر اس کو پیش کرکے اپنی ذہنی سطح کی عکاسی پیش کی ہے۔
خالد یاد رکھو آپ روحانی بابا سے مراسلات کررہے ہو آپ کو گھر تک بھگا کر ہی دم لونگا۔
آپ نے میری تحریر کو صرف آدھا پیش کیا ہے میرے جیسا عالم فاضل بندہ جب کوئی ایسی بات لکھتا ہے تو اس کو عالمانہ انداز سے پیش کرتا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہوتا ہے کہ مخالف کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے جیسا کہ آپ نے اٹھایا ہے کیا اپنے نانا سے یہی کچھ سیکھا ہے وہ تو عالم فاضل تھے
قارئین میں اپنے الفاظ دوبارہ نقل کرتا ہوں جو کہ میری پوسٹ نمبر 12 پر تحریر ہیں
درحقیقت حکیم صابر ملتانی کی حیثیت طب کی دنیا میں ایسی ہے جیسا کہ کسی معتقد نے سید شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں کہا کہ
غوث الاعظم درمیانِ اولیاء
چون محمد درمیان انبیاء
ابن جوزی کی تلبیس ابلیس پڑھیں تو آپ کو فلسفہ یونانی کی بہت سی اساطیر ملیں گی جن کواس جگہ پر نقل کرنا ممکن نہیں ہے یہ چہار عناصر کا فلسفہ جس نے بہت تباہی مچائی ادھر اس کی رنگا رنگی دیکھئے ۔ ایسے ہی صابر ملتانی کی مثال ا س دور میں طب کی متعلقات میں ابراہیم علیہ السلام کی ہے بقول شیخ اقبال لاہوری
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہٰ الااللہ
میں تو سمجھا تھا کہ عالم خاندان سے تعلق ہے نانا عالم فاضل اور نامور حکیم گزرے ہیں تو علمی گفتگو سمجھ شریف میں آئے گی اب میں ذرا شعر کی تشریح کرتا ہوں
میں نے کہا کہ جسطرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت انبیا میں ہے اسی طرح سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت اولیا اللہ میں ہے اور میں نے صابر ملتانی کو ابراہیم علیہ السلام سے تشبیہہ طب کی متعلقات میں دی ہے اور موقع کی مناسبت سے شعر بھی علامہ اقبال کا پیش کیا ہے لگتا ہے ادب و سخن سے آپ بالکل ہی نابلد و بے بہرہ ہیں میرے شعر پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جسطرح ابراہیم علیہ السلام کے دور میں بت پرستی عام تھی اور جو اس زمانہ کے حالات اس کے مطابق حکیم صابر ملتانی کے دور میں بھی طب کی متعلقات میں بھی ایسا ہی وقت تھا لوگ سقراط بقراط جالینوس، بطلیموس اور افلاطون کے دور کے ان چہار عناصر کے ابتدائی اور ارتقائی فلسفے میں ہی الجھے ہوئے تو انہوں نے طب کی متعلقات میں ابراہیم کی دور ایک ضرب لللہی (بمعنی ایک نیا طریقہ) لگا کر اس طلسم اور بت کدہ کو پارہ پارہ کردیا میں ذرا شعر میں ایک لفظ کی تبدیلی کرکے دوبارہ بیان کرتا ہوں۔
یہ طب اپنے براہیم(بمعنی راہ نما) کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے طب یونانی لا الہ الااللہ
خالد صاحب استخارہ کریں اور میری باتوں کا جواب تلاش کریں جو کہ ابھی تک آپ نے نہیں دیا۔
جوابات جو ابھی تک اردو محفل کے قارئین دیکھنے سے محروم ہیں ۔
نمبر 1۔ حکیم صابر ملتانی زہروں کا استعمال کرواتے تھے کیا یہ طریقہ ان کا اپنا ایجاد کردہ تھا یا کہ طب یونانی کا۔
اور اگر اپنا تھا تو طب یونانی جو کہ صابر ملتانی کی عمر جس کو دنیا سے گئے ہوئے صرف 70یا 80 سال گزرے ہیں سے عمر میں بہت بڑی ہے ۔خاندان شریفی یعنی قرشی دواخانہ یعنی طب یونانی کا ایک بہت بڑا نام کے ایک رسالہ میں پڑھا تھا کہ غالبا ان کے خاندان کے شاعر جو کہ سویدا تخلص کرتے تھے ان کی تحریر تھی کہ طب حضرت ادریس علیہ السلام کے خلیفہ اسقل بوس کے زمانے سے چلی آرہی ہے ۔ اسی طب یونانی کی کتب زہروں کے کشتہ کرنے کے طرائق سے بھری پڑئ ہیں۔۔
نمبر 2۔ اسلاف کا ذکر خالد صاحب بہت زیادہ کرتے ہیں جن میں وہ بقراط جالینوس افلاطون اور بوعلی سینا کا نام لیتے ہیں بے شک یہ طب یونانی کے درخشندہ ستارے ہیں جن کے کلیات اور نظریات پر طب یونانی کی عمارت کھڑی ہے ان کے ساتھ کچھ اور علوم بھی مخصوص تھے جن میں علم فلکیات اور قیافہ شناسی لازم و ملزوم ہے۔ گزرے وقتوں میں جب کالجز وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔چونکہ یہ طب کا پیشہ ایک شریف پیشہ ہے تو طبیب پہلے اپنے پاس شاگرد رکھتے تھے تو اس کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتے تھے پھر اس کو طب اور ساتھ ساتھ اس کی لزومات علم فلکیات اور قیافہ شناسی بھی سکھایا کرتے تھے۔ آج ملک عزیز میں طب کے 32کالجز ہیں کیا ان میں یہ مضمون پڑھائے جاتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
نمبر 3۔ طب یونانی کی جتنی بھی دوائیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں ان کے صرف اجزاء لکھے ہوتے ہیں طریقہ ندارد۔ مثلا ایک اجوائن کا نام لکھا ہوتا اب اس کو سادہ ہی استعمال کردیا ہے یا مدبر کرکے۔ اور اگر مدبر کرکے بھی ڈالا گیا ہے تو کس چیز میں مدبر کیا گیا ہے آیا حنظل (کوڑ تمہ) یا کسی اور چیز میں یعنی اگر کوڑ تمہ میں مدبر کیا گیا ہے تو اس کا مزاج گرم ہوگیا اور اگر کسی ٹھنڈی چیز میں مدبر کیا گیا ہے تو اس کا مزاج گرم ہوگا یہ طریقہ طب یونانی والے بخیل لوگ نہیں بتاتے ہیں۔
جب کہ اس کے مقابلے میں آپ لوگ صابر ملتانی کا طریقہ دیکھیں جو بھی دوا بناتے ہیں اس کا تمام تر طریقہ مفصل طریقے سے ان کی کتب جو کہ بازار میں بآسانی دستیاب ہیں میں تحریر ہے۔
مجھے یقین ہے کہ خالد صاحب تو کیا ساری دنیائے طب میرے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہے۔
ہم نہ کہتے تھے اے داغ تو زلفوں کو نہ چھیڑ
اب وہ برہم ہے تو ہے تجھ کو قلق یا ہم کو
نوٹ: یہ چھیڑ چھاڑ حکیم خالد صاحب کی طر سے ہی شروع ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے بلاوجہ محققق اعظم رئیس الاطبا جناب صابر ملتانی رحمۃ اللہ تعالیٰ پر اعتراضات اور ان کی ذات پر کیچڑ اچھال کر کیا ہے ورنہ میرا اور خالد کا آپس میں کوئی جھگڑا یا عداوت یا عناد نہیں ہے
لنک ملاحظہ فرمائیں
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?30873-گنٹھیا-اور-یورک-ایسڈ
جناب خالد صاحب آپ چونکہ میرے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتے تھے تو آپ نے انتہائی بھونڈے طریقہ سے میری تحریر کو کتربیونت کرکے صرف اپنے مطلب کا حصہ لیکر اس کو پیش کرکے اپنی ذہنی سطح کی عکاسی پیش کی ہے۔
خالد یاد رکھو آپ روحانی بابا سے مراسلات کررہے ہو آپ کو گھر تک بھگا کر ہی دم لونگا۔
آپ نے میری تحریر کو صرف آدھا پیش کیا ہے میرے جیسا عالم فاضل بندہ جب کوئی ایسی بات لکھتا ہے تو اس کو عالمانہ انداز سے پیش کرتا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہوتا ہے کہ مخالف کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے جیسا کہ آپ نے اٹھایا ہے کیا اپنے نانا سے یہی کچھ سیکھا ہے وہ تو عالم فاضل تھے
قارئین میں اپنے الفاظ دوبارہ نقل کرتا ہوں جو کہ میری پوسٹ نمبر 12 پر تحریر ہیں
درحقیقت حکیم صابر ملتانی کی حیثیت طب کی دنیا میں ایسی ہے جیسا کہ کسی معتقد نے سید شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں کہا کہ
غوث الاعظم درمیانِ اولیاء
چون محمد درمیان انبیاء
ابن جوزی کی تلبیس ابلیس پڑھیں تو آپ کو فلسفہ یونانی کی بہت سی اساطیر ملیں گی جن کواس جگہ پر نقل کرنا ممکن نہیں ہے یہ چہار عناصر کا فلسفہ جس نے بہت تباہی مچائی ادھر اس کی رنگا رنگی دیکھئے ۔ ایسے ہی صابر ملتانی کی مثال ا س دور میں طب کی متعلقات میں ابراہیم علیہ السلام کی ہے بقول شیخ اقبال لاہوری
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہٰ الااللہ
میں تو سمجھا تھا کہ عالم خاندان سے تعلق ہے نانا عالم فاضل اور نامور حکیم گزرے ہیں تو علمی گفتگو سمجھ شریف میں آئے گی اب میں ذرا شعر کی تشریح کرتا ہوں
میں نے کہا کہ جسطرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت انبیا میں ہے اسی طرح سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت اولیا اللہ میں ہے اور میں نے صابر ملتانی کو ابراہیم علیہ السلام سے تشبیہہ طب کی متعلقات میں دی ہے اور موقع کی مناسبت سے شعر بھی علامہ اقبال کا پیش کیا ہے لگتا ہے ادب و سخن سے آپ بالکل ہی نابلد و بے بہرہ ہیں میرے شعر پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جسطرح ابراہیم علیہ السلام کے دور میں بت پرستی عام تھی اور جو اس زمانہ کے حالات اس کے مطابق حکیم صابر ملتانی کے دور میں بھی طب کی متعلقات میں بھی ایسا ہی وقت تھا لوگ سقراط بقراط جالینوس، بطلیموس اور افلاطون کے دور کے ان چہار عناصر کے ابتدائی اور ارتقائی فلسفے میں ہی الجھے ہوئے تو انہوں نے طب کی متعلقات میں ابراہیم کی دور ایک ضرب لللہی (بمعنی ایک نیا طریقہ) لگا کر اس طلسم اور بت کدہ کو پارہ پارہ کردیا میں ذرا شعر میں ایک لفظ کی تبدیلی کرکے دوبارہ بیان کرتا ہوں۔
یہ طب اپنے براہیم(بمعنی راہ نما) کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے طب یونانی لا الہ الااللہ
خالد صاحب استخارہ کریں اور میری باتوں کا جواب تلاش کریں جو کہ ابھی تک آپ نے نہیں دیا۔
جوابات جو ابھی تک اردو محفل کے قارئین دیکھنے سے محروم ہیں ۔
نمبر 1۔ حکیم صابر ملتانی زہروں کا استعمال کرواتے تھے کیا یہ طریقہ ان کا اپنا ایجاد کردہ تھا یا کہ طب یونانی کا۔
اور اگر اپنا تھا تو طب یونانی جو کہ صابر ملتانی کی عمر جس کو دنیا سے گئے ہوئے صرف 70یا 80 سال گزرے ہیں سے عمر میں بہت بڑی ہے ۔خاندان شریفی یعنی قرشی دواخانہ یعنی طب یونانی کا ایک بہت بڑا نام کے ایک رسالہ میں پڑھا تھا کہ غالبا ان کے خاندان کے شاعر جو کہ سویدا تخلص کرتے تھے ان کی تحریر تھی کہ طب حضرت ادریس علیہ السلام کے خلیفہ اسقل بوس کے زمانے سے چلی آرہی ہے ۔ اسی طب یونانی کی کتب زہروں کے کشتہ کرنے کے طرائق سے بھری پڑئ ہیں۔۔
نمبر 2۔ اسلاف کا ذکر خالد صاحب بہت زیادہ کرتے ہیں جن میں وہ بقراط جالینوس افلاطون اور بوعلی سینا کا نام لیتے ہیں بے شک یہ طب یونانی کے درخشندہ ستارے ہیں جن کے کلیات اور نظریات پر طب یونانی کی عمارت کھڑی ہے ان کے ساتھ کچھ اور علوم بھی مخصوص تھے جن میں علم فلکیات اور قیافہ شناسی لازم و ملزوم ہے۔ گزرے وقتوں میں جب کالجز وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔چونکہ یہ طب کا پیشہ ایک شریف پیشہ ہے تو طبیب پہلے اپنے پاس شاگرد رکھتے تھے تو اس کی ذہنی اور روحانی تربیت کرتے تھے پھر اس کو طب اور ساتھ ساتھ اس کی لزومات علم فلکیات اور قیافہ شناسی بھی سکھایا کرتے تھے۔ آج ملک عزیز میں طب کے 32کالجز ہیں کیا ان میں یہ مضمون پڑھائے جاتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
نمبر 3۔ طب یونانی کی جتنی بھی دوائیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں ان کے صرف اجزاء لکھے ہوتے ہیں طریقہ ندارد۔ مثلا ایک اجوائن کا نام لکھا ہوتا اب اس کو سادہ ہی استعمال کردیا ہے یا مدبر کرکے۔ اور اگر مدبر کرکے بھی ڈالا گیا ہے تو کس چیز میں مدبر کیا گیا ہے آیا حنظل (کوڑ تمہ) یا کسی اور چیز میں یعنی اگر کوڑ تمہ میں مدبر کیا گیا ہے تو اس کا مزاج گرم ہوگیا اور اگر کسی ٹھنڈی چیز میں مدبر کیا گیا ہے تو اس کا مزاج گرم ہوگا یہ طریقہ طب یونانی والے بخیل لوگ نہیں بتاتے ہیں۔
جب کہ اس کے مقابلے میں آپ لوگ صابر ملتانی کا طریقہ دیکھیں جو بھی دوا بناتے ہیں اس کا تمام تر طریقہ مفصل طریقے سے ان کی کتب جو کہ بازار میں بآسانی دستیاب ہیں میں تحریر ہے۔
مجھے یقین ہے کہ خالد صاحب تو کیا ساری دنیائے طب میرے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہے۔
ہم نہ کہتے تھے اے داغ تو زلفوں کو نہ چھیڑ
اب وہ برہم ہے تو ہے تجھ کو قلق یا ہم کو
نوٹ: یہ چھیڑ چھاڑ حکیم خالد صاحب کی طر سے ہی شروع ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے بلاوجہ محققق اعظم رئیس الاطبا جناب صابر ملتانی رحمۃ اللہ تعالیٰ پر اعتراضات اور ان کی ذات پر کیچڑ اچھال کر کیا ہے ورنہ میرا اور خالد کا آپس میں کوئی جھگڑا یا عداوت یا عناد نہیں ہے
لنک ملاحظہ فرمائیں
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?30873-گنٹھیا-اور-یورک-ایسڈ