باباجی
محفلین
نظر ملا نہ سکے اُس سے اُس نگاہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا جو ہو گناہ کے بعد
میں کیسے اور کسی سمت موڑتا خود کو
کسی کی چاہ نہ تھی دل میں تری چاہ کے بعد
ضمیر کانپ تو جاتا ہے، آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے، کہ ہو گناہ کے بعد
کٹی ہوئی تھی تنابیں تمام رشتوں کی
چھپاتا سر میں کہاں تجھ سے رسم و راہ کے بعد
گواہ چاہ رہے تھے کہ وہ بے گناہی کا
زبان سے کہہ نہ سکا کچھ "خدا گواہ" کے بعد
خطوط کردیئے واپس، مگر مری نیندیں
انہیں بھی چھوڑ دو اک رحم کی نگاہ کے بعد
(کرشن بہاری نور صاحب)