متلاشی
محفلین
احساس کے ٹھہرے پانی میں تو کتنے کنکر پھینک چکا
یا تیرِ نظر یا حرفِ ملامت کے پتھر
لیکن تو بس دیکھ چکا ہے اک معمولی سی ہلچل
اب یا تو تو بس روئے جا
یا پھر خون بہا دے خواہش کا
یا پھر ہاتھ اُٹھا اور آہِ رسا سے
ہر پتھر پانی کردے
احساس کے ٹھہرے پانی کو
اک آن میں طوفانی کر دے
والد گرامی جناب نصراللہ مہر