حضور میں یقینا تسلیم کرتا ہوں کہ شعر میں یہ صلاحیت ہے اور یہ ہی نہیں اتنی صلاحیت ہے کہ دیکھیے نا پاکستان کے موجد بن گئے! بوجود ایں ہمہ، میں پھر بھی اچھے خاصے پیشہ ور لیڈرز کو چھوڑ کر کسی نیم پیشہ شاعر، کہیں علامہ!، کے اشعار سے نظریات اخذ نہیں کروں گا! (یہاں یوسفی کی خوبصورت مثال یاد آ رہی ہے، ڈاکٹر شاعر، بینکر شاعر، ڈاکٹر، اور محض بینکر والی) اور اگر شعر و شاعری کو نظریاتی مقاصد کے لیے بکار لایا جائے تو یہ وہی دورِ جہالت کے شعراء ہوجائیں گے جن کی مذمت میں سورۃ الشعراء نازل کی گئی۔ جنہوں نے جنگیں کروانے اور بدلے لینے میں اپنا زورِ کلام ثابت کیا! شعرا بھی کیا خوب، عرب کے شعرا!
مقصدیت پسند شاعر عموماً نئے نظریات پیش نہیں کرتے بلکہ پرانی اقدار کو ہی استعمال کرتے ہوئے عمل کی ترغیب دیا کرتے ہیں۔
غیر شعراء جو پیغام نثر میں دیتے ہیں۔ شاعر اُنہیں منظوم کرکے زیادہ اثر انگیز اور زیادہ قابلِ قبول بنا دیتے ہیں۔ اب اس طرح تو آپ کے حساب سے ہر وہ شخص بُرا ہوا جو اپنے کلام (نثر یا نظم) سے کسی نظریے کی ترویج کا کام کرے اورعمل کی ترغیب دے۔ میں پھر کہوں گا کہ ذرائع ابلاغ جو بھی ہوں منفی اور مثبت "پیغام" ہوا کرتا ہے نہ کہ "میڈیم"۔
اقبال نے بھی شاعری میں جو مذہبی حوالے دیے اُن کا منبع قران و احادیث اور تاریخِ اسلامی ہی ہے۔ یعنی بعینہ وہی چیزیں جن کا حوالہ ایک نثر نگار یا مقرر دیا کرتا ہے۔اقبال کے لہجے میں خدا نے جو سوز اور اثر آفرینی دی تھی اُس سے شاید ہی کوئی انکار کرے۔ پھر اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال صرف شاعر تھا اور اُس کو فہمِ دین اورشعورِ زمانہ نہیں تھا تو پھر شاید آپ اقبال کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔
ایک بات البتہ ضرور ہے اور وہ یہ کہ اقبال مسلمانوں کے معاملے میں جانبدار تھے جیسا کہ اُنہیں ہونا چاہیے تھا سو اگر اقبال کے مخالفین اقبال کی اس جانبداری سے خوش نہیں ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔