نظم : ۔۔۔۔۔ خالی ہاتھ ۔۔۔۔۔ از : محمد احمد

محمداحمد

لائبریرین
بھئی واہ! کیا خوب نظم ہے۔ مدت بعد آپ کا تازہ کلام پڑھا جناب۔ لیکن حیف کہ انجام، یعنی جس کی سالگرہ تھی اس کا "ری ایکشن" تشنہ چھوڑ دیا!! :) :) :)

ہاہاہاہا ۔۔۔۔! یہ زیبِ داستاں ہے جتنی بڑھائیں اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ :)

دوسرا شعر غیر مقفی ہے! :) :)

جی ابنِ رضا بھائی نے راہ تو سُجھائی ہے لیکن فی الحال ایسے ہی چلا رہے ہیں۔

آپ کیا کہتے ہیں اس سلسلے میں۔
 

الف عین

لائبریرین
مفہوم کے لحاظ سے درست تو خنداں ہی ہے، لیکن یہاں بھی لایا جا سکتا ہے، میرے خیال میں کوئی حرج نہیں
 
ہاہاہاہا ۔۔۔ ۔! یہ زیبِ داستاں ہے جتنی بڑھائیں اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ :)



جی ابنِ رضا بھائی نے راہ تو سُجھائی ہے لیکن فی الحال ایسے ہی چلا رہے ہیں۔

آپ کیا کہتے ہیں اس سلسلے میں۔
جناب میری ناقص رائے یہ ہے کہ "خندہ" بجائے "خنداں" آ ہی نہیں سکتا! "خندہ" مصدر ہے "ہنسنا"، اور "خنداں" صفت ہے "ہنستا ہوا"۔ لہٰذا کیوں کر ہم خندہ کو بجائے خنداں باندھ سکتے ہیں؟؟ میرے خیال سے خنداں کو رہنے دیں اور خیرہ کو حیراں کر دیجیے! ویسے بھی خیرہ کی ہ الف پڑھی جا رہی ہے۔ (اسے اگر اصلاح تصور کیا گیا تو میرے ساتھ زیادتی ہوگی! :) )
 

ابن رضا

لائبریرین
جناب میری ناقص رائے یہ ہے کہ "خندہ" بجائے "خنداں" آ ہی نہیں سکتا! "خندہ" مصدر ہے "ہنسنا"، اور "خنداں" صفت ہے "ہنستا ہوا"۔ لہٰذا کیوں کر ہم خندہ کو بجائے خنداں باندھ سکتے ہیں؟؟ میرے خیال سے خنداں کو رہنے دیں اور خیرہ کو حیراں کر دیجیے! ویسے بھی خیرہ کی ہ الف پڑھی جا رہی ہے۔ (اسے اگر اصلاح تصور کیا گیا تو میرے ساتھ زیادتی ہوگی! :) )

مہدی بھائی "خندہ" تو اسمِ کیفیت ہے؟؟؟؟ مصدر کی کوئی مثال ہو تو از راہِ علم شریک کریں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
معذرت میں غلط کہہ گیا! خندہ یعنی ہنسی! اور خندیدن مصدر ہے۔ در اصل فارسی سے اردو میں آتے آتے اتنا کچھ بگڑ جاتا ہے کہ خبر ہی نہیں ہوتی! :) :)
چلیں جی قبلہ اسی طرح تحقیق و استفسار سے ہم جیسے نو آموز لوگوں کے سیکھنے کا عمل بھی تقویت پاتا رہتا ہے۔ جزاک اللہ
 
خالی ہاتھ

کل ترے جنم دن پر ، کتنے لوگ آئے تھے
کیسے کیسے تحفوں میں آس رکھ کے لائے تھے

زر نگار تحفوں سے چشم چشم خیرہ تھی
چار سو تصنُع تھا، ساری بزم خنداں تھی

اِ س نمودِ ثروت میں ، ایک نادر و نادار
خود سے بے پناہ نالاں، دل سے برسرِ پیکار

صرف تجھ سے ملنے کو ایسا بھی تو آیا تھا
جس کے زرد چہرے پر دھوپ تھی نہ سایہ تھا

لیکن اُس کے آنے سے بام و در مہکتے تھے
سنگ و خشت گلیوں کے سر بہ سر مہکتے تھے

تو بھی جانتا ہوگا، یہ ترے گلی کوچے
گو صبا سے واقف تھے، نخلِ گل نہ تھے پہلے

پر یہ بزمِ کیف آگیں کیا کسی کو سمجھائے
ملتفت جہاں تجھ پر کون تجھ کو بتلائے

وہ جو تیرے ملنے کو خالی ہاتھ آیا تھا
دامنِ دریدہ میں پھول رکھ کے لایا تھا

محمد احمدؔ

۔۔

بہت خوب نظم ہے۔ بہت سی داد قبول فرمائیں۔
 
Top