بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے کہ میں اپنے قبیلے کی زمینیں بیچنا چاہوں تو وہ اس کا بڑا معقول ہدیہ دینے کو تیار ہیں۔
لیکن میں بیٹھا سوچ میں گم ہوں۔ سفید انساں بڑا ہشیار ہے لیکن، زمانے میں زمیں بھی بیچی جاتی ہے؟ بھلا دھرتی کا بھی بیوپار ہوتا ہے؟ زمیں میں نے خریدی ہی نہیں، میرا قبیلہ اس پہ صدیوں سے بسیرا کرتا آیا ہے، اسی کی خاک میں میرے سبھی اجداد کی بوسیدہ خستہ ہڈیاں محفوظ ہیں، میں کس طرح سے سودا کر لوں اس زمیں، اس خاک کا، ان ہڈیوں کا؟
اور ان کو بیچنا چاہوں بھی تو، بتلاؤ اس دھرتی پہ اٹھلاتی ہوا کا دام کیا دو گے؟ جو نٹ کھٹ ندیاں اس پر مچلتی، کھیلتی، اک دوسری کو چھیڑتی، دریا کی چاہت میں برہ کے گیت گاتی بہہ رہی ہیں، اور اس کے گل بنوں میں یہ جو الھڑ ہرنیوں کی ڈاریں مستی میں کلانچیں مارتی پھرتی ہیں، جن کو دیکھ کو اوپر سے کونجوں کی تکون اک ثانیے کو اپنی منزل سے بھٹک جاتی ہے ، اور کلکاریاں بھر کر کسیلے کالے کوسوں کے سفر پر پھر سے جٹ جاتی ہے۔۔۔ ان کا دام کیا ہو گا؟
یہاں کےسبزہ زاروں کی ہری مٹیالی چادر پر سنہری، ارغوانی تتلیاں قوسِ قزح اپنے پروں سے کاڑھتی ہیں اور سلونا جھٹ پٹا جب رات کے کاجل میں گھلتا ہے تو جگنو مشعلیں تھامے ہوئے خوشبو سے بوجھل جھاڑیوں کے بیچ میں چُھپن چھپائی کھیلتے ہیں، آخر ان کا بھی تو اس دھرتی پر کچھ حق ہے۔ یہ سب میری طرح، میرے قبیلے کی طرح اس سرزمیں کے باسی ہیں، پھر ان کا عوضانہ بھلا کیا ہے؟
سفید انساں بڑا ہشیار ہے، لیکن مجھے لگتا ہے وہ دن آنے والا ہے جب اس دھرتی کے سب سے آخری کنج میں بھی آدم باس بس جائے گی، جب ہر اک پرندے کو، چرندے کو، درندے کو سدھایا جا چکا ہوگا، فضا جب بولتی لہروں کے لچھوں میں الجھ کر سسکیاں لے گی، مہا ساگر کا سینہ کشتیوں کے خنجروں سے چھلنی ہو جائے گا۔
تب تم عافیت کے ایک لمحے کو بھی ترسو گے، اور اس لمحے کو پانے کے لیے سب جمع پونچی داؤ پر رکھ دو گے
لیکن
وقت کا کیا مول آنکو گے؟
لیکن میں بیٹھا سوچ میں گم ہوں۔ سفید انساں بڑا ہشیار ہے لیکن، زمانے میں زمیں بھی بیچی جاتی ہے؟ بھلا دھرتی کا بھی بیوپار ہوتا ہے؟ زمیں میں نے خریدی ہی نہیں، میرا قبیلہ اس پہ صدیوں سے بسیرا کرتا آیا ہے، اسی کی خاک میں میرے سبھی اجداد کی بوسیدہ خستہ ہڈیاں محفوظ ہیں، میں کس طرح سے سودا کر لوں اس زمیں، اس خاک کا، ان ہڈیوں کا؟
اور ان کو بیچنا چاہوں بھی تو، بتلاؤ اس دھرتی پہ اٹھلاتی ہوا کا دام کیا دو گے؟ جو نٹ کھٹ ندیاں اس پر مچلتی، کھیلتی، اک دوسری کو چھیڑتی، دریا کی چاہت میں برہ کے گیت گاتی بہہ رہی ہیں، اور اس کے گل بنوں میں یہ جو الھڑ ہرنیوں کی ڈاریں مستی میں کلانچیں مارتی پھرتی ہیں، جن کو دیکھ کو اوپر سے کونجوں کی تکون اک ثانیے کو اپنی منزل سے بھٹک جاتی ہے ، اور کلکاریاں بھر کر کسیلے کالے کوسوں کے سفر پر پھر سے جٹ جاتی ہے۔۔۔ ان کا دام کیا ہو گا؟
یہاں کےسبزہ زاروں کی ہری مٹیالی چادر پر سنہری، ارغوانی تتلیاں قوسِ قزح اپنے پروں سے کاڑھتی ہیں اور سلونا جھٹ پٹا جب رات کے کاجل میں گھلتا ہے تو جگنو مشعلیں تھامے ہوئے خوشبو سے بوجھل جھاڑیوں کے بیچ میں چُھپن چھپائی کھیلتے ہیں، آخر ان کا بھی تو اس دھرتی پر کچھ حق ہے۔ یہ سب میری طرح، میرے قبیلے کی طرح اس سرزمیں کے باسی ہیں، پھر ان کا عوضانہ بھلا کیا ہے؟
سفید انساں بڑا ہشیار ہے، لیکن مجھے لگتا ہے وہ دن آنے والا ہے جب اس دھرتی کے سب سے آخری کنج میں بھی آدم باس بس جائے گی، جب ہر اک پرندے کو، چرندے کو، درندے کو سدھایا جا چکا ہوگا، فضا جب بولتی لہروں کے لچھوں میں الجھ کر سسکیاں لے گی، مہا ساگر کا سینہ کشتیوں کے خنجروں سے چھلنی ہو جائے گا۔
تب تم عافیت کے ایک لمحے کو بھی ترسو گے، اور اس لمحے کو پانے کے لیے سب جمع پونچی داؤ پر رکھ دو گے
لیکن
وقت کا کیا مول آنکو گے؟