دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کا کر رہی ہے طواف خوشبو
ہمیشہ یونہی کرے گی اس کے عروج کا اعتراف خوشبو
میں جب بھی یادوں میں ان کے چہرے کے خال و خد کو پکارتا ہوں
تو معبدِ قلب و جاں میں کرتی ہے دیر تک اعتکاف خوشبو
یہ کس کی فرقت نے ڈال دی ہے سیاہ پوشی کی تجھ کو عادت
حرم میں کعبہ سے پوچھتی تھی پکڑ کے اس کا غلاف خوشبو
عبیر و عنبر گلاب و سوسن پناہ کا ہاتھ کھینچ لیں گے
کرے گی جس دن دیارِ سرورؐ کی خلد سے انحراف خوشبو
ملوں گی تجھ کو دیارِ رشکِ ارم کے ہر ایک بام و در میں
ہر ایک حاجی کو دے رہی تھی پتا درونِ مطاف خوشبو
فضائے طیبہ سے کر رہے ہیں کشید مجھ کو یہ پھول سارے
چمن چمن سب کیاریوں میں یہ کر گئی انکشاف خوشبو
اگرچہ خوشبو ہے ایک احساسِ خوشگوار و لطیف لیکن
حرم کے صحنوں میں رقص کرتی دکھائی دیتی ہے صاف خوشبو
میں اس کو آباد کر رہا ہوں حروفِ مدحت کے مستقر میں
نہیں ہے ممکن کرے گی اشفاقؔ سے کبھی اختلاف خوشبو
اشفاقؔ احمد غوری