نعت برائے اصلاح

کاشف اختر

لائبریرین
تشبیہ ملتی جلتی ہو تو اچھی لگتی ہے۔ تلوار کا کام تو کاٹنا ہے، عفو کاٹتا نہیں ہے۔ تشبیہ میں ایک وجہ شبہ بھی ہوتی ہے اور وہی تشبیہ کی بنیاد بنتی ہے۔
میں نے جو محسوس کیا دیانت داری سے عرض کر دیا۔ شعر آپ کا ہے، رد و قبول کا اختیار بھی آپ کا ہے۔

رد و قبول کی کوئی بات نہیں محترم ! بس آپ حضرات کے اعتراض کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اب بھی سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ اس لئے کہ اعتراض کی بنیاد تلوار کو حقیقت پر محمول کرنا ہے جبکہ یہاں عفو کو تلوار کہنا تشبیہا ہے ۔حسی و حقیقی تلوار کا تصور ہی نہیں ہے ۔ جیسے کہا جائے ۔ اسلام فولاد کی تلوار سے نہیں ۔ اخلاق کی تلوار سے پھیلا ہے ۔ تو یہاں اخلاق کو تلوار کہنا محض تشبیہ کے طور پر ہے ۔تلوار حسی کا تصور ہی نہیں بلکہ معنوی مراد ہے جیسا کہ تشبیہ کا تقاضا ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ اخلاق اور تلوار باہم متضاد ہیں کسی طرح قابل قبول نہیں ۔ کیوں کہ تشبیہ میں وجہ شبہ فقط وصف مشہور ہی بننتا ہے ۔ دیگر اوصاف نظر انداز کردئے جاتے ہیں ۔ مثلا زید کو شیر کہنے میں فقط ایک وصف شجاعت ہی ملحوظ ہوتا ہے دیگر اوصاف پیش نظر نہیں ہوتے ۔ لہذا یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ زید انسان ہے اور شیر حیوان اس لئے دونوں متضاد ہیں سو تشبیہ درست نہیں ۔ ایسا نہیں بلکہ تشبیہ فقط وصف شجاعت کی وجہ سے ہے اور یہی وصف بنیاد ہے تشبیہ کی ۔

میرا مقصد ہرگز اپنی بات پر اصرار نہیں ۔ جو سمجھ میں آیا پیش کردیا ۔ اب آپ حضرات ہی بتاسکتے ہیں !
 

کاشف اختر

لائبریرین
http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=حدت

تیزی کے ہیں مگر گرمی اور تپش کی تیزی کے نہ کہ دھار کی تیزی

بھائی ! اس کے تلوار کی تیزی کیلئے اصلا حدت کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ کیوں کہ یہ لفظ عربی کا ہے ۔ اور عربی میں تلوار لوہے وغیرہ کی تیزی کیلئے مستعمل ہے ۔ مگر اردو میں گرمی کی شدت کیلئے بھی مستعمل ہے ۔ آپ جن لغات کا حوالہ دے رہے ہیں مجھے ان سے انکار نہیں مگر آپ ایک بار ضرور فیراللغات دیکھیں وہاں اس کے معانی یہ ہیں ۔
گرمی کی تیزی ۔ تلوار کی تیزی ۔طبیعت کی تیزی ،تندی ،زور ،جوش
مجھے سکرین شاٹ داخل کرنے کا طریقہ معلوم ہوتا تو ضرور پیش کرتا !
 

کاشف اختر

لائبریرین
آپ نے انسان کو شیر کہا وجہ اس کی بتائی شجاعت.درست. عفو کو تلوار کہا اس کی وجہ بھی بتائیے

آہنی تلوار جس طرح حریف و مد مقابل کو زیر کرسکتی ہے اس کہیں زیادہ زود اثر عفو و رحم کی تلوار ہوتی ہے کہ اول الذکر کا وار تو خالی ہوسکتا ہے لیکن ثانی الذکر کا کبھی خالی نہیں جاتا ۔ تو تشبیہ کی وجہ دشمن کو قابو میں کرنا ہے ۔ اور یہ کام جس طرح فولاد کی تلوار سے ہوسکتا ہے اس سے کہیں زیادہ اخلاق کی تلوار سے یہ کام لیا جاسکتا ہے ۔
اصل میں میری مراد اس واقعے سے ہے جس میں یہ ہے کہ ایک بدوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کے ارادے سے آہنی تلوار سونت لی ۔ مگر اس تلوار نے کچھ اثر نہ کیا کہ وہ آپ پر قابو ہی نہ پاسکا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی ۔ مگر جب وہ تلوار آپ علیہ السلام کے قابو میں آئی تو آپ نے اس سے کام لینے کے بجائے عفو سے کام لیا ۔ یہ رحم و عفو (جسے تلوار سے تشبیہ دینے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن میرا اب بھی اصرار نہیں ۔اگر حکم ہو تو اس شعر کو خارج کردیا جائے ۔ ) یہ تلوار ایسی تھی کہ اس کا وار خالی نہیں گیا ۔ اور اوس نے اسلام قبول کرلیا ۔
یہاں وصف فقط دشمن کو قابو میں کرنا ہے ۔ دیگر اوصاف جیسے کاٹنا وغیرہ ملحوظ نہیں کہ یہ اعتراض کیا جائے" اگر عفو کی تلوار کاٹ کر کام ہی تمام کردے تو پھر عفو کے کیا معنی ؟ '
 
رد و قبول کی کوئی بات نہیں محترم ! بس آپ حضرات کے اعتراض کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اب بھی سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ اس لئے کہ اعتراض کی بنیاد تلوار کو حقیقت پر محمول کرنا ہے جبکہ یہاں عفو کو تلوار کہنا تشبیہا ہے ۔حسی و حقیقی تلوار کا تصور ہی نہیں ہے ۔ جیسے کہا جائے ۔ اسلام فولاد کی تلوار سے نہیں ۔ اخلاق کی تلوار سے پھیلا ہے ۔ تو یہاں اخلاق کو تلوار کہنا محض تشبیہ کے طور پر ہے ۔تلوار حسی کا تصور ہی نہیں بلکہ معنوی مراد ہے جیسا کہ تشبیہ کا تقاضا ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ اخلاق اور تلوار باہم متضاد ہیں کسی طرح قابل قبول نہیں ۔ کیوں کہ تشبیہ میں وجہ شبہ فقط وصف مشہور ہی بننتا ہے ۔ دیگر اوصاف نظر انداز کردئے جاتے ہیں ۔ مثلا زید کو شیر کہنے میں فقط ایک وصف شجاعت ہی ملحوظ ہوتا ہے دیگر اوصاف پیش نظر نہیں ہوتے ۔ لہذا یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ زید انسان ہے اور شیر حیوان اس لئے دونوں متضاد ہیں سو تشبیہ درست نہیں ۔ ایسا نہیں بلکہ تشبیہ فقط وصف شجاعت کی وجہ سے ہے اور یہی وصف بنیاد ہے تشبیہ کی ۔

میرا مقصد ہرگز اپنی بات پر اصرار نہیں ۔ جو سمجھ میں آیا پیش کردیا ۔ اب آپ حضرات ہی بتاسکتے ہیں !
مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ بہت شکریہ۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ بہت شکریہ۔

گویا آپ ناراض ہوگئے ؟ محترم مجھے ہرگز اپنی بات پر اصرار نہیں ۔ اور یہ کسی طرح میرے لئے روا بھی نہیں ۔ اگر میرے طرز گفتگو سے کسی قسم کی گستاخی ہوئی تو ایک طالب علم سمجھ کر مجھے معذور سمجھئیے گا ۔ کہ میں اپنی عادت سے مجبور ہوں ۔جو بات سمجھ میں نہ آئے اسے بلاتامل دریافت کرکے اپنے اشکال کو رفع کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اس لئے ایک بار نہیں ہزار بار معذرت خواہ ہوں ۔ آپ کے مفید مشوروں اور خصوصی توجہات کا بہت بہت شکریہ ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ ایک اصطلاح ہے معنی فی البطن شاعر یعنی جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں اس کا ابلاغ شعر سے ہورہا یا صرف شاعر کو ایسا لگ رہا ہے بطور قاری میں آپ کے اخذ کردہ مطلب کو پانے سے قاصر ہوں سو عرض کر دیا اس میں ناراضگی وغیرہ کی کوئی بات نہیں جب دونوں فریق ایک دوسرے کی بات سمجھنے سے قاصر ہوں تو خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے۔
 
گویا آپ ناراض ہوگئے ؟ محترم مجھے ہرگز اپنی بات پر اصرار نہیں ۔ اور یہ کسی طرح میرے لئے روا بھی نہیں ۔ اگر میرے طرز گفتگو سے کسی قسم کی گستاخی ہوئی تو ایک طالب علم سمجھ کر مجھے معذور سمجھئیے گا ۔ کہ میں اپنی عادت سے مجبور ہوں ۔جو بات سمجھ میں نہ آئے اسے بلاتامل دریافت کرکے اپنے اشکال کو رفع کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اس لئے ایک بار نہیں ہزار بار معذرت خواہ ہوں ۔ آپ کے مفید مشوروں اور خصوصی توجہات کا بہت بہت شکریہ ۔
ایک بات قاعدے کی سن لیجئے۔
تشبیہ اور استعارہ وغیرہ میں ایک ہوتا ہے قریب کا تعلق یا وجہ شبہ، اس کو سب جانتے ہیں۔ آپ اس کے ساتھ چلیں گے تو آپ کی بات میرے جیسے موٹی عقل والے قاری کی سمجھ میں بھی آ جائے گی۔ ایک واقعہ آپ کے ذہن میں ہے، اور آپ اس سے تشبیہ لیتے ہیں تو اس کو تلمیح بنائیے اور قاری کو بھی تیرگی میں نہ چھوڑئیے۔ نہیں تو آپ کے دل کی بات آپ تک ہی رہ جائے گی؛ کہئے، لکھئے، پڑھئے اور خوش رہئے!
اگر میں اپنے شعر میں کسی سے مشورہ لیتا ہوں اور مجھے مشورہ ملتا ہے تو مجھے اختیار حاصل ہے کہ میں اس کو قبول کر لوں یا رد کر دوں (رد کی صورت میں اس کا اعلان نہ کرنا بہتر)۔ میں مشورہ دینے والے سے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل اور رد دلائل کا سلسلہ شروع کر دوں تو وہ شریف آدمی آئندہ میرے نام ہی سے بدک جائے گا۔

یہ بھی آپ کے کہے پر کہہ دیا، میں اپنی بات پہلے ہی ختم کر چکا تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=حدت

تیزی کے ہیں مگر گرمی اور تپش کی تیزی کے نہ کہ دھار کی تیزی
دھار کی تیزی بھی شاید حدت ہو سکتی ہے ۔ نیز قرآن کریم میں نظر کی تیزی بھی حدید سے استعمال ہوئی ہے ۔ فکشفنا عنک غطائک فبصر ک الیوم حدید ۔
چاقو کی دھار المعانی میں -
حَدَّ السِّكِّينُ
-لکھی ہے واللہ اعلم
 

کاشف اختر

لائبریرین
اس مکمل بحث و مباحثہ کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ بات مکمل واضح انداز میں سامنے آگئی ۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ جب دونوں فریق اپنی بات پر مصر ہوں تو خاموشی بہتر ہے جیسا کہ ابن رضا کہہ رہے ہیں ۔ بلکہ اگر بحث اس قدر طویل نہ ہوتی تو شاید میرا سمجھنا بہت مشکل تھا ۔ اس لئے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میری الجھن کافی دیر میں ختم ہوتی ہے ۔ ویسے ابن رضا کی معنی فی بطن الشاعر والی بات میرے سمجھنے کیلئے بے حد مفید ثابت ہوئی ۔ اسی طرح محمد یعقوب آسی صاحب بات بھی مجھے سمجھ میں آگئی ۔ اب آپ حضرات کے حکم کی وجہ سے اس مصرع کو خارج کردیتا ہوں ۔
اگر کوئی دوسرا ہوسکے تو پھر پیش کروں گا ان شاء اللہ ۔ خوش رہیں دعاؤں میں یاد رکھیں ! اللہ حامی و ناصر ہو !
 

الف عین

لائبریرین
اس بات کو گرہ میں باندھ لو کہ وہ شعر اچھا ہو ہی نہیں سکتا جس کے لئے شاعر کو اتنی بہت سی وضاحت دینی پڑے۔
 
آسی بھائی کی باتوں پر غور کیجئے۔
اس کے علاوہ غالباً یہ ان کی نظر سے بچ گئی۔
قسم کھائی ہے خدا نے تاب زلف یار کی
درست تلفظ قَ سَ م ہوتا ہے ان معنوں میں۔ یہ قِ س م کا تلفظ ہے۔
بجا ارشاد، صرفِ نظر ہو گیا تھا۔ وہی آپ کے کہنے کے مصداق کہ انسان جو ٹھہرا۔

مگر کاش، یہاں ویسے ہی صرفِ نظر ہو جاتا! :(
 
آخری تدوین:

کاشف اختر

لائبریرین
آسی بھائی کی باتوں پر غور کیجئے۔
اس کے علاوہ غالباً یہ ان کی نظر سے بچ گئی۔
قسم کھائی ہے خدا نے تاب زلف یار کی
درست تلفظ قَ سَ م ہوتا ہے ان معنوں میں۔ یہ قِ س م کا تلفظ ہے۔

ہے قسم کھائی خدا نے تاب زلف یار کی ۔

کیا یہ چل سکتا ہے ؟ نیز
دیکھ ان کے حلم،دشمن کے پگھل جاتے ہیں دل


وإلا شعر خارج کردیا ہے ۔
اب یوں ہے !

دشمن جاں ، دوست بن جاتا ہے ان کے حلم سے ۔
کیا ہے عالی شان ان کی عظمت کردار کی ۔

اور عفو و تلوار والے شعر کو مکمل طور پر بھول چکا ہوں ۔

نیز یہ دو مصرعے چل سکتے ہیں کیا ؟

ہے فراز عرش سے آگے بہت ان کا مقام ۔
ذرے ذرے کو تمنا ہے بہت دیدار کی ۔

سر الف عین !
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
قسم والا مصرع درست ہے۔

کیا ہے عالی شان ان کی عظمت کردار کی ۔
عالی شان صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اگر شان کو اسم بنایا جائے تو عالی نہیں، اعلیٰ کہنا چاہئے۔ یکن اگر شان اعلیٰ بھی ہو تب بھی کردار کی ہی شان اعلیٰ ہو گی نہ کہ کردار کی عظمت کی۔ عظمتِ کردار کی شان عجیب بیانیہ ہے۔


ہے فراز عرش سے آگے بہت ان کا مقام ۔
یہ تو بہت غلو ہو گیا۔ کہ اللہ سے بھی اونچا مقام بنا دیا گیا!!!!
دوسرے مصرع میں ربط نظر نہیں آ رہا ہے پہلے سے۔
 
Top