نقد و نظر 2 "شہر آشوب" محمد خلیل الرحمٰن

"محبت بھری نگاہوں سے" سیاق و سباق بتاتا ہے کہ یہاں نگاہوں میں محبت وغیرہ کچھ نہیں، لالچ البتہ ضرور ہے اور وہ مفادات بھی جو اسے ایک شاید "کم شکل" بیوی کی وجہ سے ملنے والے ہیں یا تھے۔ ان لفظوں کو بدلنا ہو گا۔
 
پھر یوں ہوا کہ دولت شاہ نے اپنی بیوی کو ساتھ لیا اور خیر سگالی کے دورے پر قلعہ اکبر گیا ۔

قلعہ اکبر، خیرسگالی کا دورہ؛ آپ کا قاری آپ کے ذہن کو آپ کے الفاظ سے پڑھ سکے تو یہ آپ کے لفظوں کی خوبی ہے، اس کے لئے کچھ نہ کچھ پیشگی تعارف لازمی ہوتا ہے، چاہے اشاراتی سطح پر ہی ہو۔ لسانی حوالے سے "ساتھ لیا اور ۔۔ گیا"؛ سیدھا کہئے بیوی کو ساتھ لے گیا۔
ملکہء کوہسار سے بات سمجھ میں آ رہی ہے: مری، قلعہ اکبر: اسلام آباد، کلاچی : کراچی؛ تو پھر حسن کی دیوی کا اشارہ بے نظیر کی طرف رہا ہو گا۔ کہ اس کی توثیق "تریا ہٹ" سے بھی ہو رہی ہے۔ بہ ایں ہمہ اس حصے میں اختصار ضرورت سے زیادہ در آیا ہے۔ میں نے پہلے کہیں توازن والی بات کی ہے، وہ بہت ضروری ہے۔ ایسے واقعات (حقیقی فرضی علامتی سے قطع نظر) جن کی بنیاد پر آپ ایک کہانی چلا رہے ہیں، ان کو واضح ہونا چاہئے۔
 
ایک چیز جو کہانی کی تفہیم میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے وہ ہے پیراگرافوں کی ترتیب اور تقسیم میں عجلت یا شاید بے اعتنائی؛ یہ تو صاحبِ تحریر ہی جانتے ہیں۔
حسن کی دیوی کی قلعہ اکبر کی طرف دوڑ سے لے کر افسر بکارِ خاص تقرری تک قاری کلی طور پر دور کہیں رہ جاتا ہے۔ حصہ اتنا خشک اور پھیکا ہے کہ اسے کہانی کی بجائے "خبروں کا خلاصہ" سمجھا جا سکتا ہے۔ اس سارے پیش منظر میں ہیلن آف ٹروئے سے کوئی تعلق یا نسبت اگر ہے بھی تو اس کو تلاش کرنے کا کام قاری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ الجھا دینے والی ایک اور بات، کہ یہاں سب دیویاں ہیں۔ ایک طرف مشکل علامات کا ایک نظام ہے تو دوسری طرف ایک سیاسی (بلکہ سازشی سیاست کا) مشکل تر تانا بانا ہے۔

اردو ادب کا عام قاری ضروری نہیں کہ لاطینی یونانی اور قدیم انگریزی ادب کا قاری بھی رہا ہو۔ اس لحاظ سے وہ کہانی سے کٹ جاتا ہے اور "بہت اعلیٰ ذوق کا حامل" ایک محدود سا طبقہ بچتا ہے جسے اس تحریر کا مخاطب قرار دیا جا سکے۔
 
"آؤ دیکھا نہ تاؤ" لگتا ہے یہ فاضل مصنف کے پسندیدہ الفاظ ہیں۔
مجھے دوستانہ شوخی پر مبنی جسارت کرنے کی اجازت دیجئے کہ ہمارے صاحب "آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ" اپنے یہ پسندیدہ الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔
 
داستان اور کہانی لاہور پہنچنے تک ایک مکمل سیاسی کھیل بن جاتا ہے۔ جو تحریر کے آخر تک چلتا ہے، جہاں ایسے تیسے اس کا تعلق لکڑی کے گھوڑے سے جوڑ کر ہمارے مصنف فارغ ہو جاتے ہیں۔
 
اپنی حیثیت سے بڑھ کر ایک بات کہوں ۔۔۔

اس تحریر کو طے کیجئے کہ افسانہ لکھنا ہے، یا کہانی، یا کالم، یا رپورتاژ، یا انشائیہ؛ اور اس کے مطابق اس کے اسلوب میں یک رنگی لائیے۔ بات آپ کی جتنی بھی قیمتی ہو، جتنی بھی مبنی بر حقیقت ہو، جب آپ کا عام قاری پیچھے رہ گیا تو آپ کی محنت جانئے کہ رنگ نہیں لا سکی۔

میرے جیسے قاری کی خیر ہے، وہ پیچھے رہ جاتا ہے تو رہ جائے۔ گھسٹ گھسٹ کر چلنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ پورا کاروان ان کے لئے مُور قدمی کرتا رہے۔
 
کہیں ایسا تو نہیں کہ مصنف بیک وقت دو کہانیاں لکھ رہا ہے' شاید اسی لئے ایک کہانی کی ضرورتیں دوسری کی زوائد کا سبب بن رہی ہیں' لفظوں کی گونج گرج کچھ زیادہ محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔ کہانی میں الجھائو زیادہ محسوس ہورہا ہے ۔۔
ممکن ہے آپ درست کہہ رہے ہوں، تاہم مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ دو کہانیاں متوازی چل رہی ہوں۔
باقی امور پر اپنی تلخ و شیریں رائے پیش کر چکا ہوں۔
 
صاحبِ تحریر کو ایک گنجائش دی جا سکتی ہے، جیسا انہوں نے کہا کہ یہ "کہانی" بہت پہلے کی لکھی ہوئی ہے۔
تاہم یہ ضرور عرض کروں گا کہ ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی تحریروں کو دیکھتے نکھارتے رہنا چاہئے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صاحبِ تحریر کو ایک گنجائش دی جا سکتی ہے، جیسا انہوں نے کہا کہ یہ "کہانی" بہت پہلے کی لکھی ہوئی ہے۔
تاہم یہ ضرور عرض کروں گا کہ ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی تحریروں کو دیکھتے نکھارتے رہنا چاہئے۔
یہ بہت اچھی بات ہے ۔یہی رویہ نظم اور نثر ، ہر دوطرح کی تخلیقات پراپنایا جانا یقیناً مفید رہے گا۔ نیز اگر کوئی طویل کاوش ہو تو اس میں ربط و تسلسل اتنا ہی ضروری اور اہم ہوگا۔اور تخلیق سےقاری کا دل چسپاں رہے گا۔اس کا خیال رکھنے سے لفظیات و محاورات کے حسن دوبالا ہوجا تا ہے اور بیان کی کمزوریاں چھپ جاتی ہیں (اگر ہوں)۔اس ضمن میں آسی بھائی کا مراسلہ 23 مجھے بہت اہم لگاہے۔
 
یہ بہت اچھی بات ہے ۔یہی رویہ نظم اور نثر ، ہر دوطرح کی تخلیقات پراپنایا جانا یقیناً مفید رہے گا۔ نیز اگر کوئی طویل کاوش ہو تو اس میں ربط و تسلسل اتنا ہی ضروری اور اہم ہوگا۔اور تخلیق سےقاری کا دل چسپاں رہے گا۔اس کا خیال رکھنے سے لفظیات و محاورات کے حسن دوبالا ہوجا تا ہے اور بیان کی کمزوریاں چھپ جاتی ہیں (اگر ہوں)۔اس ضمن میں آسی بھائی کا مراسلہ 23 مجھے بہت اہم لگاہے۔
آپ کی محبت ہے۔
 
محترم محمد یعقوب آسی صاحب کی اجازت سے جناب محمد خلیل الرحمٰن کو اختتامی کلمات ادا کرنے کی دعوت دیتے ہیں
گفتگو تو ہوئی کوئی نہیں، صاحب!
دوستوں کو دعوت دیجئے کہ اپنی تنقیدی آراء سے نوازیں۔ بہت سارے پہلو جو مجھ پر نہیں کھل پائے، ان کو کھولیں۔ تنقید پر تنقید بھی ہونی چاہئے، ایسی بھی سرد مہری کیا!
احباب کو ایک دو دِن اور دے دیجئے، کوئی قباحت نہیں۔
 

ایوب ناطق

محفلین
ایک ذیلی سوال۔۔۔
کیا کسی تاریخی یا دیومالائی داستان کے تناظر میں لکھی ہوئی تحریر میں' داستان کے معتبر و مستند واقعات کو بغیر کسی فنی ضرورت کے' تبدیل کرنا فن پارے کو کمزور نہیں کر دیتا ؟
جناب محمد یعقوب آسی جناب سید شہزاد ناصر جناب سید عاطف علی جناب یاسر شاہ جناب نایاب اور احباب
 
ایک ذیلی سوال۔۔۔
کیا کسی تاریخی یا دیومالائی داستان کے تناظر میں لکھی ہوئی تحریر میں' داستان کے معتبر و مستند واقعات کو بغیر کسی فنی ضرورت کے' تبدیل کرنا فن پارے کو کمزور نہیں کر دیتا ؟
جناب محمد یعقوب آسی جناب سید شہزاد ناصر جناب سید عاطف علی جناب یاسر شاہ جناب نایاب اور احباب

دیو مالائی داستان اصولی طور پر معتبر یا مستند نہیں ہوتی۔ اسے اعتبار اور سند حاصل ہو جائے تو وہ یا تو عقیدہ بن جاتی ہے یا تاریخی واقعہ، داستان رہتی ہی نہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ لوک داستانوں کا ہوتا ہے۔ ایک ہی داستان بیان کرنے والے مختلف لوگ (بشمول ادیب) بہت سارے واقعات اور کرداروں کو جمع تفریق کر دیتے ہیں۔
 
لفظ "دیو مالا" کو دیکھئے۔
دیو : مافوق الفطرت قوتیں اور کردار
مالا: سلسلہ، لڑی
ما فوق الفطرت قوتوں اور کرداروں کے سلسلے
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم!

محترم ایوب ناطق صاحب آپ کی یاد آوری کا شکریہ -
میں نثر کا مردِ میداں نہیں لہٰذا میری رائے غیر مستند ہے -لیکن اس زمرے کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بیلاگ رائے کا اظہار کروں گا 'اگر غلطی کروں تو اصلاح کی درخواست کے ساتھ-

میرے خیال سے کہانی لکھنے کے دو ہی مقاصد ہو سکتے ہیں -ایک اصلاح دوسرا تفریح -اس کہانی میں دونوں ہی مفقود ہیں -مذکورہ کہانی اصلاحی اس لیے نہیں کہ اسے پڑھ کے قاری کے اندر ایسا کوئی شعور پیدا یا بیدار نہیں ہورہا کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں -نیز یہ تفریحی اس لئے نہیں کہ اسے سمجھنے میں ہی قاری کا ذہن الجھ الجھ جاتا ہے چہ جائیکہ فرحت ہو-

اس زمرے کی بہتری کے سلسلے میں دو ایک باتیں عرض کروں گا -ایک تو یہ کہ ہر نیا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے تمہیدی نوٹس میں تنقید کی اہمیت کو زور دے کر بیان کیا جائے 'دوسری یہ کہ مصنف صاحب بھی اگر گاہے بگاہے تشریف لاتے رہیں اور قارئیں کو تبصرہ لکھنے پہ ابھارتے رہیں تو کیا ہی اچھا ہوتاکہ ہمیں ان کی اس سلسلے کے آخر تک عدم شرکت سے ان کی ناراضی کا اندیشہ پیدا نہ ہو- یوں امید ہے کہ اس لڑی کی انفرادیت بھی قائم رہے -

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس لڑی کی انفرادیت کیا ہے؟سیکھنے سکھانے کا عمل تو تمام اردو محفل میں جاری و ساری ہے 'میرے نزدیک اس لڑی کی خاص اور ایک اضافی بات مجھ جیسے عام قاری کی ذہنی مغلوبیت اور مرعوبیت کو ختم نہ سہی کم کرنے کی طرف پیش رفت ہے-اور ذہنی مغلوبیت و مرعوبیت یا ذہنی غلامی میرے نزدیک یہ ہے کہ کسی کامیاب فن پارے کی تخلیق کے بعد تخلیق کار کو تنقید سے ماورا سمجھنا اور اس کی آئندہ کی تما م تخلیقات کو من و عن تسلیم کرلینا ہے-اور شاید یہ سوچ بھی اسی غلامانہ ذہنیت کا شاخسانہ ہے کہ علامہ اقبال اور غالب کے کلام میں کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی -اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ ادب میں کام کے بجائے نام چلنے لگتا ہے -

ضرورت اس بات کی ہے کہ سب کو تنقید پہ آمادہ کیا جائے مگر اندازنگارش شائستہ ہو- کیونکہ تنقید کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے 'ذرا الفاظ کا چناؤ غلط ہوا اور دل ٹوٹا -ایک فعل مباح کی خاطر فعل حرام کا ارتکاب گویا اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر کے مترادف ہے -

؂ خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو



یاسر
 
Top