محمد یعقوب آسی
محفلین
دل چسپالسلام علیکم!
محترم ایوب ناطق صاحب آپ کی یاد آوری کا شکریہ -
میں نثر کا مردِ میداں نہیں لہٰذا میری رائے غیر مستند ہے -لیکن اس زمرے کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بیلاگ رائے کا اظہار کروں گا 'اگر غلطی کروں تو اصلاح کی درخواست کے ساتھ-
میرے خیال سے کہانی لکھنے کے دو ہی مقاصد ہو سکتے ہیں -ایک اصلاح دوسرا تفریح -اس کہانی میں دونوں ہی مفقود ہیں -مذکورہ کہانی اصلاحی اس لیے نہیں کہ اسے پڑھ کے قاری کے اندر ایسا کوئی شعور پیدا یا بیدار نہیں ہورہا کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں -نیز یہ تفریحی اس لئے نہیں کہ اسے سمجھنے میں ہی قاری کا ذہن الجھ الجھ جاتا ہے چہ جائیکہ فرحت ہو-
اس زمرے کی بہتری کے سلسلے میں دو ایک باتیں عرض کروں گا -ایک تو یہ کہ ہر نیا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے تمہیدی نوٹس میں تنقید کی اہمیت کو زور دے کر بیان کیا جائے 'دوسری یہ کہ مصنف صاحب بھی اگر گاہے بگاہے تشریف لاتے رہیں اور قارئیں کو تبصرہ لکھنے پہ ابھارتے رہیں تو کیا ہی اچھا ہوتاکہ ہمیں ان کی اس سلسلے کے آخر تک عدم شرکت سے ان کی ناراضی کا اندیشہ پیدا نہ ہو- یوں امید ہے کہ اس لڑی کی انفرادیت بھی قائم رہے -
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس لڑی کی انفرادیت کیا ہے؟سیکھنے سکھانے کا عمل تو تمام اردو محفل میں جاری و ساری ہے 'میرے نزدیک اس لڑی کی خاص اور ایک اضافی بات مجھ جیسے عام قاری کی ذہنی مغلوبیت اور مرعوبیت کو ختم نہ سہی کم کرنے کی طرف پیش رفت ہے-اور ذہنی مغلوبیت و مرعوبیت یا ذہنی غلامی میرے نزدیک یہ ہے کہ کسی کامیاب فن پارے کی تخلیق کے بعد تخلیق کار کو تنقید سے ماورا سمجھنا اور اس کی آئندہ کی تما م تخلیقات کو من و عن تسلیم کرلینا ہے-اور شاید یہ سوچ بھی اسی غلامانہ ذہنیت کا شاخسانہ ہے کہ علامہ اقبال اور غالب کے کلام میں کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی -اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ ادب میں کام کے بجائے نام چلنے لگتا ہے -
ضرورت اس بات کی ہے کہ سب کو تنقید پہ آمادہ کیا جائے مگر اندازنگارش شائستہ ہو- کیونکہ تنقید کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے 'ذرا الفاظ کا چناؤ غلط ہوا اور دل ٹوٹا -ایک فعل مباح کی خاطر فعل حرام کا ارتکاب گویا اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر کے مترادف ہے -
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
یاسر