نقد و نظر 2 "شہر آشوب" محمد خلیل الرحمٰن

السلام علیکم!

محترم ایوب ناطق صاحب آپ کی یاد آوری کا شکریہ -
میں نثر کا مردِ میداں نہیں لہٰذا میری رائے غیر مستند ہے -لیکن اس زمرے کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بیلاگ رائے کا اظہار کروں گا 'اگر غلطی کروں تو اصلاح کی درخواست کے ساتھ-

میرے خیال سے کہانی لکھنے کے دو ہی مقاصد ہو سکتے ہیں -ایک اصلاح دوسرا تفریح -اس کہانی میں دونوں ہی مفقود ہیں -مذکورہ کہانی اصلاحی اس لیے نہیں کہ اسے پڑھ کے قاری کے اندر ایسا کوئی شعور پیدا یا بیدار نہیں ہورہا کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں -نیز یہ تفریحی اس لئے نہیں کہ اسے سمجھنے میں ہی قاری کا ذہن الجھ الجھ جاتا ہے چہ جائیکہ فرحت ہو-

اس زمرے کی بہتری کے سلسلے میں دو ایک باتیں عرض کروں گا -ایک تو یہ کہ ہر نیا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے تمہیدی نوٹس میں تنقید کی اہمیت کو زور دے کر بیان کیا جائے 'دوسری یہ کہ مصنف صاحب بھی اگر گاہے بگاہے تشریف لاتے رہیں اور قارئیں کو تبصرہ لکھنے پہ ابھارتے رہیں تو کیا ہی اچھا ہوتاکہ ہمیں ان کی اس سلسلے کے آخر تک عدم شرکت سے ان کی ناراضی کا اندیشہ پیدا نہ ہو- یوں امید ہے کہ اس لڑی کی انفرادیت بھی قائم رہے -

کیا آپ جانتے ہیں کہ اس لڑی کی انفرادیت کیا ہے؟سیکھنے سکھانے کا عمل تو تمام اردو محفل میں جاری و ساری ہے 'میرے نزدیک اس لڑی کی خاص اور ایک اضافی بات مجھ جیسے عام قاری کی ذہنی مغلوبیت اور مرعوبیت کو ختم نہ سہی کم کرنے کی طرف پیش رفت ہے-اور ذہنی مغلوبیت و مرعوبیت یا ذہنی غلامی میرے نزدیک یہ ہے کہ کسی کامیاب فن پارے کی تخلیق کے بعد تخلیق کار کو تنقید سے ماورا سمجھنا اور اس کی آئندہ کی تما م تخلیقات کو من و عن تسلیم کرلینا ہے-اور شاید یہ سوچ بھی اسی غلامانہ ذہنیت کا شاخسانہ ہے کہ علامہ اقبال اور غالب کے کلام میں کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی -اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ ادب میں کام کے بجائے نام چلنے لگتا ہے -

ضرورت اس بات کی ہے کہ سب کو تنقید پہ آمادہ کیا جائے مگر اندازنگارش شائستہ ہو- کیونکہ تنقید کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے 'ذرا الفاظ کا چناؤ غلط ہوا اور دل ٹوٹا -ایک فعل مباح کی خاطر فعل حرام کا ارتکاب گویا اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر کے مترادف ہے -

؂ خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو



یاسر
دل چسپ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مختصر تحریر مثلاًافسانہ وغیرہ لکھنے کا ایک انداز یہ ہوتا ہے کہ اس کا آغاز کسی رسمی تمہید و تعارف کے کلمات کے بغیر موضوع کے کسی پہلو کو لے کر شروع کر دیا جاتا ہے،اور ساتھ ساتھ آگے بڑھتے ہوے کرداروں کا تعارف سامنے آتا رہتا ہے اور صورت واضح سے واضح تر ہوجاتی ہے ۔لیکن اس صورت میں قاری پر تمہیدی قسم کا وہ مواد موضوع پر فوکس آنے سے پہلے واضح ہو چکا ہونا چاہیے جوموضوع سے وابستہ ہیں ۔تاکہ تحریر کا لطف باقی رہے۔ یہاں (مجھے)یہ کمزوری محسوس ہوئی کہ صورت حال کو واضح نہیں کیا گیا اور موضوع کو بھی شاید اچھی طرح سمیٹا نہیں گیا البتہ انفرادی اجزا صاحب تحریر کی نگارش کا اچھا تاثر بھی پیش کر تے نظر آتے ہیں۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین

ایوب ناطق

محفلین
استاد محترم ۔۔۔ اس نشست کے اختتام پر جناب خلیل صاحب چاہے تو رسمی یا غیر رسمی طور پر ' محفل کے شرکاء کی گفتگو پر اظہار فرما سکتے ہیں تاکہ خلوص اور وقار کے ساتھ محفل کی اس نشست کا اختتام ہو ' اس احباب اگلی نشست کی طرف متوجہ ہو سکے ۔۔
 
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاھب کا افسانہ " شہر آشوب " پڑھا۔ یہ خوبصورت زبان میں تحریر کردہ ایک علامتی افسانہ ہے۔ اس کا تعلق مختصر افسانے کی صنف سے ہے۔ جیسا کی ہم سب جانتے ہیں اردو افسانے میں مختصر افسانے اور طویل مختصر افسانے کی اصناف رایج ہیں۔ اس سے آگے ناولٹ کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ ادیب کو لکھتے وقت ان اصناف کی حدود کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔
خلیل صاحب نے اپنے افسانے میں دیومالایئت سے بھی کام لیا ہے۔ اس نوعیت کے اردو میں کئی افسانے لکھے گئے ہیں لیکن جو افسانے مشہور ہوئے ان کی تعداد کم ہے۔ ایسے افسانوں کے حوالے سے فوری طور پر جو نام ذہن میں آتے ہیں وہ عزیز احمد،ممتاز شیریں اور انتظار حسین کے ہیں۔ ممتاز شیریں نے دیو مالا کے پس منظر میں جو افسانہ لکھا تھا اس کا مجھے نام یاد نہیں آ رہا بس اتنا یاد ہے کہ وہ ان کے افسانوی مجموعے میگھ ملہار میں شامل تھا۔ عزیز احمد کے مختصر افسانوں میں " زریں تاج " اور " مدن سینا اورصدیاں " شامل ہیں۔ انہوں نے تاریخی پس منظر میں ایک ناولٹ " جب آنکھیں آہن پوش ہویئں" بھی لکھا۔ ان تمام افسانوں کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ادیب کے لئے دیو مالائی یا تاریخی کرداروں کا تعارف ضروری نہیں- ( جاری ہے )
 
( گزشتہ سے پیوستہ)
عزیز احمد کے افسانے " زریں تاج " میں ہندوستان کے ایک شہر میں دوسری جنگِ عظیم کے پہلے دن کو پس منظر کے طور پر لیا گیا ہے۔ مرکزی کردار کی جیپ رات کو خراب ہو جاتی ہے۔ بلیک آوٹ ہے۔ ڈرایور انجن ٹھیک کر رہا ہے تو موصوف آگے دور تک نکل جاتے ہیں۔ اندھیرے میں ایک جگہ پر زریں تاج سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہ انہیں اپنی کہانی سناتی ہے۔ لیکن اس کی یہ کہانی کسی ایک عورت کی کہانی نہیں بلکہ ایک سے زیادہ عورتوں کی کہانی ہے۔ کبھی وہ زریں تاج ہوتی ہے کبھی قرتہ العین طاہرہ اور کبھی ملکہ ہندوستان نورجہاں۔ ان میں سے کسی کردار کا ادیب نے تعارف نہیں کرایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قاری سے یہ توقع کرتے ہیں کہ انہیں قرتہ العین طاہرہ اورنورجہاں کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کون تھیں۔ کچھ ایسا ہی سلسلہ " مدن سینا اور صدیاں " میں بھی ہے۔ ( جاری ہے )
 
( گزشتہ سے پیوستہ )
اُن کے ناولٹ " جب آنکھٰیں آہن پوش ہویئں " میں جو تیمور کے بارے میں ہے وہ کہیں کرداروں کا تعارف نہیں کراتے۔ قاری کو معلوم ہونا چاہئے کہ اُس کا مد مقابل حسین اُس کا بہنوئی ہے۔
ممتاز شیریں نے اپنے افسانے میں یونانی دیو مالا کو استعمال کیا ہے لیکن کسی کردار کا تعارف نہیں کرایا۔ اسی طرح مشکل مقامات کی توضیح بھی ادیب کا کام نہیں ورنہ جیمز جوایس سے یولیسیز کی غالب سے اُن کے اشعارکی شرح کی فرمایش کی جاتی۔ ایک رقاصہ سے جو کلاسیکی رقص کرتی تھی کسی نے پوچھا کہ آپ نے اس رقص کے ذریعے کیا کہنا چاہا۔ اُس رقاصہ نے بڑا صاف اور واضح جواب دیا۔" اگر مجھے یہ سب الفاظ ہی میں کہنا ہوتا تو میں اتنی دیر رقص نہ کرتی۔"
حقیقت یہ ہے کہ شاعری ہو، افسانہ ہو، مصوری ہو یا رقص ہو، غرضیکہ فنونِ لطیفہ کی کوئی بھی صنف ہو وہ ہم سے ریاضت کا مطالبہ کرتی ہے۔ معلومات پیلے سے ذہن میں نہ ہوں اور ذوقِ لطیف نہ ہو تو نہ پینٹنگ سمجھ میں آتی ہے نہ راگ اور نہ ہی افسانہ اور شاعری۔ مختصر یہ ہے کہ ہم ان میں سے کسی صنف کے تخلیق کار سے اُس کی تخلیق کی وضاحت کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ پکاسو نے کبھی اپنی کسی پینٹنگ کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے کبھی وان گا گ سے کسی پینٹنگ کا مطلب پوچھا۔ چنانچہ ہم خلیل صاحب سے بھی اس بات کا مطالبہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرداروں کے تعارف کا تقاضہ کر سکتے ہیں۔ ( جاری ہے )
 
( گزشتہ سے پیوستہ )
فنونِ لطیفہ کے شوقین کے پاس ذوق اور بقدرِ ضرورت معلومات ہونی چاہئیں۔ اور یہ سب صرف اور صرف مطالعے ہی سے ممکن ہے۔ ہاں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ موضوع کے پیشِ نظر خلیل صاحب کو مختصر افسانے کے بجائے طویل مختصر افسانے کے میڈیم کو استعمال کرنا چاہہئےتھا۔ اس طرح ان کی خوبصورت تحریر میں سانس پھولنے کی کیفیت نہ پیدا ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مختصر افسانے میں واقعات اتنی تیز رفتاری سے پیش آئے ہیں کہ قاری کا بھی سانس پھولنے لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خلیل صاحب کو افسانہ مکمل کرنے کی جلدی تھی یا اُن پر کوئی ذہنی دباو تھا کہ ایک ہی نشست میں افسانہ مکمل کردیں- ایسا تو وہی ادیب کر سکتے ہیں جنہیں اپنے فن پر اتنی گرفت ہو اور اٰن کی تحریر اتنی پُختہ ہو کہ وہ ڈوب کر لکھتے ہوں اور وقت اُن کے لئے بے معنی ہو جاتا ہو۔ جیسے ہمارے نانا ماموں ڈاکٹر صمد شاہین جو اپنی اہلیہ ممتاز شیریں کے ہمراہ " نیا دور " شایع کرتے تھے بتایا کرتے تھے کہ منٹو نے اپنا افسانہ" موذیل " ایک دکان کے تھڑے پر پیٹھے بیٹھے پنسل سے ایک ہی نشست میں لکھ ڈالا تھا۔ " موذیل " منٹو کا بے حد مشہورافسانہ ہے اور ان کے نمایندہ افسانوں میں شمار ہوتا ہے۔ ( جاری ہے )
 
( گزشتہ سے پیوستہ )
ایک اور بات جو خلیل صاحب کے افسانے میں کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اتنے مختصر افسانے کے لئے جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ افسانے کی نہیں بلکہ داستان کی ہے۔ نتیجہ کے طور پر بعض مقامات تشنہ رہ گئے اور بعض مقامات پر داستانی اسلوب کے باعث لفاظی نے زبان کو پُر تصنع بنا دیا ۔
افسانے کا عنوان بھی محلِ نظر ہے۔ ' شہرآشوب " کے عنوان کے تحت لکھے گئے اس افسانے میں حقیقی شہر آشوب صرف آخری تین سطریں ہیں۔ یہ حقیقت عنوان کی اہمیت کو کم کر دیتی ہے۔
بحیثیتِ مجموعی یہ افسانہ خوبصورت ہے اور خلیل صاحب میں موجود صلاحیتوں کا متاثر کُن اعلان بھی۔ خلیل صاحب اگر مزید افسانے لکھیں تو تحریر کا تسلسل بھی اُنہیں فایدہ پنہچائے گا نیز لکھنے کے لئے مزید مطالعے کی ضرورت حود بخود اُن پر مزید مطالعے کے دروازے کھول دے گی، اردو اور دیگر عالمی زبانوں کے مشہور افسانوں کا مطالعہ اُن کی صلاحیتوں کو جِلا بخشے گا۔ مرحوم کالم نگار جناب اِرشاد احمد حقانی کیا خوب کہہ گئے ہیں کہ " تھوڑا سا لکھنے کے لئے بہت سا پڑھنا پڑتا ہے ۔" ( تمت بالخیر)
 
یوں محسوس ہورہا ہے کہ جو باتیں ہم کہنا چاہ رہے تھے لیکن نہ کہہ پائے وہ بہت بہتر انداز میں ہمارے چھوٹے بھائی محمد حفیظ الرحمٰن نے کہہ دیں۔ ہم تمام محفلین اور اساتذہ کرام کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری اس حقیر کوشش کو قابلَ توجہ جانا اور ہمیں اپنی قیمتی آراء اور خوبصورت تنقید سے نوازا۔

آپ کی قیمتی تنقید ہمارے لیے کسی خزانے سے کم نہیں۔ ہم یقیناً آپ کی آراء کی روشنی میں اس بے ترتیب تحریر کو ایک افسانے کی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

ایک مصنف کے لیے اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے حالات بھی اس قلبی واردات کا حصہ بن جاتے ہیں، اور یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا۔ اپنے پیارے وطن پاکستان کی تاریخ میں قائد کی رحلت کے بعد جو واقعات پیش آئے انہوں نے ہمیں متاثر کیا اور ہم نے اس سیاسی تاریخ کو اپنی مندجہ ذیل چار تحریروں کا موضوع بنایا۔ گر چہ اسے صحیح طور پر لکھنے میں ہم یقیناً ناکام رہے لیکن ہم کالم نویس نہیں کہ سیاسی کالم لکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے سو جو کچھ ہم کرسکتے تھے ہم نے کیا۔ اگر آپ ان تحریروں سے ہمارے دل کا کرب محسوس کرسکتے ہیں تو ہم کامیاب ہوگئے۔ اگر نہیں تو اس بھڑاس کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر ہمیں معاف کردیجیے ۔



گاندھی گارڈن (ایک طنزیہ)
پرنس : نکولو میکیاولی۔ ترمیم و اضافے کے ساتھ
ہیری پوٹر اِن ٹربل
شہر آشوب
 
Top