فارسی شاعری نمی دانم کجا رفتم - شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بوعلی شاہ قلندر کی ایک غزل

محمد وارث

لائبریرین
جن دوستوں نے استاد فتح علی خان قوال کی آواز میں امیر خسرو کی مشہور نعت، 'نمی دانم چہ منزل بُود' سن رکھی ہے وہ جانتے ہونگے کہ اس میں انہوں نے نمی دانم کی مناسبت سے بوعلی قلندر (شیخ شرف الدین پانی پتی) کے دو تین اور اشعار بھی گائے ہیں جن میں نمی دانم آتا ہے۔ ایک عرصے سے خواہش تھی کہ یہ اشعار علیحدہ سے گائے ہوئے بھی مل جائیں بلآخر یہ خواہش ہمارے نئے اور پیارے دوست توصیف امین نے پوری کر دی۔ نئے دوست تو میرے کئی بنتے ہیں لیکن ان میں پیارے وہی ہوتے ہیں، میرے لیے نہ کہ اللہ کو، جو صاحبِ ذوق بھی ہوں اور غالب کے طرفدار بھی یعنی سخن فہم اور ماشاءاللہ آپ میں دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے جب مجھے اس قوالی کی فائل بھیجی تو انتہائی خوشی ہوئی اور اسی خوشی میں آپ دوستوں کو بھی شامل کر رہا ہوں کہ میری خوشیاں کچھ اسی قسم کی ہوتی ہیں۔

شیخ شرف الدین پانی پتی معروف بہ بوعلی قلندر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کا شمار برصغیر کے نامور اولیاء میں ہوتا ہے اور کئی کرامات آپ سے منسوب ہیں، پانی پت میں آپ کا مزار، بلا تفریقِ مذہب و ملت، مرجعِ خلائق ہے جس کی دو تصاویر نیچے عقیدت مندوں کیلیے بطور تبرک شامل کر رہا ہوں۔ آپ ایک بلند پایہ اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ انسائیکلوپیڈیا اسلامیکا (دانشنامۂ جہانِ اسلام) کا مضمون نگار آپ کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے۔ "بوعلی قلندر در نظم و نثر پارسی استاد بود۔" اسی مضمون سے علم ہوتا ہے کہ آپ کا ایک دیوان بھی شائع ہوا تھا جو آپ کی غزلیات، قصائد اور رباعیات کا مجموعہ تھا، حیدرآباد دکن سے آپ کے اشعار کا ایک مجموعہ "کلامِ قلندری" نامی بھی شائع ہوا تھا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اب یہ کتب کہیں سے ملتی ہیں یا نہیں۔ اسکے علاوہ آپ نے تین مثنویاں بھی تخلیق کی تھیں جس میں ایک کا نام "گل و بلبل" ہے۔ آپ کے کلام کے اردو اور پنجابی ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔

آپ کا ایک قطعہ تو انتہائی معروف ہے، اور کیا خوبصورت اور عقیدت سے بھرا قطعہ ہے

حیدریّم، قلندرم، مستم
بندۂ مرتضیٰ علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم
کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم
میں حیدری ہوں، قلندر ہوں، مست ہوں، علی مرتضیٰ (ع) کا بندہ ہوں، میں تمام رندوں کا امام ہوں کہ شیرِ خدا (ع) کے کوچے کا کتا ہوں۔

غزل لکھنے سے پیشتر اسکی ہیت کے بارے میں ایک بات ضرور کہنا چاہونگا، مطلع سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزل کے قوافی "جمال، وصال" وغیرہ ہیں لیکن دوسرے اشعار میں ان قوافی کا تتبع نہیں کیا گیا بلکہ ہر شعر کو بظاہر چار ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ہر ٹکڑے میں قافیہ لایا گیا ہے جو کہ مطلع کے قوافی سے مختلف ہیں اور پھر ردیف وہی مطلع والی۔ غزل کی ہیت میں ایسا لکھنا میرے لیے واقعی ایک نئی بات ہے، شاید صاحبانِ علم و فضل اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ مزید یہ کہ یقیناً یہ غزل مکمل نہیں ہے، اسلیے اگر کسی دوست کے علم میں مزید اشعار ہوں تو ضرور شیئر کریں۔

مَنَم محوِ جمالِ اُو، نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو، نمی دانم کجا رفتم
میں اسکے جمال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں، بس اُسی کے وصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

غلامِ روئے اُو بُودَم، اسیرِ بُوئے اُو بودم
غبارِ کوئے اُو بودم، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے چہرے کا غلام ہوں، اسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اسکے کُوچے کا غبار ہوں، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

بہ آں مہ آشنا گشتم، ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم، نمی دانم کجا رفتم
اُس ماہ رُو کا آشنا ہو کر گھومتا ہوں، جان و دل فدا کیے ہوئے گھومتا ہوں، خود کو فنا کیے ہوئے گھومتا ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُو
شدم محوِ لقائے او، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے عشق میں ایسے مبتلا ہوں کہ اس کے پاؤں پر سر رکھے ہوں اور ہمہ وقت اسکے دیدار میں محو اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔

قلندر بُوعلی ہستم، بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم، نمی دانم کجا رفتم
میں بُو علی قلندر ہوں اور دوست کے نام پر سرمست ہوں اور میرے دل میں بس اُسی کا عشق ہے، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔


تصاویر بشکریہ وکی پیڈیا




ویڈیوز بشکریہ جناب توصیف امین


 

مغزل

محفلین
بہت خوب سبحان اللہ ، بہت شکریہ وارث صاحب، نہ صرف کلام کا بلکہ مکمل مفصل تعارف و ترجمہ کا بھی ۔ مزا آگیا ، واہ
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت انتخاب و ترجمہ و تفصیل ہے۔ سبحان اللہ! بہت شکریہ قبلہ!

ہم آپ کی ذات کے ساتھ ساتھ آپ کی علمی و فنی حیثیت کے بھی معترف ہیں لہٰذا آپ یقیناً بہتر جانتے ہیں لیکن ایک توجیہہ جو ہمارے ذہن میں آ رہی ہے وہ یوں ہے کہ شاید یہ غزل نہ ہو بلکہ مربع ہو۔ یعنی۔۔۔

مَنَم محوِ جمالِ اُو
نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو
نمی دانم کجا رفتم

غلامِ روئے اُو بُودَم
اسیرِ بُوئے اُو بودم
غبارِ کوئے اُو بودم
نمی دانم کجا رفتم

بہ آں مہ آشنا گشتم
ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم
نمی دانم کجا رفتم

شدم چوں مبتلائے اُو
نہادم سر بہ پائے اُو
شدم محوِ لقائے او
نمی دانم کجا رفتم

قلندر بُوعلی ہستم
بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم
نمی دانم کجا رفتم
 

مہ جبین

محفلین
محمد وارث بھائی حضرت بوعلی شاہ قلندر کے کلام کا ترجمہ اور انکے بارے میں تفصیل سے ذکر کرنے کا بہت شکریہ
اتنی اچھی معلومات ہم تک پہنچانے کے لئے بہت نوازش
خوش رہیں سدا
 

نایاب

لائبریرین
حیدریّم، قلندرم، مستم بندۂ مرتضیٰ علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم
،،،،،،،،،،،،،،
جزاک اللہ خیراء محترم وارث بھائی
 
بہت وجد آفریں اور خوبصورت کلام
شریکِ محفل کرنے کا شکریہ
دیوان بو علی قلندر میرے پاس پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہے
مگر ترجمہ کے بغیر ہے اگر کہیں تو لنک آپ کو بھیج دیتا ہوں
 
محمد وارث بھائی بہت ہی خوبصورت کلام ہے۔ گوگل پر سرچ کے دوران اس کا لنک ملا تو یہاں چلا آیا۔
کلام پڑھ کے روح تازہ ہو گئی۔
بہت وجد آفریں اور خوبصورت کلام
شریکِ محفل کرنے کا شکریہ
دیوان بو علی قلندر میرے پاس پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہے
مگر ترجمہ کے بغیر ہے اگر کہیں تو لنک آپ کو بھیج دیتا ہوں
اور جناب سید شہزاد ناصر صاحب آپ بو علی قلندر کا دیوان مہیا کریں تو بہت نوازش ہو گی۔
 

malik abbas

محفلین
حیدریّم، قلندرم، مستم​
بندۂ مرتضیٰ علی ہستم​
پیشوائے تمام رندانم​
کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم​
محترم وارث بھائ..سلام محترم میری ناقص معلومات کے مطابق قطعه بالا شھباز قلندر کا ھے۔۔کوئ حوالہ ھو تو عنایت فرمایں ممنون رھونگا۔کہ قطعہ
حضرت بوعلی شاہ قلندر پانی پتی کا ھے​
 

mohsin ali razvi

محفلین
قلندر بُوعلی ہستم
بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم
نمی دانم کجا رفتم
----------------
عامل شیرازی
من دیوانه شیدا چو نامم عامل سر مست
بنام رب سرمستان بعشق یار دل داران
سر کوی عظیم عشق مثال روح می رقصم
دلا آرام گیر اکنون سکون قلب شیدا جو
نماز عشق رب عشق همی خوانم همی رقصم
خدایم آفریدی عشق نمودی عشق با یاری
من دیوانه عاشق وار مثال باد می رقصم
مقام عاشقان باشد بر آن عرش مُعلایش
حظور عشق می رقصد منم دیوانه می رقصم
نمی دانم مقام خود ولی اندر مکان او منم عامل
چو شیدایش مثال مرغ بسمل الله سرو پایم محو رقص
دل دیوانه می رقصد زه خود بیگانه می
 
"میں اسکے جمال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں، بس اُسی کے وصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔ "​

اس ترجمے کے لیے رفتم کی جگہ رویم نہیں ہونا چاہیے؟؟
رفتم کا مطلب تو میں گیا ہوتا ہے۔
محمد وارث
حسان خان
 
Top