پہلی بار فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر آئے۔ دوسری بار اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر۔ اور اب تیسری بار الیکشن ریٹرننگ آفیسرز کے کندھوں پر۔ آپ اسکو تین سو بار ہی کیوں نہ وزیر اعظم منتخب کر دیں۔ نتیجہ وہی صفر ہی آئے گا۔نواز شریف کی تمام ترین برائیوں سے قطع نظر تین بار وزیر اعظم ہونا اسکے (اچھا، برا، بدترین) لیڈر ہونے کا ثبوت ہے۔
اس کا جواب تو عشاق شریف ہی دے سکتے ہیںاور عشاقِ شریف؟
اس بات کے مستند اعداد و شمار میرے پاس نہیں ہیں۔ اگر آپ کے پاس مستند ہیں تو ضرور بتائے۔اچھا مذاق برطرف، آپ یہ بتائیے کہ پنجاب کا وزیر خزانہ بننے سے قبل شریف فیملی کی جائیداد کیا تھی اور آج کیا ہے
پاکستان اور اس کے باہر، دونوں ہی شمار کرتے ہیں
اگر لیڈر کی تعریف مقبول عوامی سیاسی شخصیت کر لی جائے تو آپ کی بات درست ہے۔نواز شریف کی تمام ترین برائیوں سے قطع نظر تین بار وزیر اعظم ہونا اسکے (اچھا، برا، بدترین) لیڈر ہونے کا ثبوت ہے۔
پنجاب کا وزیر خزانہ تو ان کو فوج نے بنایا بے شک۔پہلی بار فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر آئے۔ دوسری بار اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر۔ اور اب تیسری بار الیکشن ریٹرننگ آفیسرز کے کندھوں پر۔ آپ اسکو تین سو بار ہی کیوں نہ وزیر اعظم منتخب کر دیں۔ نتیجہ وہی صفر ہی آئے گا۔
ہاہاہاہاہاہاہا۔الطاف بھائی
نو ڈاؤٹ کے وہ ہماری سابقہ کرکٹ ٹیم کا اچھا لیڈر تھا۔عمران خان اور کون؟
لیکن اسکے بعد نواز شریف کارکردگی کی بنا پر عوامی مقبولیت حاصل کر چکے تھے اسی لئے 97 کا الیکشن بغیر کسی سیاسی اتحاد کے لڑا تھا اور اچھی خاصی نشستیں حاصل کر لی تھیں۔
2002 اور 2013 کے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ نواز کے خلاف تھی۔
ریٹرننگ افسروں والی بات میں مجھے کوئی وزن نظر نہیں آتا۔
سیاست کا بھی لیڈر ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ہم نااہل جاہل لوگوں کو نورا کشتی اور گھوڑوں کو مربہ کھلانے والوں سے فرصت نہیں ملتی۔نو ڈاؤٹ کے وہ ہماری سابقہ کرکٹ ٹیم کا اچھا لیڈر تھا۔
لیکن سیاست کا؟؟؟
ویسے میرا مشاہدہ ہے کہ عشاق مشرف اور عشاق عمران ، نواز پر بغیر دلیل اور ثبوت کے الزام لگاتے رہتے ہیں
ویسے میرا مشاہدہ ہے کہ عشاق مشرف اور عشاق عمران ، نواز پر بغیر دلیل اور ثبوت کے الزام لگاتے رہتے ہیں
پتا نہیں ہماری قوم کو سیاسی اور جمہوری بلوغت کی منزل اور کتنے عرصے بعد ملے گی۔دراصل یہ سب شخصیت پرستی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لئے ہمارے ہاں ہر سیاستدان کے عشاق باآسانی مل جاتے ہیں۔
مزہ تب آئے گا جب ہماری (ہم سب کی) طرف سے توصیف و تنقید نظریاتی بنیادوں پر ہوا کرے گی۔
مقبول ترین عوامی شخصیت تو عمران خان ہی ہے۔اگر لیڈر کی تعریف مقبول عوامی سیاسی شخصیت کر لی جائے تو آپ کی بات درست ہے۔
ویسے میرا مشاہدہ ہے کہ عشاق مشرف اور عشاق عمران ، نواز پر بغیر دلیل اور ثبوت کے الزام لگاتے رہتے ہیں
دراصل یہ سب شخصیت پرستی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لئے ہمارے ہاں ہر سیاستدان کے عشاق باآسانی مل جاتے ہیں۔
مزہ تب آئے گا جب ہماری (ہم سب کی) طرف سے توصیف و تنقید نظریاتی بنیادوں پر ہوا کرے گی۔
پتا نہیں ہماری قوم کو سیاسی اور جمہوری بلوغت کی منزل اور کتنے عرصے بعد ملے گی۔
یاد تو واپڈا والے بھی کم نہیں ہوتےپاکستان میں قومی سطح پر مقبول عوامی سیاسی شخصیات دو ہی ہیں۔ ایک عمران خان اور دوسرا نواز شریف۔
ایک وقت تھا 2011 اور 2012 کے دوران عمران خان سب سے زیادہ مقبول تھا۔ لیکن اس وقت نواز عمران سے زیادہ مقبول ہے اسکی دلیل حالیہ گیلپ سروے ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اچھی حکومت کے ہونے کے لئے لازمی ہے کہ متحرک اور قابل اپوزیشن ہو جو حکومت کو "کیپ آن دی ٹوز" رکھ سکےپر امن احتجاج ضرور ہونے چاہیں تاکہ اچھا حکمران بھی نیت خراب ہونے سے پہلے ایک دفعہ پھر سوچ لے۔
لیکن اپوزیشن اور دوسری سرگرمیوں میں ملکی معیشت کا نقصان اور جلاؤ گھیراؤ وغیرہ نہیں ہونا چاہئے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اچھی حکومت کے ہونے کے لئے لازمی ہے کہ متحرک اور قابل اپوزیشن ہو جو حکومت کو "کیپ آن دی ٹوز" رکھ سکے