نواز شریف اور جہانگیر ترین تاحیات نااہل

م حمزہ

محفلین
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ سنادیا ۔
دستور پاکستان 1973ء میں آرٹیکل 62 کے مطابق ایسے عوامی نمائندےجو صحیح معنوں میں ان آرٹیکلز میں طے کردہ معیار پر پورے اترتے ہوں، وہی ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

آرٹیکل 62 کے تحت
(1 ) کوئی شخص اہل نہیں ہو گا، رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا،بطور ممبر مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کے،ماسوائے یہ کہ وہ پاکستان کا شہری ہو۔
(ب) وہ قومی اسمبلی کی صورت میں پچیس سال سے کم عمر کانہ ہو اور بطور ووٹر اس کے نام کا اندراج کسی بھی انتخابی فہرست میں موجود ہو جو پاکستان کے کسی حصے میں جنرل سیٹ یا غیر مسلم سیٹ کے لئے ہو، اور صوبے کے کسی حصے میں اگر عور ت کی مخصوص سیٹ ہو تو اس کے لئے۔
(ج) وہ سینیٹ کی صورت میں تیس سال سے کم عمر کا نہ ہو اور صوبے کے کسی ایریا میں اس کا نام بطور ووٹر درج ہو، یا جیسی بھی صورت ہو، فیڈرل کیپیٹل یا فاٹا میں جہاں سے وہ ممبر شپ حاصل کر رہا ہو۔
(د) وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلامی سے انحراف میں مشہور نہ ہو۔
(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو ، اور اسلام کے منشور کردہ فرائض کا پابند ہو ، نیز کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو۔
(و) وہ سمجھدار ہو ، پارسا ہو،ایماندار اور امین ہو،اور کسی عدالت کا فیصلہ اس کے برعکس نہ ہو۔
(ز) اس نے پاکستان بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
(2) نا اہلیت مندرجہ پیرا گراف (د) اور (ہ) کا کسی ایسے شخص پر اطلاق نہ ہو گا، جو غیرمسلم ہو لیکن ایسا شخص اچھی شہرت کا حامل ہو۔
کیا اس مطلب ہے کہ غیر مسلم اگر وہ اچھی شہرت رکھتا ہو تو وہ بھی پاکستان کا وزیراعظم بن سکتا ہے؟
برائے مہربانی اس شق کی ضرور تشریح کریں ۔
 

شاہد شاہ

محفلین
اس تا حیات نا اہلی کے بعد سب سے اہم سوال جو ابھی تک کسی نے نہیں پوچھا وہ یہ ہے کہ کیا واقعی قوم کی جان نواز شریف سے چھوٹ گئی ہے یا کسی اور چور راستے سے واپسی ہو سکتی ہے؟ یاز بھائی نے نئی آئیڈی کیساتھ واپس آنے کا مشورہ دے رکھا ہے۔ مگر اسکے لئے شاید پلاسٹک سرجری بھی کروانا پڑے
 

زیک

مسافر
اس تا حیات نا اہلی کے بعد سب سے اہم سوال جو ابھی تک کسی نے نہیں پوچھا وہ یہ ہے کہ کیا واقعی قوم کی جان نواز شریف سے چھوٹ گئی ہے یا کسی اور چور راستے سے واپسی ہو سکتی ہے؟ یاز بھائی نے نئی آئیڈی کیساتھ واپس آنے کا مشورہ دے رکھا ہے۔ مگر اسکے لئے شاید پلاسٹک سرجری بھی کروانا پڑے
پلاسٹک سرجری تو نہیں صرف نیا آئی پی ایڈریس، نام، ملک اور عمر
 
جونیجو کو نکالنے والوں کا ساتھ کس نے دیا تھا؟ کن کے آبا و اجداد نے ایوب خان کے قصیدے پڑھے تھے، کن کی اولادوں نے مشرف کے گلاس بھرے تھےِ؟
یہ یہیں کے سیاہ ست دان تھے یا مریخ سے آئے تھے؟
چلیں پہلی دلیل کو چھوڑ کر دوسری طرف چلے آنا، یہ تو مان گئے کہ وہ ٹھیک نہ تھی۔ رہا ساتھ دینے کی بات تو انہوں نے غلط کیا اور اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بلکہ ان سے زیادہ قوم بھگت رہی ہے اور جو سیاستدان آج شادیانے بجا رہے ہیں وہ کل بھگت لیں گے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
مسئلہ پرانے سیاستدانوں کا نہیں بذاتِ خود سیاستدانوں سے اور سیاست سے ہے۔
متفق! آجکل کچھ سیاست دان پے در پہ نااہلیوں کے بعد ججز پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ڈکٹیٹر کے نیچے حلف لئے۔ مگر حیرت انگیز طور پر وہی سیاست دان ڈکٹیٹرز کے نیچے الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ جن میں نہایت افسوس کیساتھ صادق و امین عمران خان بھی شامل ہیں۔ ۲۰۰۸ میں گو کہ عمران خان نے مشرف کے نیچے الیکشن سے انکار کیا تھا مگر ۲۰۰۲ میں اسی کے نیچے لڑا بھی تھا۔ سب سیاست دانوں کا ایک ہی نظریہ ہے اور وہ ہے حصول اقتدار
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
ذرا تصور کیجیے، میاں صاحب کو سزا ہو گئی۔ وہ چکی کی مشقت کاٹ رہے ہیں۔ اس عالم میں یہ توقع رکھنا کہ دیگر سیاست دانوں کے پر نہ کترے جائیں گے، عجیب معلوم ہوتا ہے۔ اگر یہ سب ایک پلان کے تحت ہو رہا ہے تو 'بیلنس'کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
احتساب عدالت سے میاں صاحب کو سزا ہو جاتی ہے تو اس کے نتائج دیگر سیاست دانوں پر بھی پڑیں گے؛ خاص طور پر وہ سیاست دان جن کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ ہمیں عمران خان صاحب کا سیاسی مستقبل بھی مخدوش معلوم ہوتا ہے۔ زرداری صاحب الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ شہباز شریف صاحب تو براہ راست ماڈل ٹاؤن کیس میں ملوث کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ ان سُونی گلیوں میں 'مرزا یار'بن کر پھرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
 
Top