نواز شریف کے نادہندہ ہونے کا ثبوت

ش

شہزاد احمد

مہمان
شہزاد صاحب آپ تبدیلی کو تبدیلی تسلیم نہیں کرنا چاہتے آپ نہ جانے کیسے چارہ گر کے منتظر ہیں اور کس انقلابی دانش کی بات کر رہے ہیں
کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اس کو کسی معروف مثال سے واضح کر دیں تاکہ ہمیں آپ کا موقف سمجھنے میں آسانی ہو
وہ کون سا ایسا مسیحا ہے جس کے انتظار میں آپ کم تر برائی کو مزید پانچ سال کے لئے پاکستان پر مسلط دیکھنا چاہتے ہیں
برائی تو برائی ہے اسے رد کرنا ہی دانش کا تقاضا ہے

محترمہ! مجھے موجودہ سیاسی منظر نامے میں کوئی بھی ایسا رہنما نظر نہیں آ رہا ہے جس کو کشمیر سے لے کر کراچی تک پذیرائی حاصل ہو۔ پاکستان میں مستقبل قریب میں بھی ایک ہنگ پارلیمان وجود میں آنے کا قوی امکان ہے۔ بہتر یہی ہو گا کہ نواز شریف اور عمران خان مل کر چلیں، پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کی کوشش کریں۔ ان دونوں سے پاکستانی قوم کو توقعات ہیں، صرف عمران خان کچھ نہیں کر پائے گا، اس نے غلط رستہ اپنا لیا ہے۔ سولو فلائیٹ کا محل نہیں تھا، تن تنہا پرواز سے کچھ حاصل نہ ہو گا ۔۔۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی نئی حکومت آئے گی، وہ چھ ماہ بعد رخصت ہو جائے گی اور عمران خان کو پھر ایک موقع مل جائے گا، ان کو چاہیے کہ وہ یہ خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں، ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا ہے ۔۔۔ لسانی، جغرافیائی اور مذہبی حوالے سے تقسیم در تقسیم معاشرے میں کون سا انقلاب آئے گا، یہاں انقلاب نہیں آئے گا۔ پاکستان میں جب بھی بڑی تبدیلی واقع ہو گی، اس کے محرکات اندرونی سے زیادہ بیرونی ہوں گے۔ عرب ملکوں میں ایک لہر آئی تھی اور مشرف اور قادری صاحب کا ارادہ اسے کیش کروانے کا تھا، دونوں نے بعض روحانی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن دیکھ لیجیے، پاکستان میں کوئی تحریر سکوائر نہیں بن سکا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بیرونی دنیا سے بھی کٹے ہوئے ہیں اس لیے وہ فی الحال بڑی تبدیلی کے خواہش مند نہیں ہیں۔ ہاں، بڑے شہروں کا معاملہ مختلف ہے لیکن دیہات میں بالکل اُلٹ معاملہ ہے۔ لگی بندھی زندگی گزارنے کے عادی عوام ابھی مزید جبر برداشت کرنے کو تیار ہیں اور وہ کسی ایسے بندے کو نہیں لانا چاہتے جو کچھ ایسی تبدیلیاں کر دے جو ان کو گوارا نہ ہوں۔ جب میں انقلابی دانش کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ سچ مچ انقلاب لانا چاہتے ہیں تو انقلاب بنا نظریہ کے تو نہیں آتا ہے نا ۔۔۔ چلیے مان لیتے ہیں عمران خان صاحب انقلاب لانا چاہتے ہیں تو میرا جائز سوال بنتا ہے کہ ان کے اس انقلاب کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ صرف تبدیلی تو یہ بھی ہوتی ہے کہ جمہوریت کی جگہ آمریت آ جاتی ہے۔ اگر تو آپ محض تبدیلی کے لیے ان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ ۔۔۔ ضرور دیں لیکن یہ تبدیلی پائیدار ثابت ہونے کا امکان بہت کم ہے اور یہ تو بعد کا مرحلہ ہے ویسے ۔۔۔ ابھی گلیوں محلوں میں "عمران عمران" نہیں ہو رہی ہے ۔۔۔ ن لیگ والے کیا پچاس ساٹھ سیٹیں بھی نہ جیت پائیں گے اورکیا اسی طرح باقی پارٹیاں بھی سونامی کی لہر میں بہہ جائیں گی ۔۔۔ جی ہاں! سوشل میڈیا پر ایسا ممکن ہے لیکن خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے چند بڑے شہروں کے علاوہ عمران خان کی پارٹی شاید موجود ہی نہیں ہے ۔۔۔ حقیقت کو مان کر آ گے بڑھنا چاہیے ۔۔۔ مجھے آپ لوگوں کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں لیکن جذباتیت سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔۔۔ اچھے وقت کا انتظار فرمائیں اور دستیاب قیادت میں سے ہی کسی کا چناؤ کریں ۔۔۔ عمران خان بھی ان میں سے ایک ہے، ووٹ ضرور دیں لیکن صرف ان پر ہی تکیہ کر لینا مناسب نہیں ۔۔۔ ان سب کو مل کر پاکستان کے لیے کام کرنا ہو گا ۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
محترمہ! مجھے موجودہ سیاسی منظر نامے میں کوئی بھی ایسا رہنما نظر نہیں آ رہا ہے جس کو کشمیر سے لے کر کراچی تک پذیرائی حاصل ہو۔ پاکستان میں مستقبل قریب میں بھی ایک ہنگ پارلیمان وجود میں آنے کا قوی امکان ہے۔ بہتر یہی ہو گا کہ نواز شریف اور عمران خان مل کر چلیں، پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کی کوشش کریں۔ ان دونوں سے پاکستانی قوم کو توقعات ہیں، صرف عمران خان کچھ نہیں کر پائے گا، اس نے غلط رستہ اپنا لیا ہے۔ سولو فلائیٹ کا محل نہیں تھا، تن تنہا پرواز سے کچھ حاصل نہ ہو گا ۔۔۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی نئی حکومت آئے گی، وہ چھ ماہ بعد رخصت ہو جائے گی اور عمران خان کو پھر ایک موقع مل جائے گا، ان کو چاہیے کہ وہ یہ خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں، ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا ہے ۔۔۔ لسانی، جغرافیائی اور مذہبی حوالے سے تقسیم در تقسیم معاشرے میں کون سا انقلاب آئے گا، یہاں انقلاب نہیں آئے گا۔ پاکستان میں جب بھی بڑی تبدیلی واقع ہو گی، اس کے محرکات اندرونی سے زیادہ بیرونی ہوں گے۔ عرب ملکوں میں ایک لہر آئی تھی اور مشرف اور قادری صاحب کا ارادہ اسے کیش کروانے کا تھا، دونوں نے بعض روحانی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن دیکھ لیجیے، پاکستان میں کوئی تحریر سکوائر نہیں بن سکا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بیرونی دنیا سے بھی کٹے ہوئے ہیں اس لیے وہ فی الحال بڑی تبدیلی کے خواہش مند نہیں ہیں۔ ہاں، بڑے شہروں کا معاملہ مختلف ہے لیکن دیہات میں بالکل اُلٹ معاملہ ہے۔ لگی بندھی زندگی گزارنے کے عادی عوام ابھی مزید جبر برداشت کرنے کو تیار ہیں اور وہ کسی ایسے بندے کو نہیں لانا چاہتے جو کچھ ایسی تبدیلیاں کر دے جو ان کو گوارا نہ ہوں۔ جب میں انقلابی دانش کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر آپ سچ مچ انقلاب لانا چاہتے ہیں تو انقلاب بنا نظریہ کے تو نہیں آتا ہے نا ۔۔۔ چلیے مان لیتے ہیں عمران خان صاحب انقلاب لانا چاہتے ہیں تو میرا جائز سوال بنتا ہے کہ ان کے اس انقلاب کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ صرف تبدیلی تو یہ بھی ہوتی ہے کہ جمہوریت کی جگہ آمریت آ جاتی ہے۔ اگر تو آپ محض تبدیلی کے لیے ان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ ۔۔۔ ضرور دیں لیکن یہ تبدیلی پائیدار ثابت ہونے کا امکان بہت کم ہے اور یہ تو بعد کا مرحلہ ہے ویسے ۔۔۔ ابھی گلیوں محلوں میں "عمران عمران" نہیں ہو رہی ہے ۔۔۔ ن لیگ والے کیا پچاس ساٹھ سیٹیں بھی نہ جیت پائیں گے اورکیا اسی طرح باقی پارٹیاں بھی سونامی کی لہر میں بہہ جائیں گی ۔۔۔ جی ہاں! سوشل میڈیا پر ایسا ممکن ہے لیکن خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے چند بڑے شہروں کے علاوہ عمران خان کی پارٹی شاید موجود ہی نہیں ہے ۔۔۔ حقیقت کو مان کر آ گے بڑھنا چاہیے ۔۔۔ مجھے آپ لوگوں کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں لیکن جذباتیت سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔۔۔ اچھے وقت کا انتظار فرمائیں اور دستیاب قیادت میں سے ہی کسی کا چناؤ کریں ۔۔۔ عمران خان بھی ان میں سے ایک ہے، ووٹ ضرور دیں لیکن صرف ان پر ہی تکیہ کر لینا مناسب نہیں ۔۔۔ ان سب کو مل کر پاکستان کے لیے کام کرنا ہو گا ۔۔۔
شہزاد صاحب آپ کا جواب تشنہ ہے نہ تو آپ انقلابی دانش کی وضاحت کرسکے نہ ہی دُنیا بھر سے کوئی معروف مثال پیش کی۔
گلیوں محلوں میں عمران عمران بھی ہو رہی ہے اور ن کے بڑے بڑے راہنما ووٹ اور سپورٹ کی منتیں بھی کر رہے ہیں
ن صرف پنجاب سے کچھ سیٹیں جیتے گی اور ایم کیو ایم کی طرح ایک محدود جماعت رہ جائے گی
 

محمد امین

لائبریرین
شہزاد صاحب آپ کا جواب تشنہ ہے نہ تو آپ انقلابی دانش کی وضاحت کرسکے نہ ہی دُنیا بھر سے کوئی معروف مثال پیش کی۔
گلیوں محلوں میں عمران عمران بھی ہو رہی ہے اور ن کے بڑے بڑے راہنما ووٹ اور سپورٹ کی منتیں بھی کر رہے ہیں
ن صرف پنجاب سے کچھ سیٹیں جیتے گی اور ایم کیو ایم کی طرح ایک محدود جماعت رہ جائے گی

جبکہ اب تو ایم کیو ایم پھیل رہی ہے :D ....اتنی پھیل رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی طرح لوٹا پارٹی ہو کر رہ گئی ہے ؛)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
شہزاد صاحب آپ کا جواب تشنہ ہے نہ تو آپ انقلابی دانش کی وضاحت کرسکے نہ ہی دُنیا بھر سے کوئی معروف مثال پیش کی۔
گلیوں محلوں میں عمران عمران بھی ہو رہی ہے اور ن کے بڑے بڑے راہنما ووٹ اور سپورٹ کی منتیں بھی کر رہے ہیں
ن صرف پنجاب سے کچھ سیٹیں جیتے گی اور ایم کیو ایم کی طرح ایک محدود جماعت رہ جائے گی

اور پھر آپ کی آنکھ کھل جائے گی ۔۔۔!!!
ضمنی طور پر عرض کرتا چلوں کہ روس میں جو انقلاب آیا تھا، مارکسی افکار کا کیا کوئی حصہ نہ تھا؟ انقلابی دانش کے سوتے بھی کہیں نہ کہیں سے پھوٹتے ہی ہیں ۔۔۔ جماعت اسلامی بھلے مودودی صاحب کے افکار پر نہ چلے لیکن دعوٰی تو ان کا بھی یہی ہے نا ۔۔۔ کہ وہ ان کے افکار کو سامنے رکھ کر پاکستانی معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لائیں گے ۔۔۔ تحریک انصاف بھی باقی جماعتوں کی طرح ایک روایتی جماعت ہے جس کو "غیر روایتی تڑکا" لگا ہوا ہے ۔۔۔ انقلاب وغیرہ کچھ نہیں آنا ۔۔۔ دو چار دن کا شور ہے بس ۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں ۔۔۔ سطحی پن صاف ظاہر ہے ۔۔۔ مجھے طاہر القادری صاحب سے کچھ لینا دینا نہیں، میں ان کا بھی حامی نہیں ہوں لیکن ان کے عقیدت مندوں یا پیروکاروں کے ہاں سطحی پن کم ہی ملتا ہے ۔۔۔ تحریک انصاف کے پاس بس پیسہ ہے ۔۔۔ اس کے زور پر وہ شور مچاتے پھر رہے ہیں ۔۔۔ ہونا کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سیٹیں مل جائیں گی اور یہ بھی حد سے حد ہے ۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
آج طلعت حسین نے اپنا پروگرام سندھ کے چھوٹے سے اور انتہائی پسماندہ گاؤں ٹنڈو الہ یار میں کیا تھا۔ وہاں کے اکثر لوگ عمران خان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ عمران خان کو جتنی محنت اندرونِ سندھ میں کرنی چاہیے تھی اُس نے نہیں کی، لہذا یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ وہاں سے کچھ نشستیں جیت پائے گا۔
 

زرقا مفتی

محفلین
جبکہ اب تو ایم کیو ایم پھیل رہی ہے :D ....اتنی پھیل رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی طرح لوٹا پارٹی ہو کر رہ گئی ہے ؛)
ایم کیو ایم کہاں پھیل رہی ہے صرف ایک نبیل گبول کو شامل کر کے پھیل گئی ۔ لوٹا پارٹی تو ن لیگ ہے جس نے چالیس لوٹوں کو ٹکٹ دیئے ہیں اور جعلی ڈگری ریس میں بھی سب سے آگے ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
آج طلعت حسین نے اپنا پروگرام سندھ کے چھوٹے سے اور انتہائی پسماندہ گاؤں ٹنڈو الہ یار میں کیا تھا۔ وہاں کے اکثر لوگ عمران خان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ عمران خان کو جتنی محنت اندرونِ سندھ میں کرنی چاہیے تھی اُس نے نہیں کی، لہذا یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ وہاں سے کچھ نشستیں جیت پائے گا۔
بجا فرمایا آپ نے
آئندہ الیکشن میں کوئی جماعت بھی کلین سویپ نہیں کر سکتی
مگر پی ٹی آئی نے پنجاب ، کے پی کے ، بلوچستان میں کافی کام کیا ۔ کراچی میں بھی ان کی بہت مقبولیت ہے
ن لیگ کی تو پنجاب کے سوا کہیں فوٹنگ نہیں۔ سندھ میں ممتاز بھٹو یا پیر پگاڑا کو ملانے جتنا فائدہ ہو گا اُس سے زیادہ نقصان اسے جنوبی پنجاب میں ہوگا
پنجاب میں ن کی نشستیں ۲۰۰۸ سے کم ہونگی جبکہ دوسرے کسی صوبے سے اسے نشستیں ملنے کے امکانات معدوم ہیں
البتہ پی پی پی سندھ اور جنوبی پنجاب میں کامیابی حاصل کرے گی
ایم کیو ایم ۔ اے این پی اور فاٹا ارکان جس کے ساتھ الحاق کریں گے حکومت اُسی کی بنے گی
 

محمد امین

لائبریرین
ایم کیو ایم کہاں پھیل رہی ہے صرف ایک نبیل گبول کو شامل کر کے پھیل گئی ۔ لوٹا پارٹی تو ن لیگ ہے جس نے چالیس لوٹوں کو ٹکٹ دیئے ہیں اور جعلی ڈگری ریس میں بھی سب سے آگے ہے

یعنی آپ کو پنجاب کے علاوہ کہیں کا معلوم ہی نہیں :) ایم کیو ایم میں نبیل گبول سے پہلے اور بعد پی پی پی کے بہت سارے کارکنان اور علاقائی رہنما شامل ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بلوچستان کے بھی بہت لوگ وقتا فوقتا متحدہ میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں سندھی اور بلوچ تک شامل ہیں۔ کشمیر، گلگت اور بلتستان میں بھی ایم کیو ایم کا خاصا کام پھیل رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں پچھلے دنوں اے این پی کے ایک علاقائی رہنما نے اپنے ووٹرز اور ساتھیوں سمیت ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی۔ پنجاب میں البتہ ایم کیو ایم کو کافی مزاحمت کا سامنا ہے۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
stay
کو اُردو میں سٹے یا حکم امتناعی لکھیں گے
istay
یا
estay
ہوتا تو آپ کے بتائے ہوئے ہجے استعمال ہوتے

ہمارے ہاں ایسے ہی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں "school" کو "اسکول" کہا جاتا ہے، "سکول" نہیں کہا جاتا۔

"اسکول" اور "اسٹے" کا تلفظ میں نے کیمبرج ڈکشنری میں ابھی سنا ہے وہ "الف" والے تلفظ کے زیادہ قریب ہے۔ یا شاید دونوں آوازوں کے بیچ کی کوئی آواز ہے۔

یہ تلفظ درج ذیل روابط سے سنے جا سکتے ہیں۔

school
stay

ویسے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور برسوں سے ایسے ہی چل رہا ہے۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
یعنی آپ کو پنجاب کے علاوہ کہیں کا معلوم ہی نہیں :) ایم کیو ایم میں نبیل گبول سے پہلے اور بعد پی پی پی کے بہت سارے کارکنان اور علاقائی رہنما شامل ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بلوچستان کے بھی بہت لوگ وقتا فوقتا متحدہ میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی میں سندھی اور بلوچ تک شامل ہیں۔ کشمیر، گلگت اور بلتستان میں بھی ایم کیو ایم کا خاصا کام پھیل رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں پچھلے دنوں اے این پی کے ایک علاقائی رہنما نے اپنے ووٹرز اور ساتھیوں سمیت ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کی۔ پنجاب میں البتہ ایم کیو ایم کو کافی مزاحمت کا سامنا ہے۔۔

متحدہ میں ایک اچھی قومی جماعت بننے کی ساری صلاحیتیں موجود ہیں، اور یہ قومی جماعت بننے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ مگر یہ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد مہاجر کارڈ کھیل کر اپنی ساری محنت ضائع کر دیتی ہے۔ جب تک متحدہ والے اپنی بے وقوفانہ حرکتیں ختم نہیں کریں گے، اُس وقت تک اِس پر مہاجروں کی قوم پرست جماعت ہونے کی چھاپ ہی لگی رہے گی، اور دوسرے صوبوں میں اس کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر رہے گی۔
 
آپ بھلے ان کو ووٹ نہ دیں لیکن کم تر برائی کے چناؤ والا معاملہ ہی ہے بس ۔۔۔ دراصل معاشرے میں اصلاحی تحریکوں کی ضرورت زیادہ ہے ۔۔۔ عوام یہ جاننا ہی نہیں چاہتے کہ خواص کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیوں روا رکھا جاتا ہے؟ عوام میں آہستہ آہستہ شعور بیدار ہو رہا ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب یہ ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتیں گے ۔۔۔ مجھے فی الوقت عوام میں بیداری کی کوئی بڑی لہر نظر نہیں آ رہی ۔۔۔ کچھ لوگ انقلاب کے نام پر بے وقوف ضرور بنا رہے ہیں لیکن سنجیدہ احباب جانتے ہیں کہ یہ محض تبدیلی کے نعرے ہیں، انقلاب جس "انقلابی دانش" کا تقاضا کرتا ہے، وہ دانش کہاں ہے؟

کم تر برائی یعنی نواز شریف اور زرداری کے مقابلے میں عمران کو آپ کم تر برائی کہہ رہے ہیں ، اب اس بے خبری اور بے اعتنائی پر کون نہ مر جائے۔

کہاں کھربوں لوٹنے والے اور کہاں ایسا شخص جس پر ابھی تک ایک بھی الزام مالی بدعنوانی کا نہیں ۔

عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ خواص کے ساتھ نرمی کیوں اور کس وجہ سے روا رکھی جاتی ہے، یہ بھی بھلا کوئی راز یا چھپی ہوئی بات ہے۔

عوام میں بیداری کی لہر ہے البتہ یہ لہر نوجوانوں میں شدید ہے اور ادھیڑ عمر میں کم اور اس سے زیادہ عمر والوں میں شاید نہ ہونے کے برابر۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
کم تر برائی یعنی نواز شریف اور زرداری کے مقابلے میں عمران کو آپ کم تر برائی کہہ رہے ہیں ، اب اس بے خبری اور بے اعتنائی پر کون نہ مر جائے۔

کہاں کھربوں لوٹنے والے اور کہاں ایسا شخص جس پر ابھی تک ایک بھی الزام مالی بدعنوانی کا نہیں ۔

عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ خواص کے ساتھ نرمی کیوں اور کس وجہ سے روا رکھی جاتی ہے، یہ بھی بھلا کوئی راز یا چھپی ہوئی بات ہے۔

عوام میں بیداری کی لہر ہے البتہ یہ لہر نوجوانوں میں شدید ہے اور ادھیڑ عمر میں کم اور اس سے زیادہ عمر والوں میں شاید نہ ہونے کے برابر۔

فی الحال عمران خان کو میں کسی کھاتے میں شمار نہیں کرتا ۔۔۔ کم تر برائی سے مراد نواز شریف ہیں ۔۔۔ زرداری کے مقابلے میں ۔۔۔ عمران خان کی کیا بات کی جائے ۔۔۔ عام انتخابات میں اگر موصوف کم از کم تیس چالیس سیٹیں لے گئے تو ان کی کچھ سیاسی حیثیت بن جائے گی وگرنہ ایمان دار تو ان سے بڑھ کر موجود ہیں پاکستان میں ۔۔۔ بس ایک التماس ہے کہ اُن کو انسان ہی رہنے دیں، فرشتہ نہ بنائیں ۔۔۔ محض مالی بدعنوانی میں ملوث نہ ہونا کوئی کمال نہیں ہے ۔۔۔ ابھی ان کو آزمایا ہی نہیں گیا ۔۔۔ بس یہی ایک وجہ ہے کہ لوگوں کا رُخ اُن کی طرف ہو گیا ہے وگرنہ ان میں کوئی ایسی بھی خاص بات نہیں ۔۔۔ بہتر یہی ہو گا کہ ہم گیارہ مئی تک انتظار کر لیں، عوام کا فیصلہ سامنے آ جائے گا اور ہم یہ بھی دیکھ لیں گے کہ عوام میں بیداری کی جو "لہر" ہے اس کی کیا صورت سامنے آتی ہے؟
 

زرقا مفتی

محفلین
متحدہ میں ایک اچھی قومی جماعت بننے کی ساری صلاحیتیں موجود ہیں، اور یہ قومی جماعت بننے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ مگر یہ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد مہاجر کارڈ کھیل کر اپنی ساری محنت ضائع کر دیتی ہے۔ جب تک متحدہ والے اپنی بے وقوفانہ حرکتیں ختم نہیں کریں گے، اُس وقت تک اِس پر مہاجروں کی قوم پرست جماعت ہونے کی چھاپ ہی لگی رہے گی، اور دوسرے صوبوں میں اس کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر رہے گی۔
بھائی سے نجات حاصل کرلے تو بھی بہتری آ جائے
 

حسان خان

لائبریرین
ابھی ڈان نیوز پر عاصمہ شیرازی کا راول پنڈی کے حلقہ این اے ۵۶ میں ریکارڈ شدہ پروگرام آ رہا ہے۔ اُسے دیکھ کر یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہاں عمران خان سب سے زیادہ مقبول ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
فی الحال عمران خان کو میں کسی کھاتے میں شمار نہیں کرتا ۔۔۔ کم تر برائی سے مراد نواز شریف ہیں ۔۔۔ زرداری کے مقابلے میں ۔۔۔ عمران خان کی کیا بات کی جائے ۔۔۔ عام انتخابات میں اگر موصوف کم از کم تیس چالیس سیٹیں لے گئے تو ان کی کچھ سیاسی حیثیت بن جائے گی وگرنہ ایمان دار تو ان سے بڑھ کر موجود ہیں پاکستان میں ۔۔۔ بس ایک التماس ہے کہ اُن کو انسان ہی رہنے دیں، فرشتہ نہ بنائیں ۔۔۔ محض مالی بدعنوانی میں ملوث نہ ہونا کوئی کمال نہیں ہے ۔۔۔ ابھی ان کو آزمایا ہی نہیں گیا ۔۔۔ بس یہی ایک وجہ ہے کہ لوگوں کا رُخ اُن کی طرف ہو گیا ہے وگرنہ ان میں کوئی ایسی بھی خاص بات نہیں ۔۔۔ بہتر یہی ہو گا کہ ہم گیارہ مئی تک انتظار کر لیں، عوام کا فیصلہ سامنے آ جائے گا اور ہم یہ بھی دیکھ لیں گے کہ عوام میں بیداری کی جو "لہر" ہے اس کی کیا صورت سامنے آتی ہے؟
ہم میں سے کسی نے تو اُن کو فرشتہ نہیں کہا انسان ہی کہا اور ایسا انسان جس نے وقت کے ساتھ اپنی شخصیت کی اصلاح کی۔ یہ تو آپ لوگ ہی ہیں جو فرشتہ کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ ہم گیارہ مئی کا انتظار تماشائی بن کر نہیں کرنا چاہتے ۔ تبدیلی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ جس عوام نے فیصلہ کرنا ہے اُس میں ہم اور آپ بھی شامل ہیں۔
 
Top