جاویداقبال
محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اصل جرائم:۔
اصل جرائم صرف دو ہیں، ایک جہالت اور دوسرا سستی۔ جاہل وہ ہے جوزندگی کے مقصد کو پانے کے طریقہ سے جاہل ہے اور سست وہ ہے جو مقصدحیات اوراسکے حصول کے طریقہ کوجان لینے کے بعداس کے لئے پوری کوشش نہ کرے۔قرآن پاک اسی کوایمان اور اچھے اعمال سے تعبیرکرتاہے،جگہ جگہ ارشادربانی ہے۔"وہ جوایمان لائے اورانہوں نے اچھے اعمال کئے۔"
جوشخص زندگی کے مقصد سے جاہل ہے "جس کا رخ ہی منزل مقصودکی جانب نہیں،اس کاہرعمل غلط ہوگا،وہ جتنازورلگائے گا،منزل سے دور ہوتاجائے گا۔اسکی ساری زندگی مسلسل جرائم کامرقع ہوگی۔
یہ دنیا عمل کاگھرہے۔عمل بدن سے سرانجام پاتاہے لیکن اس کے پیچھے انسان کاارادہ ہوتاہے۔ارادہ قلب یاذہن کاکام ہے۔ارادہ کے پیچھے انسان کی سوچ کارفرماہوتی ہے۔سوچ اسی وقت صحیح ہوتی ہے جب انسان کا قلب روح کے نور سے منورہو۔روح کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے۔اگربلب کاتعلق اللہ تعالی کیساتھ ہے توبلب میں روشنی ہے،اگر نہیں توبلب فیوزہے۔اللہ تعالی سے تعلق ایمان کے ذریعہ سے قائم ہوتاہے۔اللہ تعالی سے تعلق جتنا مضبوط ہوگا،اسی نسبت سے روح کے بلب کی پاوراورروشنی بڑھتی جائيگی اورروح کابلب جتناروشن ہوگا،اتناہی زیادہ وہ قلب کو منور کریگا۔اس صورت میں قلب نفس یا انسان کی حیوانی جبلتوں لالچ، شہوت،غصہ انتقام ، دکھاوا وغیرہ کے تحت آجائیگا اوریہ اثرقلب کو زنگ آلود اورسخت کردیگا۔پھرآہستہ آہستہ قلب صحیح بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کھوبیٹھے گا،گویااس پر تالہ لگ جائیگا۔اس پر مہرثبت ہوجائيگی۔اس میں کچھ داخل نہ ہوسکے گا۔
دوسری طرف بدن اگرچہ خاکی ہے،مگراس کاعمل بھی قلب پر اثراندازہوتاہے۔جناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاارشادگرامی ہے کہ ہرنیک عمل سے قلب پرایک سفیدنقطہ پڑ جاتاہے اورباقاعدگی سے نیک اعمال کرنے والے شخص کاساراقلب منورہوجاتاہے۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو۔وہ اللہ تعالی کے نور سے دیکھتاہے اس کے برعکس براعمل کرنے سے قلب پرسیاہ نقطہ پڑجاتاہے اورمسلسل بداعمالیوں سے ساراقلب سیاہ ہوجاتاہے ۔ قلب سیاہ ہوجائے تو انسان کی سوچ بھی اندھی ہوجاتی ہے،پھروہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتاپھرتاہے۔
شیطان کاانسان پرکچھ زورنہیں چلتا،وہ اسے اس کی نفسیانی خواہشات ہی کے ذریعہ گمراہ کرتاہے اگرانسان اپنی نفسانی خواہشات پرقابوپالے تو شیطان کےاثرسے نکل جاتاہے مگراس کے لئے محنت کرناپڑتی ہے۔
ابلیس اوراس کے چیلے چانٹوں کاطریق واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو سبزباغ دکھاکرمایوسی میں مبتلاکرکے گمراہ کرتےہیں اوراتنی خوبصورتی سےاپناکام سرانجام دیتے ہیں کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت
والسلام
جاویداقبال
اصل جرائم:۔
اصل جرائم صرف دو ہیں، ایک جہالت اور دوسرا سستی۔ جاہل وہ ہے جوزندگی کے مقصد کو پانے کے طریقہ سے جاہل ہے اور سست وہ ہے جو مقصدحیات اوراسکے حصول کے طریقہ کوجان لینے کے بعداس کے لئے پوری کوشش نہ کرے۔قرآن پاک اسی کوایمان اور اچھے اعمال سے تعبیرکرتاہے،جگہ جگہ ارشادربانی ہے۔"وہ جوایمان لائے اورانہوں نے اچھے اعمال کئے۔"
جوشخص زندگی کے مقصد سے جاہل ہے "جس کا رخ ہی منزل مقصودکی جانب نہیں،اس کاہرعمل غلط ہوگا،وہ جتنازورلگائے گا،منزل سے دور ہوتاجائے گا۔اسکی ساری زندگی مسلسل جرائم کامرقع ہوگی۔
یہ دنیا عمل کاگھرہے۔عمل بدن سے سرانجام پاتاہے لیکن اس کے پیچھے انسان کاارادہ ہوتاہے۔ارادہ قلب یاذہن کاکام ہے۔ارادہ کے پیچھے انسان کی سوچ کارفرماہوتی ہے۔سوچ اسی وقت صحیح ہوتی ہے جب انسان کا قلب روح کے نور سے منورہو۔روح کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے۔اگربلب کاتعلق اللہ تعالی کیساتھ ہے توبلب میں روشنی ہے،اگر نہیں توبلب فیوزہے۔اللہ تعالی سے تعلق ایمان کے ذریعہ سے قائم ہوتاہے۔اللہ تعالی سے تعلق جتنا مضبوط ہوگا،اسی نسبت سے روح کے بلب کی پاوراورروشنی بڑھتی جائيگی اورروح کابلب جتناروشن ہوگا،اتناہی زیادہ وہ قلب کو منور کریگا۔اس صورت میں قلب نفس یا انسان کی حیوانی جبلتوں لالچ، شہوت،غصہ انتقام ، دکھاوا وغیرہ کے تحت آجائیگا اوریہ اثرقلب کو زنگ آلود اورسخت کردیگا۔پھرآہستہ آہستہ قلب صحیح بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کھوبیٹھے گا،گویااس پر تالہ لگ جائیگا۔اس پر مہرثبت ہوجائيگی۔اس میں کچھ داخل نہ ہوسکے گا۔
دوسری طرف بدن اگرچہ خاکی ہے،مگراس کاعمل بھی قلب پر اثراندازہوتاہے۔جناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاارشادگرامی ہے کہ ہرنیک عمل سے قلب پرایک سفیدنقطہ پڑ جاتاہے اورباقاعدگی سے نیک اعمال کرنے والے شخص کاساراقلب منورہوجاتاہے۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو۔وہ اللہ تعالی کے نور سے دیکھتاہے اس کے برعکس براعمل کرنے سے قلب پرسیاہ نقطہ پڑجاتاہے اورمسلسل بداعمالیوں سے ساراقلب سیاہ ہوجاتاہے ۔ قلب سیاہ ہوجائے تو انسان کی سوچ بھی اندھی ہوجاتی ہے،پھروہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتاپھرتاہے۔
شیطان کاانسان پرکچھ زورنہیں چلتا،وہ اسے اس کی نفسیانی خواہشات ہی کے ذریعہ گمراہ کرتاہے اگرانسان اپنی نفسانی خواہشات پرقابوپالے تو شیطان کےاثرسے نکل جاتاہے مگراس کے لئے محنت کرناپڑتی ہے۔
ابلیس اوراس کے چیلے چانٹوں کاطریق واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو سبزباغ دکھاکرمایوسی میں مبتلاکرکے گمراہ کرتےہیں اوراتنی خوبصورتی سےاپناکام سرانجام دیتے ہیں کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت
والسلام
جاویداقبال