نوربصیرت

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

اصل جرائم:۔

اصل جرائم صرف دو ہیں، ایک جہالت اور دوسرا سستی۔ جاہل وہ ہے جوزندگی کے مقصد کو پانے کے طریقہ سے جاہل ہے اور سست وہ ہے جو مقصدحیات اوراسکے حصول کے طریقہ کوجان لینے کے بعداس کے لئے پوری کوشش نہ کرے۔قرآن پاک اسی کوایمان اور اچھے اعمال سے تعبیرکرتاہے،جگہ جگہ ارشادربانی ہے۔"وہ جوایمان لائے اورانہوں نے اچھے اعمال کئے۔"
جوشخص زندگی کے مقصد سے جاہل ہے "جس کا رخ ہی منزل مقصودکی جانب نہیں،اس کاہرعمل غلط ہوگا،وہ جتنازورلگائے گا،منزل سے دور ہوتاجائے گا۔اسکی ساری زندگی مسلسل جرائم کامرقع ہوگی۔
یہ دنیا عمل کاگھرہے۔عمل بدن سے سرانجام پاتاہے لیکن اس کے پیچھے انسان کاارادہ ہوتاہے۔ارادہ قلب یاذہن کاکام ہے۔ارادہ کے پیچھے انسان کی سوچ کارفرماہوتی ہے۔سوچ اسی وقت صحیح ہوتی ہے جب انسان کا قلب روح کے نور سے منورہو۔روح کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے۔اگربلب کاتعلق اللہ تعالی کیساتھ ہے توبلب میں روشنی ہے،اگر نہیں توبلب فیوزہے۔اللہ تعالی سے تعلق ایمان کے ذریعہ سے قا‏ئم ہوتاہے۔اللہ تعالی سے تعلق جتنا مضبوط ہوگا،اسی نسبت سے روح کے بلب کی پاوراورروشنی بڑھتی جائيگی اورروح کابلب جتناروشن ہوگا،اتناہی زیادہ وہ قلب کو منور کریگا۔اس صورت میں قلب نفس یا انسان کی حیوانی جبلتوں لالچ، شہوت،غصہ انتقام ، دکھاوا وغیرہ کے تحت آجائیگا اوریہ اثرقلب کو زنگ آلود اورسخت کردیگا۔پھرآہستہ آہستہ قلب صحیح بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کھوبیٹھے گا،گویااس پر تالہ لگ جائیگا۔اس پر مہرثبت ہوجائيگی۔اس میں کچھ داخل نہ ہوسکے گا۔
دوسری طرف بدن اگرچہ خاکی ہے،مگراس کاعمل بھی قلب پر اثراندازہوتاہے۔جناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاارشادگرامی ہے کہ ہرنیک عمل سے قلب پرایک سفیدنقطہ پڑ جاتاہے اورباقاعدگی سے نیک اعمال کرنے والے شخص کاساراقلب منورہوجاتاہے۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو۔وہ اللہ تعالی کے نور سے دیکھتاہے اس کے برعکس براعمل کرنے سے قلب پرسیاہ نقطہ پڑجاتاہے اورمسلسل بداعمالیوں سے ساراقلب سیاہ ہوجاتاہے ۔ قلب سیاہ ہوجائے تو انسان کی سوچ بھی اندھی ہوجاتی ہے،پھروہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتاپھرتاہے۔
شیطان کاانسان پرکچھ زورنہیں چلتا،وہ اسے اس کی نفسیانی خواہشات ہی کے ذریعہ گمراہ کرتاہے اگرانسان اپنی نفسانی خواہشات پرقابوپالے تو شیطان کےاثرسے نکل جاتاہے مگراس کے لئے محنت کرناپڑتی ہے۔
ابلیس اوراس کے چیلے چانٹوں کاطریق واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو سبزباغ دکھاکرمایوسی میں مبتلاکرکے گمراہ کرتےہیں اوراتنی خوبصورتی سےاپناکام سرانجام دیتے ہیں کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

غنا:۔
حضرت پیر(رحمۃ اللہ علیہ) پیران فرماتے ہیں۔"غناوہی ہے جواللہ تعالی کے ساتھ غنا ہو اور محتاجی اللہ تعالی سے دوری ہے ۔ غنا یہ ہے کہ اللہ تعالی کے قرب میں ظفریاب ہو اورمحتاجی یہ ہے کہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر بندوں کے پیچھے بھاگے اگر تو یہ غناچاہتا تواللہ تعالی کے سوائے ہرشے کو اپنے دل سے نکال دے ۔ دینوی مال متاع کے پھندے میں نہ پڑے، یہ تواللہ تعالی کی طرف سفر کرنے کے لیےزادراہ ہے۔ سب نعمتوں کواسی طرف نسبت کرو۔ سمجھو کہ ہرنعمت اسی نے عطا فرمائی ہے پھرانکے ذریعہ اسکے قرب کاراستہ تلاش کرو، علم اس لئے ہے تاکہ اس پر عمل کرو۔اوراسکے نور سے ہدایت پاؤ۔
اگرنجات چاہتے ہو تواپنے نفس کے خلاف کرو اوراپنے اللہ تعالی سے موافقت کرو۔ خلقت کی پہچان بن حجاب ہے اورخلقت اللہ تعالی کی معرفت میں حجاب ہے،جب تک دنیا کے ساتھ ہے آخرت کونہیں پہچانے گا، خالق و مخلوق کی ایک دن میں جمع نہیں ہوسکتے۔
"نفس بدی کا امرکرینوالا ہے۔ یہی اسکی عادت ہے ۔اپنے نفس کامجاہدہ سے گلادے۔ یہاں تک وہ قلب کےساتھ مطمئن ہوجائے۔اپنے نفس کوحضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کایہ ارشاد گرامی سنا کہ صبح ہو تواپنے نفس سے شام کی بات نہ کر اور شام ہو تو اپنے نفس سے صبح کی بات نہ کر،کیونکہ تونہیں جانتاکہ کل تیرا نام کیاہوگا۔(سعیدیاشقی؟)۔"مجاہدہ اور عمل ضروری ہے ۔ تیرااپناعمل ہی تیرے لئے مفیدثابت ہوگا یاتیرے لئے وبال بنے گا۔ کوئی اپنے عمل سے تجھے کچھ نہیں دے گا۔ تیرا دوست وہی ہے ، جو تجھے برائی سے روکے اور تیرا دشمن وہی ہے ، جو تجھے راہ راست سے بہکائے۔
"منافق! ریا کار! اپنے عمل پر نازکرنے والے ! تجھ پر افسوس علم کی طب میں اپنی عمرضا‏ئع کرتاہے، مگراس پرعمل نہیں کرتا۔ اس سے اللہ تعالی کے دشمنوں کی خدمت کرتاہے،گویا انہیں اللہ تعالی کا شریک بناتاہے،اللہ تعالی تجھ سے اور تیرے شریکوں سے غنی ہے۔
دنیاساری حکمت اورعمل ہے آخرت ساری قدرتہے۔ دنیاکی بنا حکمت پرہے۔ حکمت کے گھر میں عمل نہ چھوڑ،تقدیرکاغدرکاہلوں کی حجت ہے،تجھ پر افسوس ! تیرے بدن کے اعضاء گناہوں اور نجاستوں سے آلودہ ہیں،توظاہری نجاستوں سے پاک نہیں اور قلب کی طہارت کامدعی ہے۔ نادان! کتابوں کادفترچھوڑکرمیرے پاس آجا۔ علم ،مردان خدا کی زبان سے حاصل ہوتاہے، کتابوں کے دفترسے حاصل نہیں ہوتا۔حال سے ملتا ہے،قال سے نہیں ملتا، علم ان لوگوں سے ملتاہے جو مخلوق سے فانی اوراللہ تعالی کے ساتھ باقی ہیں۔
"صدق اور اخلاص اورخوف خدا ایسے خزانے ہیں جوکبھی فنانہیں ہونگے۔صرف اللہ تعالی سے امیدرکھو اور سب احوال میں صرف اسی کی طرف رجوع کرو،ایمان کو قا‏ئم رکھو۔وہ تجھے اللہ تعالی سے واصل کردیگا، اپنےآپکواعمااوراحوال(روحانی کیفیات) پر ناز کرنے سے بچا!

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
فریادمظلوماں:۔
قرآن پاک کے چھٹے پارے کاآغازان الفاظ سے ہوتاہے۔(ترجمہ)"اللہ (تعالی) کوپسند نہیں کہ کوئی کسی کوبرملابراکہے،مگروہ جس پر ظلم کیاگیاہو"(147:4)
اللہ تعالی نےمظلوم کویہ حق دیاہے کہ وہ علی الاعلان شکایت کرسکتاہے،مگراس دورکے ظالم حکمران اپنی نااہلی کوچھپانے کے لئے مظلوم سے اس کایہ حق بھی چھین لیناچاہتے ہیں۔ملک میں ہرطرف قتل وغارت ہے۔بدامنی ہے۔ کسی کی عزت وآبرواورجان ومال محفوظ نہیں۔ایک تویہ لوگ اپنی ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں۔اس پرمستزادیہ کہ مظلوموں کوبولنے بھی نہیں دیتے۔کوئی کہے بھی نہ کہ حالات خراب ہیں۔
انتظام بھی نہ کرنااورکسی کوکہنے بھی نہیں دیناکہ بدانتظامی ہے،تواس کانتیجہ کیاہوگیا۔لوگوں کے سینوں میں اندرہی اندرنفرت،غصہ اورانتقام کی آگ بھڑکتی رہے گی اورپھرایک دن یہ آتش فشاں پہاڑپھٹے گااوراس کالاواسارے خس وخاشاک کوبہاکے لے جائے گا۔یہ لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔قرآن پاک میں اس شخص کے لئے جو کسی مسلمان کوعمداقتل کرے جہنم کی سزاہے۔وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔کیابے گناہوں کے یہ سب قتل جوحکومت کی آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں،قتل عمدکی تعریف میں آتے؟ اللہ تعالی کاارشادگرامی ہے کہ جس نے کسی ایک شخص کوقتل کیا،اس نے گویاساری نوع انسان کوقتل کیاجوکچھ ہمارے ملک میں ہورہاہے کیایہ نوع انسان کاقتل نہیں؟ کیاوہ حکم الحاکمین جس کی حکومت ہمیشہ سے قائم ودائم ہے اورہمیشہ قائم ودائم رہے گی،ان عارضی حکمرانوں سے بازپرس نہیں فرمائے گا؟ اس علیم وخبیرکے سامنے کوئی عذرلنگ نہیں چلے گا۔وہاں یہ کیاجواب دیں گے۔
ستم کی داستاں،کشتہ دلوں کاماجراکہئے
جوزیرلب نہ کہتے تھے،وہ سب برملا کہئے
لگی ہے حرف ناگفتہ پہ اب تعزیربسم اللہ!
سرمقتل چلوبے زحمت تقصیربسم اللہ!
ہراک جانب مچاکہرام داروگیربسم اللہ!
گلی کوچوں میں بکھری شورش زنجیربسم اللہ!
جہاں اچھے حکمرانوں کے اجرعظیم ہے،وہاں نااہل حکمرانوں کے سخت سزابھی ہے۔حکومت کسی کے پاس نہ ہمیشہ رہی ہے نہ اب رہے گی۔ موت بھی ہرایک کوآنی ہے۔ہرایک سے اس کے اعمال کی بازپرس بھی ہوگی۔قبرہی جنت کاٹکڑایاجہنم کاگڑھابن جاتی ہے۔یہ سارے حالات ہم سب کوپیش آتے ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

عالم بززخ:۔
اللہ تعالی سب جہانوں کے رب ہیں اور جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سب جہانوں کے لئے رحمت ہیں' عالم بزرخ مرنے کے بعد سے قیامت تک کے لئے رہنے کی جگہ ہے۔ ہر عالم کے اپنے الگ قوانین ہیں اور یہ عالم ‏آپس میں ملےہوئے بھی ہیں اور جدا جدا بھی جیسے عالم جمادات ، عالم نباتات، عالم حیوانات، عالم انسانی، عالم جنات، عالم ملائکہ ، عالم ارواح، وغیرہ عام طور پر عالم برزخ کو بالکل دنیا جیسا سمجھ لیتے ہیں، اس سے گڑ بڑ ہو جاتی ہے عالم برزخ عالم دنیا اور عالم آخرت کا درمیان عالم ہے۔ نہ یہ بالکل دنیا جیساہے اور نہ بالکل آخرت کی مانند۔ موت کے لئے بجا طور پر انتقال کا لفظ استعمال کیا جاتاہے، یعنی مرنے والا دنیا سے برزخ میں منتقل ہوجاتاہے۔
یورپ اور امریکہ میں مرنے والوں سے رابطہ قا‏ئم کرنے کی کئی سوسائٹیاں موجود ہیں لیکن انکارابطہ عام فوت شدہ لوگوں سے ہوتاہے۔ ہماری تاریخ تصوت میں روحانی بزرگوں سے رابطہ قا‏ئم ہو جانے کے متعدد واقعات ملتے ہیں بلکہ یہ رابطہ ہماری تاریخ تصوف کا اہم حصہ ہے، ایسے خوش نصیبوں کے واقعات بھی ملت ےہیں جنہیں جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا گویا یورپ کا عالم برزخ کا علم بھی ہمارے تصوف کے عالم برزخ کے علم سے بہت پیچھے ہے جیسے انکی سائیکالوجی کی رسائی صرف نفس یا حیوانی جبلتوں کے مخزن تک ہے جبکہ ہمارے صوفیا اس سے اوپر قلب، روح اور سر اور خفی اور اخفی تک رسائی رکھتے ہیں۔
یورپ میں ایسی کئی کتابیں شا‏ئع ہوئي اور ہورہی ہیں جن میں اہل برزخ سے روابطہ کے واقعات درج ہیں۔ حال میں دو کتابیں لائف آفٹر ڈیتھ(موت کے بعدزندگی) اور لائف آفٹر لائف آفٹر ڈیتھ(زندگی کے بعد کی زندگی) شا‏ئع ہوئي ہیں۔ ایسی کتابوں کا اتنا فائدہ ضرور ہے کہ ان سے آخرت پر ایمان قا‏ئم ہوتاہے اور جب تک آخرت پر ایمان نہ ہو۔ اعلی اخلاق کی بالادستی قا‏ئم نہیں ہوسکتی ہے۔ جیسے توحید اور آخرت ہر آسمانی مذہب کی تعلیم کی بنیاد ہیں،اسی طرح وہ اعلی اخلاق کی بھی بنیاد ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر طرف اخلاقی پستی کا دوردورہ ہے۔ اس سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ اللہ تعالی او رآخرت پر ایمان مستحکم کیاجائے۔
احادیث مبارکہ میں قبر کے احوال کا بیان ہے وہ عالم برزخ میں ہی کے احوال ہیں،مثلا نیک آدمی کی قبر کو تاحد نگاہ وسعت دیدی جاتی ہے ۔ اسکی قبر کو منور کردیاجاتاہے اس کے لئے جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتاہے جہاں سے اسے جنت کی ہوا اورخوشبو آتی ہے۔ کافرکی قبرتنگ کردی جاتی ہے اس کے لئے آگ کا لباس کابسترہے، دوزخ کا دروازہ کھول دیاجاتاہے جہاں سے اسے گرم ہوا اورتپش آتی ہے جناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے بروایت سیدناعثمان غنی(رضی اللہ تعالی عنہ)کہ" قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔" حدیث شریف کے مطابق یہ آیت مبارکہ :ترجمہ:۔ اللہ تعالی صاحب ایمان کو قول ثابت(کلمہ طیبہ) کیساتھ مستحکم رکھتاہے"

بشکریہ نوائے وقت نور بصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

رحمت بے پایاں۔۔۔۔(1)
قرآن پاک میں حق تعالی کاارشادہے:"میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے " کہہ دو،اے میرے بندو!جنہوں نے اپنے اوپرزیادتی کی ہے ۔ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔بے شک اللہ تعالی سارے گناہ بخش دیتاہے ۔ یقیناوہ بخشنے والامہربان ہے(53،39)مزیدفرمایا:"بھلاکون ہے جو مضطرب کی دعاقبول کرتاہے، جب وہ اسے پکارتاہے اور اس(اسکی) تکلیف دور کرتاہے(62،27)جن لوگوں نے کہاکہ ہمارارب(آقا۔پالنے والا)اللہ تعالی ہے پھراس پر قائم رہے یقیناان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں(یہ پیغام لے کر) کہ نہ ڈرواورنہ غم کھاؤاورخوشخبری لواس جنت کی جس کاتم سے وعدہ کیاگيا۔ہم ہیں تمہار ے سرپرست دنیاکی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی اور تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ موجودہے جن کی تمہارے جی خواہش کریں۔نیزاس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جو تم مانگو۔یہ مہمانداری ہے ۔ بخشنے والے(اور)مہربان(اللہ تعالی)کی طرف سے ۔"اورجو کوئی براعمل کرے یااپنی جان پرظلم کرے،پھراللہ تعالی سے معافی مانگے،وہ اللہ تعالی کومعاف کردینے والامہربان پائے گا۔""اورکون ہے جوبخشے گناہوں کاسوائے اللہ تعالی کے(3-135)"اللہ تعالی تمہیں عذاب دے کرکیاکرے گا۔اگرتم شکرکرواورایمان لاؤاوراللہ تعالی قدردان(اور)خوب جاننے والاہے(یعنی وہ ہرکسی کی چھوٹی نیکی کوبھی جانتاہے اوراسکی قدرکرتاہے)"
"اورنہ سستی کرواورنہ غم کھاؤتم ہی بلند(غالب)ہواگرتم ایمان والے ہو۔(3-139)یہ قرآن پاک کے ارشادات ہیں جس کے متعلق فرمایا۔۔۔"اے لوگو!تحقیق آئي ہے تمہارے لیے نصحیت تمہارے پروردگارکی طرف سے یہ شفاہے۔اس کے لیے وج سینوں کے اندرہے(یعنی نفسیاتی امراض)اورہدایت اوررحمت ہے مومنوں کے لئے(10-57)۔۔
کسی کو اپنی عبادت پہ ہوغرورتوہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ان کی وسعت رحمت پر نازکرتے ہیں
سورۃ الزحزف میں ارشادفرمایا:"اورتیرے رب کی رحمت ہرشے سے بہترہے۔جسے وہ جمع کرتے ہیں۔"(یہ آیہ 32)سورۃ الانعام میں دوبارفرمایاکہ اللہ تعالی نے اپنے آپ پررحمت کو لازم کرلیاہے سورۃ مومن میں فرشتوں کی یہ دعانقل فرمائی کہ"اے ہمارے رب ! تونے اپنی رحمت اورعلم سے ہرشے کو سمالیاہے۔"(آیہ7)بالفاظ دیگرکائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جواللہ تعالی کے علم اوررحمت سے باہرہو۔"
نور بصیرت
رحمت بے پایاں۔۔۔۔(2)
شیخ محی الدین ابن عربی فصوص الحکم میں لکھتے ہیں۔۔"ایک رحمت خالص ہے،جیسے دنیامیں لذیذاورپاکیزہ غذا۔
یہ حق تعالی کے اسم الرحمن سے صادرہوتی ہے ، اس لئے عطائے رحمانی ہے۔
دوسری رحمت رنج سے مخلوط ہوتی ہے۔ جیسے کڑوی دواپیناکہ اسکے پینے کے بعدصحت اوررحمت ہوتی ہے ۔ یہ عطائے الہی ہے"۔۔۔"عطائے رحمانی ان آمیزشوں سے پاک ہوتی ہے جواس حال میں بندہ کی طبیعت کی مخالف ہوں۔ یہ ان امورسے بھی پاک ہوتی ہے،جوغرض حاصل ہونے سے مانع ہوں۔ یہ رحمت ہر قسم کے نقصانات سے پاک ہے۔ کبھی حق تعالی جل شانہ اپنے اسم الواسع کے ذریعہ سے رحمت فرماتے ہیں۔اس میں بندے کے اس وقت کے احوال کی مصلحتوں پرنظرہوتی ہے۔ کبھی حق تعالی اپنے اسم الوہاب کے ذریعہ سے رحمت فرماتے ہیں۔اس میں بندے کے ذریعے سے رحمت فرماتے ہیں۔یہ عطاصرف راحت کے لئے ہوتی ہے ،جس پر یہ رحمت صادرہوتی ہے وہ اسکے عوضانہ کے عمل کامکلف نہیں ہوتا۔کبھی حق تعالی اپنے اس الحی کے واسطہ سے رحمت فرماتے ہیں،اس رحمت کے دوران(موقع)محل اور بندہ کے استحقاق پر نظرہوتی ہے۔ کبھی بندہ پرحق تعالی جل شانہ ، اپنے اسم الغفارکی معرفت رحمت فرماتے ہیں،اس وقت بندہ کے احوال اورموقع کی مصلحت پرنظرہوتی ہے۔اگروہ بندہ اس وقت ایسی حالت میں ہے جو قابل مواخذہ ہے،تواللہ تعالی اسے اس رحمت کے ذریعہ اسکی سزاسے بچالیتے ہیں اوراگروہ بندہ گناہوں سے محفوظ ہوجاتاہے۔انکے علاوہ اوررحمتیں بھی ہیں۔ان سب کاخازن اللہ تعالی ہے وہی انہیں اپنے بندوں پر اندازے کے مطابق معین فرماتاہے۔"سورۃ الزخرف میں فرمایا:"اورتیرے رب کی رحمت بہترہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔"(157:3)سورۃ الانعام میں فرمایا:"تمہارے رب نے اپنے اوپررحمت کولازم کرلیاہے۔"
سورۃ الاعراف میں فرمایا:"اورمیری رحمت ہرشے پر چھائی ہوئی ہے۔"

[/url=http://nawaiwaqt.com.pk/urdu/daily/apr-2007/15/noorebaseerat.php]نوربصیرت[/url]

بشکریہ نوائے وقت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

رحمت بے پایاں۔۔۔۔(1)
قرآن پاک میں حق تعالی کاارشادہے:"میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے " کہہ دو،اے میرے بندو!جنہوں نے اپنے اوپرزیادتی کی ہے ۔ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔بے شک اللہ تعالی سارے گناہ بخش دیتاہے ۔ یقیناوہ بخشنے والامہربان ہے(53،39)مزیدفرمایا:"بھلاکون ہے جو مضطرب کی دعاقبول کرتاہے، جب وہ اسے پکارتاہے اور اس(اسکی) تکلیف دور کرتاہے(62،27)جن لوگوں نے کہاکہ ہمارارب(آقا۔پالنے والا)اللہ تعالی ہے پھراس پر قائم رہے یقیناان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں(یہ پیغام لے کر) کہ نہ ڈرواورنہ غم کھاؤاورخوشخبری لواس جنت کی جس کاتم سے وعدہ کیاگيا۔ہم ہیں تمہار ے سرپرست دنیاکی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی اور تمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ موجودہے جن کی تمہارے جی خواہش کریں۔نیزاس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جو تم مانگو۔یہ مہمانداری ہے ۔ بخشنے والے(اور)مہربان(اللہ تعالی)کی طرف سے ۔"اورجو کوئی براعمل کرے یااپنی جان پرظلم کرے،پھراللہ تعالی سے معافی مانگے،وہ اللہ تعالی کومعاف کردینے والامہربان پائے گا۔""اورکون ہے جوبخشے گناہوں کاسوائے اللہ تعالی کے(3-135)"اللہ تعالی تمہیں عذاب دے کرکیاکرے گا۔اگرتم شکرکرواورایمان لاؤاوراللہ تعالی قدردان(اور)خوب جاننے والاہے(یعنی وہ ہرکسی کی چھوٹی نیکی کوبھی جانتاہے اوراسکی قدرکرتاہے)"
"اورنہ سستی کرواورنہ غم کھاؤتم ہی بلند(غالب)ہواگرتم ایمان والے ہو۔(3-139)یہ قرآن پاک کے ارشادات ہیں جس کے متعلق فرمایا۔۔۔"اے لوگو!تحقیق آئي ہے تمہارے لیے نصحیت تمہارے پروردگارکی طرف سے یہ شفاہے۔اس کے لیے وج سینوں کے اندرہے(یعنی نفسیاتی امراض)اورہدایت اوررحمت ہے مومنوں کے لئے(10-57)۔۔
کسی کو اپنی عبادت پہ ہوغرورتوہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ان کی وسعت رحمت پر نازکرتے ہیں
سورۃ الزحزف میں ارشادفرمایا:"اورتیرے رب کی رحمت ہرشے سے بہترہے۔جسے وہ جمع کرتے ہیں۔"(یہ آیہ 32)سورۃ الانعام میں دوبارفرمایاکہ اللہ تعالی نے اپنے آپ پررحمت کو لازم کرلیاہے سورۃ مومن میں فرشتوں کی یہ دعانقل فرمائی کہ"اے ہمارے رب ! تونے اپنی رحمت اورعلم سے ہرشے کو سمالیاہے۔"(آیہ7)بالفاظ دیگرکائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جواللہ تعالی کے علم اوررحمت سے باہرہو۔"
نور بصیرت
رحمت بے پایاں۔۔۔۔(2)
شیخ محی الدین ابن عربی فصوص الحکم میں لکھتے ہیں۔۔"ایک رحمت خالص ہے،جیسے دنیامیں لذیذاورپاکیزہ غذا۔
یہ حق تعالی کے اسم الرحمن سے صادرہوتی ہے ، اس لئے عطائے رحمانی ہے۔
دوسری رحمت رنج سے مخلوط ہوتی ہے۔ جیسے کڑوی دواپیناکہ اسکے پینے کے بعدصحت اوررحمت ہوتی ہے ۔ یہ عطائے الہی ہے"۔۔۔"عطائے رحمانی ان آمیزشوں سے پاک ہوتی ہے جواس حال میں بندہ کی طبیعت کی مخالف ہوں۔ یہ ان امورسے بھی پاک ہوتی ہے،جوغرض حاصل ہونے سے مانع ہوں۔ یہ رحمت ہر قسم کے نقصانات سے پاک ہے۔ کبھی حق تعالی جل شانہ اپنے اسم الواسع کے ذریعہ سے رحمت فرماتے ہیں۔اس میں بندے کے اس وقت کے احوال کی مصلحتوں پرنظرہوتی ہے۔ کبھی حق تعالی اپنے اسم الوہاب کے ذریعہ سے رحمت فرماتے ہیں۔اس میں بندے کے ذریعے سے رحمت فرماتے ہیں۔یہ عطاصرف راحت کے لئے ہوتی ہے ،جس پر یہ رحمت صادرہوتی ہے وہ اسکے عوضانہ کے عمل کامکلف نہیں ہوتا۔کبھی حق تعالی اپنے اس الحی کے واسطہ سے رحمت فرماتے ہیں،اس رحمت کے دوران(موقع)محل اور بندہ کے استحقاق پر نظرہوتی ہے۔ کبھی بندہ پرحق تعالی جل شانہ ، اپنے اسم الغفارکی معرفت رحمت فرماتے ہیں،اس وقت بندہ کے احوال اورموقع کی مصلحت پرنظرہوتی ہے۔اگروہ بندہ اس وقت ایسی حالت میں ہے جو قابل مواخذہ ہے،تواللہ تعالی اسے اس رحمت کے ذریعہ اسکی سزاسے بچالیتے ہیں اوراگروہ بندہ گناہوں سے محفوظ ہوجاتاہے۔انکے علاوہ اوررحمتیں بھی ہیں۔ان سب کاخازن اللہ تعالی ہے وہی انہیں اپنے بندوں پر اندازے کے مطابق معین فرماتاہے۔"سورۃ الزخرف میں فرمایا:"اورتیرے رب کی رحمت بہترہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔"(157:3)سورۃ الانعام میں فرمایا:"تمہارے رب نے اپنے اوپررحمت کولازم کرلیاہے۔"
سورۃ الاعراف میں فرمایا:"اورمیری رحمت ہرشے پر چھائی ہوئی ہے۔"

[/url=http://nawaiwaqt.com.pk/urdu/daily/apr-2007/15/noorebaseerat.php]نوربصیرت[/url]

بشکریہ نوائے وقت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

سورہ الرعد…(۱)
نُورِ بَصیِرتْ… میاں عبدالّرشید ۔ 7 گھنٹے 13 منٹ پہلے شائع کی گئی اس سورہ کی خاص بات بعض سادہ اور عام فہم مگر بلیغ اور دل میں اترجانے والی مثالیں ہیں جو امید و خوف‘ غیر اللہ کو پکارنے اور حق و باطل کے بارہ میں ہیں۔ زیادہ تر بیان اللہ تعالیٰ کی شان کا ہے اور وہ بھی جلالی رنگ میں۔
آیہ 11 میں اقوام کے متعلق اپنا اصول بیان فرمایا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حالات نہیں بدلتے‘ جب تک وہ (اس قوم کے افراد) اپنے آپ کو نہ بدلیں‘‘۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
(اقبال)
سورہ کا آغاز اللہ تعالیٰ کی شان کے بیان سے ہوتا ہے کہ اس نے کیسے کائنات تخلیق فرمائی۔ پھر زمین کو حیات کے قابل بنایا۔ پھر یہاں نباتات‘ حیوانات اور اس کے بعد ذی عقل انسان پیدا کیا۔ اس سے ظاہر ہے انسانی زندگی عبث اور بے مقصد نہیں بلکہ موت کے بعد انسانی زندگی کے مراحل ہیں‘ جن کا دارو مدار انسان کے بیان کئے گئے اعمال پر ہے۔
-2’’اللہ (تعالیٰ) وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا۔ جیسا کہ تم انہیں دیکھتے ہو (الاتعداد اجرام سماوی بغیر کسی سہارے کے فضا میں موجود ہیں اور مقررہ راستوں پر گردش کر رہے ہیں)
’’پھر وہ تخت حکومت پر متمکن ہوا۔ (کائنات کا انتظام سنبھالا اور اسے چلانے کے قوانین مقرر کردیئے جنہیں ہم فزیکل لاز کہتے ہیں)
’’اور اس نے شمس و قمر کو کام میں لگا دیا۔ ہر ایک مدت معین کیلئے چلتا ہے (یعنی ہر ایک کی گردش کا وقت مقرر ہے)
’’وہی (اللہ تعالیٰ) ہرکام کی تدبیر کرتا ہے‘‘۔
’’وہ اپنی آیات واضح طور پر بیان فرماتا ہے تاکہ تم اس سے ملاقات پر (یعنی قیامت کے روز اس کے سامنے حاضر ہونے پر) یقین رکھو‘‘۔ (آیہ ختم)
اگلی آیت میں تخلیق کے دوسرے مرحلہ کا بیان ہے جس کا تعلق ہماری زمین سے ہے۔ زمین سورج سے الگ ہوئی تو تپتی ہوئی گرم تھی۔ پھر آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی اور اس میں پہاڑ اور وادیاں وجود میں آئی۔ پھر یہاں روئیدگی پیدا ہوئی جو پھلوں تک پہنچی اور پھلوں کی مختلف اقسام وجود میں آئیں۔
-3 ’’اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلا دیا (مسطح کردیا) اور اس میں پہاڑ اور ندیاں بنادیں۔ نیز اس میں ہر پھل کے دو قسم کے جوڑے بنائے۔ ترش‘ شیریں۔ بڑے‘ چھوٹے…(یہاں) رات دن کو ڈھانپ لیتی۔ اس میں بلاشبہ غور و فکر کرنے والوں لوگوں کیلئے واقعی آیات ہیں‘‘۔ (آیہ ختم)
اسی طرح یہاں بار بار باطل کی تاریکی حق کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اسی لئے پیغمبروں اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں کی ضرورت پڑتی رہی اور اب آخر میں ہمارے حضورؐ پرنور نے روشن آفتاب کی صورت میں طلوع ہو کر تاریکیوں کے پردے ہمیشہ کیلئے چاک کردیئے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت ۔ نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 
Top