نوربصیرت

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اصل جرائم:۔
اصل جرائم صرف دو ہیں، ایک جہالت اور دوسرا سستی ، جاہل وہ ہے جو زندگی کے مقصد کو پانے کے طریقہ سے جاہل ہے اور سست وہ جو مقصد حیات اور اس کے حصول کےطریقہ کو جان لیے کے بعد اس کے لئے پوری کوشش نہ کرے۔ قرآن پاک اسی کو ایمان اور اچھے اعمال سے تعبیر کرتاہے، جگہ جگہ ارشادہے"وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے۔"
جو شخص زندگی کے مقصد سے جاہل ہے،جس کارخ ہی منزل مقصود کی جانب نہیں، اس کا ہرعمل غلط ہو گا وہ جتنا زور لگائے گامنزل سے دور ہوتاجائے گا۔اس کی ساری زندگی مسلسل جرائم کا مرقع ہوگی۔ یہ دنیا عمل کاگھرہے عمل بدن سے سرانجام پاتاہے لیکن اس کے پیچھے انسان کاارادہ ہوتاہے۔ ارادہ قلب یا ذہن کاکام ہے۔ ارادہ کے پیچھے انسان کی سوچ کار فرما ہوتی ہے سوچ اسی وقت صحیح ہوتی ہے جب انسان کا قلب روح کے نور سے منور ہو۔روح کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے اگربلب کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ ہے تو بلب میں روشنی ہے ہے اگرنہیں تو بلب فیوزہے۔ اللہ تعالی سے تعلق ایمان کے ذریعہ قا‏ئم ہوتاہے۔اللہ تعالی سے تعلق جتنامضبوط ہو گا۔اسی نسبت سے روح کی بلب کی پاور اورروشنی بڑھتی جائيگی اورروح کابلب جتنا روشن ہوگااتناہی زیادہ وہ قلب کو منورکریگا۔اس صورت میں قلب نفس یاانسان کی حیوانی جبلتوں لالچ، شہوت، غصہ انتقام دکھاوا وغیرہ کے تحت آجائیگااوریہ اثرقلب کو زنگ آلود اورسخت کریگا۔پھرآہستہ آہستہ قلب صحیح باب سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گا۔ گویااس پرتالالگ جائے گا اس پرمہرثبت ہوجائیگي۔ اس میں کچھ داخل نہ ہوسکے۔ دوسری طرف بدن اگرچہ خاکی ہے مگر اس کاعمل بھی قلب پر اثر انداز ہوتاہے۔ جناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کارشاد گرامی ہے کہ ہرنیک عمل سے قلب پرایک سفید نقطہ پڑ جاتاہے اورباقاعدگی سے نیک اعمال کرنے والے شخص کاساراقلب منور ہوجاتاہے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو۔وہ اللہ تعالی کے نور سے دیکھتاہے اس کے برعکس برا عمل کرنے سے قلب پر سیاہ نقطہ پڑجاتاہے اورمسلسل بداعمالیوں سے ساراقلب سیاہ ہوجاتاہے۔ قلب سیاہ ہوجائے تو انسان کی سوچ بھی اندھی ہوجاتی ہے پھر وہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتاپھرتاہے۔شیطان کاانسان پر کچھ زور نہیں چلتا،وہ اسے اس کی نفسانی خواہشات ہی کے ذریعہ گمراہ کرتاہے اگرانسان اپنی نفسانی خواہشات پر قابوپالے تو وہ شیطان کے اثرسے نکل جاتاہے مگراس کے لئے منحت کرنا پڑتی ہے۔ابلیس اور اس کے چیلے چانٹوں کاطریق واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو سبزباغ دکھا کرمایوسی میں مبتلا کرکے گمراہ کرتے ہیں اور اتنی خوبصورتی سے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔

بشکریہ نوائے وقت نور بصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی۔ سبز باغ دکھا کر مایوس کرنا، بقول اشفاق احمد، شیطان کا طریقہ واردات ہے
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

واقعی منصور(قیصرانی) بھائی، شیطان بس وسوسوں سے ہی انسان کو بہلاتا اور پھسلاتاہے اور بس سبزباغ دکھاتاہے اللہ تعالی ہمیں شیطان کے وسوسوں سے بچائے (آمین ثم آمین)

اصل علاج:۔
سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کے ذریعہ معاشرہ کی خرابیوں اور دکھوں کاعلاج نہیں جاسکتا۔انسانوں کی اصل بیماری خودغرضی اور مطلب پرستی ہے اور خود غرضی اور مطلب پرستی کی تہہ میں زرپرستی کاجذبہ اورزراندازی کی ہوس کارفرماہے۔ جب تک زرپرستی انسانوں کے ذہنوں کو مسخ کئے رہے گی۔اس وقت تک اعلی سیاسی نظام اور بہترین اقتصادی اصلاحات سے بھی اچھے نتائج پیدا نہیں ہوں گے۔جیسے پانی کبھی اپنے منبع کی بلندی سے اوپرنہیں اٹھ سکتااسی طرح معاشرہ بھی اپنے افرادکی روحانی اور اخلاقی سطح سے اوپرنہیں اٹھ سکتااگرموجودہ معاشرہ کی حالت پست ہے تو اس کی سبب یہ ہے کہ ہم اس معاشرہ کے افرادہیں ہماری روحانی اور اخلاقی سطح بلندنہیں ہے۔بے غرضی، ہمدردی اور شفقت جیسے خواص انسان کی روحانی بلندی ظاہرکرتے ہیں۔ روحانی بلندی ہی اصل دولت ہے یہی وہ دولت ہے جوہمیشہ باقی رہنے والی ہے اوراسی سے سچی مسرت حاصل ہوتی ہے۔
انسان کا ہرخیال اورعمل تقدیرکابیج ہے جسے وہ زمان و مکان کے زرخیزکھیت میں بورہاہے ۔ تقدیر کے ان بیجوں کے نتائج سے کسی کو مفرنہیں۔یہ نتائج ہرشخص کے گلے کاہار اور اسکی قسمت ہیں۔اس زندگی میں بھی اورموت کے بعد شروع ہونے والی ہمیشہ کی زندگي میں بھی۔ہم برائی سے فراراختیار کرکے تقدیر کے اٹل نتائج سے بچ نہیں سکتے۔ہمیں دانائی اورقوت سے عملابرائی کامقابلہ کرناچاہیے۔قرآن پاک نے امربالعمروف(نیکی کا حکم دینے) اورنہی عن المنکر(برائی سے روکنے)کافریضہ ہرمسلمان پرعائد کیاہے۔ جب تک ہرشخص اپنی ذمہ داری کونہ پہچانے اوراسے سرگر اورمستعدی سے سرانجام نہ دے معاشرہ کی حالت درست نہیں ہوسکتی۔
اس سلسلہ میں قرآن پاک کا دوسراارشادہے کہ نیکی اور تقوی(برائي سے بچنے) میں ایک دوسرے سے تعاون کرو گناہ اور(اللہ تعالی سے)سرکشی میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کریں۔یعنی معاشرہ ایسے لوگوں کابائیکاٹ کرے تو برائي میں کمی واقع ہوسکتی محض وعظ و نصحیت کافی نہیں برائی کے خلاف جہادمیں عملاحصہ لینابھی ضروری ہے امربالمعروف کو نہی عن المنکرکابدل سمجھ لینا بھی فریب نفس ہے۔افراد اسی صورت خودغرضی اور مطلب پرستی کے چکر سے نکل سکتے ہیں جب اللہ تعالی سے بہت شدیدمحبت جو قرآن پاک کے مطابق ایمان کانشان ہے۔ان کے اندر پیدا نہ ہو اللہ تعالی کی شدیدمحبت ہی لالچ کی ترفیع کرکے اللہ تعالی کی رحمت کے حصول کے لالچ کی طرف منتقل کیا جاسکتاہے،قرآن پاک میں ارشادہے کہ اللہ تعالی کی رحمت ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں یہ دورتجرباتی اندازعلم کادورہے ضروری ہے کہ اس دورکے انسان کو روحانی مشاہدات کے ذریعہ اللہ تعالی کی محبت سے متعارف کرایاجائے۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

گہری شازش:۔
ایرانی، رومی اور یہودی اسلامی فتوحات سے بہت سیخ پا تھے۔سیدنافاروق اعظم(رضی اللہ عنہ) کی شہادت کے پیچھے انہی کا ہاتھ تھا۔ انکا خیال تھا کہ آپ کے بعد فتوحات کا سلسلہ رک جائے گا مگرسیدنا عثمان(رضی اللہ عنہ) کی خلافت کے ابتدائی چھ برسوں کے دوران یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ ان سازشیوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ۔ پہلے سیدنا عثمان(رضی اللہ عنہ) کے گورنروں اور آپ کے خلاف مہم چلادی، پھر بزرگ خلیفہ کو ان کے مکان کے چالیس دن کے محاصرہ کے بعد عین اس وقت شہید کیا گيا،جب آپ قرآن پاک کی تلاوت کررہےتھے۔
یہ لوگ علی المرتضی(رضی اللہ عنہ)کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے کہا مگر دل سے یہ لوگ آپ سے بھی مخلص نہ تھے۔انکاپہلامقصد اپنے آپ کو سیدناعثمان(رضی اللہ عنہ) کے قصاص سے بچانا اوردوسرا ملت اسلامیہ کو خانہ جنگی میں مبتلا کرنا تھا اوریہ لوگ اپنی شازش میں کامیاب بھی رہے۔اس وقت بہت سے مخلص اور پاکباز صحابہ کرام رضوان اللہ موجود تھے۔مگر ان شازشیوں نے انہیں بے بس کردیا۔جنگ جمل کے فریقین میں صلح کی شرائط طے ہوگئیں۔ کیونکہ فریقین قصاص عثمان (رضی اللہ عنہ) پر متفق تھے۔ دونوں گروہ آپس کی خونریزی کو سخت ناپسند کرتےتھے۔ صلح کی ایک شرط یہ تھی کہ سیدناعلی(رضی اللہ عنہ) قاتلین عثمان(رضی اللہ عنہ) کے گروہ کواپنے لشکر سے الگ کردیں۔ چنانچہ آپ نے انہیں چلے جانے کاحکم دے دیا۔ مگروہ لوگ تھوڑے فاصلہ پر جاکررک گئے۔بہانہ یہ بنایا کہ وہ آپ کی حفاظت کے لئے قریب ہی رہناچاہتے ہیں۔رات کوانہی لوگوں نے دونوں طرف سے تیر چلا کر شور مچا دیا کہ فریق ثانی کی طرف معاہدہ کی خلاف ورزی کی گئی ہےاس طرح جنگ شروع کرادی۔جنگ صفین میں عین اس وقت جب سیدنا علی(رضی اللہ عنہ) کا ایک کمانڈر فتح کے قریب تھا انہی لوگوں نے جناب امیر(رضی اللہ عنہ) کو مجبور کیاکہ وہ اسے واپس بلالیں کیونکہ یہ نہیں چاہتےتھے کہ حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کی حکومت مضبوط ہوکیونکہ اس صورت میں ان سے قصاص لئے جانے کا امکان بڑھ جاناتھا۔دوسرے ان کا مقصد دنیائے اسلام کو انتشارمیں مبتلارکھناتھاتاکہ افواج اسلام کی دوسرے ممالک میں پیشقدمی رکی رہے۔پہلے سیدناعلی المرتضی(رضی اللہ عنہ) کوسیاسی معاملہ دو ججوں کے سپردکرنے پرمجبور کیاپھرایک فریق اسی بنا پر آپ کے خلاف ہوگیاکہ آپ نے تحکیم کیوں قبول کی ۔ سیدناحسن(رضی اللہ عنہ) ابن علی(رضی اللہ عنہ) انکی سازش اورطریق واردات کو بھانپ گئے ۔انہوں نے انکے طعنوں کی پروا نہ کرتے ہوئے۔ صرف ملت اسلامیہ کے اتحاد اور مفاد کی خاطر امیرمعاویہ(رضی اللہ عنہ)سے صلح کرلی۔ان کےاس جرات مندانہ قدم سے خانہ جنگی کے بادل چھٹ گئے اور اسلامی عسا کرایک بار پھرغیراسلامی ممالک میں دلیرانہ آگے بڑھنے لگے۔جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے سیدنا حسن(رضی اللہ عنہ) کے بارے میں فرمایا تھا۔میرا یہ بیٹا سردارہےاسکی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہ متحدہوجائيں گے،چنانچہ یہی ہوا۔
بشکریہ نوائے وقت نور بصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
گنجینہ حکمت:۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے (ترجمہ)"جسے حکمت و (دانش) عطاہوئی اسے خیر کثیرمل گئي۔"
جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے اس خیرکثیرسے سب سے وافرحصہ پایا،اوروں کے لئے نوشت و خواندنہ کرسکناعیب ہے۔جبکہ حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کےلئےامی ہوناباعث فخرہے۔آپ کے مختصرکلمات میں حکمت کے بے پایاں سمندربندہیں۔کتب احادیث میں پہلی حدیث شریف یہ ہے"اعمال کادارومدارنیتوں پرہے۔"ذرااس کی گہرائی پرتوجہ کریں عمل وہی ہے لیکن نیت سے اس کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے کیاگياعمل اورہے اور اپنی غرض سے کے لئے کیاگيااورہے دکھاوےاورواہ واہ کے لئے کیا گیا اورہے بظاہراعمال کی صورت وہی رہتی ہے لیکن اندرسے نیت اسے کچھ سے کچھ بنادیتی ہے فرمایااے اللہ!مجھے اشیاء کی حقیت جیسی ہے دکھا!یہ دعاگویاسارے اخلاق کامخزن اور بینادہے قرآن پاک کے مطابق کائنات حق و باطل کی رزم گاہ ہے اور اس رزم گاہ میں حق کو حق سمجھنے کے بعد ہی اس کا ساتھ دیاجاسکتاہے اورساتھ اسی صورت دیا جاسکتاہے جب توفیق الہی شامل حال ہو۔فرمایاجب تیری نیکی تجھے بھلی معلوم ہو اوربدی تجھے بری لگے تب تو مومن ہے۔یعنی ایمان کامقصدیہ ہے کہ نیکی کے لئے ذوق پیدا ہوجائے نیکی طبیعت کاجزوبن جائے نیکی کرکے دل خوش ہوبرائی سے طبیعت مکدرہو۔خطبات میں بالعموم فرماتے تھے جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس میں عہد(کی پابندی) نہیں اس میں دین نہیں۔یہ بھی فرمایا کہ پوچھنے والے کو صحیح مشورہ دینابھی امانت داری میں داخل ہے۔امانت داری اورعہد کی پابندی اچھے معاشرہ کی بنیادہے اس کے بغیراچھامعاشرہ تشکیل نہین پاسکتانہ قائم رہ سکتاہے فرمایاغیبت کرنے (چغل خور) جنت میں جائیں گے کسی نے پوچھا اگرمیں کسی شخص کی عدم موجودگی میں اسکے وہ عیوب بیان کروں جو اس میں موجودہیں توکیایہ غیبت ہوگی؟آپ نے فرمایایہی تو غیبت ہے اگرتواس کے ذمہ وہ عیوب لگائے جو اسمیں نہیں تویہ بہتان ہوگا۔غیرذمہ دارانہ گفتگوکے نتائج کو مندرجہ ذیل تمثیل واضح فرمایاآدم کابیٹاجب صبح سوکراٹھتاہے تواس کے بدن کے سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے معامہ میں اللہ تعالی سے ڈراس لئے کہ تیرے ساتھ وابستہ ہیں اگرتو ٹھیک رہے گی تو ہم بھی ٹھیک رہیں گے تو نے کج روی اختیارکی توہم بھی کج روہو جائیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

تین گروہ:۔
سورۃ الفاتحہ میں تین گروہوں کا بیان ہے۔(1)وہ جو صراط مستقیم پر چل کر اللہ تعالی کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوئے(2) وہ جو صراط مستقیم سے دور رہ کر غضب الہی کا شکار ہوئے(3)وہ جنہوں نے صراط مستقیم پاکر چھوڑ دیا۔ سورۃ البقرہ میں بھی تین گروہوں۔ متقین،کافرین،اورمنافقین کا بیان ہے۔متقین وہ ہیں جو ایمان و عمل کی دولت سے بہرہ یاب ہیں یہ لوگ مقصدحیات میں کامیاب ہیں۔کافرین ہو ہیں جن کے قلوب اور سماعت پر مہر لگ چکی ہےاورانکی آنکھوں پر پردہ پڑا ہواہے۔یہ لوگ صراط مستقیم پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔تیسرا گروہ منافقین کا ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ انہوںنے اسلام قبول کرلیاہے مگروہ دل سے ایمان نہیں لائے۔فرمایا انکے دلوں میں(منافقت) کامرض ہے اور یہ مرض بڑھتا ہی جاتاہے کافروں اور منافقوں کابیان ختم کرنے سے پہلے دو مثالیں دی گئي ہیں۔آیات17-18 میں کافروں کے بارے میں مثال ہے ایک شخص نے آگ روشن کی جس سے سارا ماحول چمک اٹھا مگراللہ تعالی نے کفار کانور(بصیرت و بصارت)سلب کرلیااورانہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ انہیں کچھ سجھائي نہیں دیتا گویا وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ہدایت کی راہ کی طرف واپس نہیں مڑتے۔(چونکہ بہرے ہیں اس لئے آوازنہیں سنتے)گونگے ہیں اس لئے کسی سے پوچھ نہیں سکتے۔اندھے ہیں خوددیکھ نہیں سکتے۔اس سے قبل آیہ 7 میں کافروں کے بارہ میں فرما چکے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی اور انکی آنکھوں پر پردہ پڑا ہواہے۔قلوب سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں کان سنتے نہیں آنکھیں دیکھتی نہیں۔آیہ 7 اور18 کے مضامین کی مماثلت واضح ہے۔آیات 19-20 میں منافقین کے بارے میں مثال ہے ۔آسمان سے موسلادھاربارش ہورہی ہے اس میں تاریکیاں بھی ہیں اور(ساتھ)بادلوں کی گرج اور اوربجلی کی چمک بھی۔ منافقین موت کے ڈر کے مارے پرہول آوازوں سے بچنے کے لئے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں اور(نہیں سمجھتے کہ )اللہ تعالی کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔قریب ہے کہ برق ان کی بینائی اچک لے۔جب بجلی چمکتی ہے تو اس کی روشنی میں (تھوڑاسا) چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیراچھا جاتاہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں اگراللہ تعالی چاہےتوان کی شنوائی اور بینائي(بالکل)سلب کرلے۔یقینااللہ تعالی ہر شے پر قدرت رکھتاہے ۔قرآن میں وحی کو کئی جگہ بارش سے تشہبیہ دی ہے۔اس سے قلوب کی کھیتیاں ہری ہوتی ہیں۔ ان میں اعلی افکار اور بلند جذبات پیداہوتے ہیں۔روحانیت کے پھول کھلتے ہیں۔اخلاق کے پھل پکتے ہیں۔مگربارش کے ساتھ بجلی کی کڑک اور بالوں کی گرج بھی ہے یعنی اس راہ میں سخت مشکلات بھی ہیں۔منافقین کوہروقت موت کا خوف دامن گیر رہتاہے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ،
افضل الرسل(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا مقام انبیاء ورسل سے افضل ہونامسلمہ حقیت ہے۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پرنبوت کاختم ہوجاناہی ثابت کرہے کہ آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے نبوت کاحق ادا کردیایعنی جو کام پہلے انبیاءنے شروع کیاتھا،اس کی تکمیل فرمادی۔آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اسلام پر مبنی ایساضابطہ حیات(شریعت محمدی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم))عطافرمایا،جوانفرادی اوراجتماعی انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں،روحانی،ذہنی، معاشی اورمعاشرتی تمام پہلوؤں پرحاوی ہے اس شریعت سے پہلی تمام شریعتوں کامنسوخ ہوجاناہی حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی فضیلت کاثبوت ہے،اسی طرح قرآن پاک سے پہلے کی جملہ آسمانی کتابوں کامنسوخ ہونابھی حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی برتری ظاہرکرتاہے۔شریعت محمدی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پرمنبی معاشرہ اورمملکت وجودمیں لانابھی حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی عظمت وفضیلت پردلالت کرتاہے گویاآپ ہی نے مرتبہ خلافت کا حق اداکیا۔معراج کے دوران حق تعالی کابقائمی ہوش و حواس رددردرحق تعالی ظاہرکرتاہےکہ معرفت بھی آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پرختم ہوئی۔سورۃ الاحزاب میں اسی میثاق کابیان ہے،جواللہ تعالی نے انبیاء سے انہیں دنیامیں بھیجنے سے پہلے عالم ارواح میں لیا۔(ترجمہ)اورجب ہم نے انبیاء سے ان کا عہدلیا،اورآپ سے اورنوح اور ابراہیم سےا ور موسی سے اور عیسی ابن مریم علہیم السلام سے۔اورہم نے ان سے پکاعہدلیا(کہ وہ فرض رسالت پوری طرح ادا کریں گے)(سورۃ الاحزاب:7)یہاں صرف پیغمبروں کاذکرہے جودوسروں سےزیادہ فضیلت رکھتے اوران میں جناب رسالت مآب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اسم مبارک کواولیت حاصل ہے جبکہ باقی انبیاء کے نام انکے دنیامیں معبوث ہونے کے مطابق ہیں۔گویاحضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کوان منتخب انبیاء میں بھی فضیلت حاصل ہے۔جناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایاقیامت کے روزمیں اولادآدم کاسردارہوں گا۔(اولادآدم میں انبیاء بھی شامل ہیں)مشہورحدیث شریف ہے کہ قیامت کے دن جملہ انبیاء آپ کی خدمت مین حاضرہوں گے اورآپ سے بنی آدم کی شفاعت کے لئے درخواست کریں گے۔آپ کواللہ تعالی بلندترین مقام مقام محمودفرمائیں گے،جس پر سب اگلے اورپچھلے رشک کریں گے۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایا۔مجھے چھ چیزوں سے دوسرے انبیاء پرفضیلت دی گئي ہے جامع گفتگو،رعب،غنیمت کاحلال ہونا،ساری زمین کامسجدبنادیاجانا،ساری مخلوق کی طرف نبی بناکربھیجاجانا،خاتم النبین(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہونا۔آپ نے فرمایامیں قیامت کے روزاولادآدم کاسردارہونگااوریہ فخریہ نہیں کہتا۔اس دن حمدکاپرچم میرے ہاتھ میں ہوگااوراس روزتمام انبیاء خواہ وہ حضرت آدم علیہ السلام ہوں یادیگرحضرات میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گےاوراس روزسب سے پہلے مجھے اٹھایاجائیگااورمیں یہ بات فخریہ نہیں کہتا۔(ترمذی)
حضرت جابر(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے حضوراکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایامیں رسولوں کاقائدہوں اوریہ فخریہ نہیں کہتا(دارمی)
ایک اورحدیث شریف کے مطابق آپ نے فرمایامیں نبیوں کاامام ہوں(ترمذی)

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

حق گوئی اور بے باکی:۔
بانی بن عروہ کوفہ کے معززین میں سے تھے ابن زیاد کوفہ کاگورنرمقررہوکے آیاتو مسلم بن عقیل جو مختاربن ابی عبیدکے گھرمیں تھے وہاں سے نکل ہانی کے پاس آئے اوراس سے پناہ طلب کی ہانی نے جواب دیاآپ مجھ پر میری طاقت سے زیادہ بوجھ ڈال رہے ہیں اگرآپ میرے گھرمیں داخل نہ ہوچکے ہوتے تومیں آپ کوپناہ دینے سے معذوری کااظہارکردیتامگرآپ گھرکے اندرآچکے ہیں تو تشریف لے آئيں۔ابن زیاد نے اپنے ایک جاسوس معقل کے ذریعہ سارے حالات کاپتہ چلالیاپھرہانی کوبلایااوراس کے طرف دیکھ کرایک شعرپڑھاجس کاترجمہ کچھ یوں ہے۔"میں اس کی زندگی چاہتاہوں اور وہ مجھے قتل کرناچاہتاہے قبیلہ مرادسے اپنے کسی دوست کو معذرت کے لئے لے آ"ہانی بولا:اے امیر! یہ آپ کیاکہہ رہے ہیں؟ ابن زیاد نے جواب دیا۔خوب میرے سامنے تمہارایہ تجاہل عارفانہ نہیں چلے گا۔بتاؤتم اپنے مکان پرامیرالمومنین کے خلاف کیاکاروائیاں کرتے ہو؟تم نے مسلم بن عقیل کواپنے گھرمیں چھپارکھاہے اورتم اس کے لئے ہتھیارفراہم کرتے ہو۔ہانی نے کہا۔اے امیرمیری بات سنیئے اورجوکچھ میں کہتاہوں اس پر یقین کیجئے میں نے مسلم کو اپنے گھرمیں نہیں بلایا۔وہ خودمیرے گھرآئے اورمجھ سے پناہ طلب کی جو مجھے دیناپڑی۔ابن زیاد نے کہااگریہ بات ہے تومسلم کومیرے سامنے کردو۔ہانی اپنے قبیلے کاسرداراورغیورعرب تھا۔اس نے جواب دیایہ نہیں ہوسکتاکہ میں اپنے مہمان کو قتل کئے جانے کے لئے آپ کے سپردکردوں اگرمسلم میرے پاؤں کے نیچے چھپے ہوں تومیں اس جگہ سے اپناپاؤں نہیں ہٹاؤں گا۔ابن زیادہ غصہ میں آگيا۔اس نے ہانی کوچھڑی سے پٹیناشروع کردیاہانی نے قریب کھڑے سپاہی کی تلوارچھینناچاہی مگرکامیاب نہ ہوسکاہانی کواسی وقت قیدکرلیاگیااوربعدمیں مروادیاگیا۔مسلم بن عقیل ابن زیادکے سامنے لائے گئے تو ابن زیادنے کہا"اے ابن عقیل لوگ آپس میں متحدومتفق تھے ہم نے یہاں آگر لوگوں میں تفرقہ ڈالااوربھائیوں کوبھائیوں سے لڑادیاآخر تم نے یہ کیوں کیا؟مسلم بن عقیل نے کہا"تمہارے باپ نے اہل کوفہ کے بزرگوں اورنیک لوگوں کوقتل کیااوراس طرح قیصروکسری کی روایات تازہ کیں ہم یہاں آئے تاکہ عدل و انصاف قا‏ئم کریں اور لوگوں کو قرآن وسنت پرعمل کرنے کی دعوت دیں۔ ابن زیاد نے کہا میں تجھے قتل کروں گاکہ زمانہ اسلام میں آج تک کسی اورکواس طرح قتل نہ کیاگیاہو۔مسلم نے کہا۔واقعی اسلام کے اندربدعتیں پیداکرنے میں تمہاراکوئی ثانی نہیں نہ خباثت وکمینگی میں تمہاری مثال ہے۔"ابن زیاد نے حکم دیاکہ انہیں گورنرہاؤس کی چھت پرلے جاکرسب کے سامنے انکی گردن اڑا دی جائے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

شجاعت اور حربی قیادت:۔
حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)ذاتی شجاعت میں بھی یکتاتھے اور بطورسپہ سالاربھی آپ کی جنگی قابلیت اور مہارت بے مثال تھی ایک غزوہ سے واپسی پر دوپہرکے وقت درخت کے نیچے اکیلے استراحت فرمارہے تھے۔تلواردرخت سے لٹک رہی تھی ایک دشمن نظربچاکروہاں پہنچ گیا۔تلوارسونت کرکہااب تجھے کون بچاسکتاہے؟آپ نے فرمایااللہ۔اور اس جلال سے فرمایا کہ اس کے ہاتھ سے تلوارگرپڑی آپ نے تلواراٹھالی اور فرمایااب تجھے کون بچاسکتاہے؟وہ منت سماجت کرنے لگاآپ نے چھوڑدیا۔
غزوہ احدکے دوران حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)زخمی حالت میں ایک ٹیلہ پرکھڑے تھے۔چند جان نثاران کےاردگردجمع تھے ابی بن خلف گھوڑادوڑاتاوہاں پہنچااورآنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کواسم مبارک سے پکارا اورمقابلہ پرللکارا ساتھیوں نے اس کاسامناکرنے کی اجازت چاہی مگرحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایااس نے مجھے پکاراہے میں ہی اس کامقابلہ کروں گاچنانچہ آپ زخمی حالت میں ٹیلہ سے نیچے آئے ابی سوارتھااورسرسے پاؤں تک آہن میں غرق آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے اسی کانیزہ چھین کر اس سے اسکی گردن پرہلکاساکچوکادیاوہ گھوڑے سے نیچے آرہا اورچیخنے چلانے لگا بعدمیں اسی زخم سے واصل جہنم ہوا۔
حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے اپنی دس سالہ مدنی زندگی میں ستائیس غزوات میں بہ نفس نفیس حصہ لیا اورقیادت فرمائی اور پینتیس جنگی مہمات (سرایا)بھیجیں،مفتوحہ علاقہ دنوں پرتقسم کیاجائے تو274 مربع میل یومیہ بنتاہے دس برس میں دس لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقہ زیرنگین کسی معرکہ میں شکست نہیں اتنی بڑی کامیابی اورجانوں کااتناکم زیاں ہے،کہیں ایسی مثال ایسی حربی قیادت کی؟ ہرمعرکہ میں نیا اندازتھابدراقدامی جنگ کی بہترین مثال ہے مدینہ منورہ سے اسی میل باہر نکل کر قلیل نفری اوربہت کم ہتھیاروں کے ساتھ لیس تین گنا دشمن کوشکست فاش دی۔احدمیں یہ سبق دیاکہ اگرکسی کی کوتاہی سے وقتی طورپرپسپائی ہوجائے تو حالات کوکیسے سنبھالاجاسکتاہے۔آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)آخردم تک میدان میں قائم رہے۔یہاں تک کہ دشمن میدان سے فرارہوگیا۔غزوہ خندق دفاعی جنگ کی بہترین مثال ہے۔ساراعرب چڑھ آیاتھاحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے پہلے خندق کھودکے دفاعی انتظام کیاپھرجنگ کو لمباکرکے دشمن کوتھکادیاان کے لئے حصول رسدکومشکل بنادیاپھرانکے اندرپھوٹ ڈلواکرانہیں تتربترکردیا۔فتح حدیبیہ میں جسے قرآن پاک میں فتح مبین کہاگياہے۔حضرت خالد(رضی اللہ عنہ)کی زیرقیادت بھیجے گئے کفارکے گھوڑسواردستہ اورمکہ مکرمہ کے درمیان فروکش ہوکرشہراوراسکے دفاعی دستہ کارابطہ منتقطع کردیالیکن اس کے باوجودنرم شرائط پرصلح کرلی جوبعدمیں مسلمانوں کے لئے بہت مفیدثابت ہوئیں۔حنین میں آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے خودسواری آگے بڑھا کراپنی ذاتی شجاعت سے شکست کوفتح میں تبدیل کردیا۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

غلفلت زدہ قومیں:۔
سورہ الاعراف میں ارشادہے۔(ترجمہ)"اورکتنی ایسی بستیاں تھیں،جنہیں ہم نے ہلاک کردیا۔تب آیا ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران یا دوپہر کے وقت جب وہ آرام کررہے تھے۔پھرجب ان پر ہمارا عذاب آگیاتوان کہنایہی تھا کہ ہم خود ہی اپنے اوپرظلم کرنے والے تھے۔(آیات5-4)
آگے فرمایا۔(ترجمہ)"کیاان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پرہماراعذاب رات کے دروان آجائے اوروہ سوئے پڑے ہوں؟ کیاان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پرہمارا عذاب چاشت کے وقت آجائے اور وہ کھیل میں لگے ہوں؟(آیات97)
عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دشمن بستیاں ویران کردے۔عزت و آبروبربادکردے۔قوم کو اپناغلام بنالے اس وقت بھارتی فوج ہماری سرحدوں پرلیس کھڑی ہے۔بھارتی وزیراعظم صاف کہہ چکاہے کہ وہ پاکستان کوسبق سکھادے گا لیکن ہم اس طرح غفلت میں پڑے ہیں کہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے۔ہمارے کرتا دھرتا کہتے ہیں راجیو نے بطور ایک شریف آدیم مجھے یقین دلایا کہ وہ پاکستان پر حملہ نہین کرے گا۔ان محافظان پاکستان کی غفلت کاتویہ حال ہے کہ پاکستان پربھارتی حملہ ہوجانے کے بعد بھی ان کی غفلت کے پردے دور نہیں ہوں گے۔وہ یہی سمجھیں گے ان کی آنکھیں صحیح نہیں دیکھ رہی۔یہ وقت قوم کا عزم مستحکم کرنے اور اس کے اندر جوش وو ولولہ پیدا کرنے کاہے ۔قوم کو موسیقی کی محفلوں اور کھیل تماشوں میں لگائے رکھنے کانہیں۔ نہ یہ وقت سیمیناروں میں ایسی تقاریر کرانے کاہے کہ آیابھارت سے پاکستان کی دوستی ہوسکتی ہے یا نہیں۔یاپاک بھارت تعلقات کیوں خراب ہیں؟ وغیرہ وغیرہ اس سے قوم میں ذہنی انتشار پھیلے گا اس وقت تو قوم کو دو ٹوک الفاظ میں بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ہمیں اپنی بقاء کے لئے پوری طرح کمربستہ ہو جانا چاہیے۔
بہ ضرب تیشہ بشکن بے ستون را
کہ فرتح اندک و گردوں دو رنگ راست
حکیماں را دریں اندیشہ بگوار
شرر ازتیشہ خیزو یا زسنگ است
ترجمہ:تیشہ کی ضرب سے پہاڑ کو توڑ دے،کیونکہ فرصت کا وقت تھوڑا ہے اورحالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ایسی موشگافیاں فلسفیوں پر چھوڑ دے کر شرارہ تیشے سے نکلتا ہے یا پتھر سے۔
اس وقت پاکستان کو زبردست صاحب عمل شخصیت کی ضرورت ہے جو قوم کو احساس زیاں دے کراس کالہوگرمادے اور اپنی خدادادصلاحیت سے ملک کو موجودہ بحران سے نکال کرنئی سربلندیوں سے ہمکنارکردے۔ ملک کوغداروں ،تخریب کاروں اور دشمن کے ایجنٹوں اورجاسوسوں سے پاک کرنا اپنی صفوں کو مستحکم کرنے ہی کاحصہ بلکہ یہ کام پہلے سرانجام پانا چاہیے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

تقوی:۔
عزت کا معیار تقوی ہے اورتقوی کی پہلی پہچان حق تعالی کی خشیت اور محبت ہے ۔ جس دل میں اللہ تعالی کی خشیت و محبت نہیں وہ تقوی اور ایمان سے خالی ہے۔
تقوی کی دوسری پہچان حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاادب واحترام ہے۔ سورۃ الحجرات میں ارشادہے(ترجمہ)اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ جورسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے سامنے ادب و احترام سے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالی نے تقوی کے لئے جانچ لیاہے ۔ان کے لئے(ان کے گناہوں کی) مغفرت اور(نیکیوں کا)اجر عظیم ہے(آیہ3)
جتنا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاادب اتناہی دل میں تقوی اور جتنا تقوی اتنی اللہ تعالی کے ہاں تکریم،اس کے برعکس جودل حضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ادب سے خالی ہے وہ تقوی سے خالی ہے۔
اورایسے شخص کی اللہ تعالی کے ہاں کوئی عزت نہیں۔پراپیگنڈے پرنہیں جاناچاہیے،شخصیتوں کوخود مندرجہ صدر معیاروں پر پرکھ لیناچاہیے۔اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ شرک معاف نہیں ہوگاباقی جس کاجوگناہ اللہ تعالی چاہیں معاف فرمادیں گے۔اس لئے شرک کے ظاہر اورباطن سے بچناچاہیے اورشرک یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات میں کسی اور کو ان کے برابرسمجھاجائے۔بعض لوگ بغیرسوچے سمجھے ہربات کوشرک بنالیتے ہیں۔شرک ظلم عظیم ہے بغیرسوچے سمجھے یونہی کسی پرشرک کاالزام لگانابھی ظلم ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ حضوراکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی شان میں گستاخی سے سارے اعمال ضا‏ئع ہونے کاخدشہ ہے(49-2)اس سے آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کاپوراادب و احترام ملحوظ رکھناچاہیے۔
بدازبزرگ توئی قصہ مختصر!
اب ہم ان اعمال کاذکرکرتے ہیں جن سے تقوی پیدا ہوتاہے۔یادرہے کہ ایمان تقوی کی شرط اول ہے۔ظاہرہے کہ اللہ تعالی اورجناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پرایمان نہ ہوتوان سے محبت وادب کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔
سورۃ البقرہ میں فرمایااے لوگو! اپنے رب کی عبادت کروجس نے تمہیں اورتم سے پہلے لوگوں کوتخلیق فرمایاتاکہ تمہارے اندرتقوی پیداہو۔(آیہ21)
اگرکوئی شخص چاہتاہے کہ اس کے اندرتقوی پیداہوتواسے چاہیے کہ وہ عبادت کے ذریعہ اللہ تعالی سے اپناتعلق مضبوط کرے اوراللہ تعالی کارنگ اپنائے تاکہ اس کے اندراعلی ذوق پیداہو۔اچھے کام اس کی طبیعت کاجزوبن جائیں،برے خیالات بری باتوں اور برے کاموں سے اسے طبعانفرت ہوجائے۔اسی سورہ میں آگے چل کر فرمایا(ترجمہ)اے وہ لوگوجوایمان لائے ہو تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے کہ تاکہ تمہارے اندرتقوی پیداہو۔(آیہ183)
روزوں کے اس رکوع کے آخر میں پھرفرمایااس طحر اللہ تعالی(روزوں کے بارہ میں) اپنی آیات وضاحت سے بیان فرماتے ہیں تاکہ تمہارے اندرتقوی پیداہو(آیہ187)انسان کے اندرایک تواللہ تعالی کی روح میں سے پھونکی ہوئی روح ہے جوایک نورانی چراغ ہے،دوسری طرف اس کے اندرنفس ہے جوحیوانی جبلتوں کامخزن ہے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 
Top