نون لیگ کے کریڈٹ پر کیا ہے؟ رعایت اللہ فاروقی

فلک شیر

محفلین
لڑی کی ابتداء میں امیر حمزہ صاحب کا ذکر چھڑا اور پھر اس کالم میں میاں صاحب کے نرم و ملائم ہاتھوں کا تذکرہ ہوا تو مجھے حمزہ صاحب کا پرانا کالم یاد آ گیا.
کافی پرانا کالم تھا عنوان بھی یاد نہیں تھا بہرحال ڈھونڈ ہی نکالا آپ احباب بھی لطف اٹھائیں!

"نوازشریف کی بھینس اور دودھ کی لذت"


میاں محمد نوازشریف انتہائی شائستہ اور بہتر اخلاق کی حامل طبیعت کے مالک ہیں، خوبصورت بھی ہیں، سرخ و سفید رنگ کے حامل اور نرم و ملائم بھی ہیں، مجھے ان خوبیوں کا پتہ اس وقت چلا جب ان کے ساتھ ملنے کے اتفاقات ہو گئے۔ لاہور کا پرانا ایئرپورٹ جو انتہائی سادہ ہوا کرتا تھا، دور بھی دہشت گردی سے پاک اور پروٹوکول کے نخروں سے آزاد ہوا کرتا تھا، میاں صاحب اس ایئرپورٹ کے ٹرمینل میں کھڑے تھے، اکیلے ہی تھے، کسی کا انتظار کر رہے تھے، میں نے دیکھا تو آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور خیریت دریافت کی، میں نے دیکھا کہ جس طرح ان کے ہاتھ کی ہتھیلی نرم اور ملائم تھی، اسی طرح مجھ اجنبی کے ساتھ ان کے ملنے کے انداز میں بھی نرمی اور ملائمت تھی۔ دوسری بار ٹیلیفونک ملاقات کا اس وقت اتفاق ہوا جب تحریک حرمت رسولؐ میں ہمارے ساتھی اور دوست رہنے والے خواجہ سعد رفیق نے ڈیوس روڈ کے گرینڈ ہوٹل میں اپنے والد گرامی خواجہ رفیق شہید کی یاد میں جلسہ رکھا، اس چھوٹے سے جلسے یعنی سیمینار میں میر حاصل بزنجو، غلام احمد بلور، کوٹ لکھپت میں قید جاوید ہاشمی کی بیٹی میمونہ ہاشمی اور مسلم لیگ کے قائدین کے درمیان مجھے بھی سعد رفیق نے بٹھا دیا۔

میاں نوازشریف ان دنوں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے لندن پہنچ گئے تھے۔ وہاں انہوں نے ٹیلیفونک خطاب کیا اور تمام مقررین کا نام انتہائی اپنائیت اور محبت سے لیا۔ میرا نام جب انہوں نے لیا تو مجھے پرانا مصافحہ یاد آ گیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے روئی اور ریشم جیسا کوئی ہوائی ہاتھ انہوں نے میرے دل پر رکھ دیا ہو۔ تیسری بار ان سے جو ملاقات ہوئی وہ میاں عباس شریف کی وفات پر تعزیت کا موقع تھا۔ یہ تمام ملاقاتیں محض چند لمحات کے اتفاقات تھے۔ باقاعدہ ملاقات ایک ہی ہوئی، یہ ملاقات جاتی عمرہ میں ان کے ڈرائنگ روم میں ہوئی، مقبوضہ کشمیر کی موجودہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اس وقت میاں صاحب سے مل کر گئی تھیں، چنانچہ کشمیر کے مسئلے پر ایک وفد کے ساتھ میں بھی میاں صاحب سے ان کے ڈرائنگ روم میں ملا۔ قارئین کرام! یہ ساری تمہید میں نے جو بات بتلانے کے لئے باندھی ہے وہ صرف اتنی سی بات ہے کہ جناب میاں صاحب محترم نے ضیافت میں اپنے فارم کی بھینس کے دودھ سے تیار کی ہوئی لَسّی پلائی۔

یہ لَسّی بے حد لذیذ تھی، لَسّی پی کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میاں صاحب کی سرخ و سفید رنگت، نرم طبیعت، اعلیٰ اخلاق اور حسن کلام میں کافی سارا اثر بھینس کے دودھ اور لَسّی کا ہے جب بھینس یوریا کھاد سے پاک چارہ کھائے گی۔ گوبر کھاد سے اگنے والا چارہ کھائے گی۔ آلودگی سے پاک پانی میں نہائے گی اور صاف پانی پیئے گی، زیادہ دودھ لینے کی خاطر لوگ جو ممنوعہ ٹیکہ لگاتے ہیں، وہ ٹیکہ یہاں داخل نہیں ہو سکتا۔ یوں تمام آلودگیوں سے پاک صحت مند دودھ جب میاں صاحب نوش فرمائیں گے، اس دودھ سے بنا دہی کھائیں گے۔ اسی دہی سے بنی ہوئی لَسّی ہونٹوں کو لگائیں گے۔ خالص مکھن اور مکھن سے بنا ہوا دیسی گھی کھائیں گے۔ ان چیزوں سے بنے ہوئے خالص کھانے کھائیں گے تو پہلے سے موجود فطری حسن میں نکھار آئے گا، گفتگو میں شائستگی آئے گی اور اخلاق میں کریمی آئے گی۔ قارئین کرام! میں سوچ یہ رہا ہوں کہ جیسا دودھ اور لسی جناب میاں صاحب کی بھینس دیتی ہے ایسا دودھ، لَسّی، مکھن، گھی اور کھیر، برفی وغیرہ ملک کی ہر دکان سے ملے تو پوری قوم میاں صاحب کی طرح خوبصورت بن جائے۔ اعلیٰ اخلاق کی حامل اور شائستہ بن جائے۔ کیا یہ میاں صاحب کی ذمہ داری نہیں کہ جیسی بھینس ان کے فارم میں ہے پاکستانی قوم کے تمام بچوں کو ایسی بھینسوں کا دودھ میسر ہو؟ قارئین! آپ یقیناًسوچیں گے یہ ناممکن ہے مگر میں کہتا ہوں، بالکل ممکن ہے، کیسے؟ آیئے! عرض کرتا ہوں۔

چند دن قبل فیصل آباد میں ایک جلسے پر گیا۔ جس گھر میں میرا کھانا تھا، وہ دودھ کا کاروبار کرتے ہیں، میں نے ان کے دودھ سے بنی ہوئی سوغاتیں کھائیں، لذت وہی تھی جو میاں صاحب کی بھینس کی تھی، اب میں صاحبِ خانہ سے پوچھنے لگ گیا کہ اس دور میں خالص دودھ کس طرح حاصل کرتے ہو اور کس طرح بیچتے ہو؟ کہنے لگا، دودھ کا کام کرتے 30سال ہو گئے۔ ٹیکے والا دودھ نہیں لیتا، خالص لیتا ہوں، دو مشینیں ساتھ رکھی ہیں، چکنائی اور پانی کی ملاوٹ سامنے آ جاتی ہے۔ دودھ میں انگلی ڈبو کر بھی معلوم کر لیتا ہوں، زبان پر ذائقے سے بھی پتہ چل جاتا ہے، چار دکانیں ہیں جن پر دودھ بیچتا ہوں۔ جیسا لاتا ہوں ویسا ہی بیچتا ہوں، دودھ میں برف بھی نہیں ڈالتا، بڑے ڈرم میں ایک چھوٹا سا ڈرم رکھتا ہوں جس میں برف ڈالتا ہوں اس کی ٹھنڈک سے دودھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس قدر حلال کھانے کی احتیاط کے ساتھ دودھ بیچتا ہوں۔ چاروں دکانوں پر رش لگ جاتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے دودھ بِک جاتا ہے۔ ہم دودھ سے کریم بھی نہیں نکالتے، جی ہاں! اسی رزق حلاق سے اپنا ڈبل سٹوری بڑا مکان بھی ہے۔ ساری نعمتیں موجود ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔

میں نے محکمہ فوڈ یعنی خوراک کی بات کی تو میرے میزبان کہنے لگے، خالص دودھ کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ محکمہ ہے۔ میں بڑا حیران ہوا کہ یہ محکمہ جس کی دسترس میں دودھ دہی کی دکانیں، بیکری کی دکانیں، ہوٹلز، فروٹ اور سبزیاں وغیرہ ہیں، آٹا، گھی، چاول، دالیں وغیرہ ہیں وہ محکمہ ملاوٹ سے پاک اشیاء میں رکاوٹ ہے تو بنے گا کیا؟ میرا میزبان کہنے لگا، محکمہ خوراک کے اہلکار عرصہ دراز تک میرا دودھ بطور سیمپل لے جاتے اور جرمانہ کر دیتے۔ میں جرمانے بھرتا رہا کہ چلو یہ جرمانہ سرکار کے خزانے میں جاتا ہے۔ جب اہلکاروں نے دیکھا کہ مجھ پر جرمانوں کا کوئی اثر نہیں ہوا تو وہ واضح طور پر میرے سامنے آ گئے اور کہنے لگے، اگر جرمانوں سے بچنا چاہتے ہو تو ہماری منتھلی لگاؤ۔ میں نے کہا، یہ وہی دیں گے جو ملاوٹ کرتے ہیں۔ کہنے لگے، تم بھی کرو، پاؤڈر ملاؤ، ٹیکے لگاؤ اور جو کچھ ملا سکتے ہو ملاؤ، ہمیں غرض نہیں، جو گھی تم بیچتے ہو، ہماری طرف سے گریس کو گھی بنا کر بیچو، ہم کلیئر کر دیں گے، ہمیں نہیں دو گے تو ہم تمہارے خالص گھی کو گریس لکھ دیں گے، بتلاؤ! کیا کرو گے، میرا میزبان کہنے لگا، میں اپنے اللہ کے ڈر سے خالص کام کرتا رہا آخر کار یہ لوگ میری جان چھوڑ ہی گئے۔ حق کامیاب ہو گیا اور محکمہ فوڈ کا باطل ناکام ہو گیا۔ میزبان کہنے لگا، ہر آلو چھولے بیچنے والے سے لیکر بڑے ہوٹلوں تک سب لوگ محکمہ فوڈ کو منتھلی دیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ محکمہ نہ ہو تو ممکن ہے عوام کو سوفیصد ملاوٹ کے بجائے ملاوٹ کی اوسط پچاس فیصد ہو جائے مگر محکمہ کی موجودگی میں اسی، نوے فیصد ملاوٹ لازمی ہے۔

محترم میاں محمد نوازشریف صاحب! آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ جس طرح آپ کے فارم کا انچارج دیانتدار ہے، اسی طرح کا ایک دیانتدار آدمی محکمہ فوڈ میں لانا ہے۔ اگر ملک بھر میں کوئی بندہ نہ مل سکے تو میرا میزبان حاضر ہے۔ اس جیسے اور بھی کئی لوگ مل جائیں گے، محکمہ فوڈ میں ہی مل جائیں گے۔ ایسے کسی ایک بندے کو 22واں گریڈ دے کر محکمہ فوڈ کا سیکرٹری بنا دیں۔ اس کو فری ہینڈ دے دیں، مداخلت کاروں کا راستہ روک دیں، سارے ملک کی بھینسوں کا دودھ لذیذ بن جائے گا۔ جس طرح آپ کی رنگت سرخ و سپید ہے، پوری قوم کی رنگت ایسی ہو جائے گی، ہاتھ ملائم ہو جائیں گے، حسن نکھر جائے گا۔ اخلاق بھی خالص دودھ جیسے ہو جائیں گے۔ جیسے آپ ہیں ویسے ہی قوم کے لوگ ہو جائیں گے۔ قومی صحت بہتر ہو جائے گی۔ ہسپتالوں کا رش کم ہو جائے گا۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر آپ کی سٹیٹ الگ ہے۔ ہماری سٹیٹ الگ ہے۔ دنیا چند دن کی زندگانی ہے، باقی باتیں اللہ کے سامنے ہوں گی۔ (ان شاء اللہ)
کالم ھذا میں میاں نواز شریف صاحب کی تعریف کی گئی ہے؟
یعنی خوشامد وغیرہ؟
 

محمداحمد

لائبریرین
حالانکہ یہ نواز کا فرض تھا ۔ درخواست نہیں یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہاہاہاہا۔۔۔!

اتنے تو فرض شناس ہیں نا یہ پاکستانی حکمران کہ بس یاد دہانی کافی ہو۔

یہاں تو لوگ سڑکوں پر سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں اور ان لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جانے بھی دیجیے اب اس قوم کے مسائل عمران خان اور آصف علی زرداری حل کریں گے نا

میری رائے میں نئی حکومت کے کرنے کا اصل کام:
  • ماحول دوست بجلی کے پلانٹ لگانا یعنی (پانی ، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنا)
  • چھوٹے بڑے ڈیم بنانا تا کہ پانی کی کمی پر قابو پایا جا سکے اور پانی سے بجلی بنائی جا سکے جو سستی بھی ہوگی اور ماحول دوست بھی
  • کثیر پیمانے پر شجر کاری کرنا تا کہ ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ مسائل سے بچایا جا سکے
  • نئے صوبے بنائے جائیں
  • مقامی حکومتوں (لوکل گورنمنٹ) کے نظام کو تشکیل دینا
عوام کو عزت دو۔ کام کر کے دکھاو نہ کہ سوشل پروپگنڈا سے دل بہلاو
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
میری رائے میں نئی حکومت کے کرنے کا اصل کام:

  • ماحول دوست بجلی کے پلانٹ لگانا یعنی (پانی ، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنا)
  • چھوٹے بڑے ڈیم بنانا تا کہ پانی کی کمی پر قابو پایا جا سکے اور پانی سے بجلی بنائی جا سکے جو سستی بھی ہوگی اور ماحول دوست بھی
  • کثیر پیمانے پر شجر کاری کرنا تا کہ ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ مسائل سے بچایا جا سکے
  • نئے صوبے بنائے جائیں
  • مقامی حکومتوں (لوکل گورنمنٹ) کے نظام کو تشکیل دینا
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
میری رائے میں نئی حکومت کے کرنے کا اصل کام:

  • ماحول دوست بجلی کے پلانٹ لگانا یعنی (پانی ، شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنا)
  • چھوٹے بڑے ڈیم بنانا تا کہ پانی کی کمی پر قابو پایا جا سکے اور پانی سے بجلی بنائی جا سکے جو سستی بھی ہوگی اور ماحول دوست بھی
  • کثیر پیمانے پر شجر کاری کرنا تا کہ ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ مسائل سے بچایا جا سکے
  • نئے صوبے بنائے جائیں
  • مقامی حکومتوں (لوکل گورنمنٹ) کے نظام کو تشکیل دینا
یہ بات انہیں بتائے گا کون؟
 

الف نظامی

لائبریرین
امید ہے کہ وہ ڈکٹیشن بھی انہی سے لیں گے جنہوں نے ان کے کیس معاف کروائیں ہیں۔ :)
جج ارشد ملک (مرحوم) کی احتساب عدالت کا چھوٹا سا کمرہ کھچا کھچ بھرا تھا۔ میں پہلی صف میں’’مرکزی ملزم‘‘، سابق وزیراعظم نوازشریف کے دائیں ہاتھ بیٹھا تھا۔ وہ عدالتی کارروائی سے لاتعلق کسی گہری سوچ میں ڈوبے تھے۔ اچانک میری طرف رُخ کرکے بولے۔ ’’کاغذ قلم ہے آپ کے پاس؟‘‘ میں ہمیشہ ان دونوں ’’ہتھیاروں‘‘ سے مسلح رہتا ہوں۔ جیب سے مڑا تڑا سا کاغذ نکالااور قلم اُنہیں پکڑا دیا۔ میاں صاحب نے کاغذ دائیں زانو پر رکھا اور لکھا ’’دُکھ درد کے ہاتھوں لُٹ کر بھی اِس دل نے تجھی کو یاد کیا۔‘‘ وہ کاغذ آج بھی میرے پاس ہے۔ بلاشبہ سنگین آزمائشوں کے طویل عہدِ ابتلا میں میاں صاحب نے ہمیشہ اپنے اللہ کو یاد رکھا اور اُسی سے مدد چاہی۔

فرد جرم عائد ہوگئی تو طے پایا کہ میاں صاحب اپنا جواب اردو میں دیں گے۔ رائیونڈ کی نشست میں خواجہ حارث اور اُن کے رفقا کی موجودگی میں یہ بیان تیار ہوا۔ خواجہ صاحب نے قانونی نکات کی بخیہ گری کی۔ میں اُس دن بھی عدالت میں موجود تھا جب میاں صاحب نے یہ بیان پڑھا۔ اس کی ایک کاپی پہلے ہی جج ارشد ملک کو فراہم کی جاچکی تھی۔ نوازشریف بیان پڑھ رہے تھے اور جج ارشد ملک ساتھ ساتھ سامنے رکھے متن کو دیکھ رہے تھے۔ میاں صاحب آخری پیرا گراف پہ پہنچے اور بولے __ ’’میں اپنا بیان ختم کرتے ہوئے، اپنے ایمان، ضمیر اور یقین کی بنیاد پر دو ٹوک الفاظ میں اِس ریفرنس کے تمام الزامات کی تردید کرتا ہوں۔ قانون اور انصاف کے ترازو میں اس ریفرنس کا کوئی وزن نہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ معزز عدالت سارے معاملے کا ایک سچے، کھرے اور فرض شناس مُنصف کے طور پر جائزہ لے گی...‘‘ نوازشریف یہاں تک پہنچے تھے کہ جج صاحب نے جھُرجھُری سی لی اور بولے __ ’’بس بس بس۔ آگے نہ پڑھیں‘‘ میاں صاحب نے کاغذ سے نگاہ اٹھا کر لمحہ بھر کے لئے جج کو دیکھا اور انکی ہدایت کو نظرانداز کرتے ہوئے بیان کے آخری جملے پڑھنے لگے۔ ’’آج میں آپ کی عدالت میں کھڑا ہوں۔ کل ہم سب کو اللہ کی عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے۔ وہ عدالت کسی جے۔آئی۔ٹی، کسی ریفرنس، کسی استغاثہ اور کسی گواہ کی محتاج نہیں ہوتی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو سرخرو فرمائے۔‘‘
عدالت کوئی فیکٹری ہے؟ از عرفان صدیقی
عوام کس کھاتے میں ہیں۔
اپنے کسی ایک قومی یا علاقائی مسئلے کو لے کر روزانہ اللہ تعالی سے یہ دعا مانگنے کی توفیق مل جائے کہ:
یا اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اس حکمران کو یہ مسئلہ حل کرنے کی توفیق عطا فرما دیجیے۔ آمین

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ‎﴿٢٨٦﴾‏
 

الف نظامی

لائبریرین
امید ہے کہ وہ ڈکٹیشن بھی انہی سے لیں گے جنہوں نے ان کے کیس معاف کروائیں ہیں۔ :)
ڈکٹیشن کے بارے میں چند باتیں:

دیکھیں صدیقی صاحب! یہ حال ہے وزیراعظم کا جو آئین کے تحت ملک کا چیف ایگزیکٹو ہے لیکن مرضی کی کابینہ بھی نہیں بناسکتا۔ ایک خبر جو نہ جانے کہاں سے آئی ،حکومت کے خلاف چارج شیٹ بنادی گئی ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ وزارتِ عظمیٰ ایک طرح کی نوکری بن کر رہ گئی ہے۔ سرجھکا کر ہر جائزناجائز مانتے رہو تو ٹھیک ورنہ وزیراعظم کو کٹہرے میں کھڑا کردیاجاتا ہے۔
-
ڈاکٹر صاحب کو پیشکش کی گئی ہم آپ کو سامنے لے آتے ہیں اقتدار پر لیکن کچھ شرائط کے ساتھ کہ کیبنٹ میں آدھے وزیر ہماری مرضی کے ہوں گے جس میں لال حویلی والے سمیت کئی اور ہوں گے، گجراتیوں سے اتحاد لازمی رکھنا ہو گا، خارجہ اور دفاعی امور میں دخل اندازی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، اورنظام یہی رہے گا۔۔۔۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس کمپرومائزڈ اقتدار پر معذرت کر لی اور کہا کہ میرا ایجنڈا نظام کی تبدیلی ہے، میں انتظار کر لوں گا، تب تک جب ملک کی مقتدر قوتوں اور عوام کو اس نظام کی خرابیوں کا مکمل شعور نہ آ جائے۔۔۔ یہ ملاقات ناکام ہو گئی

متعلقہ:
ڈان لیکس، توسیع کا شیش ناگ اور مریم کے آنسو
ڈان لیکس، دو اعلامیے اور ملاقات جنرل باجوہ سے
ڈان لیکس اور آرمی ہاؤس کی وہ آتشیں شام!
ڈان لیکس‘ نواز باجوہ ملاقات اور"متروکہ املاک"
ڈان لیکس: حیرت کدے کا آخری منظر
 
آخری تدوین:
Top