محمد وارث
لائبریرین
آج شام تھکا ماندہ گھر پہنچا تو اپنی میز پر ایک لفافہ پڑا دیکھ کر بجھی ہوئی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی کہ ضرور کسی مہربان کا محبت نامہ ہے، لفافہ کھولا تو نوید صادق صاحب کا ارسال کردہ سہ ماہی 'کاروان' تھا، تھکاوٹ کا احساس کچھ کم ہوا۔ مجلے کا پہلا صفحہ کھولا تو دل و دماغ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور تھکاوٹ چھوڑ میں بجلی کا وہ بِل بھی بھول گیا جو لفافے کے ساتھ ہی میز پر دھرا تھا۔
اور اس خوشی کی وجہ یہ تھی کہ پہلے صفحے پر مدیر کے طور پر اپنے نوید صادق صاحب کا نام جگمگا رہا تھا۔ نوید صادق صاحب بھی ایک عجیب قسم کے شریف آدمی ہیں کہ خود نمائی اور خود ستائش تو جیسے انکے خمیر میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہی نہیں بلکہ انکی جگہ عجز اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔ آپ انتہائی اچھے شاعر ہیں جیسا کہ محفل پر سبھی جانتے ہیں، اعلیٰ پائے کے تنقید نگار ہیں اور خوبصورت تحقیقی اور تنقیدی مضامین لکھتے ہیں، ملک کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ انکی صحبت ہے لیکن مجال ہے کہ جو اپنے بارے میں ذرا بھی منہ کھولیں وگرنہ یہاں تو ہر روش پر بیٹھے زاغ یہی راگ دن رات الاپتے رہتے ہیں کہ وہی شاہِ جہاں ہیں!
"کارواں" کے بانی مشہور شاعر سید آل احمد تھے اور اسکا اجراء 1946ء میں ہوا جیسا کہ اپنے اداریہ میں نوید صادق صاحب نے لکھا، آپ نے اس مجلے میں چھپنے والے مشہور اُدبا و شعراء کی فہرست بھی دی ہے لیکن پھر ستر کی دہائی میں یہ ایک سیاسی ہفتہ وار بن گیا۔ لیکن الحمدللہ کہ اب پھر اسکی ادبی حیثیت بحال ہوئی اور اس کام کا بیڑا نوید صاحب نے اٹھایا ہے جیسے کہ وہ لکھتے ہیں:
"1999ء میں سید آلِ احمد کی وفات کے بعد 'کارواں' کی اشاعت کی ذمہ داری انکے اہلِ خانہ پر آ پڑی۔ نامساعد حالات کے باوجود بڑی مستقل مزاجی سے وہ اس کارواں کو آگے بڑھاتے رہے۔
2009ء کے آغاز میں بیگم سید آلِ احمد نے 'کارواں' کی ادبی حیثیت کی بحالی کا عندیہ ظاہر کیا تو راقم السطور نے سید آلِ احمد سے تلمذ اور دلی وابستگی کے باعث اسکی تنظیمِ نو کا بیڑا اٹھا لیا۔"
اسی (80) صفحات کا یہ شمارہ اپریل، مئی اور جون 2009ء کا شمارہ ہے جس میں مضامین، غزلیں، نظمیں اور افسانے شامل ہیں، ابھی اسے جستہ جستہ دیکھا ہے اور محمد یعقوب آسی صاحب کا مضمون "برگِ آوارہ کی تمثیل" اور خالد احمد کی غزل بہت پسند آئے ہیں۔
قارئین کیلیے تبرک کے طور پر اس شمارے کے سرورق اور پہلے صفحے کے عکس پیشِ خدمت ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نوید صادق صاحب کو اس اہم کام کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں۔
اور اس خوشی کی وجہ یہ تھی کہ پہلے صفحے پر مدیر کے طور پر اپنے نوید صادق صاحب کا نام جگمگا رہا تھا۔ نوید صادق صاحب بھی ایک عجیب قسم کے شریف آدمی ہیں کہ خود نمائی اور خود ستائش تو جیسے انکے خمیر میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہی نہیں بلکہ انکی جگہ عجز اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔ آپ انتہائی اچھے شاعر ہیں جیسا کہ محفل پر سبھی جانتے ہیں، اعلیٰ پائے کے تنقید نگار ہیں اور خوبصورت تحقیقی اور تنقیدی مضامین لکھتے ہیں، ملک کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ انکی صحبت ہے لیکن مجال ہے کہ جو اپنے بارے میں ذرا بھی منہ کھولیں وگرنہ یہاں تو ہر روش پر بیٹھے زاغ یہی راگ دن رات الاپتے رہتے ہیں کہ وہی شاہِ جہاں ہیں!
"کارواں" کے بانی مشہور شاعر سید آل احمد تھے اور اسکا اجراء 1946ء میں ہوا جیسا کہ اپنے اداریہ میں نوید صادق صاحب نے لکھا، آپ نے اس مجلے میں چھپنے والے مشہور اُدبا و شعراء کی فہرست بھی دی ہے لیکن پھر ستر کی دہائی میں یہ ایک سیاسی ہفتہ وار بن گیا۔ لیکن الحمدللہ کہ اب پھر اسکی ادبی حیثیت بحال ہوئی اور اس کام کا بیڑا نوید صاحب نے اٹھایا ہے جیسے کہ وہ لکھتے ہیں:
"1999ء میں سید آلِ احمد کی وفات کے بعد 'کارواں' کی اشاعت کی ذمہ داری انکے اہلِ خانہ پر آ پڑی۔ نامساعد حالات کے باوجود بڑی مستقل مزاجی سے وہ اس کارواں کو آگے بڑھاتے رہے۔
2009ء کے آغاز میں بیگم سید آلِ احمد نے 'کارواں' کی ادبی حیثیت کی بحالی کا عندیہ ظاہر کیا تو راقم السطور نے سید آلِ احمد سے تلمذ اور دلی وابستگی کے باعث اسکی تنظیمِ نو کا بیڑا اٹھا لیا۔"
اسی (80) صفحات کا یہ شمارہ اپریل، مئی اور جون 2009ء کا شمارہ ہے جس میں مضامین، غزلیں، نظمیں اور افسانے شامل ہیں، ابھی اسے جستہ جستہ دیکھا ہے اور محمد یعقوب آسی صاحب کا مضمون "برگِ آوارہ کی تمثیل" اور خالد احمد کی غزل بہت پسند آئے ہیں۔
قارئین کیلیے تبرک کے طور پر اس شمارے کے سرورق اور پہلے صفحے کے عکس پیشِ خدمت ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نوید صادق صاحب کو اس اہم کام کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں۔