ریحان ، اگر کیبورڈ میں ء نہیں ہوگا تو ان شاء اللّٰہ ، ماشاء اللّٰہ ، ذکاء الرحمٰن ، علاء الدین کی طرح کے الفاظ کس طرح لکھے جائیں گے؟
ظہیر بھائی ان شااللّٰہ، ماشااللّٰہ بغیر ہمزہ کے لکھے جا سکتے ہیں۔ اردو میں ہمزہ کا کوئی وجود ہی نہیں اس لیے مفرد ہمزہ لکھنے نہ لکھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
ؤ اردو میں نیم مصوتے /w/ کو ظاہر کرتا ہے، اس لیے اردو تلفظ کے مطابق علاؤالدین اور ذکاؤالرحمان لکھا جانا چاہیے۔ ؤ میں و پر ی ہے ہمزہ نہیں جو کہ اس کے نیم مصوتہ ہونے کی علامت سمجھی جا سکتی ہے۔ اؤ یہاں پر /aw/ کو ظاہر کرتا ہے جو کہ ایک (diphthong) یعنی دوہرا مصوتہ ہے ہے۔
اسی طرح کچھ اور الفاظ کی املا کی بابت بالائی ہمزہ کے تناظر میں (جو کہ میرے نزدیک بالائی ی ہے) چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
ئ اور ی دونوں نیم مصوتے /j/ کو ظاہر کرتے ہیں، یہ آواز جب لفط کے شروع میں آئے تو حرفِصحیح کی حیثیت رکھتی ہے ورنہ نیم مصوتہ ہوتی ہے۔ یہ غلط فہمی ہے کہ ئ کے اوپر ہمزہ ہے، دراصل ی کے اوپر ی ہی ہے جو کہ نیم مصوتے کی علامت ہے۔
آیا، آئے میں ی اور ئ اسی نیم مصوتے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں فرق کچھ نہیں ہے۔صرف اگر ماقبل حرف ساکن یا مفتوح ہو تو ئ لکھ دیا جاتا ہے مثلاً دھوئے۔ لیکن اگر اگلا حرف الف ہو تو پھر ی کر دیا جاتا ہے جیسے دھویا۔ آواز ہر دو صورت میں ایک ہی ہے۔
املا کمیٹی کا دعویٰ کے ان الفاظ میں ی کا شائبہ تک نہیں مضحکہ خیز ہے۔ آ اے اور جا ای کوئی نہیں بولتا۔
املا کمیٹی والے جسے الفاظ کے درمیان حرفِ صحیح ی سمجھ رہے ہیں وہ دراصل ژ ہے، فارسی میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آزمایش کو لگ بھگ آزماژش ہی بولا جاتا ہے، یش بولنے کے لیے آزما کے بعد وقف کرنا ضروری ہے۔ ی کی بین اللفظ حیثیت صرف نیم مصوتے کی ہو سکتی ہے، اسے ژ سے کنفیوز نہیں کرنا چاہیے۔
پس ثابت ہوا کہ ی اور ئ کا فرق مصنوعی ہے، اس کا صرف ایک فائدہ ہے کہ گئے اور لیے میں فرق واضح ہو جاتا ہے بغیر پچھلے حرف پر فتحہ ڈالے مثلاً گئے اور لیے کا فرق واضح ہو جاتا ہے لیکن اس میں فرق ماقبل حرف کی حرکت کا ہے ی اور ئ کا نہیں۔
یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ماہرینِ لسانیات جدید انگریزی transcriptions میں price کے diphthong کو /ɑj/ سے ظاہر کرتے ہیں۔ اسی قبیل کے دوہرے مصوتے /a:j/، /əj/ یا پھر /ɐj/ اردو میں واقع ہوتے ہیں۔ دوہرے مصوتے کی جگہ ڈیڑھ مصوتے کی اصطلاح حقیقت کے زیادہ قریب ہے کیونکہ دوہرا مصوتہ دراصل ایک مصوتے اور ایک نیم مصوتے پر مشتمل ہوتا ہے۔
مرکباتِ اضافی میں شوخیِ تحریر کو شوخئ تحریر لکھنے کی کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ شوخیِ کی درست ٹرینسکرپشن /:ʃo:xije/ بنتی ہے اور اس لیے اسے شوخیِ لکھنا ہی درست ہے، یہاں شوخئ کا استعمال میرے نزدیک درست نہیں، اچانک ئ سے قبل حرف کو مکسور ہونے کی اجازت کیونکر مل گئی؟ ی پر کسرہ اس بات کا عندیہ دے دیتا ہے کہ یہاں ی طویل مصوتہ /:i/ نہیں بلکہ نیم مصوتہ /j/ ہے اور ساتھ ساتھ تلفظ میں طویل مصوتے ے کا اضافہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے یعنی اسے شوخیے پڑھا جانا چاہیے۔
ہائے مختفی پر ختم ہونے والے الفاظ پر اضافت ظاہر کرنے کے لیے ۂ کا استعمال کیا جاتا ہے، ہ پر بالائی ی کی مدد سےنیم مصوتے /j/ یعنی ی کی نشاندہی کی جاتی ہے مثلاً تختۂ /:təxtəje/۔
مختصر یہ کہ ؤ اردو میں /w/ کی علامت ہے جو کہ انگریزی w اور عربی کا اصل و ہے اور اردو کے
وسے منفرد ہے۔ؤ پر ی اس کے نیم مصوتہ ہونے کی علامت ہے۔
ؤ ضمہ کا
semivocalic equivalent یعنی نیم مصوتی معادل ہے۔ یہ جاؤ، کھاؤ، رؤف، ضیاؤالرحمان جیسے الفاظ میں واقع ہوتا ہے۔ یہی نیم مصوتہ جیؤ، پیؤ جیسے الفاظ میں واقع ہوتا ہے اور اسے راجیو جیسے الفاظ سے ممتاز کیا جانا چاہیے کہ ان میں اردو و ہے۔
ی اور ئ دونوں ہی نیم مصوتے /j/ کو ظاہر کرنے کے کام آتے ہیں، ئ تب استعمال ہوتا ہے جب ماقبل حرفِ صحیح کو مفتوح ظاہر کرنا ہو ورنہ ی لکھا جاتا ہے۔ اگر ما قبل حرف مصوتہ ہو تو عموماً ئ لکھا جاتا ہے مثلاً دھوئے، جائے وغیرہ مگر اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ ہمزہ کا اس سارے قصے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے، جسے بالائی ہمزہ کہا جاتا ہے وہ بالائی ی یعنی نیم مصوتے کی علامت ٔ ہے۔
ہمزہ عربی میں ایک باقاعدہ آواز ہے جس کا اردو میں کوئی وجود نہیں ۔ اس کے اردو میں استعمال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔