ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ریحان بھائی ، انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ گفتگو کا رخ اب بحث برائے بحث کی طرف مڑگیا ہے ۔ میں اس گفتگو کو یہیں ختم کرنا چاہتا ہوں یہ کہتے ہوئے کہ اس ساری بحث میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اردو کا رسم الخط اور املا کسی عالم ، ماہر یا کسی کمیٹی نے نہیں بنائے ۔ یہ تو خودبخود لاکھوں کروڑوں لوگوں کے برس ہا برس استعمال سے وجود میں آگیا اور اس کا رواج پڑ گیا ۔ اردو زبان نے چونکہ کئی مختلف علاقوں میں ایک طویل دورانیے میں تشکیل پائی ہے اس لئے گرامر ، تلفظ اور املا میں بہت سارے اختلافات در آئے ۔ املا کمیٹی ( اور اس سے پہلے مولوی عبدالحق ، عبد الستار صدیقی وغیرہم ) نے تو املا کے اختلافات کو ختم کرنے اور اسے ایک معیاری شکل دینے کے لئے اصلاحات تجویز کی ہیں ۔ اردو حروف تہجی انہوں نے ایجاد نہیں کئے ۔ یہ تو ایک تاریخی عمل اور لسانی ارتقا کا نتیجہ ہیں ۔ اگر آپ کوئی لفظ ہمزہ سے نہیں لکھنا چاہتے تو مت لکھئے ۔ کوئی آپ کا قلم نہیں روکے گا ۔ اگر میں اپنا نام ظہیر احمد کے بجائے زحیر اہمد لکھوں تو مجھے بھی کوئی نہیں روکے گا ۔ لیکن ان سب باتوں کا نتیجہ کیا ہے ؟!یعنی ایک حرفِ صحیح (جس کا اردو میں وجود نہیں) اردو رسم الخط میں صرف اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ اگلے الف کا مضموم ہونا ظاہر کرے؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ایسا کوئی انتظام دیگر حروف کے لیے بھی ہوتا تا کہ ان کی حرکات بھی معلوم ہو جاتیں۔
کیا یکُم کو یءکم لکھا جا سکتا ہے؟ ء یہاں یہ بتا رہا ہے کہ اگلا ک مضموم ہے۔
بہرحال اصل تلفظ احیاءالعلوم کا اردو میں احیاؤالعلوم ہی ہے، نیم مصوتے و کے ساتھ۔ لکھا جیسے بھی جائے۔
پھر وہی بات کہوں گا کہ کاش زبان کے اصول میرے اور آپ کے بنانے سے بن سکتے یا بدل سکتے ۔ زبان کی گرامر ، املا ، لغت یہ تو سب خود بخود بن چکے ۔ اب بات صرف ان میں موجود اختلافات کو ختم کرنے اور ایک معیاری املا ، معیاری لغت اور معیاری تلفظ کو رواج دینے کی ہے ۔
ریحان بھائی ، اچھی گفتگو رہی ۔ ان شاءاللّٰہ پھر کبھی مزید بات چیت رہے گی ۔ فی الحال ایک نظم پوسٹ کرنے کا ارادہ ہورہا ہے ۔ اس پر آپ کی رائے کا انتظار رہے گا ۔