صفحہ نمبر 76 سے صفحہ نمبر 83
--------------------------
-------
صفحہ 76
-------
باہر بٹھلایا۔ اگرچہ شکل فقیر کی شباہت قدیم سے البتہ تجاوز کر گئی تھی لیکن ملکہ نے باوصف اُس کے کہ میرے تئیں ایک مدت بیچ مصاحبت اپنی کے ممتاز رکھا تھا، ازروئے اغماض کے دیدہ و دانستہ خواجہ سرا سے استفسار احوال میرے کا کیا۔ اُس پاک طینت نے عرض کیا کہ یہ وہی گنہگار ہے کہ مورد عتاب ملکہ کا ہوا تھا، اُسی ساعت سے اس فلک زدہ کی یہ نوبت ہے کہ جہاں کہیں آتش عشق اُس کے کی بہار اشتعال سے گُل کرتی ہے ، شعلہ عرق انفعال کا اوپر چہرے کے کھینچتا ہے اور جس جگہ کہ سیلاب اشک اس کے کا طوفان ریزش کا لاتا ہے، دریا حرف خجالت کا اوپر صفحہ خاطر کے لکھتا ہے، ملکہ نے ازراہ تمسخر کے خواجہ سرا سے کہا کہ استغفراللہ قریب یک ماہ کے ہوتا ہے کہ اُس شخص کے روانہ ہونے کی خبر وطن مالوف کوں میرے تئیں مُخبران صادق سے پہنچی ہے، خدا جانے کہ یہ کون شخص ہے اور کس کا ذکر ہے، اُس وقت خواجہ سرا انے جبیں نیاز کی اوپر زمین ادب کے گھس کر عرض کیا کہ اگر گستاخی معاف ہو تو التماس کروں فرمایا کہ کہو۔ کہا کہ ؎
جب مسیحا دشمن جاں ہو، تو کب ہو زندگی
کون رہ بتلا سکے، جب خضر بھٹکانے لگے
اے مہر سپہر قدردانی از برائے خدا نقاب حجاب کا درمیان سے اُٹھا دے اور اوپر بیکسی اس بیکس کے نظر ترحم کی فرما کے حرف ناحق شناسی کا لوح دل سے دھو ڈال کہ اجر اس مہر و رزی و دلنوازی کا ضائع نہیں ہوگا، آگے جو کچھ مرضئ مبارک میں ہو عمل میں لائیے۔ ملکہ نے متبسم ہو کے کہا کہ خوب ، بالفعل اس کے تئیں بیچ دارالشفاکے بھیج کے فکر صحت کا کر۔ بعد ازاں استفسار احوال کا بھی ہووے گا۔ عرض کیا کہ جان قربان، جب تلک اُس کے اوپر گلاب پاشی دست مبارک کی نہ ہو گی، تب تک طپش درونی، اُس کی مُنطفی نہیں ہونے کی۔
ملکہ اس بات کو سن کر خاموش ہو گئی۔ پھر خواجہ سرا نے لاچار ہو کے گزارش کیا کہ تکلف برطرف:
کم بولنا بھلا ہے ہر چند پر نہ اتنا
مُند جائے چشم عاشق، تو بھی تو لب نہ کھولے
-------
صفحہ 77
-------
اندازہ سے زیادہ خموشی بعید شرط اہلیت کی سے ہے۔ اُس نیک بخت نے اس پر بھی اصلا زبان کے تئیں جواب سے آشنا نہ کیا۔ اُس وقت فقیر کہ اپنی زندگی سے عاجز تھا، از بس سوزش سینہ اور سوختگی دل سے یہ دو شعر بے اختیار پڑھ اُٹھا ؎
اس درد دل سے موت ہو یا دل کو تاب ہو
قسمت کا جو لکھا ہے الٰہی شتاب ہو
اس کشمکش کے دام سے کیا کام تھا ہمیں
اے الفت چمن ترا خانہ خراب ہو
تب ملکہ نے خدا ترسی سے نظر ترحم کی فرما کے باریابان بساط قربت کے تئیں حکم کیا کہ معالجان حاذق کے تئیں حاضر کرو۔ انھوں نیں آتے ہی تشخیص مرض کی کر کے شربت دیدار بتلایا اور واسطے رفع نقاہت و ضعف دل کے یہ مفرّح دلکشا کہ آگے اطبّاء حکمت اساس و حکماء مزاج شناس نیں ازروئے قانون عقل کے تالیف کر کے خستہ دلان بیمارستان شوق کے تئیں تناول اس کا ترغیب فرمایا ہے، تجویز کی نسخہ:
سنبل الطیب گیسو پرسیاؤشان ابرو بادام چشم مرزنگوش گوش
گل سرخ رخسارہ عنبراشہب خال مشک سیاہ کاکل ابریشم مقرض زلف
یاقوت لب مروارید دنداں پستہ دہن سیب ذقن
ورق نقرہ بدن پشم سفید سینہ حجرالیہود دل مرجان پنجہ
فندق سرانگشتاں سقنقور ساق
ان اجزا کے تئیں دوکان رستہ بازار حُسن کے سے تفحّص کر کے بعد ترتیب کے تھوڑا عرق بیدمشک رخسارہ کا اور قدرے شکر خندہ اضافہ کرے اور آتش نرم جوشی سے آہستہ آہستہ پختہ کر کے بقدر دسترس مداومت کرے تو ان شاءاللہ تعالیٰ جلد شفائے کامل حاصل ہو۔
بارے نازنیں نے پنجہ التماس حکماء حاذق الزماں کا ساتھ حنائے اجابت کے رنگیں کیا۔ یہ بیمار عشق کا بہ توجہات دلی اس شفا بخش کے ایک ہفتہ کے عرصہ میں استعمال اُس
-------
صفحہ 78
-------
یاقوتی روح افزا کے سے افاقت میں آیا۔ بعدازاں نازنین نے کار پرداز ان حضور کے تئیں ارشاد کیا کہ اس جوان کے تئیں بعد فراغت حمام کے تبدیل پوشاک خاصہ کا کر کے لے آؤ۔ چنانچہ عاجز موافق حکم کے لباس فاخرہ زیب قامت کا کر کے بیچ خدمت ملکہ کی حاضر ہوا۔ اُس وقت نازنین پری چہرہ نے نہایت تپاک سے متوجہ ہو کے فرمایا کہ کمبخت شعلہ عشق تیرے کا دامن عصمت میرے کے تئیں آتش رسوائی سے ملوّث تو کر چکا، پھر اب کیا کہتا ہے جو کچھ مرکوز خاطر تیرا ہو صاٍف صاف اظہار کر۔ تب تو بندہ دوگانہ شکرانہ کا بیچ درگاہ حضرت کارساز حقیقی کے بجا لا کے از بس خوش وقتی سے بیچ پیرہن کے نہ سمایا اور حالت بشاشت میں نقد جان کے عزیز کے تئیں تصدق فرق مبارک اُس کے کر کے، یہ شعر زبان پر لایا ؎
فرد
آج سب مل کے کہو لوگ مبارک مجھ کو
شکر للہ مرا یار مہربان ہوا
اور بیچ خدمت اُس خورشید طلعت کی عرض کیا کہ تقصیر معاف بیچ حوصلہ اس رنج و مشقت کے امیدوار تفضّلات دلربایانہ کا ہوں کہ اس جاں نثار کے تئیں بیچ شرف مناکحت اپنی کے سرفراز کیجیے۔ آخرش گھڑی دو ایک الخاموشی نیم رضا کی ٹھہری۔ بعدازاں اس گلعذار نے عارض عرض میری کے تئیں ساتھ گلگونہ قبولیت رونق بخشی اور جس وقت کہ نوجوان شاہد بادلہ پوش ماہتاب کا ساتھ عروس زرّیں لباس مشتری کے قر ان السعدین تھا، قاضی قضا کے نیں بہ حکم زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ کے عقد ازدواج کی منعقد کی الحمدللہ والمنتہ کہ آرزوئے دیرینہ بر آئی اور نقش مراد کا اوپر کرسی حصول مدعا کے بیٹھا:
فرد
صندلی رنگ نیں بوسہ نہ دیا تھا سو دیا
درد سر کا مرے درماں نہ ہوا تھا سو ہوا
لیکن جس طرح نقش آرزوئے مناکحت ملکہ کا اوپر خاتم دل میرے کے منقش تھا، اُسی
-------
صفحہ 79
-------
طرح سے دریافت کرنا معنی اس مضمون کا بھی، عین تمنائے خاطر تھا کہ دراصل وہ نازنیں روشن چراغ کس شبستان کی ہے اور حبشی سبزہ رنگ نیں مبلغ خطیر کس وجہ سے بہ مجرّد ملاحظہ، ایک پرچہ کاغذ کے حوالے میرے کیے اور سامان ضیافت کا اس تکلف سے ایک پہر کے عرصہ میں کیوں کر ہوا اور بیچ قتل ہونے اُن دونوں مقتول کے کیا سرّ تھا، اور باعث خفگی مزاج مبارک کا اس عاجز کی طرف سے کس واسطے ہوا۔ چنانچہ فقیر بعد رسم مناکحت کے ایک ہفتہ تک تکلفات عرفی سے متعذّر رہا۔ آخرش ملکہ اس واردات سے متحیر ہوئی بلکہ ایک گونہ سوئے مزاج ہو کے فرمایا کہ یا بہ آں شور ا شوری و یابہ ایں بے نمکی! اس کو کیا کہتے ہیں۔ بندہ نے اُس وقت بلا تصنع ظاہر کیا کہ صاحبہ عالم سلامت، اگر صحیح جانیے تو منصفی سے نہ گزریے۔ کہا، معلوم ہو کہ کس بات کا انصاف چاہتا ہے۔ عرض کیا کہ اشتیاق میرا بیچ استحصال نعمت غیر مترقب مواصلت تیری کے مسلم، لیکن جس بشر کے تئیں استقلال طبیعت کا درست نہیں اس کو انسان نہ کہا چاہیے۔ کہا کیوں کر، عرض کیا کہ عاجز نے اپنے دل میں اقرار کیا تھا کہ بعد مراسم مہرورزی صاحبہ زمانہ کے بعد عقدہ مشکل کے کہ استکشاف اُس کا بے توجہ عالیہ کے نہیں ہو سکتا جب تک بیان دُر بیان سے بیچ خاطر میری کے حل نہیں ہونے کے، بیچ کسی امر کے اقدام نہ کروں اور سچ بھی ہے کہ اگر شمع زبان بشر کی بیچ شبستان دل اپنے کے فانوس صدق مقال میں جلوہ پرداز نہ ہو تو اور کسی کے تئیں عکس فیض اُس کے سے استفادہ روشنی ہدایت کا معلوم۔ بقول شخصے کہ مصرعہ۔ اوخویشتن گم است کرارہبری کند، پس توں اوپر مستقل مزاجی میری کے آفریں کر کے کلمہ چند اُس عبارت سے کہ معنی مراد کے تئیں موافق پڑے ، فصاحت کلام سے بیان کر۔ والّا ممکن ہے کہ دانہ تسبیح دل کا بیچ رشتہ محبت زبان کے کہ کلید گنجینہ نطق کی ہے، سرگرداں نہ لو کے ایک جان دو قالب نہ رہ سکے۔ ملکہ نے چیں بہ جبیں ہو کے کہا کہ تیرے تئیں یاد ہو گا کہ میں نے اول مرتبہ منع کر رکھا ہے کہ توں بیچ حرکات اور سکنات میرے کے زینہار مستفسر ومتلاشی نہ ہو جیو۔ پس اب خلاف معمول بات کہنا کیا لطف ہے۔ فقیر نے ہنستے ہنستے ملکہ سے کہا کہ جیوں اور بات خلاف
-------
صفحہ 80
-------
معمول معاف ہوئی، اتنی یہ بھی سہی۔ ملکہ اُس وقت جل کر اور بھی آتش کا پرکالہ بن گئی اور نپٹ ہی خفگی سے کہا کہ معقول ! یک نہ شد دو شد ، چل اپنا کام کر ان باتوں سے کیا چاہتا ہے:
بیت
دل کے تین سوخت نہ کر، زخم پہ چھڑکا نہ نمک
اتنا بھی بیہودہ گوئی ستی احمق نہ بہک
میں نے کہا تقصیر معاف، زمانے میں کوئی راز مخفی تر ستر سے نہیں اور جب اسرار اُس کا دوسرے پر منکشف ہونا روا رکھا ہو تب بہر صورت محرمیت ہر سرّ کی طرفین پر واجب جاننا چاہیے اور انکشاف نہ کرنا اُس صریح رسوائی جانبین کا ہے۔ جب ملکہ نے فحوائے کلام میرے کے تئیں ، بیان واقعی اور نفس الامر جانا، کہا خیر، لیکن اتنا ہی پس وپیش ہے کہ مبادا اگر اس مبتلائے بلا کا راز برملا ہو تو خوب نہیں۔ میں نے کہا کہ استغفراللہ، زینہار یہ خطرہ محظور خاطر خطیر کے نہ رکھیے اور میرے تئیں محرم خلوت سرائے وفا و اخلاص کا جان کے بہ کشادہ پیشانی حقیقت سرگزشت اپنی کے سے ہمراز کیجیے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ کچھ سرّ فاش نہیں ہونے کا، قول مرداں جاں دارد۔
قصہ مختصر اس پری چہرہ نے جو دیکھا کہ یہ عزیز درپے استفسار ماجرائے احوال میرے کے ہے اور بغیر کہے گریز نہیں، لاچار طوطی زبان کے تئیں بیچ سبزہ زار گفتگو کے یوں مترنم کیا کہ ہر چند افشائے راز کا کرناں موجب قباحت چند در چند کا ہے لیکن دوش ہمت اپنی کے تئیں بھی بار حقوق تیرے کے سے سُبک سار کرنا ضرور ہے اس واسطے قصہ سرگزشت اپنی کا پاس خاطر عزیز تیری کے بیان کرتی ہوں، پر خبر شرط ہے ؎
اس بات کو گر اور سے ارشاد کرو گے
یہ یاد رکھو ہم کو بہت یاد کرو گے
آگے مختار ہو۔
-------
صفحہ 81
-------
قصہ سرگزشت ملکہ عالی جاہ
ملکہ نے صدف زبان سے سُرخی حکایت سرگزشت اپنی کے تئیں اوپر قرطاس بیان کے اس طور سے دُر ریز کیا کہ میں دختر ، والی اس ملک یعنی سواد اعظم سرزمین ولایت دمشق کی ہوں اور وہ بادشاہ ذی جاہ ازبس رفعت و ثروت و منزلت سے ظل افتخار کا اوپر فرق فرق واں کے رکھتا ہے، جو سوائے میرے اور فرزند بیچ مشکوئے خلافت کے نہیں، عہد خوردگی سے درمیان مہد ناز و نعمت کے زیر سایہ عاطفت و پرورش مادر و پدر بزرگوار کے بسر لے جاتی اور ہمیشہ بزم عیش و نشاط کی آراستہ کر کے، بیچ اکل و شُرب شراب و کباب کے ساتھ صحبت محرمان ہمراز و مصاحبان دمساز کے مشغول رہتی۔ ُمقصّر اسی نوع سے حد بلوغ کو پہنچی اور اُس وقت سے اپنے تئیں مائل جمال گل رخاں عشوہ ساز و پری پیکراں نغمہ پرداز کے رکھ کے بیچ تماشائے رقص ارباب طرب کے اوقات صرف کرتی اور تمام لذت جہان کی سے مُرفع الحال و فارغ البال ہو کے ہر حال دوگانہ شکرانہ کا بیچ جناب حضرت کارساز حقیقی کے بجا لاتی۔ اتفاقاً ایک مرتبہ بسبب بعضے عوارض جسمانی کے مصاحبت ہمدماں جانی کے سے طرح
-------
صفحہ 82
-------
مباعدت کی پڑی۔ اس صورت میں مجلس نشاط کی مانند کُلبہ تیرہ روزوں کے اسباب شادمانی کے سے تہی تھی اور جام شراب کا مثل کاسہ چشم حریفوں کے بادہ کامرانی سے خالی ہوا اور ترک عادت معہود سے غلبہ سودا کے نیں یہاں تک بیچ دل میرے کے راہ پائی کہ زلیخائے طبیعت کے تئیں یوسف استراحت کا بیچ خواب کے دیکھنا مشکل پڑا۔ جو آرام خاطر میرے کے تئیں سب خادمان حضور کے دل سے چاہتے تھے، ہر ایک ارکان دولت بقدر حوصلہ اپنے بیچ جستجوئے معالجہ و چارہ سازی مرض میرے کے تگاپو کرتے۔ قضایا یہی خواجہ سرا کہ اُس وقت بھی محرم اسرار و ہمدم غمخوار میرا تھا، میل اپنا طرف شربت ورق الخیال کے بیشتر رکھتا تھا مجھ سے کہنے لگا کہ اگر ملکہ جہاں شیرہ ورق الخیال کے تئیں بطور شربت کے نوش جان فرماویں تو زنگ کُلفت کا کہ اوپر آئینہ ضمیر منیر تیرے کے بیٹھا ہے، ساتھ صیقل سرخوشی کے دور ہو جاوے۔ میرے تئیں اُس کے مبالغہ سے رغبت شربت ورق الخیال کی زیادہ ہوئی اور کہا حاضر کرو۔ خواجہ سرا باہر جا کے ایک صُراحی شربت ورق الخیال کی ایک لڑکے کے ہاتھ میں لے کر آیا۔ میں بے تامل ایک جام بھر کے اُسے نوش کیا اور لذت اُس کی جو کچھ خواجہ سرا نے بیان کی تھی ہو بہو پائی۔ اُس وقت عوض اُس حُسن خدمت کے خواجہ سرا کے تئیں ایک خلعت فاخرہ مرحمت کیا اور مورد عنایات بے غایات کا کر کے اُس جام زمرّدیں کی پروانگی ہر روز کی دی۔ خواجہ سرا بلا ناغہ صراحی شربت کی موافق قاعدہ مُستمرّہ کے اُس لڑکے کے ہاتھ لے آتا اور میں اُس کے تیں نپٹ خوشدلی سے پی جاتی۔ جب طاؤس نگاریں خیال، میرے کا بیچ سبزہ زار نشہ اُس کے کے جلوہ گر ہوتا واسطے تفنن طبع کے کوئی گھڑی اُس لڑکے کے ساتھ کہ بیچ شیوہ ہزل و استہزا کے شہرہ آفاق تھا اور حُسن و جمال میں یوسف ثانی کہا چاہیے، خوش طبعی سے اوقات صرف کرتی وہ بھی کمبخت لطیفہ ہائے رنگیں و نکتہ ہائے شیریں سے نقل ہائے عجیب اور ذکر ہائے غریب، ایسی چرب زبانی سے ادا کرتا کہ کاسہ دماغ میرے کا شراب خوشگوار حظوظ نفسانی کے سے بے اختیار لبریز ہو جاتا۔ غرض کہ بیچ تلافی اُس خوش وقتی کے ہر روز جام آرزو اس کی کے تئیں مالا مال جواہر گراں بہا
-------
صفحہ 83
-------
کے کرتی۔ اور اوقات میرے بیچ تماشا بازی و ظرافت اُس کی خوش گزرتے لیکن باوجود اس قدر عنایات و انعامات کے ظاہر حال لڑکے کا روز بروز تباہ نظر آتا اور وہ تبدیل لباس کثیف کا نہ کرتا۔ میں نے ایک روز تفُحّص حال اُس کے کا کیا کہ توں باوصف اس قدر غایات جواہر و زر کے حالت اپنی پریشاں کیوں رکھتا ہے اور یہ زر خطیر کہاں صرف کیا کرتا ہے۔ لڑکے نے جو دلجوئی اور دلنوازی میری مصروف حال اپنے کے پائی آبدیدہ ہو کر بولا کہ جو کچھ تفضّلات پیش گاہ ملکہ جہاں کے سے ہوا، اُستاد بےمہر نے بہ مقتضائے بے رحم دلی کے ایک دام بھی اُس سے میرے تئیں عنایت نہ کیا۔ اس سبب سے بیچ تبدیل لباس کے معذور ہوں۔ میرے تئیں اس کی غریبی پر سخت رحم آیا اور خواجہ سرا کے تئیں فرمایا کہ تو اس لڑکے کے تئیں کسوت لطیف تیار کر کے اپنی صحبت میں تربیت کر اور زنہار اس کا مجوّز نہ ہو کہ مانند لڑکوں عوام الناس کے بیچ لہو لعب کے مشغول رہے، بلکہ بیشتر استرضائے عالیہ کی یوں ہے کہ بیچ خدمت باریابان حضور ہماری کے حاضر رہے، خواجہ سرا کہ، رضا مندی میری کے تئیں ، سب چیز پر مقدم رکھتا تھا، موافق ارشاد کے بجا لایا۔ غرض کہ چند روز میں بہ سبب مہیا ہونے اسباب جمعیت کے رنگ و روپ لڑکے کا کچھ اور ہی ہو گیا ؎
جس نے دیکھی شکل اُس کی کہا سبحان اللہ
قدرت حق سے نمایاں نہ ہوا تھا سو ہوا
قصہ مختصر میں اس کے تئیں لباس فاخرہ و زیورات مکلّف سے آراستہ کر کے مصاحبت اس کی تئیں ، سرمایہ حیات سرمایہ جاودانی کا جانتی اور روز و شب بیچ دلداری و غمخواری اُس کے کی سعی کر کے ایک لحظہ نظارہ جمال دلفریب اُس کے سے چشم مشتاق کے تئیں معطل نہ رکھتی۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ اگر ایک لمحہ بھی مفارقت اس کی پیش آوے، تو از بس گرمی آتش شوق کی سے مانند سیماب کے بے قرار ہو جاؤں۔ چنانچہ اسی حالت میں سبزہ عنفوان شباب اُس کے کا بیچ چمن بہار عمر کے نورستہ ہوا اور غنچہ سن طفولیت اُس کے کا نسیم عہد جوانی کی سے شگفتگی بلوغیت کی لایا۔ آخرش مثل مشہور ہے کہ عشق و مشک رانتواں نہفتن، بعد چند
-------------------------
صفحہ نمبر 76 سے صفحہ نمبر 83
-------------------------