پروف ریڈ اول نو طرز مرصع

صفحہ (ریختہ) 33 سے 37

آغاز قصہ
بیچ سرزمین فردوس آئین ولایت روم کے ایک بادشاہ تھا سلیماں قدر فریدوں فر85، جہاں بان، دین پرور، رعیت نواز ، عدالت گستر86، برآرنده حاجات87 بستہ کاراں، بخشنده مرادات امیدواراں ، فرخندہ سیر نام کے اشعه 88 شوارق 89 فضلِ ربانی کا اور شعشه بوارق 90 فیض سبحانی کا ہمیشہ اوپر لوح پیشانی اس کے لمعاں 91 و نورافشاں رہتا لیکن شبستانِ عمرو دولت اس کے کا ، فروغ شمع زندگانی کے سے کہ مقصد فرزند ارجمند سے ہے ، روشنی نہ رکھتا تھا۔ اس سبب سے ہمیش غنچه خاطر اس کے کا با د سموم 92 اس فکر دل خراش کے سے افسردہ رہتا اور اصلا گلِ عشرت اس کے کا شدت صرصر اس غم والم کے سے بہار شگفتگی کی نہ لاتا مگرضرورتاََ به امید اس کے کہ شاید نقش بند خاطر طراز آفرینش کا دستیاری قلم قدرت کے سے شکل اولاد کی اوپر صفحہ روزگار کے ثبت کرے ، گاه گاه فرخنده سیر بیچ حریم حرم تعظیم کے کہ خاک پاک اس کے تیئں کحل الجواہر دیده قدسیاں کا کہا چاہیے قدم رنجہ فرما کے سب پرده نشینانِ حریم حرمت اور ہودج 93 گزینان تق 94 عفت سے جو کوئی مقبول خاطر اشرف والا

34
و پسند طبع ارفع و اعلی کے ہوتی ، ساتھ اس کے داد معاشرت و داد طبع کی دیتا۔ قصہ کو تاہ ایک روز وہ خورشید برج خلافت کا بیچ آئینہ محل خاص سپہر 95 اساس کے کہ فردوس بریں بھی تماشائے تعمیر اس کی سے عرق انفعال کا اوپر چہرہ کے کھینچے ، ساتھ ایک بدر منیر اوج عصمت کے مانند ماہ و مشتری کے قِران السعدین 96 تھا ، اتفاقا اس عرصہ میں نظر مبارک بادشاہ کی طرف ایک آئینہ کے کہ مقابل مکان عشرت گاہ کے نصب کیا تھا جا پڑی۔ جوسن شریف اس کا قریب پچاس سال کے پہنچا تھا وقت مشاہدہ جمال مہر تمثال 78 اور معائنہ صورت حال اپنے کے دیکھتا کیا ہے کہ ایک موئے سفید درمیان داڑھی سیاہ کے مانند پل ستارے کے بیچ آخرشب تاریک کے کہ واقعی اس نشان کے تیئں ختم عمر کا کہتے ہیں ، نمودار ہوا

پس دیکھتے ہی آنکھوں کو یرقاں سا ہو گیا
یہاں تک ہوا کہ ہو گیا ہر استخوان زرد

پر اس وقت وہ ابر نیساں 79 آسمان عظمت و کرامت کا طوعا و کرہا موتی مقصود کے تیئں بیچ صدف آرزوئے ملکہ حور لقا زیبا طلعت کے پر کرکے بعد فراغت غسل کے اس مکان سے اٹھ کر ، طرف خانه باغ کے متوجہ ہوا اور اپنے دل میں غور کیا کہ ہر اول لشکر خزاں بہار عمر کاساتھ فوج بے شمار گلریزی گلزار لطافت و توانائی کے شمشیر برہنہ موئے سفید کی کہ برہم زنی صف جوانی کی ہے لے کر مقابل ہوا اور امید زندگانی بالکل منقطع ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ باغبان قضا و قدر کے نے بیچ روز ازل کے گلشن تمنائے دلی کے تیئں گلِ مراد سے رونق نہیں بخشی کہ بعد میرے حدیقه سلطنت کے تئیں سرسبز کرکے بہار افزا ہوا۔ پس آج سے ترک لذت ہوا و ہوس دنیوی کا کرکے بیچ ایک گوشہ قناعت کے بیٹھنا چاہیے اور اس آرزو کی حسرت میں ساتھ دلِ بِریاں 99 و دیدۂ گریاں کے نہایت مخزون غمگیں ہوکر کبھی گرد کلفت کی اوپر دامن عشرت کے چھاڑ کر بے اختیاری ملال طبیعت کے سے ہر ساعت بند اس مسدس کے تئیں اوپر زبان کے لاتا

35
کون ہے جس سے کہوں حال دل آزاری کا
درد و بے طاقتی و رنج گرفتاری کا
باعث رقت جاں سوز دل افگاری کا
سبب عاجزی و موجب لاچاری کا
غم جو گزرے ہے مرے دل پہ بیاں کیجے
پر جہاں بس نہ چلے ، ہائے وہاں کیا کیجے

اور کبھوشبستان جمعیت دل کے تیئں آتشِ سراسیمگی و آشفتگی کے سے سوخت کرکے بےقراری تشویش خاطر کے سے دم بدم بند اس شعر کے تیئں پڑھنا شروع کرتا ۔
آہ حسرت میرے دل کی نہیں بر آتی ہے
مفت باتوں میں مری عمر چلی جاتی ہے
قطع امید ہے اور یاس نظر آتی ہے
ہائے یہ زندگی کیا کیا مجھے دکھلاتی ہے
اس مصیبت کا بیاں کیجیے کس سے افسوس
درد اس دل کا عیاں کیجیے کس سے افسوس

یہ کہتا ہوا خراماں خراماں مضطر و متفکر خفگی طبیعت کی سے سب کار پردازان کارگاہِ خلافت کے تیئں ، جواب مجرے کا فرما کے ، قدم فرماں روائی و جہانداری کا بیچ دامن قناعت کے کھینچ کر ایک گوشہ میں تنہا جا بیٹھا اور ساری حلاوت و مزه زندگانی کے سے تلخ کام ہو کے ارشاد فرمایا کہ ہرگز کوئی خویش 100 و بیگانہ سے سوائے خادمانِ درگاہ کے بیچ خلوت سرائے بادشاہی کے باریاب نہ ہو اور اضطراب شدتِ رقتِ طبع کے سے مجنون دل ، اندوه منزل ، اس کے کا بیچ خیال جمال لیلی کامرانی کے پڑھنے، اس بند مخمس کے سے مشتغل 101 تھا ۔

ص 36
یا الہی میں کہوں کس سیتی اپنا احوال
تجھ سوا کون ہے، جس سے میں کہوں دل کا ملال
یارب اس رنج سے اب اس دل شیدا کوں نکال
تیری ہی ذات سے رکھتا ہوں میں ہردم یہ خیال
ساز آباد خدایا دل ویرانہ را

اس طور فرخنده سیر ، چند روز ، سیر تحیر کا اوپر زانوئے تفکر کے رکھ کے متوجہ مہمات جہانگیری و معاملات مالی وملکی کا نہ ہوا۔ اس صورت میں تخلل 102 عظیم بیچ ممالک محروسه سلطانی کے واقع ہوا اور ہر چہار طرف سے غبار فتنہ و فساد کے نیں درمیان اقلیم متصرفہ کے سر اٹھایا۔ جب بازار بے تسلطی و بے انتظامی کا سخت جوش پر آیا تب سب خیر اندیشان دولت عظمی و نیک سگالان 103 صولت کبری کے کہ صفحہ باطن کے تیئں حروف اعتقاد اور اخلاص کے سے مرتسم اور تختہ پیشانی کے تیئں سجود بندگی و فرمانبرداری کے سے مزین رکھتے تھے، بیچ دیوان خاص بادشاہی کے جمع ہو کے ہر ایک اشہب 104 تیز گام زبان کے تئیں بیچ میدان تقریب اور تمہید کے جولاں 105 کرتے تھے۔ آخرش پنجه عروس مصلحت کا ساتھ جنا اس تجویز کے رنگیں ہوا کہ اگر خردمند نامی وزیر کہ ظہیر سلطنت ابد مدت و مشیر تدبیر مملکت قضاسطوت کا ہے بیچ حضور اقدس خاقانی کے جا کے قفل سر بسته اسرار نہانی ، مزاج حضرت ظلِ سبحانی کے تیئں ، کلید حسن قابلیت و فرزانگی سے وا کر کے مرکوز باطنِ تقدس مواطن، ومكنونِ خاطر در یا مقاطر کا دریافت کرے ، اغلب که باعث خلوت نشینی اور سبب گوشہ گزینی جناب مبارک خدیو 106 کائنات کا بواقعی معلوم ہو بعدازاں تدبیر عقل و تر دد و خرد کے سے واسطے حل کرنے اس مشکل کے کوشش فراواں و جہدِ نمایاں بیچ ظہور کے لا دیں۔
غرض کہ خردمند وزیر فرخنده سیر کا کہ افلاطوں باوصف اس کیاست 107 اور فِراست کے خوشہ چین فطرت اس کی کا تھا اور ایام شہزادگی حضرت کے سے نقش عبودیت و فدویت اپنے کا منقوش خاطر ہمایوں کے رکھتا تھا ، به موجب استصواب 108 سب ارکان خلافت کے

ص 37
اور استقرار اس صلاح محمود العاقبت کے ، واسطے مجرے ولی نعمت کے ، او پر درخلوت سرائے شاہی کے آیا اور معرفت حاضران با رگاہِ عظمت و باریابانِ بساط قربت کے آداب بندگانه به دستور خانه زاران موروثی کے بیچ حضور لامع النور اقدس عالی کے عرض کر بھیجا۔ جو بادشاہ خردمند کے تیئں بہ نسبت اور مقربان درگاہ کے عمدہ محرمان راز و زبدہ 109 (الف) مصاحبان دَم ساز کا جانتا تھا ، حکم قضا توام 109 (ب) واسطے حاضر کرنے ، بیچ حضور پرنور کے صادر کیا۔ جب وزیر حسب الارشاد ہدایت بنیاد کے باریاب خلوت مقدس کا ہوا ، دیکھتا کیا ہے گل روئے مبارک شہر یار کا مانند برگ خزاں کے مر جھا رہا ہے اور دریا آنسو کا چشمہ چشم کے سے جاری ہے بہ مجرد ملاحظه اس احوال کے خردمند نے جبین نیاز کی او پر زمین ادب کے گھس کے زبان تحیت اور ثنا کی کھولی

یا الہی یہ جو تیرا ہے چراغ دولت
تا ابد اس سے منور رہے قندیل فلک
تا قیامت رہے مسجود خلائق وہ جا
مسندِ جاہ کی تیری بچھے جس پر توشک

اور بعد تقدیم مراسم کورنش و تسلیم و مراتب تلثيم 110 پایہ سریر111 سپہر تکریم کے بجا لا کے عرض کیا کہ آئینہ ضمیر خورشید تنویر قبلہ عالم کا رنگ تردد اور تفکر کے سے مکدر کیوں ہے؟ بادشاہ نیں نائرہ 112 تاسف اور تحیر کا بیچ بھٹی سینہ کے مشتعل کرکے کہا:

کس سے میں کہوں دل کی گرفتاری کو یارب
کیا جانے وہ جس کو یہ سروکار نہ ہووے
جل جائے گی بلیل ، مرے سینے سے نہ لگ بیٹھ
یاں آگ کے شعلے ہیں، یہ گلزار نہ ہووے

وزیر کہ ہمدم و دلکشائے مجلس خاص کا اور محرم خلوت سرائے وفا و اخلاص کا تھا ملتمس ہوا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت ، اگر غلام قدیم الخدمت کے جان و مال سے تصدق 113 فرق





 
آخری تدوین:

مقدس

لائبریرین
صفحہ38 سے42

38

مبارک کے ہے، لب بہ تحقیق رموز پنہانی کعبہ جہانی اس نئے پائیدار کے کھول کر دقیقہ یاب سرائر سلطانی کا نہ ہووے۔ پھر عقدہ کشائے اسرار خاطر قدسی کا کون ہوگا۔ امیدوار نواز اشاعت خسروانہ عنایات بادشاہانہ کا ہوں۔کہ اس فدوی جان نثار کے ثانی مضمر ضمیر آفتاب کے سے مفصل ایما ہو کہ بندہ بھی درخور حوصلہ اپنے کے شرط نمک حلالی کی بجا لا دے ۔

بادشاہ نے جو وزیر کے تئیں شریک رنج راحت اپنے کا جانا، مطابق مضمون اس شعر کے

حال دل کچھ کہا نہیں چاہتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا

لاچار تمام باعث کلفت طبع مقدس کا مفصل ارشاد کیا اور فرمایا کہ رمز شناس عالم مزاج دانی کے جواب منشی تقدیر کے نے بیچ سرنوشت میری کے حرف تولد فرزند کا نہیں لکھا اور ایام زیست کے قریب ہیں کہ آئندہ توقعات استحصال اس نعمت غیر مترقب کی پیش نہاد خاطر کے رکھتا، پس اب واسطے چند روز کے کیا ضرور ہے کہ اوقات اپنی کے تئیں بیچ کاروبار اس دار نائب پائیدار کے صرف کرو اس سے یہی بہتر ہے کہ ترک تعلق دنیوی اور تبدیل لباس کر کے درمیان صحرائے لق و دق کے کہ جہاں بود و نشان انسان کا نہ ہو بیچ عبادت حضرت واجب الوجود کے مشغول ہوں اور آہ سرد دل پر درد سے نکال کر پڑھنے لگا

دل میرا درد سے نالاں نہ ہوا تھا، سو ہوا
اس قدر حال پریشان نہ ہوا تھا، سو ہوا
اس تمنا میں میری چشم سے روتے روتے
یاں تلک اشک کا طوفاں نہ ہوا تھا، سو ہوا

وزیر کے زوالحز دان زمانہ کے سے گوئے سبقت کی لے گیا تھا، ملاحظہ احوال کثیرالاختلال بادشاہ کے سے دل پر یہ ارادہ مصمم کیا کہ تمام مقدمہ سلطنت کا درہم برہم ہو


39


کر ایک عالم تباہ ہو جائے گا اور ہر طرف سے مخالفان واقعہ طلب قابو فرصت کو غنیمت جان کے باعث ویرانی ممالک محروسہ شاہی کے ہوں گے، پھر بقول اس شعر کی نوبت پہنچے گی۔

چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھا
ہزارہ بلبلاں کی فوج تھی اور شور تھا غل تھا
خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جو خار گلشن میں
بتا تاباغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھا

پس تقاضا دور اندیشی و خیر خواہی کا یہ ہے کہ کسو طور سے مزاج بادشاہ کے تئیں برسرفسخ اس عزیمت کے لائے۔ بعد ایک ساعت کے متامل ہو کر بولا کہ اگر گستاخی و بے ادبی غلام کی معاف ہو تو کچھ عرض کرے۔ ارشاد ہوا کہ، ہوں۔ خرد مند نے آداب بجالا کے عرض کیا کہ جہاں پناہ سلامت دشت پیمائی شعارودوں ہمتان ناقص فہم کا ہے، نہ ضابطہ بادشاہان الوالعزم کا اور واقعی یوں ہے کہ عبادت حضرت معبود حقیقی کی کچھ موقوف اوپر سیر کوہ بیاباں کے نہیں، شاید بیچ سمع مبارک کے شعر نہیں پہنچا،

آپ بتاؤ معبود ہیں تیرے ہی پاس اے بے خبر
کیوں ارادہ کر رہا ہے طواف بیت اللہ کا

اور جو خوامخوہ مزاج مقدس کے تئیں مصروف صحرانوردی کے فرمائیے گا تو اولی، یقین خارا قدس کے رہے، کہ یہ خرمن گروہ خلائق کا کہ بزرگ حضرت کے نیں ایک ایک خوشہ ہر متنفس کا، واسطے حصول دانہ ناموری کے جمع کیا ہے۔ ایک مرتبہ آتش ظم مخالفاں قابو جو کی، سے سب سوخت ہو جائے گا اور تمام محنت سالہا سال بادشاہان سلف کی یکلخت رائیگاں و برباد ہو جائے گی، پھر بہ مقتضائے اہانت العبد واہانت المولی کے، تکلف برطرف حرف بد نفسی کاا صریح طرف حضرت کے ہے اور دوئم یہ کہ جو کافہ رعایا کے تئیں ودیعت جناب احدیث و صمدیت کا کہتے ہیں ایزذ سبحانہ و تعالی نے شاہان عظیم الشان کے تئیں واسطے


40


غریب کے ہو، تو روز دیوان حشر کے باز پرس اس کی، گروہ قدسی شکوہ ان کے سے تعلق ہے، پس اس صورت میں عبادت بھی اثر قبولیت کا نہیں رکھتی کیونکہ توڑنا ایک دل کا برابر ڈھانے سو کنگرہ عرش کے ہے۔ بہ مضمون اس کے

دل مت پٹک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جو اشک، پر زمین سے، اٹھایا نہ جائے گا
کعبہ، اگرچہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ
یہ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

مگر از راہ حق پسندی و منصف مزاجی کے جو عرض غلام کی پذیرائی طبع مقدس کے ہو، صلاح دولت یوں ہے کہ قبلہ عالم دست دعا اوپر درگاہ حضرت مجیب الدعوات کے دستگیر ماندگاں کوئے ناکامی کا وچارا ساز بیچارگان عالم بے سر انجامی کا ہے، دراز کر کے اور ہر وقت منتظر فتوحات غیبی و فیوضات لاریبی کے رہ کے دن کے تیئں بیچ رتق دفتق مہمات سلطنت کے ونظم ونسق امورات نصف و عدالت کے کہ انتظام و استحکام بنائے خلق اللہ اس شغل خطیر سے منتظم و مستحکم ہے مشغول رہیں اور شب کے تئیں اوپر استفادہ پڑھنے درود و طواف مقابر متبرکہ بزرگان جنت نشیں کے واستفاضہ زیارت جناب درویشان حق گزیں کے مزاج مبارک کے تیئں میں مصروف کرکے وجہ ہمت کا کریں، انشاء اللہ تعالی برکت اس وسیلہ جمیلہ کے سے یقین ہے کہ شام ناکامی کی ساتھ صبح کامیابی کے تبدیل پا کے شاہد مراد کا، نقاب تمنا کے سے چہرہ کشا ہو اور ابوابہجت وشادمانی کے اور اسباب مسرت و کامرانی کے اوپر روئے روزگار فرخندہ آثار خسرو والا تبار کے ہر چہار طرف سے مفتوح ہوں۔ تس پر ہرچہ طبع مقدس اقتضا فرما وے، مبارک ہے۔


بادشاہ نے جو ذرا التماس وزیر کے تئیں اوپر محک رائے زریں کے کسا معلوم کیا طلائے ناب اس کے کا بلاتشکیک کامل عیار کا ہے، عارض عرض معروض خرد مند کے تئیں ساتھ گلگونہ اجابت کے رونق بخشی اور مکان خلوت کے سے اٹھ کے اوپر تخت سلطنت و


41


فرمانروائی کے جلوس فرمایا اور گلزار خلافت کے ے

بہ سبب باد سموم بے انتظامی و ہنگامہ پردازی کے ثولیدہ ہوئے تھے، سر نو سے ساتھ رشحات سحاب انتظام و تسلط کے سرسبز و شاداب ہو کے صدا نقارہ مبارکی وفرخی کی بیچ گنبد دوار سپہر کے پہنچی اور صفیر نفیر تہنیت اور شادی کی بیچ شش جہت عالم کے بلند ہوئی

دھوم ہے گھر سبھوں کے، سب کے گھر میں شادیاں
عید کرتے ہیں سبھی دے دے مبارکبادیاں
یاس کی بیداد سے ویراں ہوا تھا ملک دل
پھر ہوئی امید کے عامل سیتی آبادیاں

بندہ ہائے فدوی خاص وفدویان عبودیت اساس مصدر مراحم و اختصاص بادشاہی کے ہو کے بدستور قدیم اپنے پایہ پر بیچ د دربار معلی کے حاضر ہوئے اور پھر مجددا بندوبست سلطنت قدر قدرت کے نیں یاں تلک رونق آراستگی کی پائی کہ طوطی نطق پرداش خلائق کی بیچ سبزہ زار رفاہت و آسودگی زندگی کے بے اختیار مطالعہ اس رباعی کے سے نغمہ سرا تھی

ایواں میں عدالت کے تمہارے اے شاہ
کب جرم کو ہے راہ ںعوذ باللہ
شیشے کا اگر طاق سے رپٹے ہے پاؤں
پتھر سے نکلتی ہے صَدا بسم اللہ

قصہ کوتاہ اور عبارت مختصر آخرش بادشاہ بہ موجب صلاح خردمند وزیر کے کہ فی الواقعہ اظہار اس کا کتابہ پیش طاق دانش و آگاہی کا تھا، دن کو اوقات حجستہ آیات اپنے کے تیئں بیچ قبض و بسط مہمات ملکت کے مصروف رکھتا اور شپ کے تیئں واستسعاد زیارت مقابرہ پیش قدمان معرکہ حقیقت کے و طواف جناب قافلہ سالاران شاہراہ شریعت کے تشریف فرماتا۔


42


ہوتے ہوتے عرصہ نو دس ماہ کا منقضی ہوا۔ اتفاقا ایک مرتبہ بادشاہ موافق ضابطہ معہود کے دولت خانہ مبارک سے نکل کر وقت نصف شب کے تن تنہا طرف برآمدہ شہر کے متوجہ ہوا اور اس وقت ہوائے تند نے ساتھ زور اور شور تمام کے کہ جس کے سراہٹے کے جھکور کے بیان سے باد پائے سخن کا لنگ ہو جاوے، چلنا شروع کیا۔ اس عرصے میں فرخندہ سیر کے تیئں دور سے بفاصلہ فرسنگ کے ایک چراغ نظر آیا لیکن باوصف اشتداد باد صرصر کے زینہار اشتعالہ چراغ کے تیئں سر مو حرکت نہ تھی۔ بادشاہ نے اول خیال کیا کہ طلسم یمانی کا ہوگا، یعنی اگر پھٹکری کو گرد فتیلہ چراغ کے چھڑک دیجئے تو کیسی ہی ہوا چلے چراغ گل نہ ہو، بعد ازاں بقول اس ننمضمون کے

"چراغ مقبلاں ہرگز نمیرد"

ملاحظہ اس عجائبات کے سے اپنے دل میں تصور کیا کہ یہ تجلی کسی مردان خدا کے کہ مکان پر متجلی ہے، اغلب کہ چراغ آرزو میری کا اسی نور سے منور ہو اور طرف اس چراغ کے رخ توجہ کا فرمایا، چلتے چلتے پرمتصل پہنچا۔ دیکھتا کیا ہے کہ اوپر مزار ایک مقبول بارگاہ لاہوت کے فانوس بلوریں کے اندر شمع روشن ہے اور چار شخص ملک سیرت درویش صورت کہ ظاہر حال خجستہ مال ان کا بہ ترکیب لباس فقیر کے آراستہ ہے، گرد روشنی کے جلوہ آرا ہیں لیکن غنچہ دہان ان کے کا، سموم دل تنگی کی سے، بیچ گلزار مجلس سکوت کے بہار شگفتگی گفتگوکی نہیں لاتا۔ ملہم غیبی نے فرخندہ سیر کے دل پر الہام دیا کہ آبیاری تفضلات باغبان قضا و قدر کے سے یقین کامل ہے کہ نخل امید کا ترشح ہے فیض صحبت درویشوں کے سے، سرسبزی وشادابی پا کر بیچ باغ اس مجلس کے بارور ہوا، پر اس وقت مناسب یوں ہے کہ اپنے تئیں مخل مجلس خاص ان کی، کا نہ کر کے ایک گوشہ میں مخفی ہو کر استکشاف احوال، اس چہار عنصر لطیف کا کیجیے، غرض کہ بادشاہ درمیان گنج اس مکان کے اس طور سے کہ کسی پر اطلاع نہ ہو، پوشیدہ پنہاں جا بیٹھا اور صدف گوش ہوش کی تیئں واسطے پر کرنے مروار ید کلمات میمنت آیات درویشوں کے وا کیا۔ اتنے میں درمیان ان چہار درویش کے۔
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
صفحہ 49

تڑپتی ہے پڑی بُلبُل قفس میں
بری تھی ہائے کس ظالم کے بس میں
جس وقت کلمات محبت آمیز، زبان میری سے بیچ گوش ہوش اس محبوب مرغوب کے پہنچے ایک مرتبہ پردہ اغماز کا دروازہ چشم نرگسیں کے سے اٹھا کے میری طرف متوجہ ہوئی۔ سبحان اللہ
برقع کو اتھا چہرہ سے وہ بت کہ بر آیا
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آیا
جب نگا اس جادو نگاہ کی ساتھ نگاہ میری کے ہم نگاہ ہوئی، واللہ کہ اپنے تئیں مقدور نگاہ رکھنے کا نہ پایا
نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتے ہی جب لڑیاں
یکایک کھل گئیں دونوں طرف سے دل کی گل چھڑیاں
لیکن ازبس کہ تاب جمال اس کے کی نہ لایا، مانند اس مجروح دل خستہ کے زخم تیغ چشم اس کی سے بے حس و حرکت ہوا۔ بعد ایک لمحہ کے، دماغ کے تئیں نسیم ورق گلاب رخسارہ اس گلستان خوبروی کے سے معطر کر کے کہا کہ اے نوبہارستان ملاحت کی، سچ کہہ کہ تو سرو خراماں کس چمن کی ہے، و اے روشن چراغ شبستان نزاکت کی توں شمع شب افروز کس انجمن کی ہے، باعث اس واردات کا کیا ہے اور قصہ سرگزشت تیری کا کیوں کر ہے، جو وہ نازنین شدتِ درد جراحت ہائے کاری کے سے تاب گفتگو نہ رکھتی تھی۔ نہایت آہستگی سے پستہ دہان کے تئیں شیریں زبانی سے شکر آمیز بولی
یا چشم تر ہوں یا رگِ تاک بریدہ ہوں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں
گریں بشکل شیشہ و خنداں بطرزِ جام
اس میکدے کے بیچ عبث آفریدہ ہوں
-----------------------------

صفحہ 50

اے عزیز، از بس بے طاقتی سے، اس مجروح بے طاقت کے تئیں طاقت گزارش احوال پُرملال کی نہیں۔ اغلب کہ کوئی لمحہ میں، طائر روح کا قفسِ تن سے بلند پرواز عالمِ فنا کا ہو، اگر توبہ مقتضائے حمیت و جواں مردی کے مزاک اپنے کے تئیں اوپر استفسار بے فائدہ حال تباہ میرے کے تئیں مصروف نہ کر کے اور برائے اللہ اس برگشتہ طالع کے تئیں بیچ ایک گوشہِ صحرا کے مدفون کرے تو باعثِ نجات اس تیرہ بخت کا، ملامت زبانِ خلائق کے سے کہ فی الحقیقت سواد الوجہ فی الدارین کا ہے ہووے اور اقدام اس امر خیر کے سے توں بھی داخل ثوابِ عظیم کے ہو کر جزا اس نیکی کمال کی بارگاہِ کبریائے حضرت عالم السّر و الخفیات کے سے حاسل کرے۔ یہ کہہ کر خاموش ہوئی۔ جو وقت شب کے عالم بیکسی میں کچھ چارہ نہ تھا لاچار صندوق کے تئیں خواب گاہ اپنی پر اٹھا لا کے بے اختیار روتا تھا اور پڑھتا تھا۔
شبِ غربت میں یارو گریہ و زاری ہے اور میں ہوں
جھپکتی ایک پل نئیں آنکھ، بیداری ہے اور میں ہوں
غرض تمام شب گریہ و زاری و ستارہ شماری سے بسر لے جا کے اس فکر میں تھا، الہی کب مرغِ صبح خیز شمس کا بیچ قفس مشرق کے منقار شعاع کے سے صدا روشنی کی بلند کرے گا اور کب عابدِ شب زندہ دار 174 ماہ کا تسبیح ستاروں کے تئیں، بیچ سجادہِ سپہر کے رکھ کر متوجہ آرام گاہ مغرب کے ہو گا کہ میں داخل شہر کے ہو کر تدبیر معالجہ کی کروں۔ اس عرصہ میں شاہ زرّیں کلاہ خورشید کا اوپر تخت زمرّدیں افلاک کے جلوہ آرا ہو کے تجلی بخش ساحت 175 سرزمین دمشق کا ہوا۔ بندہ نے اس وقت قید انتظار کی سی مخلصی پا کر دوگانہ شکرانہ کا، بیچ جناب حضرت کارساز حقیقی کے ادا کیا اور صندوق کے تئیں درمیان خورجین 176 گھوڑے کے کس کے داخل شہر کے ہوا اور ہر ایک متنفس سے مُستَفسِر 177 و متلاشی مکان کرایے کا تھا۔ آخرش بعد تفحّص و تجسسِ بسیار کے، ایک حویلی خوش تعمیر و خوش اسلوب کہ جس کے دیکھتے ہی غنچہ دل کا کھل جاوے، کرایہ لے کر اس ماہ جبیں کے تئیں درمیان کنج خانہ کے مکان محفوظ میں، مانند حرف یاد الہی کے بیچ نقطہِ سُویدائے 178 دل و اصلان درگاہِ کبریائی
------------------------

صفحہ 51

کے اوپر بچھونے نرم کے کہ ملائم تر رخسار سیمیں 179 عذاران کے سے تھا، چھوڑا و معتمدان ہمراہی کے تئیں بیچ خدمتگاری اس نازنین کے تعین کر کے آپ واسطے تحقیقات مکان جراح کے حویلی سے باہر آیا۔ چنانچہ زبانی ایک شخص کے معلوم ہوا کہ عیسیٰ نامی ایک جراح بہ کمال کسب طبابت و جراہی کے، کہ اگر مردے کے تئیں بھی چاہے تو عنایتِ الہی سے زندہ کرے، فلانے محلہ میں رہتا ہے۔ فقیر اس گُلبانگ 180 بشارت اندوز سے بسان 181 گل کے شگفتہ و خنداں ہو کر پوچھتے پوچھتے اوپر دروازہ جراح کے کہ مثل دل بیدار دلوں کے کشادہ تھا، جا پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ متبرک ذات خضر صفات بیچ دہلیز گھر کے رونق افروز ہے۔ فیقر نے مصلحتاً بعد آداب سلام کے التماس کیا کہ ایے مرد نیک سیرت، خجستہ طلعت یہ غریب مسافت بعید سے معشوقہ اپنی کو کہ مدار زندگی میری کا، اوپر مشاہدہِ جمال مہرِ تمثال اس کے ہے، ساتھ لیے بہ تہیہ روزگار تجارت پیشگی کے اس طرف کو آتا تھا، جب بفاصلہ ایک فرسخ اس طرف شہر کے پہنچا، عروس شفق کی نیں کاکل مشکیں شام کی اوپر چہرے کے کھینچی جو اپنے تئیں ملک بیگانہ میں اصلاً منزل شناسی کی اطلاع نہ تھی، لاچار وقت شب کے حرکت کرنا، اس جگہ سے امرِ محال جان کے، وہیں زیرِ سایہ درخت کے استقامت کی قضا یا وقت نصف شب کے ایک گروہ رہزنوں کا مستعد و مسلّح اوپر سر میرے کے آ ٹوٹا اور جو کچھ مال متاع بیچ بساط جمعیت میری کے تھا بالکل لوٹ لیا، علاوہ اس کے اس گل اندام عطر بخش مشام زندگانی اس ناتواں کے تئیں بہ طمع زیور کے جراحت ہائے کاری سے رشک تختہِ شقائق کا کیا۔ جو مرضی الہی سے کچھ چارہ نہیں، باقی شب اللہ اللہ کر کے بسر لے گیا۔ علی الصباح داخل شہر کے ہو کے ایک حویلی کرایے کی میں اس آرام خاطر کے تئیں چھوڑ کر رہبری طالع سعید کے سے مستفید خدمت فیض موہبت تیری کا ہوا ہوں۔ جو حکیم علی الاطلاق 182 نے تیرے تئیں داد رس ملہوقان خدنگِ 183 بلا کا کیا ہے، بہ مقتضائے غریب پروری و عاجز نوازی کے اگر کلبہِ احزاں 184 میرے کے تئیں قدوم 185 میمنت لزوم اپنے سے منور کرے، بندہِ بے درم خریدہ ہوتا ہوں۔ بارے جراح نے اوپر حال تباہ میرے
------------------------

صفحہ 52

کے نظر ترحم کی فرما کے، غریب خانے تک قدم رنجہ فرمایا و بعد ملاحظہ زخموں کے نہایت دلنوازی سے اوپر درد سر میرے کے صندل تشفّی کا لیپ کے کہا کہ اگر فضلِ الہی شامل حال مرخندہ مآل اس پری تمثال کے ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ چالیس روز کے عرصہ میں غسل شفا کا کراتا ہوں و صحتِ کامل نصیب اس عنصر لطیف کے ہوتی ہے۔ غرض اس مرد نیک ذات، خضر صفات نے بعد از کلمات مہر انگیز کے یراق 186 اپنے سے ایک ڈبیا مرہم کافوری کی، کہ فی الحقیقت بیچ حق اس سکندر طالع کے آب حیات تھی نکال کے پھایے اس کے جابجا اوپر زخم ہائے کاری کے لگائے اور بہ مقتضائے کمال مہروزی و دلنوازی کے اقرار خبرگیری دو وقتہ کا کر کے سوال رخصت کا کیا۔ جو میرے تئیں تشریف فرمانا ہوا اس مرد بزرگ کا باعث جہاں جہاں نشاط اور سبب عالم عالم انبساط کا تھا، جان و مال سے بیچ خدمت اس پیر مرد کے رسمِ تعظیم و تواضع کی بجا لا کے مُرخس 187 کیا۔ بارے چند روز میں توجّہات باطنی سے جراح نے ایفا وعدہ کر کے اس قمر طلعت کے تئیں غسل شفا کا کرایا۔ میں نے اس وقت خوش وقتی اس معراج طالع اپنے کے تئیں تسخیر ہفت اقلیم کے سے نسبت دینا غلط فہمی ابنائے روزگار کی جان کے دوگانہ شکرانے کا بیچ بارگاہ شافی مطلق کے ادا یا اور اس سیمیں بدن کے تئیں فرش قالین و قاقُم 188 کا بچھا کے اوپر مسند جاہ و حشمت کے رونق افروز کر کے جو کچھ نقد و جنس سے بیچ بساط جمعیت کے موجود رکھتا تھا نثار اُس گل عذار 189 کے کیا اور اپنے تئیں مانند عندلیب شیدا کے اس نرگسیں چشم پر جان و مال سے فدا کر کے بندگی اس کی کے تئیں افتخار کونین کا جانا۔ سبحان اللہ جب خورشید جمال اس مہر تمثال کا کُسوف رنج و ملال جراحت ہائے مالا مال سے نکل کے اوپر مطلع صباحت و وجاہت کے درخشاں ہوا، بے شائبہ تکلف آفتاب، تاباں مانند مہتاب کے تاب حسن اس کے کی نہ لا کے تاب سے بےتاب ہوا۔
حسن ایسا کہ جگر ماہ کا ہو جاوے داغ
اس کی تشبیہ سے جب اس کو تجاوز دے فلک
----------------------

صفحہ 53

رنگ سے چہرہ کے شرمندہ ہو کندن کی دمک
آگے غبغب 190 کے خجالت زدہ سونے کی ڈھلک
قامت ایسا ہے کہ ہنگامِ خرام اس کے اگر
آگے آ جاوے قیامت تو یہ بولے کے سَرک
رزق و برق ایسی ہے پوشاک میں اس کی کہ جسے
کوند بجلی کی کہوں یا کہوں شعلے کی جھلک
جیسی ہو سج سے گلے بیچ حمائل گُل کی
ویی ہی عطر کی بو، وِتنی وہی سوندھی کی مہک
غرض اس شکل سے آئے جو نظر وہ یارو
کہا میں دل کے تئیں دیکھ کے، اللہ معک 191
قصہ مختصر یہ فقیر بہ مقتضائے 192 محبت عاشقانہ کے شبانہ روز کم اطاعت کی بیچ خدمت، اس زیبا طلعت کے محکم باندھ کے حاضر و مستعد رہتا لیکن وہ، از بسکہ غرور حسن و ریاست کا بیچ دماغ کے رکھتی تھی، میری طرف بہ نظر الفت شاہدانہ کے رخ توجہ کا نہ فرماتی اور اکثر اظہار کرتی کہ اگر تیرے تئیں دلداری ہماری منظور ہے، زینہار بیچ حرکات و سکنات ہمارے کے، دخل تفتیش کا نہ کرنا۔ خبر شرط ہے مگر پاس مرّوت دلنوازی کا بیچ تلافی حقوق خدمت گزاری کے، البتہ ملحوظ خاطر رکھتی تھی، چنانچہ فقیر بھی اِسترضائے 193 اس کی سے سر مو تجاوز نہ کرتا بلکہ ااتنی بھی مہروزی کے تئیں محض یاوری بخت اپنے کی جانتا اور ایک مدت تک، فرمائش اس کی کے تئیں بسر و چشم بجا لاتا۔ آخرش نقل مشہور ہے، زرکار کُند و مرد لاف زند۔ جو یہ عاجز اثاث البیت 194 سے تامتاع و اِنتِفاع 195 جہاز تجارت تک جو کچھ بیچ قبضہ اختیار اپنے کے رکھتا تھا، نثار اس مایہ ناز کے کر چکا اور بلک بیگانہ میں کوئی تفَقُّد 196 طراز احوال بے حال اپنے کا نہ دیکھا، اس سبب سے بہ مضمون اس کے کہ بے زر بے پر، طاقت و توانائی میری کے طاق اور خواب بیچ چشم میری کے خواب ہوئی اور چہرہ میرا کہ عکس پذیرائی شعاع
-------------------------------------
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ریختہ نو طرز مرصع - صفحہ 43-48
-----------------------

----------------
43
----------------

ایک شخص نے عندلیب زبان کی تئیں بیچ گلزار سخن آرائی کے نغمہ پرداز کیا کہ اے یاران
ہمراز و اے رفیقان دمساز ہم چار شخص انقلاب روزگار غدار و گردش دور دوار کے ، سے
حیران و پریشان وارد اس مکان کے ہوئے تھے لیکن الحمد للہ و المنۃ کہ رہبریء قسمت و یاریء
بخت ہمارے کی سے شام تنہائی کی نے ساتھ فروغ شمع ملاقات ہمدیگر کے روشنی پائی مگر
بالفعل کہ درازی سر رشتہء شب تار کی نے زنجیر بےخوابی کی بیچ پائے استراحت کے ڈالی ہے
اس سے صلاح وقت یہ ہے کہ ، واسطے شغل بیداری کے ، ہر ایک قفل گنجینہء زبان کے تئیں
، ساتھ کلید تشریح و تفصیل قصہء سرگزشت واقعی اپنے کے کھولے ۔ کہ اس وسیلے سے متاع
فوائد صحبت کے بیچ کیسہء تمنا کے حآصل کریں ۔ یاران دیگر نے انگشت
قبولیت کی ، اوپر دیدہ ء رضآ و رغبت کے رکھ کے کہا کہ کیا مضائقہ ، اول آپ ہی صرت حال
اپنی کے جو کچھ بہ چشم یقین کے و دیدۂ حقائق بیں کے دیکھا ہو اوپر صفحہء اظہار کے کھینچ کے
گوش رفیقان ہمدم کے تئیں گرانبار گوہر منت کا کریں ۔
چناں نچہ رفیق اول نے غزال رعنائے اس داستان ندرت بیان و واردات احؤال ِصدق
مقال اپنے کے تئیں بیچ چراگاہ مجلس کے یوں جولاں گر عرصۃء تقریر کا کیا ؂

دوستاں دل سے سنو حال دل افگار کے تئیں
شرح افسانۂ غم عشق کے بیمار کے تئیں
حالت گریۂ اس دیدۂ بیمار کے تئیں
قصۂ بے سرو سامانی اس خوار کے تئیں
تم کو شفقت ستی پاتا ہوں جو غم خؤار اپنا
پس بجا ہے کہ کروں درد کا اظہار اپنا

کہ اے یاران غمگسار، مولد متوطن اس سر گشتہ 144 بادیۂ 145آشوب و رفتن 121 کا بیچ
خطۂ پاک یمن کے ہے اور والد اس عاجز کا ملک التجار ، نامی نہایت مالدار و آسودہ

----------------
44
----------------

روزگار ، پیشہ تجارت کے سے ، اس قدر گنج وافر بیچ بساط جمعیت کے موجود رکھتا تھا ، کہ شاید
صراف سپہر کا بھی بیچ صندوق کہکشاں کے خزانہ ستاروں کا جمع نہ رکھتا ہوگا ، اس سے دو فرزند
تولد ہوئے تھے ۔ ایک یہ عاجز اور دوسری ہمشیرہ کہ اس کے تئیں قبلہ گاہ نے بہ حین 147
حیات اپنی کے ساتھ ایک سوداگر بچہ ، عمدہ خاندان سے منکوح کیا تھا ۔ القصہ یہ فقیر عہد
خوردگی سے بیچ ناز و نعمت کے پرورش پا کے اور فکر و افکار دنیا کے سے کچھ سرو کار نہ رکھے ،
بشکل کودکاں بازی ، عیش و عشرت میں مشغول رہتا ۔ جب مہتاب عمر میری کا بدرجہ چہار دہ
سالگی پہنچا روز روشن سرور ابتہاج 148 اس تیرہ بخت 149 کا تاریک تر شب یلدا 150 سے ہوا
یعنی پیمانہ زندگی مار و پدر بزرگوار کا شراب خوشگوار حطوظ نفسانی سے لبریز ہو کے ،
اسی سال میں صدمہ دست قضا کے سے ڈھلا ۔ وقوع اس واقعۂ جانگداز و سانحۂ ہوشربا
کے سے عالم بیچ آنکھوں میری کے تاریک نظر پڑ کے دود آہ و فغاں کے نے سر کا غبار فلک
تک کھینچا اور نہایت غم و الم سے سیاہ بیچ بدن کے کر کے چہرۂ حال تباہ اپنے کے تئیں
ساتھ ناخن مصیبت کے نوچا ۔ سچ کہتے ہیں ؂

اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب چشم کھلی گل کی و موسم ہے خزاں گا

بعد از چند روز کے خویش و اقربا نے رسم تعزیت و دلداری کی بجالا کے کشتیء دل شکستہ
میری کے تئیں میری کے گرداب غم سے او پر کنارہ صبر و شکیبائی کے پہنچایا ۔ جس وقت اس ماتم زدہ نے
اسمیات سوگواری سے فراغت پائی ، مالیت پباپ کی سے اوپرمبلغ خطیر و گنج وافر کے قابض و
متصرف ہوا اور نہایت خوشحالی و فارغ البالی سے محرمان خلوت سرائے وفا و اخلاص کے تئیں
بیچ عشرت کدہ اپنے کے جمع کر کے بساط نشاط کی آراستہ کی ، و دوستاں ہم پیالہ و ہم نوالہ نے
بیچ بزم مسرت و انبساط کے داد خوش وقتی و خورسندی 152 کی دی ۔ اس ور سے ایک مدت
تک فجر سے شام تک استفادہ خدمت بزرگوں کی سے روپوش اور شام سے فجر تک خمار
نشۂ اوباشی کے سے مدہوش رہنا ، اختیار کر کے دست اسراف بیجا کا اوپر مال مفت کے

----------------
45
----------------

دراز کیا اور نقد عمر عزیز کے تئیں بیچ قمار بازی لہو و لعب رازگار نا ہنجار کے کھوتا ۔ آخرش یہ
حآلت پہنچی کہ ایک کلاہ اوپر سر کے اور آہ بیچ جگر کے کچھ باقی نہ رہا اور رفیقان جو
فرقش گندم نما 153 رفاقت کے تئیں بیچ ششدر بے وفائی کے چھوڑ کر مانند کافور کے
غائب ہو گئے ۔ پھر ہر چند تأسف کا دندان ندامت سے کاٹا اور جتنا کہ خون جگر کا کھایا
کچھ فائدہ نہ دیکھا ۔ اس وقت میرے تئیں یہ شعر ضسب حال اپنے یاد آیا ؂

اس زیست سے بہتر ہے اب موت پر دل دھریئے
جل بجھئے کہیں جاکے یا ڈوب کہیں مرئیے

کس طور کٹیں راتیں کس طرح سے دن بھریئے
کچھ بن نہیں آتا ہے حیران ہوں کیا کریئے
کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کا کہیئے

جو بیچ اس شہر کے بد وضعی ، میری سے سوائے قرص 154 آفتاب کے شکل نان کی دیکھنا
ممکن نہ تھا ، لاچار برقع بے حیائی کا اوپر چہرے کے ڈال کر ، بیچ خڈمت ہمشیرہ کے ، کہ بعد
وفات قبلہ گاہ کے اس بد بخت نے کبھی استفسار احوال اس کے کا ، نہ کیا تھا بلکہ پیغام اس
کے کا ، جواب بھی نہ دیتا ۔ افتاں و خیزاں 155 پہنچا ۔ وہ مشفقہ مہر پرور دلنواز نے بہ مقتضائے
شفقت و عطوفت کے سرور ملاقات میری کے سے مثل گل کے شگفتہ و سرخ رنگ و ردیافت
احوال سراپا ملال ، میرے کے سے ، مانند غنچہ کے دل تنگ ہوئی اور اس سرگردان دشت کوہ
حیرانی کے تئیں بیچ ایک مکان مطبوع و دلکش کے جائے سکونت دے کے ملبوسات زیبا و
فاخرہ و لوزیات 156 لطیف و بامزہ و اغذیات خؤب و خوش ذائقہ کے تئیں لاکے حآضر کیا جو
اس بے سرو ساماں کے تئیں عالم تباہی میں بیچ سیر و تماشائے جہاں کے صورت گندم کی
سوائے گندمی رنگ چہرۂ خؤبوں کے اور شکل گنجد 157 کی سوائے خال رخسارۂ محبوبوں کے
ایک مدت سے نظر نہ پڑی تھی ، ایک مرتبہ بے سبب مہیا ہونے ، سب اسباب جمعیت کے
دوگانہ شکر کا بہ درگاہ حضرت واہب 158 العطایا کے کہ فضل و کرم اس کا مرہم ناسور دل

----------------
46
----------------

درد مندوں کا ہے ، ادا کیا اور چند روز قدم اس آرام گاہ سے باہر نہ دیا ۔ رفتہ رفتہ ایک روز ،
اس کان مروت کی نے نزدیک میرے آکے بعد ، از ذکر اذکار اور طرف کے مصلحتاً فرمایا
کہ اے نور باصرہ بصیرت ہمشیرہ کے اگر چہ آتش غم مفارقت کی آب زلال سیری
مواصلت تیری کے سے کما حقہ‬ منطفی نہیں ہوئی اور دیکھنا تیرا ہر دم باعث زندگانی اس عاجز کا
ہے ، لیکن مردوں کے تئیں خانہ نشین ہونا سبب پریشانی گوناگوں اور علاوہ اس کے مطعونی 159
خاص و عام کے ہے ، خصوصاً بے جہت استقامت اس شہر سے خویش و بیگانے مظنّہ 160
اوپر نا خلفی و بے ہنری و دوں ہمتی تیری کے لے جاکے زبان طعنے کی دراز کریں گے، اس
صورت میں واسطہ خفت و ندامت میری و تیری کا اور بدنامی و گمنامی مادر و پدر کا ہے ، پس
صلاح دولت یہ ہے کہ ارادہ سفر کا اوپر دل اپنے کے مصمم رکھ ، انشاءاللہ تعالیٰ اس وسیلۂ جمیلہ
سے یقین ہے کہ شب ظلمات صعوبت خآنہ خرابی کی ساتھ صبح نورانی اور شادمانی کے مبدل ہو ،فقیر نے در جواب التماس کیا ؂

کہ میرے واسطے خاطت میں جو ترے آوے
وہی ہے خوب مرے حق میں جو تجھے بھاوے

پس اندرون گھر کے جا کر ، پچاس توڑے اشرفی کے ، آگے میرے لاکے رکھے اور کہا
کہ ایک گروہ تجار کا تہیہ سفر دمشق کا پیش نہاد خاطر کے رکھتا ہے لازم ہے کہ اس زر سے متاع
تجارت کی خرید کر کے جماعت تجار سے حوالہ ایک شخص کے کر کے اور دستاویز مکمل اس سے
حاصل کر کے تو بھی رہ نورد سر زمین دمشق کا ہو ۔بعد از پہونچنے منزل مقصود کے تمام جنس بہ
جنس تیرے تئیں پہنچے گی اور ایوان گل ہائے منفعت بے شمار کے بیچ چمن شغل سوداگری
تیرے کے بہار افزا ہوں گے ۔ بندہ نے ارشاد ہدایت بنیاد اس مظہر عاطفت و مکرمت
کے تئیں ذریعۂ سعادت اپنی کا جان کے بہ موجب استصواب اور استصلاح 161 اس غؐخوار
غمگسار کے مال تجارت کا خرید کے حوالے ایک شخص سوداگر کے کیا ، بعد از ورانہ ہونے جہاز
تجارت کے ، چند روز پیچھے بندہ نے بھی تیاری چلنے کی خشکی کی راہ سے کی ۔ اس وقت سوائے

----------------
47
----------------

نوازش زر تجارت کے ایک خلعت زری کا کہ ہر تار اس کا خجلت 162 دہ خطوط شعاعی خورشید کا
تھا اور ایک گھوڑا باد رفتار برق آہنگ کہ جس کی تیز روی و جلد بازی کے بیان کی سرپٹ سے
اشہب تیز گام زبان کا بیچ میدان تقریر کے غلطاں و پیچاں ہت اہاہاہا کیا گھوڑا ؂

گاہ آجاوے نظر گاہ نظر سے غائب
کہ ہوا بیچ وہ شبرنگ ہے جگنو کی چمک

ر وبرو سے اگر آئینۂ کے اس گلگوں کو
پھیکتا چڑھ کے جو میں شرق لے غرب تلک

اتنے عرصے میں پھر آتا وہ کہ بے شبہ و شک
عکس بھی آئینے سے ہونے نہ پاتا منفک 163

ایک اور توڑا 164 اشرفی کا بہ تقریب زاد راہ کے علاوہ عنایات بے غایات 165 اول کے
تواضع کر کے خوشی و خرمی تمام سے، میرے تئیں رخصت کیا اور فاتحہ خیر کی پڑھ کے پا در
رکاب ہوا 166 اور رہبریء بدرقۂ 167 فضل الہی کے سے شبانہ روز مانند مہر و ماہ کے سریع السیر ہو
ہو کے سب رفقائے ہمراہی سے بعد مراحل و قطع منازل کے گرد نواح دمشق کے جا پہنچا ۔
جب طائر زریں بال آفتاب کے نے رخ بیچ آشیانۂ مغرب کے کیا اور بیضۂ سیمیں
ماہتاب کا بطن مشکیں شب تار کے سے نمودار ہوا ، مستحقان 168 و محارسان شہر کے نے
کہ بموجب حکم والی اس دیار کے مامور تھے ، دروازہ شہر پناہ کا مسدود کر کے راہ آمد و رفت
صادر و وارد کی بند کی ۔ ہر ند کہ عاجز نے ساتھ کمال لجاجت و سماجت کے زبان عجز و نیاز کی
واسطے درامد ہونے شہر کے کھولی، اصلاً عرض میری کے تئیں واسطے شغل بیداری و شب گزاری کے اوپر
تماشا برج حصار کے کہ رفعت عمارت اس کی ہمسر چرخ بریں کی تھی مصروف کیا ۔ جس وقت


----------------

48
----------------

جس وقت زلف خاتون شب کی کمر تک پہنچی ااور چشم خلائق کی خمار نشۂ غنودگی کے سے سرمست خواب
غفلت کے ہوئی یکایک صندوق چوبیں 169 فراز دیوار حصار کے سے مانند خورشید کے برج
حمل 170 کے سے جلا بخش دیدۂ تماشا بیں کا ہوا ۔فقیر واردات اس عجائبات کے سے کمال
متعجب ہوا کہ آیا یہ خیال طلسمات کا ہے یا مسبب الاسباب 171 حقیقی نے اوپر بیکسی ، اس
بیکس کے نظر ترحم کی فرما کے ، خزانہ غیب کے سے ، دولت عمر غیر مترقب مرحمت کی اور بعد
یک لمحہ کے نشست گاہ سے اٹھ کے صندوق کے تئیں ایک گوشے میں لے جا کر کھولا ، دیکھتا کیا
ہوں کہ ایک نازنین پری چہرہ حور لقا خورشید طلعت ماہ سیما بلکہ آفتاب بھی فروغ 172 جمال صبح
اس کے سے کباب آتش حسرت کا تھا اور ماہتاب شعثۂ حسن ملیح اس کے سے داغ رشک کا
بیچ سینے کے رکھتا تھا ، مانند بسملان شمشیر نگاہ محبوبوں کے زخم ہائے کاری سے مجروح و بیخود ،
درمیان صندوق کے چشم بند کیے ہوئے ، پڑی تڑپتی ہے اور آہستہ آہستہ زبان نرم بلبل زبان
اس کی یوں سخن پرداز ہے کہ اے دوست بے وفا ، و اے جو فرش گندم نما ، و اے کمبخت
جفا کار ، و اے بد بخت دل افگار ، عوض اس نیکی کا تلافی اس مہروزی 173 کا یہی تھا کہ تجھ
سے ظہور میں آیا ؂

بدلہ ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے
قاتل ہماری لاش کو تشہیر ہے ضرور
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے

یہ کہہ کے بعد ایک لمحے کے عالم بے ہوشی میں نقاب اوپر چہرے کے کھینچ کر رخ توجہ کا
نہ فرمایا ۔ فقیر نے ملاحظہ احوال سراپا درد و ملال اس شمس الضحیٰ برج حسن و جمال کے سے
نہایت متحیر ہو کے کہا کہ واالہ اعلم کس سنگ دل بے درد نے سنگ بے مہری کا اوپر سینے کے رکھ
کے خنجر ظلم کا اوپر اس گلبدن کے مارا کہ اس پری چہرہ کے تئیں ہنوز شبہ مصاحبت اس کی
کا بیچ خیال کے ہے اور یہ شعر بے اختیار اوپر زبان کے گزرا ؂
 

صابرہ امین

لائبریرین
ریختہ نو طرز مرصع - صفحہ 61-65


ص 61


دانائے عصرتھی ، میرے تئیں نہایت دلداری سے فرمایا اگر دوتین روز مہمان خانہ میں اتفاق رہنے کا ہوا، کچھ مضائقہ نہیں کہ مشہور ہے رفتن بہ ارادت و آمدن بہ اجازت ۔ توں گرد اِنفعال بیجا کی چہرہ حال کے سے جھاڑ کر اس کے ہر گزتشویشِ خاطر کے نہ لا لیکن تیرے تئیں بھی اسباب ضیافت اُس کے کا ترتیب دینا از جمله واجبات ہے، پر عدم سر انجام ضروری سے کچھ فکر اندیشہ نہ کر، یہی کے جوان مرد جواہر فروش کے تئیں اپنے ساتھ لے آوے اور یہاں خدا کے فضل سے ایک دم میں سب لواز مہ ضیافت کا آئین شائستہ سے زیب ترتیب کی پاوے گا۔ فقیر نے بہ موجب امر کے اُسی وقت جواہر فروش سے جا کے کہا کہ جو یہ عاجز فرمانے تیرے کے تئیں بسروچشم بجا لا یا، پس بہ مقتضائے مہرومحبت کے اگرتوں بھی نو رقدوم بَہجت لزوم اپنے کے سے شبستان آرزوئے مشتاق کے تئیں منور کرے، گنجائش رکھتا ہے۔ غرض کہ اُس کے تئیں نہایت مبالغہ سے ہمراہ لے کر ڈیرے کو آتا تھا اور بے مائیگی اپنی سے یہ خیال جی میں لاتا تھا ؂

مفلسی سب وقار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے

اگر آج میرے تئین مقدور ہوتا تو سرانجام دعوت کا اس سے بہتر تیار کرتا اور اب جو بے اختیاری سے اُس کو لے کر مکان میں جاتا ہوں خدا جانے کہ کیا اتفاق در پیش آوے اس خیال میں مضطر و تفکر چلا جاتا تھا۔

جب مسافر جہاں پیمائے آفتاب کا قطع مسافت گیتی کا کر کے بیچ منزل گاہ مغرب کے پہنچا آخر روز نزدیک غریب خانے کے آ کر ایک مرتبہ دیکھتا کیا ہوں کہ کوچہ حویلی کا از بس آرائش لوازم ضیافت کے سے رشک افزائے گلستان فردوس کا ہو رہا ہے اور میدان جلو خانے کا جاروب کشی کی رخت ۲۱۲وروب ۲۱۳ سے خجلت و صفائی رخساره محبوبوں کا ہو گیا۔ فقیر نے اس واردات سے مانند آئینہ کے پشت او پر دیوار حیرت کے رکھ کے غور کیا کہ یارب یہ عالم طلسم کا ہے یا خواب و خیال ہے یاغلطی سے، راہ گھر کی فراموش کر سکے، والئِ شہر کی دولت


ص62


سرا پر پہنچا ہوں کہ اس مرتبہ انبوه مردم کا صف بہ صف مستعد تیاری جشن شاہانہ کے ہے۔ آخرش آثارِ علامات سے نشان گھر کا معلوم کر کے اندرون دروازہ کے داخل ہوا تو کیا نظر پڑتا ہے کہ آب پاشی صحن دیوان خان کی نے ترشح شبنم گلزار کے تئیں بے آب کر رکھا ہے اور شفافی فرش چاندنی کی نیں رنگ چہرہ چاندنی کے تئیں سفید کر دیا ہے ایک طرف جماعت مُخَدَّ رات چراغاں کی بیچ نقاب ٹٹی ابرق کے نور افزائے دیده نظارگیوں کی ہورہی ہے اور ایک طرف نوعروسان شمع کے بیچ چھیپان فانوسوں کے جلوہ آرا ہو کر فروغ بخش چشم مشتاقوں کی ہوتے ہیں ؂

زبس کیا ہے مرصع أسے جواہر سے
ہے کان لعل سے خالی گہرستی در یا

ہر ایک حلقہ زنجیر سقف ۲۱۵ میں اُس کے
عجیب ہی لطف سے ہر قمقے کو نصب کیا

بیاں میں کیا کروں اس لطف کےتئیں جیسے
بندھا ہے زلف میں معشوق کے دل عشق کا

کہیں صداتان ترنگ کی و آواز ترانہ موزوں ارباب و آہنگ کی سَرنائے گلومطربان خوش نوا نغمہ سنج کے سے بہ نحو حالت درمست و دیوار مست کے بندھ رہی ہے اور کہیں ساقیان خوش لقا جاد و ادا بازلف دل آویز و تبسم شکر ریز کے مے گلگلوں کے شیشہ سے جام مرصع پُر کر کے مشغول مراسم تواضع ولوازم مہمانداری کے تھے کوئی حُسنِ نمکین سے نمکدانِ گزک بیچ ہاتھ نازنین کے لے کر نمک شوق کا اوپر کباب دل سوختگان محبت کے چھٹر کتا اور کوئی غبغب شیریں سے شیریں نُقل ہائے میوہ کے بیچ ،خوانچہ سیمیں کے رکھ کے ذائقہ شکر خواران عالم مَوّدت کے تئیں حلاوت لذت کی دیتا۔ بارے مہمان کے تئیں اوپرصدرمجلس کے بٹھایا اور اسباب لوازم ضیافت کا بیچ خدمت اُس کی رجوع کرکے، آپ واسطے تلاش ملکہَ ناز نیں اپنی کے اُٹھا۔ تماشا یہ کہ ، جہاں دیکھتا ہوں اصلا نشان اُس کے سے سُراغ


ص 63


نہیں۔ رفتہ رفتہ متصل مطبخ کے پہنچا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پری پیکر بیچ کُنج کے ایک مکان کے چادر سفید سر پرکھینچے ہوئے، محنت تیاری سامان دعوت کے سے عرق عرق اور تر بہ تر ہے۔ اُس وقت کے پسینہ کی بہار میں دو شعر بے اختیار زبان پر گزرے ؂

عرق گرتا ہے تیری زلف سے اور دل سہتا ہے
شب تاریک ہے اور ٹوٹتے ہیں دم بہ دم تارے

اور ایک یہ عرض کرتا ہوں ؂

عرق ہے مکھ پر ترے یا گلاب ٹپکے ہے
عجب ہے مجھ کو کہ شعلہ سے آب ٹپکے ہے

اور روبروآ کے پیشانی اُس کے کے تئیں بوسہ دیا اور قربان ہو کر اوپر متانت رائے و رِزانت فکرو جوہر فطرت و سلیقه قابلیت اس کے ہزار تحسین و آفرین کر کے کہا؂

کیوں نہ ہو ناز زمانے کو تری ذات سے آج
اسقدر جس کو دیا حُسنِ لیاقت حق نیں

ختم ہے تجھ پہ فراست کے کمالات کے کام
دی تجھے جو ہر اول کی نیابت حق نیں

اس بات کے سُننے سے ملکہ نے در جواب فرمایا کہ استغفراللّٰہ یہ حُسن ظن تیرا ہے واِلّا ، یہ بشرسے وے وے کام سرانجام پائے ہیں کہ جس کے خیال کی رفعت میں مرغ تیز رو وہم وقياس کا کیا قدرت کے بال پرواز کے کھول سکے اور اس کا تو کیا ذکر ہے۔ لیکن میرے تئین تیری لسّانی خوش نہیں آتی، کہیں یہی رسم زمانے کی ہے کہ مہمان کے تئیں تنہا چھوڑ کر، آپ بہ فراغت با تیں بنائے ۔ پس توں وہیں جا کے رسم تواضع و مدارات کی بجالا اور اُس کی معشوقہ پسندیدہ کے تئیں بھی بُلوا کر مسند علیٰحدہ بیچ مجلس کے آراستہ کر کے بٹھلا۔ فقیر بہ موجب امر کے مجلس میں آ کر حاضر ہوا اور جو کچھ واجبات مہمان داری کے تھے تعظیم و تکریم سے ادا


ص64


کرکے کی خدمت سے مقصر نہ رہا اور فی الفور ایک خواجہ سرا کے تئیں، واسطے طلب أس عجائب المخلوقات کے بھیجا۔ جب معشوقہ سیاہ فام شب کی نے اِس طرف کی پٹّی سے اُس طرف کو کروٹ لی ، وہ تحفہ عِلّت بیچ چھیپاں مُکَلّف کے سوار ہوکر آن پہنچی۔ بارے فقیر اُس کے ساتھ لوازم استقبال و احترام کے بجالا کے نہایت تپاک سے پیش آیا اور برا بر مہمان کے نپٹ اعزاز و اکرام سے اوپر مسندِ زرّیں کے بٹھلایا۔ جوان جمال اُس کا دیکھ کر از بس خوش وقت سے بیچ پیرہن کے نہ سمایا اور وہ بھی آتے ہی بلائے ناگہانی سی جوان قمر طلعت سے یوں چپٹ گئی جیسے چاند کو گہن گھیر لیتا ہے اور تماشا بیں مجلس کے انگشت حیرت کی، دندانِ حسرت سے کاٹ کر لاحول کے پڑھنے سے یوں غوغا کر رہے تھے، جس طرح سے صدقہ لینے کوں بھنڈریے ۲۱۶ گرہن کے روز شور کرتے ہیں، لاحول ولاقوة - واللّٰه باللّٰہ، جان صاحب کیا آئیں، گویا ایک سَوانگ آیا، جدھر دیکھتا ہوں اُدھر سے آدمی ، سب مجلس کے تماشا تیاری و آرائش ضیافت کا چھوڑ کر اُسی طرف متوجہ ہیں اور بے اختیار ہنس ہنس کے پڑھتے ہیں ؂

کیا ہے عشق کے سودے نیں کیا کام
کہ ہوتا ہے ہُما الّو ے سے بدنام

اور ایک عزیز ایک گوشے میں کھڑے ہوئے جُدا ہی کہہ رہے ہیں کہ یارو عشق کوساتھ عقل کے کیا مناسبت ہے کہ متحیر ہورہے ہو ؂

عشق کا مکڑ جدھر آ کے کج رفتار ہو
عقل کی مکّھی کی کی قدرت وہاں بھنکا ر ہو

پر فقیر ایک گوشے میں واسطے تقديم خدمات مہمانداری کے موافق حکم ملکہ کے حاضر و مستعد ہو کر دم بخو دتھا۔ ہر چند کہ مہمان مالک گھر کا میرے تئیں جان کے بیچ مدارات ہم پیالہ وہم نوالہ ہونے کو مبالغہ کرتے تھے۔ میں اصلا مزاج اپنے کے تئیں طرف کھانے پینے کے یا سیر تماشے کے مائل نہ رکھتا تھا۔ اس حالت میں سہ شبانہ روز گزرے شب چہارم



ص65

مہمانوں نے میرے تئیں نزدیک بُلوا کر نپَٹ ۲۱۷ہی گرمجوشی سے کہا میاں ؂

آدمی کےتئیں کچھ گرمی صحبت بھی ہے شرط
وہ بھی انسان ہے دنیا میں جو اتنا ہو خُنک

گو ترا وضع زمانہ سے ہے دل افسرده
پر ہم آئے ہیں ترے گھر میں ادھر دیکھ تنک۲۱۸

ایسے مہمان کی لازم ہے کہ خاطر ہو عزیز
بادہ بھر شیشے میں، رکھ لا کے نمکداں میں گزک

آج وہ دن ہے کہ جس جا میں تو دیکھے اس میں
کہیں تو ہوتا ہے سنگیت کہیں ہے اولک ۲۱۹

یاں تلک شیخ و برہمن ہیں طرب کے مصروف
دیر میں بجتی ہے مِردنگ حرم میں ڈھولک

بادہ کو ہاتھ سے باقی کے نہ پیوے ملا
پر یہ راضی ہے کہ کپڑوں پر جو چھڑکے تو چھڑک

پھر تو ہی بادہ گلگوں سے رہے کیوں محروم
پاس لے بیٹھ ہمیں سب کو چھکا، آپ بھی چھک

اور جو با وصف اس گفتگو کے پھر حرف انکارکا او پر زبان کے لائے گا وللّٰہ کے ہمارے تئیں توقف ایک ساعت کا علم عنقا (كذا) کا رکھتا ہے۔ میرے دل من یہ خیال گزرا کہ اگر در صورت اِغماض کے غبار کدورت کابیچ خاطر مہمانوں کے بیٹھے کطھ لطف نہیں، لاچار پاس خاطر ان کے بساط نشاط کی آراستہ کر کے ہنگامہ بزم باده و پیانہ کا گرم کیا آخرش کثرت نوشانوش کی سے ابل مجلس سرشار ہو کے سر مست خواب غفلت کے ہوئے۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 49

تڑپتی ہے پڑی بُلبُل قفس میں
پڑی تھی ہائے کس ظالم کے بس میں

جس وقت کلمات محبت آمیز، زبان میری سے بیچ گوش ہوش اُس محبوب مرغوب کے پہنچے ایک مرتبہ یردہ اغماز کا دروازہ چشم نرگسیں کے سے اُٹھا کے میری طرف متوجہ ہوئی۔ سُبحان اللہ؂

برقع کو اُٹھا چہرہ سے وہ بُت کہ بر آیا
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آیا

جب نگاہ اُس جادونگاہ کی ساتھ نگاہ میری کے ہم نگاہ ہوئی، واللہ کہ اپنے تئیں مقدور نگاہ رکھنے کا نہ پایا؂

نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتےہی جب لڑیاں
یکایک کُھل گئیں دونوں طرف سے دل کی گل چھڑیاں

لیکن از بس کہ تاب جمال اُس کے کی نہ لایا، مانند اُس مجروح دل خستہ کے زخم تیغ چشم اُس کی سے بے حس و حرکت ہوا۔ بعد ایک لمحہ کے، دماغ کے تئیں نسیم ورق گلاب رُخسارہ اُس گلستان خوبردی کے سے معطر کر کے کہا کہ اے نو بہارستان ملاحت کی، سچ کہہ کہ توں سر و خراماں کس چمن کی ہے، واے روشن چراغ شبستان نزاکت کی توں شمع شب افروز کس انجمن کی ہے، باعث اس واردات کا کیا ہے اور وصہ سرگزشت تیری کا کیوں کر ہے، جو وہ نازنین شدتِ درد جراحت ہائے کاری کے سے تاب گفتگو کی نہ رکھتی تھی۔ نہایت آہستگی سے پستہ دہان کے تئیں شیریں زبانی سے شکر آمیز کر کے بولی؂

یا چشم تر ہون یا رگِ تاک بریدہ ہوں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں
گر یاں بشکل شیشہ و خنداں بطرزِ جام
اس میکدے کے بیچ عبث آفریدہ ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 50

اے عزیز، از بس بے طاقتی سے، اس مجروح بے طاقت کے تیئں طاقت گزرش احوال پُر ملال کی نہیں۔ اغلب کہ کوئی لمحہ میں، طاہر روح کا قفس تن کے سے بلند پرواز عالم فنا کا ہو، اگر تہ بہ مقتضائے حمیت و جواں مردی کے مزاج اپنے کے تیئں اورپر استفسار بے فائدہ حال تباہ میرے کے تیئں مصروف نہ کر کے اور برائے اللہ اس برگشتہ طالع کے تیئں بیچ ایک گوشۂ صحرا کے مدفون کرے تو باعث نجات اس تیرہ بخت کا، ملامت زبانِ خلائق کے سے کہ فی الحقیقت سواد الوجہ فی الدارین کا ہے ہوسے اور اقدام اس امر خیر کے سے توں بھی داخل ثوابِ عظیم کے ہو کر جزا اس نیکی کمال کی بارگہ کبریائے حضرت عالم السرِ و الخفیات کے سے حاصل کرے۔ یہ کہہ کر خاموش ہوئی۔ جو وقت شب کے عالم بیکسی میں کچھ چارہ نہ تھا لاچار صندوق کے تیئں خوب گاہ اپنی پر اٹھا لا کے بے اختیار روتا تھا اور پڑھتا تھا۔

شبِ غربت میں یارو گریہ و زاری ہے اور میں ہوں
جھپکتی ایک پل نئی نئیں آنکھ، بیداری ہے اور میں ہوں

غرض تمام شب گریہ و زاری و ستارہ شماری سے بسر لے جا کے اس فکر میں تھا، الٰہی کب مرغ صبح خیز شمس کا بیچ قفس مشرق کے منقار شعاع کے سے صدا روشنی کی بلند کرے گا اور کب عابدِ شب زندہ دار (۱۷۴) ماہ کا تسبیح ستاروں کے تیئں، بیچ سجادۂ سپہر کے رکھ کے متوجہ آرام گاہ مغرب کے ہو گا کہ میں داخل شہر کے ہو کر تدبیر معالجہ کی کروں۔ اس عرصہ میں شاہ زریں کلاہ خورشید کا اوپر تخت زمردیں افلاک کے جلوہ آرا ہو کے تجلی بخش ساحت (۱۷۵) سر زمین دمشق کا ہوا۔ بندہ نے اُس وقت قید انتظار کی سے مخلصی پا کر دوگانہ شکرانہ کا، بیچ جناب حضرت کارساز حقیقی کے ادا کیا اور صندوق کے تیئں درمیان خورجین (۱۷۶) گھوڑے کے کس کے داخل شہر کے ہوا اور ہر ایک متنفس سے مُستفسِر (۱۷۷) و مُتلاشی مکان کرایے کا تھا۔ آخرش بعد تفحص و تجسسِ بسیار کے، ایک حویلی خوش تعمیر و خوش اسلوب کہ جس کے دیکھتے ہی غنچہ دل کا کھل جاوے، کرایہ لے کر اُس ماہ جبیں کے تیئں درمیان کنج خانہ کے مکان محفوظ میں، مانند حرف یاد الہٰی کے بیچ نقطۂ سُویدائے (۱۷۸) دل واصلان درگاہ کبریائی
 
مدیر کی آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 51

کے اوپر بچھونے نرم کے کہ ملائم تر رخسار سیمیں (۱۷۹) عذارانکے سے تھا، چھوڑا و معتمدان ہمراہی کے تیئں بیچ خدمتگاری اس نازنین کے تعین کر کے آپ واسطے تحقیقات مکان جراح کے حویلی سے باہر آیا۔ چنانچہ زبانی ایک شخص کے معلوم ہوا کہ عیسیٰ نامی ایک جراح بہ کمال کسب طبابت و جراحی کے، کہ اگر مُردے کے تیئں بھی چاہے تو عنایت الٰہی سےزندہ کرے، فلانے محلہمیں رہتا ہے۔ فقیر اس گُلبانگ (۱۹( بشارت اندوز سے بسان (۱۸۱) گل کے شگفتہ و خنداں ہو کر پوچھتے پوچھتے اوپر دروازہ جراح کے کہ مثل دل بیدار دلوں کے کشادہ تھا،جا پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ متبرک ذات خضر صفات بیچ دہلیز گھر کے رونق افزا ہے۔ فقیر نے مصلحتاً بعد آداب سلام کے التماس کیا کہ اے مرد نیک سیرت، خجستہ طلعت یہ غریب مسافت بعید سے معشوقہ اپنی کو کہ مدار زندگی میری کا، اوپر مشاہدۂ جمال مہر تمثال اُس کے ہے، ساتھ لیے بہ تہیہ روزگار تجارت پیشگی کے اس طرف کو آتا تھا، جب بفاصلہ ایک فرسخ اُس طرف شہر کے پہنچا، عروس شفق کی نیں کاکل مشکیں شام کی اوپر چہرے کے کھینچی جو اپنے تیئں ملک بیگانہ میں اصلاً منزل شناسی کی اطلاع نہ تھی، لاچار وقت شب کے حرکت کرنا، اس جگہ سے امر محال جان کے، وہیں زیر سایہ درخت کے استقامت کی قضا یا وقت نصف شب کے ایک گروہ رہزنوں کا مستعد و مسلح اوپر سر میرے کے آ ٹوٹا اور جو کچھ مال متاع بیچ بساط جمعیت میری کے تھا بالکل لوٹ لیا، علاوہ اُس کے اُس گل اندام عطر بخش مشام زندگانی اس ناتواں کے تیئں بہ طمع زیور کے جراحت ہائے کاری سے رشک تختۂ شقائق کا کیا۔ جو مرضی الٰہی سے کچھ چارہ نہیں، باقی شب اللہ اللہ کر کے بسر لے گیا۔ علی الصباح داخل شہر کےہو کے ایک حویلی کرایے کی میں اُس آرام خاطر کے تیئں چھوڑ کر رہبری طالع سعید کے سے مستفید خدمت فیض موہسبت تیری کا ہوا ہوں۔ جو حکیم علی الاطلاق (۱۸۲) نے تیرے تیئں داد رس ملہوقان خدنگِ (۱۸۳) بلا کا کیا ہے، بہ مقتضائے غریب پروری و عاجز نوازی کے اگر کلبۂ احزاں (۱۸۴) میرے کے تیئں قدوم (۱۸۵) میمنت لزوم اپنے سے منور کرے، بندۂ بے درم خریدہ ہوتا ہوں۔ بارے جراح نے اوپر حال تباہ میرے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 52

کے نظر ترحم کی فرما کے، غریب خانے تک قدم رنجا فرمایا و بعد ملاحظہ زخموں کے نہایت دلنوازی سے اوپر درد سر میرے کے صندل تشفی کا لیپ کے کہا کہ اگر فضل الٰہی شامل حال فرخندہ مآل اس پری تمثال کے ہے، ان شاء اللہ تعالٰی چالیس روز کے عرصہ میں غسل شفا کا کراتا ہوں و صحت کامل نصیب اس عنصر لطیف کے ہوتی ہے۔ غرض اُس مرد نیک ذات، خضر صفات نے بعد از کلمات مہر انگیز کے یراق (۱۸۶) اپنے سے ایک ڈبیا مرہم کافوری کی، کہ فی الحقیقت بیچ حق اُس سکندر طالع کے آب حیات تھی نکال کے پھایے اُس کے جابجا اوپر زخم ہائے کاری کے لگائے اور بہ مقتضائے کمال مہر و زری و دلنوازی کے اقرار خبر گیری دو وقتہ کا کرکے سوال رخصت کا کیا۔جو میرے تیئں تشریف فرما ہونا اُس مرد بزرگ کا باعث جہاں جہاں نشاط اور سبب عالم عالم انبساط کا تھا، جان و مال سے بیچ خدمت اُس پیر مرد کے رسمِ تعظیم و تواضع کی بجا لا کے مُرخص (۱۸۷) کیا۔ بارے چند روز میں توجہات باطنی سے جراح نے ایفا وعدہ کر کے اس قمر طلعت کے تیئں غسل شفا کا کرایا۔ میں نے اُس وقت خوشی وقتی اس معراج طالع اپنے کے تیئں تسخیر ہفت اقلیم کے سے نسبت دینا غلط فہمی ابنائے روزگار کی جان کے دوگانہ شکرانے کا بیچ بارگاہ شافی مطلق کے ادا کیا اور اُس سیمیں بدن کے تیئں فرش قالین و قاقم (۱۸۸) کا بچھا کے اوپر مسند جاہ و حشمت کے رونق افروز کر کے جو کچھ نقد و جسن سے بیچ بساط جمیعت کے موجود رکھتا تھا نثار اُس گل عذار (۱۸۹) کے کیا اور اپنے تیئں مانند عندلیب شیدا کے اس نرگسیں چشم پر جان و مال سے فدا کر کے بندگی اس کی کے تیئں افتخار کونین کا جانا۔ سبحان اللہ جب خورشید جمال اس مِہر تمثال کا کُسوف رنج و ملال جراحت ہائے مالا مال سے نکل کے اوپر مطلع صباحت و وجاہت کے درخشاں ہوا، بے شائبۂ تکلف آفتاب، تاباں مانند مہتاب کے تاب حُسن اُس کے کی نہ لا کے تاب سے بے تاب ہوا

حُسن ایسا کہ جگر ماہ کا ہو جاوے داغ
اُس کی تشبیہ سے جب اُس کو تجاوز دے فلک
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 53

رنگ سے چہرہ کے شرمندہ ہو کندن کی دمک
آگے غبغب (۱۹۰) کے خِجالت زدہ سونے کی ڈھلک
قامت ایسا ہے کہ ہنگام خِرام اُس کے اگر
آگے آ جاوے قیامت تو یہ بولے کہ سرک
زرق و برق ایسی ہے پوشاک میں اُس کی کہ جسے
کوند بجلی کی کہوں یا کہوں شعلے کی جھلک
جیسی ہو سج سے گلے بیچ حمائل گُل کی
ویسی ہی عطر کی بو، سِتنی ہی سوندھی کی مہک
غرض اس شکل سے آئے جو نظر وہ یارو
کہا میں دل کے تئیں دیکھ کے، اللہ معک (۱۹۱)

قصہ مختصر یہ فقیر بہ مُقتضائے (۱۹۲) محبت عاشقانہ کے شبانہ روز کمر اطاعت کی بیچ خدمت، اُس زیبا طلعت کے محکم باندھ کے حاضر و مستعد رہتا لیکن وہ، از بسکہ غرور حُسن و ریاست کا بیچ دماغ کے رکھتی تھی، میری طرف بہ نظر الفت شاہدانہ کے رُخ توجہ کا نہ فرماتی اور اکثر اظہار کرتی کہ اگر تیرے تئیں دلداری ہماری منظور ہے، زینہار بیچ حرکات و سکنات ہمارے کے، دخل تفتیش کا نہ کرنا۔ خبر شرط ہے مگر پاس مروت دلنوازی کا بیچ تلافی حقوق خدمت گزاری کے، البتہ ملحوظ خاطر رکھتی، چنانچہ فقیر بھی اِسترضائے (۱۹۳) اُس کی سے سرمو تجاوز نہ کرتا بلکہ اتنی بھی مہر ورزی کے تئیں محض یاوری بخت اپنے کی جانتا اور ایک مدت تک فرمائش اُس کی کے تئیں بسر و چشم بجا لاتا۔ آخرش نقل مشہور ہے، زرکار کُند و مردلاف زند۔ جو یہ عاجز اثاثُ البیت (۱۹۴) سے تا متاع و اِنتِفاع (۱۹۵) جہاز تجارت تک جو کچھ بیچ قبضہ اختیار اپنےکے رکھتا تھا، نثار اس مایۂ ناز کے کر چکا اور ملک بیگانہ میں کوئی تفقُد (۱۹۶) طراز احوال بے حال اپنے کا نہ دیکھا، اس سبب سے بہ مضمون اس کے کہ بے زر بے پر، طاقت توانائی میری کے طاق اور خواب بیچ چشم میرے کے خواب ہوئی اور چہرہ میرا کہ عکس پذیرائی شعاع
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 54

مِہر لقائے اس نور الٰہی کے سے مانند بدرِ منیر کے تاباں ہوا تھا، جانکاہی فکرِ اخراجات لا بدی کے سے مثل ہلال کے حقیر ہوا۔ رفتہ رفتہ ایک روز اس دانائے عصر نے ذکائے طبیعت کے سے، ماہیت احوال میری کی، دریافت کر کے کہا کہ اے عزیز، حقوق خدمت گزری تیری کا، بیچ خدمت ہماری کے اس قدر ثابت ہے کہ تلافی اس کی سے عہدہ برآ ہونا (۱۹۷) ممکن نہیں لیکن واسطے اخراجات ضروری کے غبار تردد اوپر اندیشے کا بیچ دامنِ طبیعت کے نہ جھاڑ، بفضل الٰہی سب آسان ہوسے گا۔ پر ایک پرچہ کاغذ کا اور روسنائی و قلم حاضر کر۔ بندہ نے اُس وقت عقل سے معلوم کیا کہ شاید کسی ملک کی بادشاہزادی ہے کہ اس دماغ سے باتیں کرتی ہے اور بہ موجب حکم کے سامان لکھنے کا حاضر کیا۔ چنانچہ اُس نازنیں نے ایک رقعہ بقل اعجاز رقم کے کہ اگر پیر عطارِد (۱۹۸) جو دبیر فلک کا کہلاتا ہے، قطع نظر تمام ملاحظۂ خط مشکیں اور عبارت رنگیں اُس کی سے اگر صرف یک الف پیشانی اُس کے کا کہ بجائے بسم اللہ کے لکھتے ہیں، دیکھے تو محنت سیاہہ (۱۹۹) نویسی دفتر روزگار کے سے کہ پُشتِ دوتا (۲۰۰) اور نہایت ضعیف ہو کر دل تپاں ہے، کمال خوش وقتی سے عصائے پیری اپنے کا، جان کے قوت نوجوانی کی حاصل کرے،لکھ کر حوالے میرے کیا اور فرمایا نزدیک تِر پولیہ قلعہ کے فلانے کوچے میں ایک عمارت عظیم الشان واقع ہے اور مالک اُس کا شیدی بہار نامی ایک شخص ہے، تو جا کر اس رقعہ کے تئیں اُس مکان کے مالک کو دے۔ فقیر حسب الارشاد رخصت ہو کے رقعہ کے تئیں لے کر اوپر منزل مقصود کے جا پہنچا اور زبانی ایک دربان کے حقیقت ابلاغ حکم کی کر بھیجی، بہ مجرد سُننے اس بات کے ایک حبشی نوجوان سبز رنگ نہایت وجاہت اور صباحت میں ممتاز ایک پھیٹا (۲۰۱) بسنتی، سجے ہوئے حویلی سے برآمد ہوا، اللہ اللہ

ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں کہ سیر کروں کوہِ طور کا
پڑھیے درود حُسن صبیح و ملیح دیکھ
جلوہ ہر ایک پر ہے محمد ﷺ کے نور کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 55

پس ملاحت اُس حُسن ملیح کی اور پھبن بسنتی پھینٹے کی بھی خاطر سے فراموش نہیں ہوتی، جیسا ہی سبز رنگ چہرہ کا تھا ویسا ہی سبز رنگ پھینٹے کا، گویا عالم اس شعر کا اُس پر ختم ہے۔

حُسن سبزے بخط سبز مرا کرد اسیر
دام ہمرنگ زمیں بود گرفتار شدم

نکلتے ہی دروازے سے بے حرف و حکایت پھر اندرون محل سرا کے جا کے بعد ایک ساعت کے گیارہ کشتی سر بہ مہر زر بفت کی، تورہ پوشوں (۲۰۲) سے چپھی ہوئیں، گُلامان غِلمان سرِشت کے سر پر، لے کے باہر آیا اور کہا کہ ہمراہ اس جوان کے جا کے کشتیوں کے تئیں پہنچا اور بارے میں اُس اسم بامسمی سے رخصت ہو کر بیچ خدمت اُس بدیع الجمال کے پہنچا اور غلاموں کے تئیں دروازہ سے رخصت کر کے کشتیاں سر بہ مہر بیچ نظر مبارک ملکہ ماہ سیما کے گزرانیاں۔ بعد ملاحظہ کے میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ بِالفعل (۲۰۳) گیارہ توڑے اشرفیوں کے لے اور سر انجام ضروریات سے جو کچھ چاہے اسباب درست کر، آگے خدا رزاق مطلق ہے، بقول اس گیت کے۔

جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو، جب دانت دیے، کا ان نہ دیہے
جو جل میں تھل میں پنچھی پُش کی سُدھ لیت، سو تیری ہو لیہے
کاہے کو سوچ کرے من مؤرکھ، سوچ کر ے کچھ ہاتھ نہ ایہے
جان کو دیت، آ جان کو دیت، جہان کو دیت، سو تو ہؤ کو دیہے

اور مرزا عبد القادر بیدلؔ فرماتے ہیں

چِرا خود را اسیر غم ز فکر بیش و کم داری
کہ نہ گزارد ترا محتاج ایزد تا کہ دم داری
مشو بے دست و پا از مفلسی و بے کسی ہرگز
مگر نشنیدۂ بیدلؔ خدا داری چہ غم داری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 56

بارے فقیر نیں حسب الارشاد اس خجستہ طالع کے زر کے تیئں لے کے رفع احتیاج ضروری کا کیا اور مرض محتاجگی کے سے کہ، بے ہوش اور بدحواس تھا، فی الجملہ اِفاقت میں آیا لیکن یہ عُقدہ بیچ خاطر میری کے اگِرہ (۲۰۴) ہوا اور معمہ اس بات کا بیچ دل میرے کے لاحل رہا کہ بارے یہ کیا خیال تھا کہ بہ مجرد دیکھنے پرچۂ کاغذ کے ایک شخص ناآشنا صورت نیں بے حرف و حکایت مبلغ خطیر حوالے میرے کیے۔ پر اس نازنیں نیں جو میرے تیئں رو اول تفحص اور تجسس حرکات و سکنات اپنی کے سے منع کیا تھا، اس باعث سے مجال دم مارنے کی نہ تھی۔ رفتہ رفتہ بعد ایک ہفتہ کے اُس پری چہرہ نیں میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ حق سبحانہ تعالٰی نیں جس بشر کے قامت رعنا پر، خلعت انسانیت اور مروت کا آراستہ کیا ہے، اُس کے تیئں لباس کہنہ سے، حرف اوپر شخصیت کے نہیں لیکن بہ نظر ظاہر پرستی کے معیوب ہے۔ پس توں دو توڑے اشرفیوں کے ہمراہ لے کے درمیان چار سو سے بازار کے بیچ دوکان یوسف نامی ایک سوداگر بچہ کے جا اور قدرے جواہر گِراں بہا اور دوخلعتِ فاخرہ و زیبا خرید کر کےلا۔ یہ عاجز بہ موجب ارشاد اُس زلخائے مصر نزاکت اور لطافت کے سوار ہو کر بیچ چار سوئے بازار کے، اوپر دوکان سوداگر بچہ کے جا پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک نوجوان فرشتہ طلعت خورشید لقا کہ ایک عالم گرد اس ماہ تاباں کے بسانِ ہالہ (۲۰۵) کے حلقہ مار کے مستعد ہے کہ بیچ چاہ زنخداں اُس کی کے ڈوب مرے، لباس زعفرانی پہنے ہوئے اوپر مسند خوبروئی کے جلوہ افروز ہے، واقعی

ہے جھوٹ کہ حُسن کا تھا بانی یوسف
رکھتا تھا کہاں یہ نوجوانی یوسف
یہ کہنے کی باتیں ہیں کہ یوں تھا ووں تھا
شاید کہ نہ ہو گا اُس کا ثانی یوسف

قصہ مختصر یہ عاجز، دیوانگی شوق دیدار اُس کی سے مانند مجذوبوں کے نزدیک جا کر رسم صاحب سلامت کی بجا لایا اور اوپر حس خدا داد اُس کے ہزارہا تحسین و آفریں کے کے بعد
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ57

اِختِلاط گرمیٔ محبت کے سامان مطلوبہ درخواست کیا، جو فحوائے کلام میرے کے تیئں اصلا زبان و مشق کی سے کچھ مناسبت نہ تھی، اُس جوان خوش طبیعت زیبا طلعت نے بھی خیال اپنا اوپر گفتگوئے دلچسپ میری کے مصروف کر کے کہا کہ آنچہ در بُغد اداست گردسر خلیفہ۔ لیکن جب سر رشتۂ محبت اور مودت (۲۰۶) جانبین (۲۰۷) کے نے اِنضباط و اِستحکام تمام پایا پھر اِخفائے راز و نیاط طرفین کا بعید شرط اخلاص کے سے ہے۔ پس مولد و موطِن شریف سے اس مخلص یکرنگ کے تیئں مطلع کرنا از جملہ واجبات ہے اور اطلاع سبب استقامت ملک بیگانہ کے بھی بہ مقتضائے یک جہتی کے ضرور۔ جو میرے تیئں نشو و نما کرنا اپنا بیچ اُس شہر کے منظور نہ تھا اور اس وقت کی راست گوئی کے تیئں صرف وبال گردن کا جانا، اس واسطے بقول کلام بزرگوں کے کہ دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز، نظر بہ اصلاح وقت کے جو کچھ مناسب جانا اظہار کیا اور بعد حصول مطالب کے سوال رخصت کا درپیش لایا۔ نوجوان از بس کہ سلیقہ دل پر چاونی (۲۰۸) کا زیادہ رکھتا تھا روکھا ہو کے بولا کہ، اے عزیز، اگر تیرے تیئں پیچھے سے چراغ محبت کا آستین بے وفائی کی سے گُل کرنا تھا، بس کیا ضرور تھا کہ تو اول بڑی گرمی سے رسم صاحب سلامت کی بجا لایا، خیر۔

بیت

جو ایسا جاؤں جاؤں کرتے ہو تو سدھارو
اس دل پہ کل جو ہوئے، سو آج ہی وہ ہُو لے

میرے تیئں ایک ادا سے اس بات کا ادا کرناں اُس کا نپٹ ہی دل کوں بھایا اور انسانیت میری مقتضی اس حرکت کی نہ ہوئی کہ یک مرتبہ چشمِ مروت کی بند کر، بے رضائے خاطر اُس کی اُٹھ کھڑا ہوں، پاس خاطر اُس کے ایک دم اور بھی ٹھہر کے یہ شعر زبان پر لایا :

یہ جو کہتے ہو قدم چھوڑ کہاں جاؤں گا
تجھ سا میں یار وفا کہاں پاؤں گا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 58

بارے اتنی بات سے اُن نے بھی ہنس دیا اور کہا کہ اگر آج بیچ مہماں سرائے میری کے قدم رنجہ فرمائیے تو بزم نشاط کی آراستہ کر کے چند ساعت سرور خاطر سے گزرانوں اور لوازم اکل و شُرب کا ترتیب دے کے فیض نعمت صحبت تیری کے سے بہرہ عشرت کا حاصل کروں۔ اس عاجز نیں بخیال تنہائی اُس نازنین کے ہر چند کہ عذر اقبال ضیافت کا چاہا قبول نہکیا اور جتنی کہ معذرت کی، مبالغہ اُس کا کم نہ ہوا۔ لاچار بہ وعدہ پہنچا آنے جواہر کے اقرار حاضر ہونے کا بیچ مہماں سرائے اُس یگانۂ زمانہ کے کر کے، دوکان سے اُٹھ کر جواہر کے تئیں بیچ خدمت ملکہ خورشید لقا کے لایا۔ جس وقت ملکہ نیں حقیقت قیمت جواہر کی اور وضع اور عادت جوہری کی استفسار کی، قصہ سرگزشت اپنی کا سر نو سے التماس کیا۔ فرمایا کہ اے جواں مرد، آدمی کے تئیں ایفائے وعدہکا نہایت ضرور ہے، پس توں میرے تئیں حافظ حقیقی کوں سپرد کر کے الکریم اِذا وعد وفا، کوں کام فرما اور جوہری کے ڈیرے جا کر اجابت دعوت کی کر، کہ سنت نبویﷺ ہے۔ حالانکہ جدائی اُس پری پیکر کی ایک لمحہ میرے تئیں برابر ہزار سال کے تھی اور تقاضا ادب کا بھی نیں کہ تنہا چھوڑ کر چلا جاؤں لیکن بحکم الامر فوق الادب کے چار و ناچار اوپر دوکان جواہر فروش کے کہ چشم انتظار کی بیچ رہگزر میرے کے دو چار رکھتا تھا، جا کر وعدے کوں وفا کیا۔ وہ جوان نہایت تپاک سے ہمدست ہو کے میرے تئیں اُس مکان سے اُٹھا کر، بیچ ایک باغ کے کہ طراوت و نزاہت (۲۰۹) میں روضۂ رضواں سے دلکشا تھا اور گلزار ہمیشہ بہار اُس کی نِظارت ریاض جنت کی سے فرح افزا تھی لے گیا اور لباس زیبا اوپر قامت اپنے کے راست کر کے، بعد ایک ساعت کے زینت آرائے مجلس کا ہوا، واقعی اُس پوشاک نے کیا ہی اُس قامتِ زیبا پر بہار زیبائش کی دی تھی کہ یہ شعر بے اختیار زبان پر گزرا۔

سودا یوسف کا زلیخا ہی تلک ہو گزرا
پھرتے ہیں سر کو لیے تیرےخریدار کئی

اس بات کو سُنتے ہی اور بھی، خوش ہو کر بولا کہ، صلاح یہ ہےکہ آپ بھی تبدیل لباس کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 59

کر کے رونق افروز مجلس کے ہوں، چنانچہ فقیر واسطے دلداری کے یوں ہی عمل میں لایا۔ غرض کہ اُس عزیز نے نہایت تکلف سے مجلس ضیافت کی آراستہ کی اور اسباب عیش و طرب کا جیسا چاہیے تیار کیا۔ کبھی نُکتہ ہائے شیریں سے بیچ گوش سامعانِ مجلس انبساط کے موتی لذت کے پروتا اور کبھی لطیفہ ہائے رنگیں سے غنچۂ خاطر حاضران مجلس نشاظ کے تئیں شگفتگی عشرت کی دیتا۔ جب کاسہ دماغ کا شراب خرمی کے سے لبریز ہوا اُس وقت چار امرد سادہ رو غلمان سرِ شت مانند ماہِ شب چہار دہم کے زلفِ مسلسل اوپر خسارے کے مثل سنبل کے گُلِ یاسمیں پر پیچیدہ کیے زینت بخش محفل کے ہوئے اور ساز خوش آواز چھیڑ کر کے ایسی خوش الحانی سے نغمۂ تہنیت آمیز شروع کیا کہ ایک مرتبہ اُس کے سننے سے داؤد بھی وجد میں آ جاوے اور جو آواز اُس کی بیچ سر زمیں ہند کے پہنچے تو بے شائبۂ تکلف اودھونائکؔ اور تان سینؔ سبق تربیت کا بیچ دبستانِ شوق کے پڑھیں۔ اس عرصہ میں اُس جوان نے دو چار اشک کے قطرے دیدۂ پُر آب سے نکال کر میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ راز پنہانی دوستان جانی سے چھپانا کسی مشرب میں شایان یک جہتی کے نہیں اِس واسطے بے تکلفانہ اظہار کرتا ہوں کہ، اگر اجازت ہو تو معشوقہ اپنی کے تئیں بھی، بیچ اس مجلس کے بُلوا کر تسکین دل بیتاب کی کروں کہ اُس کے فراق میں ایک بند مخمس کا حسب حال میرے بے اختیار زبان پر گزرتا ہے۔

نہ مجھ کو شرم عالم کی، نہ ننگ و نام کی خواہش
نہ دن کو چین ڈھونڈوں ہوں، نہ شب آرام کی خواہش
نہ مجھ مے خوش آتی ہے، نہ مجھ کو جام کی خواہش
جو آ جاوے تو جی جانا، جو اُٹھ جاوے تو مر جانا

میرے تئیں اُس کے مبالغہ سے نہایت شوق دیکھنے کا زیادہ ہوا اور اُس جوان سے کہا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 60

کہ واہ واہ اس سے کیا بہتر ہے؂

گر مری آنکھوں پہ رکھ دیوے قدم وہ نازنیں
خارِ ہر مژگاں مرا ہووے ابھی رشکِ چمن

یہ کشادہ پیشانی بُلوائیے اور چشم منتظر مشتاقوں کے تئیں جمال فرحت آثار اُس کے سے منور کیجیے۔ بارے اس جوان نیں اشارہ درِ پردہ کے کیا، بعد ایک ساعت کے دیکھتا کیا ہوں کہ ایک رنڈی کریہہ منظر بد ہیئت کہ جس کے دیکھتے روح بیچ قالب کے جذب ہو جائے، چڑیل کے سے ہاتھ پاؤں لے کے، برابر اس جوان کے آ بیٹھی؂

بس اُسے دیکھتے ہی ہوش میرا بھول گیا
باغِ مجلس میں کوئی اور ہی گل پھول گیا

میں اس واردات سے اپنے دل میں بہت محظوظ ہوا کہ الٰہی وہ یہی محبوب دل پسند اُن کی ہے کہ جس کی تعریف اس مبالغہ سے تھی، پھر جو سوچا تو یہی ہے گوشت خر و دندانِ سگ۔ مُقصر (۲۱۰) یہ کہ تین روز کامل ہنگامہ بزم نائے ونوش کا گرم رہا اور فقیر بیچ خواب غفلت کے بد مست و مدہوش ہو کے کچھ خبر آپ سے نہ رکھتا تھا۔ روز چہارم جب کیخسرو و سیمیں بخت ماہ کا بیچ شبستان مغرب کے گیا اور شہسوار زریں لباس آفتاب کے نے بیچ میدان اُفق کے قصد ترک تازی کا کیا، جوان نے گراں خواب بیہوشی سے میرے تئیں بیدار کیا اور صدائے نوشانوش (۲۱۱) کی گرم کر کے مشغول عیش و طرب کا ہوا۔ ایک لمحہ پیچھے معشوقہ پسندیدہ اپنی سے کہا کہ اس سے زیادہ تکلیف ضیافت کی دینا بعید رسم مہمانداری کی سے ہے۔ آخرش دونوں ہم دست مجلس سے برآئے اور میں اجازت و دستوری اُس جوان سے لے کر سبکدوش اُٹھا اور جلدی پوشاک قدیم اپنی پہن کر روانہ غریب خانے کا ہوا۔ جو ابتدا سے کبھی اتفاق جدا رہنے کا، اُس ملکۂ جادو ادا سے نہ ہوا تھا اس سبب سے خجالت زدہ و محجوب ہو کر زبان معذرت کی، بیچ خدمت اُس شیریں دہن کے کھولی اور قصہ ضیافت کا مفصل نقل کیا۔ بفضل الٰہی وہ کہ
 

الشفاء

لائبریرین
صفحہ نمبر 76 سے صفحہ نمبر 83
--------------------------

-------
صفحہ 76
-------
باہر بٹھلایا۔ اگرچہ شکل فقیر کی شباہت قدیم سے البتہ تجاوز کر گئی تھی لیکن ملکہ نے باوصف اُس کے کہ میرے تئیں ایک مدت بیچ مصاحبت اپنی کے ممتاز رکھا تھا، ازروئے اغماض کے دیدہ و دانستہ خواجہ سرا سے استفسار احوال میرے کا کیا۔ اُس پاک طینت نے عرض کیا کہ یہ وہی گنہگار ہے کہ مورد عتاب ملکہ کا ہوا تھا، اُسی ساعت سے اس فلک زدہ کی یہ نوبت ہے کہ جہاں کہیں آتش عشق اُس کے کی بہار اشتعال سے گُل کرتی ہے ، شعلہ عرق انفعال کا اوپر چہرے کے کھینچتا ہے اور جس جگہ کہ سیلاب اشک اس کے کا طوفان ریزش کا لاتا ہے، دریا حرف خجالت کا اوپر صفحہ خاطر کے لکھتا ہے، ملکہ نے ازراہ تمسخر کے خواجہ سرا سے کہا کہ استغفراللہ قریب یک ماہ کے ہوتا ہے کہ اُس شخص کے روانہ ہونے کی خبر وطن مالوف کوں میرے تئیں مُخبران صادق سے پہنچی ہے، خدا جانے کہ یہ کون شخص ہے اور کس کا ذکر ہے، اُس وقت خواجہ سرا انے جبیں نیاز کی اوپر زمین ادب کے گھس کر عرض کیا کہ اگر گستاخی معاف ہو تو التماس کروں فرمایا کہ کہو۔ کہا کہ ؎
جب مسیحا دشمن جاں ہو، تو کب ہو زندگی
کون رہ بتلا سکے، جب خضر بھٹکانے لگے​
اے مہر سپہر قدردانی از برائے خدا نقاب حجاب کا درمیان سے اُٹھا دے اور اوپر بیکسی اس بیکس کے نظر ترحم کی فرما کے حرف ناحق شناسی کا لوح دل سے دھو ڈال کہ اجر اس مہر و رزی و دلنوازی کا ضائع نہیں ہوگا، آگے جو کچھ مرضئ مبارک میں ہو عمل میں لائیے۔ ملکہ نے متبسم ہو کے کہا کہ خوب ، بالفعل اس کے تئیں بیچ دارالشفاکے بھیج کے فکر صحت کا کر۔ بعد ازاں استفسار احوال کا بھی ہووے گا۔ عرض کیا کہ جان قربان، جب تلک اُس کے اوپر گلاب پاشی دست مبارک کی نہ ہو گی، تب تک طپش درونی، اُس کی مُنطفی نہیں ہونے کی۔
ملکہ اس بات کو سن کر خاموش ہو گئی۔ پھر خواجہ سرا نے لاچار ہو کے گزارش کیا کہ تکلف برطرف:
کم بولنا بھلا ہے ہر چند پر نہ اتنا
مُند جائے چشم عاشق، تو بھی تو لب نہ کھولے​
-------
صفحہ 77
-------
اندازہ سے زیادہ خموشی بعید شرط اہلیت کی سے ہے۔ اُس نیک بخت نے اس پر بھی اصلا زبان کے تئیں جواب سے آشنا نہ کیا۔ اُس وقت فقیر کہ اپنی زندگی سے عاجز تھا، از بس سوزش سینہ اور سوختگی دل سے یہ دو شعر بے اختیار پڑھ اُٹھا ؎
اس درد دل سے موت ہو یا دل کو تاب ہو
قسمت کا جو لکھا ہے الٰہی شتاب ہو
اس کشمکش کے دام سے کیا کام تھا ہمیں
اے الفت چمن ترا خانہ خراب ہو
تب ملکہ نے خدا ترسی سے نظر ترحم کی فرما کے باریابان بساط قربت کے تئیں حکم کیا کہ معالجان حاذق کے تئیں حاضر کرو۔ انھوں نیں آتے ہی تشخیص مرض کی کر کے شربت دیدار بتلایا اور واسطے رفع نقاہت و ضعف دل کے یہ مفرّح دلکشا کہ آگے اطبّاء حکمت اساس و حکماء مزاج شناس نیں ازروئے قانون عقل کے تالیف کر کے خستہ دلان بیمارستان شوق کے تئیں تناول اس کا ترغیب فرمایا ہے، تجویز کی نسخہ:
سنبل الطیب گیسو پرسیاؤشان ابرو بادام چشم مرزنگوش گوش
گل سرخ رخسارہ عنبراشہب خال مشک سیاہ کاکل ابریشم مقرض زلف
یاقوت لب مروارید دنداں پستہ دہن سیب ذقن
ورق نقرہ بدن پشم سفید سینہ حجرالیہود دل مرجان پنجہ
فندق سرانگشتاں سقنقور ساق
ان اجزا کے تئیں دوکان رستہ بازار حُسن کے سے تفحّص کر کے بعد ترتیب کے تھوڑا عرق بیدمشک رخسارہ کا اور قدرے شکر خندہ اضافہ کرے اور آتش نرم جوشی سے آہستہ آہستہ پختہ کر کے بقدر دسترس مداومت کرے تو ان شاءاللہ تعالیٰ جلد شفائے کامل حاصل ہو۔
بارے نازنیں نے پنجہ التماس حکماء حاذق الزماں کا ساتھ حنائے اجابت کے رنگیں کیا۔ یہ بیمار عشق کا بہ توجہات دلی اس شفا بخش کے ایک ہفتہ کے عرصہ میں استعمال اُس
-------
صفحہ 78
-------
یاقوتی روح افزا کے سے افاقت میں آیا۔ بعدازاں نازنین نے کار پرداز ان حضور کے تئیں ارشاد کیا کہ اس جوان کے تئیں بعد فراغت حمام کے تبدیل پوشاک خاصہ کا کر کے لے آؤ۔ چنانچہ عاجز موافق حکم کے لباس فاخرہ زیب قامت کا کر کے بیچ خدمت ملکہ کی حاضر ہوا۔ اُس وقت نازنین پری چہرہ نے نہایت تپاک سے متوجہ ہو کے فرمایا کہ کمبخت شعلہ عشق تیرے کا دامن عصمت میرے کے تئیں آتش رسوائی سے ملوّث تو کر چکا، پھر اب کیا کہتا ہے جو کچھ مرکوز خاطر تیرا ہو صاٍف صاف اظہار کر۔ تب تو بندہ دوگانہ شکرانہ کا بیچ درگاہ حضرت کارساز حقیقی کے بجا لا کے از بس خوش وقتی سے بیچ پیرہن کے نہ سمایا اور حالت بشاشت میں نقد جان کے عزیز کے تئیں تصدق فرق مبارک اُس کے کر کے، یہ شعر زبان پر لایا ؎
فرد
آج سب مل کے کہو لوگ مبارک مجھ کو
شکر للہ مرا یار مہربان ہوا
اور بیچ خدمت اُس خورشید طلعت کی عرض کیا کہ تقصیر معاف بیچ حوصلہ اس رنج و مشقت کے امیدوار تفضّلات دلربایانہ کا ہوں کہ اس جاں نثار کے تئیں بیچ شرف مناکحت اپنی کے سرفراز کیجیے۔ آخرش گھڑی دو ایک الخاموشی نیم رضا کی ٹھہری۔ بعدازاں اس گلعذار نے عارض عرض میری کے تئیں ساتھ گلگونہ قبولیت رونق بخشی اور جس وقت کہ نوجوان شاہد بادلہ پوش ماہتاب کا ساتھ عروس زرّیں لباس مشتری کے قر ان السعدین تھا، قاضی قضا کے نیں بہ حکم زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ کے عقد ازدواج کی منعقد کی الحمدللہ والمنتہ کہ آرزوئے دیرینہ بر آئی اور نقش مراد کا اوپر کرسی حصول مدعا کے بیٹھا:
فرد
صندلی رنگ نیں بوسہ نہ دیا تھا سو دیا
درد سر کا مرے درماں نہ ہوا تھا سو ہوا​
لیکن جس طرح نقش آرزوئے مناکحت ملکہ کا اوپر خاتم دل میرے کے منقش تھا، اُسی
-------
صفحہ 79
-------
طرح سے دریافت کرنا معنی اس مضمون کا بھی، عین تمنائے خاطر تھا کہ دراصل وہ نازنیں روشن چراغ کس شبستان کی ہے اور حبشی سبزہ رنگ نیں مبلغ خطیر کس وجہ سے بہ مجرّد ملاحظہ، ایک پرچہ کاغذ کے حوالے میرے کیے اور سامان ضیافت کا اس تکلف سے ایک پہر کے عرصہ میں کیوں کر ہوا اور بیچ قتل ہونے اُن دونوں مقتول کے کیا سرّ تھا، اور باعث خفگی مزاج مبارک کا اس عاجز کی طرف سے کس واسطے ہوا۔ چنانچہ فقیر بعد رسم مناکحت کے ایک ہفتہ تک تکلفات عرفی سے متعذّر رہا۔ آخرش ملکہ اس واردات سے متحیر ہوئی بلکہ ایک گونہ سوئے مزاج ہو کے فرمایا کہ یا بہ آں شور ا شوری و یابہ ایں بے نمکی! اس کو کیا کہتے ہیں۔ بندہ نے اُس وقت بلا تصنع ظاہر کیا کہ صاحبہ عالم سلامت، اگر صحیح جانیے تو منصفی سے نہ گزریے۔ کہا، معلوم ہو کہ کس بات کا انصاف چاہتا ہے۔ عرض کیا کہ اشتیاق میرا بیچ استحصال نعمت غیر مترقب مواصلت تیری کے مسلم، لیکن جس بشر کے تئیں استقلال طبیعت کا درست نہیں اس کو انسان نہ کہا چاہیے۔ کہا کیوں کر، عرض کیا کہ عاجز نے اپنے دل میں اقرار کیا تھا کہ بعد مراسم مہرورزی صاحبہ زمانہ کے بعد عقدہ مشکل کے کہ استکشاف اُس کا بے توجہ عالیہ کے نہیں ہو سکتا جب تک بیان دُر بیان سے بیچ خاطر میری کے حل نہیں ہونے کے، بیچ کسی امر کے اقدام نہ کروں اور سچ بھی ہے کہ اگر شمع زبان بشر کی بیچ شبستان دل اپنے کے فانوس صدق مقال میں جلوہ پرداز نہ ہو تو اور کسی کے تئیں عکس فیض اُس کے سے استفادہ روشنی ہدایت کا معلوم۔ بقول شخصے کہ مصرعہ۔ اوخویشتن گم است کرارہبری کند، پس توں اوپر مستقل مزاجی میری کے آفریں کر کے کلمہ چند اُس عبارت سے کہ معنی مراد کے تئیں موافق پڑے ، فصاحت کلام سے بیان کر۔ والّا ممکن ہے کہ دانہ تسبیح دل کا بیچ رشتہ محبت زبان کے کہ کلید گنجینہ نطق کی ہے، سرگرداں نہ لو کے ایک جان دو قالب نہ رہ سکے۔ ملکہ نے چیں بہ جبیں ہو کے کہا کہ تیرے تئیں یاد ہو گا کہ میں نے اول مرتبہ منع کر رکھا ہے کہ توں بیچ حرکات اور سکنات میرے کے زینہار مستفسر ومتلاشی نہ ہو جیو۔ پس اب خلاف معمول بات کہنا کیا لطف ہے۔ فقیر نے ہنستے ہنستے ملکہ سے کہا کہ جیوں اور بات خلاف
-------
صفحہ 80
-------
معمول معاف ہوئی، اتنی یہ بھی سہی۔ ملکہ اُس وقت جل کر اور بھی آتش کا پرکالہ بن گئی اور نپٹ ہی خفگی سے کہا کہ معقول ! یک نہ شد دو شد ، چل اپنا کام کر ان باتوں سے کیا چاہتا ہے:
بیت
دل کے تین سوخت نہ کر، زخم پہ چھڑکا نہ نمک
اتنا بھی بیہودہ گوئی ستی احمق نہ بہک

میں نے کہا تقصیر معاف، زمانے میں کوئی راز مخفی تر ستر سے نہیں اور جب اسرار اُس کا دوسرے پر منکشف ہونا روا رکھا ہو تب بہر صورت محرمیت ہر سرّ کی طرفین پر واجب جاننا چاہیے اور انکشاف نہ کرنا اُس صریح رسوائی جانبین کا ہے۔ جب ملکہ نے فحوائے کلام میرے کے تئیں ، بیان واقعی اور نفس الامر جانا، کہا خیر، لیکن اتنا ہی پس وپیش ہے کہ مبادا اگر اس مبتلائے بلا کا راز برملا ہو تو خوب نہیں۔ میں نے کہا کہ استغفراللہ، زینہار یہ خطرہ محظور خاطر خطیر کے نہ رکھیے اور میرے تئیں محرم خلوت سرائے وفا و اخلاص کا جان کے بہ کشادہ پیشانی حقیقت سرگزشت اپنی کے سے ہمراز کیجیے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ کچھ سرّ فاش نہیں ہونے کا، قول مرداں جاں دارد۔
قصہ مختصر اس پری چہرہ نے جو دیکھا کہ یہ عزیز درپے استفسار ماجرائے احوال میرے کے ہے اور بغیر کہے گریز نہیں، لاچار طوطی زبان کے تئیں بیچ سبزہ زار گفتگو کے یوں مترنم کیا کہ ہر چند افشائے راز کا کرناں موجب قباحت چند در چند کا ہے لیکن دوش ہمت اپنی کے تئیں بھی بار حقوق تیرے کے سے سُبک سار کرنا ضرور ہے اس واسطے قصہ سرگزشت اپنی کا پاس خاطر عزیز تیری کے بیان کرتی ہوں، پر خبر شرط ہے ؎
اس بات کو گر اور سے ارشاد کرو گے
یہ یاد رکھو ہم کو بہت یاد کرو گے
آگے مختار ہو۔
-------
صفحہ 81
-------
قصہ سرگزشت ملکہ عالی جاہ
ملکہ نے صدف زبان سے سُرخی حکایت سرگزشت اپنی کے تئیں اوپر قرطاس بیان کے اس طور سے دُر ریز کیا کہ میں دختر ، والی اس ملک یعنی سواد اعظم سرزمین ولایت دمشق کی ہوں اور وہ بادشاہ ذی جاہ ازبس رفعت و ثروت و منزلت سے ظل افتخار کا اوپر فرق فرق واں کے رکھتا ہے، جو سوائے میرے اور فرزند بیچ مشکوئے خلافت کے نہیں، عہد خوردگی سے درمیان مہد ناز و نعمت کے زیر سایہ عاطفت و پرورش مادر و پدر بزرگوار کے بسر لے جاتی اور ہمیشہ بزم عیش و نشاط کی آراستہ کر کے، بیچ اکل و شُرب شراب و کباب کے ساتھ صحبت محرمان ہمراز و مصاحبان دمساز کے مشغول رہتی۔ ُمقصّر اسی نوع سے حد بلوغ کو پہنچی اور اُس وقت سے اپنے تئیں مائل جمال گل رخاں عشوہ ساز و پری پیکراں نغمہ پرداز کے رکھ کے بیچ تماشائے رقص ارباب طرب کے اوقات صرف کرتی اور تمام لذت جہان کی سے مُرفع الحال و فارغ البال ہو کے ہر حال دوگانہ شکرانہ کا بیچ جناب حضرت کارساز حقیقی کے بجا لاتی۔ اتفاقاً ایک مرتبہ بسبب بعضے عوارض جسمانی کے مصاحبت ہمدماں جانی کے سے طرح
-------
صفحہ 82
-------
مباعدت کی پڑی۔ اس صورت میں مجلس نشاط کی مانند کُلبہ تیرہ روزوں کے اسباب شادمانی کے سے تہی تھی اور جام شراب کا مثل کاسہ چشم حریفوں کے بادہ کامرانی سے خالی ہوا اور ترک عادت معہود سے غلبہ سودا کے نیں یہاں تک بیچ دل میرے کے راہ پائی کہ زلیخائے طبیعت کے تئیں یوسف استراحت کا بیچ خواب کے دیکھنا مشکل پڑا۔ جو آرام خاطر میرے کے تئیں سب خادمان حضور کے دل سے چاہتے تھے، ہر ایک ارکان دولت بقدر حوصلہ اپنے بیچ جستجوئے معالجہ و چارہ سازی مرض میرے کے تگاپو کرتے۔ قضایا یہی خواجہ سرا کہ اُس وقت بھی محرم اسرار و ہمدم غمخوار میرا تھا، میل اپنا طرف شربت ورق الخیال کے بیشتر رکھتا تھا مجھ سے کہنے لگا کہ اگر ملکہ جہاں شیرہ ورق الخیال کے تئیں بطور شربت کے نوش جان فرماویں تو زنگ کُلفت کا کہ اوپر آئینہ ضمیر منیر تیرے کے بیٹھا ہے، ساتھ صیقل سرخوشی کے دور ہو جاوے۔ میرے تئیں اُس کے مبالغہ سے رغبت شربت ورق الخیال کی زیادہ ہوئی اور کہا حاضر کرو۔ خواجہ سرا باہر جا کے ایک صُراحی شربت ورق الخیال کی ایک لڑکے کے ہاتھ میں لے کر آیا۔ میں بے تامل ایک جام بھر کے اُسے نوش کیا اور لذت اُس کی جو کچھ خواجہ سرا نے بیان کی تھی ہو بہو پائی۔ اُس وقت عوض اُس حُسن خدمت کے خواجہ سرا کے تئیں ایک خلعت فاخرہ مرحمت کیا اور مورد عنایات بے غایات کا کر کے اُس جام زمرّدیں کی پروانگی ہر روز کی دی۔ خواجہ سرا بلا ناغہ صراحی شربت کی موافق قاعدہ مُستمرّہ کے اُس لڑکے کے ہاتھ لے آتا اور میں اُس کے تیں نپٹ خوشدلی سے پی جاتی۔ جب طاؤس نگاریں خیال، میرے کا بیچ سبزہ زار نشہ اُس کے کے جلوہ گر ہوتا واسطے تفنن طبع کے کوئی گھڑی اُس لڑکے کے ساتھ کہ بیچ شیوہ ہزل و استہزا کے شہرہ آفاق تھا اور حُسن و جمال میں یوسف ثانی کہا چاہیے، خوش طبعی سے اوقات صرف کرتی وہ بھی کمبخت لطیفہ ہائے رنگیں و نکتہ ہائے شیریں سے نقل ہائے عجیب اور ذکر ہائے غریب، ایسی چرب زبانی سے ادا کرتا کہ کاسہ دماغ میرے کا شراب خوشگوار حظوظ نفسانی کے سے بے اختیار لبریز ہو جاتا۔ غرض کہ بیچ تلافی اُس خوش وقتی کے ہر روز جام آرزو اس کی کے تئیں مالا مال جواہر گراں بہا
-------
صفحہ 83
-------
کے کرتی۔ اور اوقات میرے بیچ تماشا بازی و ظرافت اُس کی خوش گزرتے لیکن باوجود اس قدر عنایات و انعامات کے ظاہر حال لڑکے کا روز بروز تباہ نظر آتا اور وہ تبدیل لباس کثیف کا نہ کرتا۔ میں نے ایک روز تفُحّص حال اُس کے کا کیا کہ توں باوصف اس قدر غایات جواہر و زر کے حالت اپنی پریشاں کیوں رکھتا ہے اور یہ زر خطیر کہاں صرف کیا کرتا ہے۔ لڑکے نے جو دلجوئی اور دلنوازی میری مصروف حال اپنے کے پائی آبدیدہ ہو کر بولا کہ جو کچھ تفضّلات پیش گاہ ملکہ جہاں کے سے ہوا، اُستاد بےمہر نے بہ مقتضائے بے رحم دلی کے ایک دام بھی اُس سے میرے تئیں عنایت نہ کیا۔ اس سبب سے بیچ تبدیل لباس کے معذور ہوں۔ میرے تئیں اس کی غریبی پر سخت رحم آیا اور خواجہ سرا کے تئیں فرمایا کہ تو اس لڑکے کے تئیں کسوت لطیف تیار کر کے اپنی صحبت میں تربیت کر اور زنہار اس کا مجوّز نہ ہو کہ مانند لڑکوں عوام الناس کے بیچ لہو لعب کے مشغول رہے، بلکہ بیشتر استرضائے عالیہ کی یوں ہے کہ بیچ خدمت باریابان حضور ہماری کے حاضر رہے، خواجہ سرا کہ، رضا مندی میری کے تئیں ، سب چیز پر مقدم رکھتا تھا، موافق ارشاد کے بجا لایا۔ غرض کہ چند روز میں بہ سبب مہیا ہونے اسباب جمعیت کے رنگ و روپ لڑکے کا کچھ اور ہی ہو گیا ؎
جس نے دیکھی شکل اُس کی کہا سبحان اللہ
قدرت حق سے نمایاں نہ ہوا تھا سو ہوا

قصہ مختصر میں اس کے تئیں لباس فاخرہ و زیورات مکلّف سے آراستہ کر کے مصاحبت اس کی تئیں ، سرمایہ حیات سرمایہ جاودانی کا جانتی اور روز و شب بیچ دلداری و غمخواری اُس کے کی سعی کر کے ایک لحظہ نظارہ جمال دلفریب اُس کے سے چشم مشتاق کے تئیں معطل نہ رکھتی۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ اگر ایک لمحہ بھی مفارقت اس کی پیش آوے، تو از بس گرمی آتش شوق کی سے مانند سیماب کے بے قرار ہو جاؤں۔ چنانچہ اسی حالت میں سبزہ عنفوان شباب اُس کے کا بیچ چمن بہار عمر کے نورستہ ہوا اور غنچہ سن طفولیت اُس کے کا نسیم عہد جوانی کی سے شگفتگی بلوغیت کی لایا۔ آخرش مثل مشہور ہے کہ عشق و مشک رانتواں نہفتن، بعد چند
-------------------------

صفحہ نمبر 76 سے صفحہ نمبر 83
-------------------------
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ریختہ ۔ نو طرز مرصع - صفحہ 66 - 69
-----------------------
----------------
66
----------------


روز چہارم جس وقت مغبچہ 220 مخمور خورشید کا خمخانہ مشرق کے سے گلابی صبح کی ہاتھ
میں لے کر واسطے خمار کے طرف ساغر گل کے کہ شراب صبوحی سبنم کی سے پر تھا متوجہ
ہوا ، یہ فقیر خمار خواب مستی کے سے بیدار ہو کر دیکھتا کیا ہے کہ آثار تشریف شریف ملکہ مہر
طلعت اور تیاری اسباب ضیافت کے سے کچھ نشان نہیں اور وہ دونوں شخص سر از تن جدا
درمیان ایک گلیم 221کے لپٹے ہوئے پڑے ہیں ۔ معائنہ اس حال کے سے لشکر غارت گر
وحشت کا بیچ اقلیم طبیعت میری کے 222 تاخت لا کے متاع حواس کے اس قدر غارت کیا کہ بیچ
شبستان دل کے چراغ عقل کا روشن نہ رہا ۔ اتنے عرصے میں اوہر بالیں میرے کے ، ایک
خواجہ سرا صورت آشنا کہ بیچ تیاری سامان ضیافت کے حاضر تھا ، نظر آیا ۔ میں نے اس کے
دیکھنے سے فی الجملہ افاقت حاصل کر کے استفسار احوال اس ماجرے کا کیا ۔ اس عزیز نے
در جواب کہا کہ تیرےتئیں دریافت حقیقت اس اس سر گزشت کے سے کچھ سرو کار ہے کہ اتنا
تفحص کرتا ہے ؟ میں نے جو غور کیا تو واقعی

؏ مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت

ایک لمحہ خاموش ہو کر کہا کہ خیر ، لیکن یہ فرمائیے کہ وہ شمع شبستان نزاکت کس مکان
پر جلوہ افروز ہے ؟ کہا کہ البتہ جو کچھ معلوم ہو گا بیان کروں گا ، پر جائے تعجب ہے کہ تجھ سا
شخص باشعور بے استرضائے خاطر مبارک اس کی سر مست شراب خود پسندی کا ہو یعنی بزم
نشاط کی مخلا 223 بالطبع آراستہ کرنا اور دوستان دوروزہ سے بے دھڑک ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو جانا
کیا معنی ؟ فقیر اپنے کیے پر سخت نادم ہو کر بولا کہ الانسان مرکب من الخطای
والنسیان ، اب کرم کر کے کعذور رکھیے ؂

خدا کے وواسطے جانے بھی دو ہوا سو ہوا
بھلا دو غصے کو آؤ چلو ہوا سو ہوا

بارے خواجہ سرا نے کچھ خداترسی سے اس کان ملاحت کے مکان کے سے نشان
دیے اور آپ واسطر تجہیز و تکفین ان دونوں مقتول کے رہ کے ، میرے تئیں رخصت کیا ۔ بندہ

----------------
67
----------------


نہیں اولا بشوق وصال اس بدیع الجمال کے اور دوئم ب خیال اس کے:

ع - مبادا ہو کوئی میراگرگر یہاں گیر

فرصت کو غنیمت جان کے اپنی راہ لی اور فتان و خیزاں، شام کے وقت بیچ اس کوچۂ محبوب
دلنواز کے پہنچ کر متصل دروازہ محل سرائے کے ایک گوشہ میں تمام شب ، بیچ گرمی شوق
ملاقات اس کی کے بیقرار تھا اور صبح تک سوائے بادصبا ، کوئی واقف واقعی اس تپش درونی کا نہ
پایا ، لاچار اس صورت ہے کسی میں ایک مسدس کے دو بند کی حسب حال اس وقت کے تھے
رو رو کر پڑھتا تھا ؂

کس ستی، حب کے کروں، درد کا اظہار اپنا
جا کھاؤں، میں کسے، دیدۂ خوں بار اپنا

غم دل کس کو سناؤں، کہ نہیں یار اپنا
جز خدا، کوئی نہیں، مشفق وغم خوار، اپنا

پس کروں، کس ستی احوال کو، اپنے اظہار
کہ کرے عرض مری جا کے صنم کے دربار

اے نسیم سحری جاکے کہہ اس یار ستی
باعث درد ستی، موجب آزار ستی

سبب گریہ ستی ، ظالم خونخوار ستی
بت بے رحم ستی، شوخ ستم گارستی

کہ فلا تا تیرے ہجراں میں پڑا مرتا ہے
سر کو بتھر پہ پٹک ، شور و فغاں کرتا ہے

علی الصباح جب خاتون مہر افروز شب کی نیں نہاں خانہ خاور کے سے سر برلا کے
او پر کرسی زمردیں سپہر کے جلوس فرمایا ، وہ خورشید لقا او پر مکان بالا خانہ کے جلوہ آرا ہو کر

----------------
68
----------------


در یچہ کی راہ سے میری طرف متوجہ ہوئی ۔ سبحان اللہ ایک صبح کیا دوصبح ہوئیں بعد ایک لمحہ کے
ایک خواس نیں نزدیک میرے آ کے کہا کہ تو فلانی مسجد میں جا کر قیام کر، اغلب کہ شام کے
وقت عروس مراد تیری کی نقاب حجاب کا درمیان سے اٹھا کر چہرہ کشا ہو ۔ فقیر بہ موجب ایما
اس کے مسجد میں جا کر نرگس چشم انتظار کے تئیں مانند چشم نرگس کے اس نو گل خنداں چمن
نزاکت کی طرف دو چار رکھتا تھا اور رو رو کے پڑھتا تھا ؂

ملائم ہوگئیں دل پر برہ کی ساعتیں کڑیاں
پر کئے گئے ان بن نہ کٹتیں جن بناں گھڑیاں

جس وقت زاہدو صومعہ دار 224 روز کا ، قرص آفتاب کے تئیں، بیچ حلق شفق کے فرو لے گیاوہی
خواجہ سرا کہ اول روز رہنما مکان ملکہ کا ہوا تھا ، مسجد میں آ کر دیکھتا کیا ہے کہ احوال فقیرکا:
؏ چوں گوش روزه دار بر اللہ اکبر است
بعد ایک لمحہ کے نماز مغرب کے سے فراغت حاصل کر کے اس محرم اسرار نے میرے
تئیں کمال دلداری سے ہمراہ لاکر درمیان ایک باغیچۂ دلکشا کے بٹھلا یا اور کہا کہ جب تک غنچۂ
آرزو تیرے کا شگفتہ نہ ہووے ، یہیں کوئی دم بیچ سیر تماشائے کیفیت چاندنی کےمشغول ہو
اور آپ اجازت رخصت کی لے کر، واسطے طلب اس قمر طلعت کے متوجہ ہوا۔ سبحان اللہ،
بیچ تعريف نورافشانی بہار چاندنی اس رات کی کہ شب برات عاشقوں کی کہا چاہے ، ماہتابی
وہاں کی شعاع زبان سے روشنی بیان کی بلند نہیں کرسکتی۔ ایک طرف فراش ماہتاب کے نے
شامیانۂ چاندنی کے تئیں او پر چبوترہ خیابان باغ کے رونق افزا خاطر عاشقوں کا کر رکھا تھا
اور ایک طرف مشاطہ ۲۲۵ جوئبار کے نیں شاہد آبشار کے تئیں ، زیور نگین الماس کا پہنا کر جلوہ
پیرا دل مشتاقوں کا کیا تھا لیکن جب تک کہ وہ ماہتاب سپہر حسن و لطافت کی جلا بخش دیدۂ
منتظر کے نہ ہوئی تھی بہ مضمون اس کے؂

گل بے رخ یار خوش نہ باشد
بے باده بہار خوش نہ باشد

----------------
69
----------------


گلزار، بیچ خاطر ، میری کے خار تھی، اورلیلتہ القدر بیچ خیال میرے کے شب تار ۔ اس
وقت فی البد یہہ یہ غزل حضرت حسین صاحب کی بے اختیار زبان میری سے در ریز ہوئی ؂

کس مزے کے رنگ سے ، بن بن کے آتی ہے بہار
حسن کو اپنے عجب سج سے دکھاتی ہے بہار

چاندنی ہے سیر ہے اور بادۂ گلرنگ ہے
گر نہیں ساقی، تو کس کافر کوبھاتی ہے بہار

ماہتابی کے مزنے میں ، حیف وہ مہتاب نئیں
ہائے اس کے ہجر میں کیا مفت جاتی ہے بہار

جھومتی، جھکتی جھلکتی جھلجھلاتی چاندسی
چاندنی کے رنگ میں کیا دل لبھاتی ہے بہار

دار تحسین نپٹ یہ مصرعۂ موزوں ہوا
جو وہ گلرخ پاس نئیں، کس کو خوش آتی ہے بہار

شکر بدرگاہ حضرت مقلب القلوب کے کشش دل بیتاب کی تھیں او پر دل اس ما ہرو
کے جنبش دی ، یعنی اس خواجہ سرا نیں جاتے ہی یہ گیت، کب دیو و کا بیچ خدمت اس کے
گزارش کیا ؂

چاندنی سے آنگن بچھونا بچھے، چاندنی سے پھیل رہی چاندنی سہائے دیو بھوم بھوم
تو ہے بن پھیکی لگت جل چندمکھی ، تیرے چرن چر چت جھک چوم چوم
آلی آن دیکھو کیسورا کھو ہے چند واتان تاتین سکھ داں تو برہ کرے گھوم گھوم
چھنے چھنے چھائیں سے جو بنا ے جھکی جھلکتہے جل میں جھالریں جھک رہیں ہیں جھوم جھوم
بارے مضمون اس کبت کے اوپر دل اس ماه جبیں کے اثر کر گئے کہ بعد یک لمحے کے
 
Top